مسئلہ نمبر 27: اھدنا الصراط المستقیم
اھدنا، مربوب کی، رب کی بارگاہ میں دعا اور رغبت ہے۔ معنی یہ ہے کہ ہماری سیدھے راستہ پر رہنمائی فرما اور سیدھے راستہ کی طرف ہمیں ہدایت عطا فرما اور ہمیں اپنی ہدایت کا وہ راستہ دکھا جو تیری عبادت اور تیرے قرب تک پہنچنے والا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے دعا اور تمام چیزوں کو اس سورت میں رکھ دیا۔ اس کے نصف میں ثنا ہے اور نصف میں حاجات کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ اس سورت میں جو دعا ہے وہ اس دعا سے افضل ہے جو دعا کرنے والا خود مانگتا ہے کیونکہ یہ وہ کلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔ اور حدیث میں ہے : “ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ معزز کوئی چیز نہیں ” (2) ۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں سنن کے استعمال کی رہنمائی فرما۔ بعض نے فرمایا : اس میں اصل امالہ (مائل کرنا) ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : انا ھدنا الیک (اعراف :156) یعنی ھدنا کا معنی ہم مائل ہوئے ہے۔ نبی کریم ﷺ مرض کی حالت میں مسجد میں تشریف لائے۔ اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے راوی نے کہا : یتھا دٰی اثنین یعنی دو آدمیوں کے درمیان جھک کر چل رہے تھے۔ یہاں یتھادٰی بمعنی یتبایل ہے۔ اس سے الھدیۃ ہے جو ایک شخص کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت کی طرف جاتا ہے۔ اسی سے الھدی اس حیوان کو کہا جاتا ہے جو حرم کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ معنی یہ ہے کہ ہمارے دلوں کو حق کی طرف مائل کر دے۔ فضیل بن عیاض نے کہا : الصراط المستقیم سے مراد دلائل کا راستہ ہے، یہ خاص ہے، جبکہ عمومی معنی بہتر ہے۔
محمد بن حنفیہ نے اھدنا الصراط المستقیم کے بارے میں فرمایا : یہ اللہ کا دین ہے، اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ بندوں سے کوئی دین قبول نہیں کرتا۔
عاصم احوال نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے، الصراط المستقیم سے مراد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد کے دو خلفاء ہیں۔ عاصم نے کہا : میں نے حسن سے کہا : ابو العالیہ کہتے ہیں : الصراط المستقیم سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھی (ابو بکر اور عمر ؓ) ہیں۔ حسن نے کہا : انہوں نے سچ کہا اور ٹھیک کہا ہے۔
مسئلہ نمبر 28: الصراط کا اصل معنی عرب کلام میں الطریق ہے۔ عامر بن طفیل نے کہا :
شعنا ارضھم بالخیل حتی ترکنا ھم اذل من الصراط
شاعر نے الصراط کو راستہ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
جریر نے کہا :
امیر المومنین علی صراط اذا اعوج الموارد مستقیم
اس شعر میں صراط بمعنی راستہ استعمال کیا ہے یعنی امیر المومنین سیدھے راستہ پر ہے۔
ایک اور نے کہا :
فصد عن نھج الصراط الواضح اس نے واضح راستہ سے روکا۔
نقاش نے بیان کیا کہ رومی لغت میں الصراط کا مطلب الطریق (راستہ) ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ ضعیف قول ہے (1) ۔ السراط (سین کے ساتھ) بھی پڑھا گیا اور اس صورت میں یہ الاستراط سے مشتق ہوگا جس کا معنی الابتلاع (نکلنا) ہے۔ گویا راستہ چلنے والوں کو نگل لیتا ہے۔ راء اور صاد کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور سین اصل ہے۔ سلمہ نے فراء سے روایت کیا ہے، فراء نے کہا : الذراط۔ خالص زاء کے ساتھ عذرہ، کلب اور بنی القین کی لغت ہے۔ فرمایا : لوگ کہتے ہیں : ازدق جب انہوں نے اصدق کہنا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں : الازد اور الاسد ولسق بہ اور لصق بہ۔ الصراط، دوسرے مفعول کی حیثیت سے منصوب ہے، کیونکہ ہدایت کا فعل حرف جر کے واسطہ سے دوسرے مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاھدوھم الی صراط الحجیم (الصافات) اور ہدایت کا فعل بغیر حرف جر کے بھی دوسرے مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ المستقیم الصراط کی صفت ہے۔ مستقیم اسے کہتے ہیں جس میں کوئی ٹیڑھا پن اور انحراف (موڑ) نہ ہو۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ (انعام :153) مستقیم اصل میں مستقوم تھا۔ واو کی حرکت نقل کر کے ماقبل قاف کو دی گئی پھر واو ماقبل کسرہ کی وجہ سے یاء سے بدل گئی۔