صراط مستقیم کی دعا :
راہِ حق کو دکھانا اور مطلوب حق تک پہنچانا یہ سب کچھ ہدایت کے مفہوم میں داخل ہے۔ مدد مانگنے کے ذیل میں جہاں اور باتیں ہیں وہاں ہدایت کی طلب بھی ہے اور در حقیقت ہدایت ہی مخلوق کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اگر سب کچھ موجود ہو اور بندہ ہدایت پر نہ ہو عقیدہ اور عمل سے گمراہ ہو تو دنیاوی چیزوں سے تھوڑا بہت فائدہ اٹھا کر عذاب دوزخ میں مبتلا ہونا پڑے گا۔ اس اعتبار سے حقیقی نعمت ہدایت ہی ہوئی۔ لہٰذا یہ کہہ کر کہ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں فوراً ہدایت کا سوال کیا گیا۔ یعنی صحیح راستہ پر چلانے کی دعا کرلی گئی۔ صحیح راستہ کون سا ہے اس کی تعیین کے لیے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ) لایا گیا جس کی تفسیر ابھی آتی ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ مؤمن ہیں قرآن کو مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں وہ تو ہدایت پر ہیں ہی ان لوگوں سے بار بار ہدایت کا سوال کیوں کرایا جاتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہدایت یافتہ ہوتے ہوئے ہدایت کی دعا کرنا موت تک ہدایت پر جمے رہنے اور ثابت قدم رہنے کا سوال ہے جیسا کہ دوسری آیت میں اہل ایمان کی دعا کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔
(رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ) (اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو حق سے نہ ہٹا دیجیے بعد اس کے کہ آپ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا فرما دیجیے، بیشک آپ بہت زیادہ دینے والے ہیں)
قال النسفی ای ثبتنا علی المنھاج الواضح کقولک للقائم قم حتی اعود الیک ای اثبت علی ما انت علیہ أو اھدنا فی الاستقبال کما ھدیتنا فی الحال (مدارک التنزیل ص 7 ج 1)
(علامہ نسفی ؓ فرماتے ہیں : یعنی آپ ہمیں واضح شاہراہ پر ثابت قدم رکھیں۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے کو کہیں قُمْ (کھڑا رہ) یہاں تک کہ میں تیرے پاس واپس آؤں یعنی جس طرح تم کھڑے ہو اسی طرح کھڑے رہو یا (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) کا معنی ہے کہ یا اللہ ! آپ ہمیں مستقبل میں بھی اسی طرح ہدایت سے مشرف رکھیں جس طرح حال میں ہدایت سے مشرف رکھا ہے۔ )