اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
ترجمہ : چلا ہم کو سیدھے راستے پر۔
(1) امام حاکم نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح بھی کہا اور ذہبی نے ان کا تعاقب کیا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لفظ آیت ” اھدنا الصراط المستقیم “ صاد سے پڑھا۔
(2) سعید بن منصور، عبد بن حمید، بخاری نے التاریخ میں اور ابن الانباری (رح) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے لفظ آیت ” اھدنا السراط “ میں سین پڑھا۔
(3) ابن الانباری میں عبد اللہ بن کثیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ ” السراط “ سین سے پڑھتے تھے۔
(4) ابن الانباری نے فراء سے روایت کیا ہے کہ حمزہ نے ” الزراط “ زا کے ساتھ پڑھا ہے۔ فراء کہتے ہیں کہ الزراط زاء کے اخلاص کے ساتھ ہے یہ لغت عذرہ، کلب اور بنو العین (قبائل) کی ہے۔
(5) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” اھدنا الصراط المستقیم “ کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ اے اللہ اپنے سچے دین کو ہمارے دلوں میں ڈال دے۔
(6) ابن جریر حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” اھدنا الصراط المستقیم “ کا معنی بتاتے ہیں کہ اے اللہ ہدایت دینے والا راستہ ہمارے دلوں میں ڈال دے اور وہ دین اللہ کا ہے جس میں کوئی کجی نہیں۔
(7) امام جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الصراط “ سے راستہ مراد ہے۔
(8) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، المحاملی نے المصنف کے نسخہ سے امالی میں اور حاکم نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اھدنا الصراط المستقیم “ سے مراد اسلام ہے اور وہ زیادہ کشادہ ہے ان چیزوں سے جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں۔
(9) ابن جریج نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الصراط المستقیم “ سے اسلام مراد ہے۔
(10) ابن جریر حضرت ابن مسعود ؓ اور دیگر صحابہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ لفظ آیت ” الصراط المستقیم “ سے اسلام مراد ہے۔
(11) امام احمد، تررمذی، (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابو الشیخ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدھے راستے کی مثال بیان فرمائی، اس سیدھے راستے میں سب کے سب داخل ہیں جن میں دروازے کھلے ہوئے ہیں اور دروازوں پر پردے ہیں لٹکے ہوئے اور اس سیدھے راستے میں سب کے سب داخل ہوجاؤ اور آپس میں متفرق نہ ہوجاؤ اور ایک بلانے والا راستہ کے اوپر سے بلا رہا ہے یہ سیدھا راستہ ہے آجاؤ جب انسان ارادہ کرتا ہے ان دروازوں میں کسی دروازے کو کھولنے کا تو وہ (بلانے والا) کہتا ہے تیرے لئے ہلاکت ہو اس کو مت کھول بلاشبہ تو کھول دے گا اس میں داخل ہوجائے گا پس سیدھا راستہ اسلام ہے۔ اور دیواریں اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور دروازہ کھلے ہوئے محارم ہیں اور یہ بلانے والا سیدھے راستہ پر اللہ کی کتاب ہے اور بلانے والا اوپر سے اللہ تعالیٰ کا وہ واعظ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں ہے۔
(12) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابوبکر ابن الانباری نے المصاحف میں اور حاکم انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” اھدنا الصراط المستقیم “ سے مراد کتاب اللہ ہے۔
(13) امام ابن الانباری نے حضرت ابن مسعود سے یہ روایت کیا کہ یہ سیدھا راستہ حاضر ہے کیا ہوا ہے اس میں شیاطین حاضر ہوتے ہیں اے اللہ کے بندو ! یہ سیدھا راستہ ہے پس اس کی تابعداری کرو اور سیدھا راستہ سے مراد کتاب اللہ ہے پس اس کو مضبوطی سے پکڑو۔
صراط مستقیم امن کا راستہ ہے
