اھدنا الصراط المستقیم
ہم کو راہ راست دکھا اور اس پر چلا اور منزل مقصود تک پہنچا
1 ۔ ہدایت کے معنی لطف اور مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنے کے ہیں اسی وجہ سے یہ لفظ حقیقۃً ہمیشہ غیر ہی کے موقعہ پر مستعمل ہوتا ہے۔ اور فاھدوھم الی صراط الجحیم۔ میں بطور تہکم اور بطریق استہزاء آیا ہے۔
2 ۔ ہدایت کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے اگر ہدایت سے کسی شیئ کی نشان دہی اور رہنمائی مراد ہو تو لفظ الی کے ساتھ متعدی ہوگا۔ اور اگر ہدایت سے منزل مقصود تک پہنچنا مراد ہو تو لام کے ذریعے سے متعدی ہوگا۔ اور اگر راستہ کا قطع کرانا اور منزل مقصود تک پہنچانا مراد ہو تو بلا واسطہ متعدی ہوگا جیسا کہ اس آیت میں بلا واسطہ متعدی ہے۔ اس لیے ہم نے اس کے ترجمہ میں دکھانا اور چلانا اور پہنچانا تینوں چیزوں کا ذکر کیا۔
3 ۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ صراط اصل میں اس راستہ کو کہتے ہیں۔ جس میں پانچ باتیں پائی جائیں۔
1 ۔ مستقیم یعنی سیدھا ہو۔ 2 ۔ اور موصل الی المقصود ہو یعنی مقصد تک پہنچانا مراد ہو تو بلا واسطہ متعدی ہوگا جیسا کہ اس آیت میں بلا واسطہ متعدی ہے۔ اس لیے ہم نے اس کے ترجمہ میں دکھانا اور چلانا اور پہنچانا تینوں چیزوں کا ذکر کیا۔ 3 ۔ اور سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہو۔ 4 ۔ اور سیع اور کشادہ ہو۔ 5 ۔ اور مقصد تک پہنچنے کے لیے سب سے قریبی راستہ یہی ہے اس لیے کہ اقلیدس کا قاعدہ ہے کہ جب دو نقطوں میں مختلف اور متعدد خطوط ملائے جائیں تو تمام خطوط میں سب سے قریب اور سب سے چھوٹا خط ہی خط مستقیم ہوگا اور سیدھا ہی راستہ منزل مقصود تک پہونچاتا ہے نیز خط مستقیم متغیر نہیں ہوتا اور غیر مستقیم متغیر ہوجاتا ہے اور اسی ایک راستہ کا تمام عالم کے مرور اور عبور کے لیے کافی ہونا اس کے وسیع ہونے کی دلیل ہے اور خدا تک پہنچنے کے لیے یہی ایک راستہ ہے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کما قال تعالی۔
وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔
اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے لہذا تم اسی راستہ پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو مبادا تم کو خدا کے سیدھے راستہ سے نہ ہٹا دیں۔
مطلب یہ ہوا کہ اے پروردگار میں عاجز اور ناتواں ہوں مجھ کو قریب اور سیدھے راستہ سے اپنے تک پہنچا دے ٹیڑھے راستہ پر پڑجانے سے خطرہ ہے کہ منزل مقصود تک نہ پہنچوں اور دور کے راستہ میں مشقت ہے۔
4 ۔ عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے دین اسلام مراد ہے اور بعض احادیث صحیحہ سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے اسلام مراد ہے جو مابین السماء والارض سے بدرجہا زائد وسیع ہے۔ محمد بن الحنفیہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے اللہ کا دین مراد ہے جس کے سوا اور کوئی دین مقبول نہیں (ابن کثیر )
5 ۔ اس آیت میں صراط کو اہل انعام کی طرف مضاف فرمایا اس لیے کہ سیدھے راستہ پر چلنے والے یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص انعام فرمایا اور متعدد آیات میں صراط کو اللہ کی طرف مضاف فرمایا کما قال تعالیٰ وانک لتھدی الی صراط مستقیم۔ صراط اللہ۔ وان ھذا صراطی۔ اس لیے کہ وہ صراط مستقیم اللہ ہی کا قائم کیا ہوا ہے۔ سنا ہے کہ قادیان کے دہقان یوں کہتے ہیں کہ نبی کے راستہ پر چلنے سے آدمی نبی بن جاتا ہے۔ اللہ اکبر اگر یہی قاعدہ ہے تو پھر خدا کے راستہ پر چلنے سے خدا بن جانا چاہئے اور تفسیر ابن کثیر جلد 1 ص 49 میں ابن عباس سے منقول ہے کہ الذین انعمت علیھم سے ملائکہ اور انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین سب مراد ہیں لہذا قادیانیوں کے نزدیک فرشتوں کے راستہ پر چلنے سے فرشتہ بن جانا چاہئے۔
6 ۔ استقامت کے معنی توسط اور اعتدال کے ہیں جو ٹھیک افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے حق تعالیٰ کی محبت اور اطات پر قدم کا ٹھیک افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے حق تعالیٰ کی محبت اور اطاعت پر قدم کا ٹھیک جم جانا کہ اب ڈگمگانے کا احتمال نہ رہے اس کا نام استقامت ہے اور استقامت کا مقام نہایت بلند ہے اسی وجہ سے حضرات عارفین استقامت کو کرامت سے فوق اور برتر سمجھتے ہیں۔
7 ۔ ہدایت اور استقامت کے مراتب نہایت مختلف اور متفاوت ہیں۔ ہدایت اور استقامت کا کوئی مرتبہ ایسا نہیں کہ اس کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی اعلی اور افضل مرتبہ نہ ہو۔ اور صراط مستقیم اگرچہ ایک ہے لیکن وسیع ہونے کی وجہ سے اور سالک کے سریع اور ربطی ہونے کی وجہ سے اس میں بھی قرب اور بعد کا تفاوت ہوسکتا ہے اس لیے طلب ہدایت کا ہر شخص مامور ہے۔ طالب کو اگر ہدایت و استقامت کے بعض مراتب حاصل بھی ہوں تب بھی وہ ہدایت کے اعلیٰ مراتب سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔
اے برادر بےنہایت در گہیست ہر چہ بروئے میرسی بروئے بایست
علاوہ ازیں ہدایت پر قائم اور ثابت رہنے کے لیے ہر لمحہ اور ہر لحظہ اس کی اعانت اور توفیق کی حاجت ہے جیسا کہ یا ایہا الذین امنوا امنوا۔ اے ایمان والو ایمان لاؤ۔ اس آیت میں طرح اھدنا الصراط المستقیم۔ میں مزید ہدایت کی طلب اور ثابت قدمی اور استقامت کی دعا تعلیم کرنا مقصود ہے۔