Mutaliya-e-Quran - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
ہمیں سیدھا راستہ دکھا
[ اِہْدِ : تو ہدایت دے ][ نَا : ہم کو ][ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ : سیدھے راستے کی ] ھَدٰی یَھْدِیْ (ض) ھُدًی : راہنمائی کرنا۔ (1) راستہ سمجھانا۔ { وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ ۔ } (البلد) ” اور ہم نے اس کو سمجھا دیئے دونوں راستے۔ “ (2) راستہ پر دل کو کھول دینا ‘ توفیق دینا۔ { مَنْ یُّـؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ } (التغابن :11) ” جو ایمان لاتا ہے اللہ پر تو وہ توفیق دیتا ہے اس کے دل کو۔ “ (3) منزل تک پہنچا دینا۔ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا } (الاعراف :43) ” تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے پہنچادیا ہم کو یہاں تک۔ “ ھَادٍ (اسم الفاعل) : راہنمائی کرنے والا۔ { وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ } (الرعد :7) ” اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے ۔ “ ھدی یھدی (تفعیل) تَھْدِیَۃً : کسی چیز کو کسی چیز تک پہنچادینا ‘ تحفہ دینا ‘ ھَدِیَّـۃٌ تحفہ۔ { وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْھِمْ بِھَدِیَّۃٍ } (النمل :35) ” اور میں بھیجنے والی ہوں ان کی طرف ایک تحفہ۔ “ ھَدْیٌ : وہ جانور جو خانہ کعبہ قربانی کے لیے بھیجا جائے۔ { فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ } (البقرۃ :192) ” تو جو قربانی میسر ہو۔ “ اِھْتَدٰی یَھْتَدِیْ (افتعال) اِھْتِدَائً : ہدایت پانا۔ { فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا } (آل عمران :20) ” پس اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو یہ لوگ یقینا ہدایت پائیں گے۔ “ مھتد (اسم الفاعل) : ہدایت پانے والا۔ { وَمِنْھُمْ مُّھْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ } (الحدید :26) ” اور ان میں کوئی ہدایت پانے والا ہے اور ان میں اکثر فاسق ہیں۔ “ س ر ط سَرَطَ یَسْرُطُ ۔ سَرِطَ یَسْرَطُ (ن۔ س) سَرْطًا۔ سَرْطَانًا : نگلنا۔ ق و م قَامَ یَقُوْمُ (ن) قِیَامًا : کھڑا ہونا ‘ ٹھہرنا ‘ نگرانی یا حفاظت کرنا۔ قِیَامَۃٌ : قبر سے اٹھ کھڑا ہونا۔ قَائِمٌ (اسم الفاعل) : کھڑا ہونے والا ‘ نگرانی کرنے والا ۔ { اَفَمَنْ ھُوَ قَائِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ } (الرعد :33) ” تو کیا وہ جو نگرانی کرنے والا ہے ہر نفس (کے عمل) کی جو اس نے کمایا۔ “ قَوَّامٌ (فعال کے وزن پر مبالغہ) : بہت زیادہ حفاظت کرنے والا ‘ ذمہ دار ‘ کفیل۔ { اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَائِ } (النسائ :34) ” مرد حفاظت کرنے والے ذمہ دار ہیں عورتوں پر۔ “ قَیَّوْمٌ (فَیْعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : وہ ذات جس کی ابتداء نہ ہو اور از خود قائم ہو۔ وہ ذات جو ہر شے کی ہر لمحہ نگران ‘ محافظ اور کفیل ہو۔ { اَللّٰہُ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ } (البقرۃ :255) ۔ قَـیِّمٌ (صفت) : قائم یا ثابت چیز ‘ سیدھی چیز۔ { ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ } (التوبۃ :36) ۔ مَقَامٌ (اسم الظرف ہے مَفْعَلٌ کے وزن پر) : کھڑے ہونے کی جگہ ‘ ٹھہرنے کی جگہ۔ { وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلّٰی } (البقرۃ :125) ” اور تم لوگ بنا لو ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ میں سے نماز کی جگہ۔ “ یہ بطور مصدر بھی استعمال ہوتا ہے۔ { اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ } (یونس :71) ” اگر تم لوگوں پر بھاری ہے میرا کھڑا ہونا اور میری نصیحت۔ “ قَوْمٌ : کسی جگہ یا کسی صفت پر قائم رہنے والے افراد کا گروہ۔{ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ } (البقرۃ :118) ” ہم واضح کرچکے ہیں نشانیوں کو یقین رکھنے والے گروہ کے لیے۔ “ اَقَامَ یُقَامُ (افعال) اِقَامَۃً : کھڑا ہونا ‘ کسی چیز کو قائم ود ائم رکھنا۔ { اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ } (المائدۃ :55) ” جو لوگ نماز کو قائم رکھنے والے ہیں۔ “ مُقِیْمٌ (اسم الفاعل جو بطور اسم الظرف بھی استعمال ہوتا ہے) : کھڑا کیا ہوا ‘ کھڑے کیے جانے کی جگہ ‘ ٹھہرائے جانے کی جگہ۔ { لَا مُقَامَ لَـکُمْ فَارْجِعُوْا } (الاحزاب :13) ” تمہیں ٹھہرائے جانے کی جگہ نہیں ہے پس واپس چلو۔ “ قَوَّمَ یُقَوِّمُ (تفعیل) تَقْوِیْمًا : ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنا ‘ تعدیل کرنا۔ { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ } (التین) ” یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو سب سے اچھے تناسب و تعدیل میں۔ “ اِسْتِقَامَ یَسْتَقِیْمُ (استفعال) اِسْتَقَامَۃً : اس طرح سیدھا کھڑا ہونا کہ کوئی کجی یا کسی طرف جھکائو نہ ہو۔ سیدھا ہونا۔ مُسْتَقِیْمٌ (اسم الفاعل) : ہر کجی اور جھکائو سے پاک ہو کر سیدھا ہونے والا۔ بطور صفت بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ہر کجی اور جھکائو سے پاک ‘ سیدھا۔ صِرَاطٌ : اس کا مادہ س ر ط ہے ۔ لیکن یہ قرآن مجید کا مخصوص املا ہے کہ اسے سراط کے بجائے صراط لکھاجاتا ہے۔ ترکیب : ” اِھْدِ “ ثلاثی مجرد سے فعل امر ہے اور ” نَا “ اس کی ضمیر مفعولی ہے۔ ” اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ “ مرکب توصیفی ہے اور ” اِھْدِ “ کا مفعول ثانی ہے۔ نوٹ : ” اِھْدِ “ یہاں ر ہدایت کے جامع مفہوم میں ہے۔ یعنی تو سیدھے راستے ہمیں سمجھا دے۔ اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور اس پر چلا کر ہمیں منزل تک پہنچا دے۔ علماء کرام اور بزرگانِ دین جب نماز میں یہ آیت پڑھتے ہیں تو ان کی دعا دراصل توفیق اور منزل تک پہنچنے کے لیے ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے معارف القرآن دیکھیں۔
Top