(14) امام ابن ابی شیبہ، دارمی، ترمذی، (انہوں نے اسے ضعیف کہا ہے) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن الانباری نے المصاحف میں ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب فتنے (برپا) ہونگے۔ میں نے عرض کیا ان کا راستہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں ہیں اور تمہارے بعد والوں کی بھی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان جھگڑوں کا فیصلہ بھی ہے حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی ہے۔ یہ کوئی دل لگی اور مذاق والی چیز نہیں ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے اور یہ وہ چیز جس کو حکم نے ذکر کیا ہے اور وہ سیدھا راستہ ہے۔
(15) امام طبرانی نے الکبیر میں حضرت مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر ہم نے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑا۔
(16) ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر ہم کو رسول اللہ ﷺ نے چھوڑا اور اس کی دوسری طرف جنت ہے۔
(17) بیہقی نے الشعب میں اور قیس بن سعد نے ایک آدمی سے روایت کیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن و نور مبین ہے اور ذکر حکیم ہے اور سیدھا راستہ ہے۔
(18) عبد بن حمید، ابن جریھ، ابن ابی حاتم، ابن عدن اور ابن عساکر نے عاصم الاحول کے طریق سے ابو العالیہ سے لفظ آیت ” الصراط المستقیم “ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد کے دونوں ساتھی ہیں راوی فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ بات حضرت حسن ؓ کو بتائی کہ ابو العالیہ یوں کہتے ہیں) تو انہوں نے فرمایا کہ ابو العالیہ (رح) نے سچ فرمایا اور خالص بات کی ہے۔
(19) حاکم نے ابو العالیہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الصراط المستقیم “ سے رسول اللہ ﷺ اور ان کے دونوں ساتھی مراد ہیں۔
(20) عبد بن حمید نے ابو العالیہ الریاحی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اسلام کو سیکھو جب تم اس کو سیکھ لو تو پھر اس سے انحراف نہ کرو اور تم صراط مستقیم کو لازم پکڑو بلاشبہ لفظ آیت ” الصراط المستقیم “ اسلام ہے۔ اور تم اس سے دائیں اور بائیں نہ گھوم جاؤ۔
(21) سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابن المنذر سے کتاب الرؤیا میں حضرت سفیان (رح) سے روایت کیا ہے کہ قرآن کی تفسیر میں کوئی اختلاف نہیں بلاشبہ وہ جامر کلام ہے اس سے یہ اور یہ مراد لیا گیا ہے۔
(22) ابن سعد نے طبقات میں ابو نعیم نے الحلیہ میں ابو قلابہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابو درداء ؓ نے فرمایا بیشک تو پوری طرح سمجھ حاصل نہیں کرسکتا یہاں تک کہ تو قرآن میں کئی وجوہ دیکھے۔
قرآن کریم کے ساتھ بحث نہ کرنا
(23) ابن سعد نے حضرت عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو خوارج کے متعلق بتاتے ہوئے سنا جنہوں نے حکومت کا انکار کیا تھا اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے جدا ہوگئے تھے پھر فرمایا کہ ان میں سے بارہ ہزار جدا ہوئے تھے۔ پھر حضرت علی ؓ سے مجھ کو بلایا اور فرمایا کہ تم خارجیوں کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو ان کو کتاب اور سنت کی طرف بلاؤ اور ان سے قرآن کے ذریعہ بحث نہ کرو کیوں کہ وہ یعنی قرآن کئی وجوہ والا ہے کہ کئی مطالب اس سے نکل سکتے ہیں اور لیکن ان سے سنت کے ذریعہ مناظرہ کرو۔
(24) امام ابن سعد نے حضرت عمران بن مناح سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اے امیر المؤمنین میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا ہوں (کیونکہ) ہمارے گھروں میں نازل ہوا انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا لیکن قرآن ایسا جمال ہے کئی وجوہ رکھتا ہے وہ قرآن یوں کہتا ہے اور وہ لوگ یوں کہتے ہیں لیکن ان سے سنت کے ذریعے بحث کرو کیونکہ وہ اس سے کوئی بھاگنے کا راستہ نہیں پائیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ جن کی طرف تشریف لائے اور ان سے سنن کے ساتھ مناظرہ کیا یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں کوئی دلیل باقی نہ رہی۔