Ruh-ul-Quran - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
یا اللہ ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو ہمیں تیری رضا تک پہنچا دے)
پچھلی آیت کی بقیہ تفسیر دوسری حقیقت جس نے انسان کو شرافت و فضیلت کے تخت پر فائز کیا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق نے صرف عبادت کی ہے یعنی احکام کی اطاعت کی ہے۔ زندگی بھر اس سے انحراف نہیں کیا۔ سجدہ و قیام اور رکوع و قعود میں رہ کر بندگی کا حق ادا کیا ہے اور یہ بھی بلاشبہ متاع بےبہا ہے مگر انسان نے صرف بندگی نہیں کی بلکہ کچھ اور بھی کیا ہے۔ اس نے صرف اطاعت و بندگی میں میں سر ہی نہیں جھکا یا بلکہ برگشتہ سروں اور تنی ہوئی گردنوں کو اپنے مالک کے سامنے جھکنے پر مجبور بھی کیا ہے۔ اس کے لیے وطن چھوڑا ہے گھر سے بےگھر ہوا ہے اولاد کی قربانی دی ہے۔ دنیا بھر سے لڑائی لڑی ہے۔ دنیا کے ہر خطے کو اپنی سرفروشی و جانفشانی سے زندگی بخشتی ہے۔ اور اس شمع کو لے کر ہر اس جگہ پہنچا ہے جہاں دھرتی پانی دیتی ہے اور جہاں انسان کی اولاد بستی ہے پھر کبھی اس راستے میں مال لٹایا ہے کبھی پسینہ بہایا ہے اور کبھی حون دیا ہے بقول اقبال : مقامِ بندگی دیگر مقام عاشقی دیگر زنوری سجدہ مے خواہی زخا کی بیش ازاں خواہی ازاں خودرا نگہ داری کہ باایں بےنیازی ہا شہادت بروجودِ خود زخون دوستاں خواہی یہ عبادت کی اعلی اور بر ترین صورت ہے جو حضرت انسان کے لیے ودیعت کی گئی اور جس کا نام عاشقی اور شہادت رکھا گیا۔ اس میں ایک طرف انسان اپنے جسم و جان قوت و صلاحیت عقل و دانش ‘ مال و دولت اور ارادہ و اختیار سے اپنے مالک حقیقی کے لیے دستبردار ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کے لیے فیصلوں کا حق انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسی کو تفویض کرتا ہے اور بندگی و عبودیت کی تصویر بن کر راضی بہ رضا ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ضرورت پڑتی ہے تو بدیہ جان لے کر اس کی بارگاہ میں پیش کردیتا ہے اور اگر یہ بدیہ قبول کرلیا جاتا ہے تو پکار اٹھتا ہے ” فُزْتُ وَ رَبِّ الْـکَعْبَۃِ “ اور اس کا مل تر بندگی و عبادت کو وہ حقیقی زندگی سمجھتا اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت جانتا ہے۔ بقول اقبال : ؎ برتر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی حاصل کلام یہ کہ عبادت اپنی بندگی و عبودیت کا نذرانہ حضور حق میں صرف اسی کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے پیش کرنے کا نام ہے مگر اس میں مدارج اور مراتب ہیں ‘ جن و انس کے علاوہ باقی مخلوقات کی عبادت اضطراری عبودیت یا بےاختیار غلامی ہے اور جنوں کی عبادت اگرچہ بالاختیار عبودیت ہے یعنی وہ اپنے اختیار اور ارادہ سے اللہ تعالیٰ کی بندگی بجا لاتے ہیں اور اس میں انسانوں ہی کی طرح کامل فدویت امتثال امر انکساری اور فدائیت کی روح کار فرما ہوتی ہے۔ مگر انسانوں کو اپنی عبادت میں ایک اختصاص اور امتیاز حاصل ہے وہ یہ کہ حضرت انسان ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کا غلام بےدام غلام اور بندئہ حقیر ہے مگر دوسری طرف وہ زمین پر اپنے مالک و آقا کا خلیفہ بھی ہے۔ اس لیے اس کے اندر عبودیت و فدائیت اور عشق و سرمستی کے ساتھ ساتھ حق خلافت کی ادائیگی کے لیے ایک اولوالعزمی بھی پائی جاتی ہے۔ جس کا حق وہ نوع بہ نوع ایثار و قربانی اور بالآخر راہ حق میں اپنے خون کا آخری قطرہ بہا کر ادا کرتا ہے اور اسی وجہ سے جنوں اور فرشتوں سمیت تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ ہونے کا شرف پاتا ہے۔ ٖ ( علیہ السلام) حاصل کلام ! ہماری اب تک کی گزارشات سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ عبادت زندگی کا ایک ایسا مجموعی اور ہمہ گیر عمل ہے جس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے بھی ہے اور اس کی اجتماعی زندگی سے بھی۔ زندگی کا کوئی دائرہ اس سے باہر نہیں۔ اسی طرح زندگی کا کوئی شعبہ اور زندگی کا کوئی ہدف اس سے آزاد نہیں۔ افراد انسانی تمام تر تنوعات کے باوجود عبادت کے پابند ہیں۔ اور مزید یہ بات کہ جس طرح عبادت پوری انسانی زندگی پر محیط ہے اسی طرح وہ زندگی کا سب سے مشکل کام بھی ہے اس میں جسمانی صلاحیتیں بھی صرف ہوتی ہیں اور دماغی رعنائیاں بھی کام میں لانا پڑتی ہیں۔ خواہشات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے اور حوصلوں کی آزمائش بھی ہوتی ہے۔ حتیٰ کے بعض دفعہ نقد جان بھی پیش کرنا پڑتا ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی زندگی سے گزر کر قومی اور ملی زندگی کو بھی اس میں شریک ہونا پڑتا ہے کیونکہ عبادت کا عمل جس طرح شہادت کے راستے سے گزرتا ہے اسی طرح خلافت کی گراں باریاں بھی رکھتا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس عمل کی وسعتوں کا یہ عالم ہو اور جس کی گراں باریوں اور مشکلات بےنہائت اور بےاندازہ ہوں کیا یہ ممکن ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اور اپنی ہمتوں پر اعتماد کرتا ہوا اس گھاٹی کو سر کرلے۔ یقینا ایسا نہیں ہوسکتا۔ لازمی بات ہے کہ اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور اس کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اسی ذات کو پکارا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے۔ جس کی عبادت کا جذبہ اور جس کی بندگی کی وارفتگی اس دروازے تک کھینچ لائی ہے۔ اس لیے جب ایک بندہ بندگی کے جذبے سے سرشار ہو کر ایاک نعبدکہتا ہے تو عبادت کی حقیقت اور وسعت کو محسوس کرتے ہوئے بےساختہ پکار اٹھتا ہے۔ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہماری محولہ بالا گزارشات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہوگی کہ عبادت فی الحقیقت اللہ کی بندگی اور غلامی کا نام ہے اور غلامی بھی ایسی جس کے بعد ہر آستانے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ اور ہر چوکھٹ سے گردن آزاد ہوجاتی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب ایک بندہ ہر غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ ہی کی غلامی کا قلادہ گلے میں ڈال لیتا ہے اور وہ ہر ایک سے تعلق توڑ کر اللہ کا ہوجاتا ہے تو کیا ایسے غلام کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے آقا کے علاوہ استعانت کے لیے کسی اور دروازے پر دستک دے۔ وہ ضرورت مندہوتو ضرورتیں کسی اور آقا کے پاس لے کر جائے۔ اسے دکھ اور غم گھیر لیں تو مدد کے لیے کسی اور کو پکارے۔ جب اس کے سب ظاہری سہارے جواب دے جائیں تو وہ کسی اور کو آواز دے۔ ایسا کرنا یقینا اس کی غلامی کے تصور کے خلاف ہے اور اس کے آقا کی توہین ہے۔ اس لیے جب بندہ ایک اللہ کی غلامی کا اعتراف کرتا ہے تو پھر وہ اپنا کشکول بھی توڑ دیتا ہے اس کے ارادوں کی کمزوری قوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کی غلامی کو ایسی سر بلندی ملتی ہے کہ بادشاہوں کی رعونتیں بھی اس کے سامنے دم توڑنے لگتی ہیں۔ وہ بڑی سے بڑی قوت سے بھی مرعوب ہونے سے انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میری غلامی کا رشتہ اس ذات سے ہے جو شہنشاہ کائنات اور آقائے کل ہے۔ جہاں تک اسباب کی دنیا کا تعلق ہے وہ لین دین تکافل و تعاون اور اعانت واستعانت میں بالکل دوسرے انسانوں کی طرح ہوتا ہے لیکن ماورائے اسباب کسی طاقت کے سامنے اللہ کے سوا کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتا اگر اسباب ٹوٹنے لگیں اور ظاہری سہارے جواب دینے لگیں تو وہ پریشان ہونے کی بجائے مسبب الاسباب کو پکارتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کائنات میں سب سے بڑی ذات اللہ کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے۔ لیکن وہ بھی جنگ بدر میں رات بھر اللہ سے مانگتے رہے اور پھر جب اس کی طرف سے مدد اور نصرت کا پیغام پہنچ گیا تو پھر اسی کی مدد سے مسلح ہو کر ریت سے مٹھی بھر کر پھینکی اور دشمن کی فوج کے پائوں اکھڑ گئے۔ اور قرآن کریم نے اس خیال سے کہ کہیں لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ جس مٹھی بھرریت نے فوج کے قدم اکھاڑے ہیں اس کے پیچھے شاید اللہ کے رسول ﷺ کی قوت کارفرما تھی ارشاد فرمایا : وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج (الانفال : 8۔ 17) (اے پیغمبر آپ نے جو مٹھی پھینکی وہ آپ نے نہیں پھینکی وہ تو اللہ نے پھینکی ) اللہ کے ولیوں سے دعا کروانا اور برکت حاصل کرنا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے معجزات اور اللہ تعالیٰ کے ولیوں کی کرامات درحقیقت انبیا اور اولیاء کے ذاتی اعمال نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کے ذریعے سے اللہ کی قوت کا اظہار ہوتا ہے ان کے ہاتھ کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی نگاہوں میں ان کی حیثیت اور عظمت واضح ہوجائے ورنہ ہر مشکل وقت میں اللہ کے نبی اور ولی اللہ ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اور مدد کے طلب گار ہوتے ہیں اللہ کے ولیوں سے دعا کے لیے کہنا اور ان سے برکت حاصل کرنا یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ کیونکہ اس سے مقصود اللہ ہی سے مدد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس لیے کسی اللہ کے بندے کے پاس جائے کہ وہ ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ کے اختیارات کا مالک ہے تو اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جس طرح اِیَّاکَ نَعْبُدُ سے ہر طرح کی غلامی اور بندگی کا جواز ختم ہوگیا اسی طرح وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے ماورائے اسباب ہر طرح کی مدد طلب کرنا ناجائز ٹھہرا اور اس تصور نے جس طرح انسان کو ہر آستانے سے بےنیاز کردیا اور اس کے اندر وہ فکری توانائی پیدا کی جو ایک مرد مومن کی علامت ٹھہری اسی طرح اس کی ہر کمزوری کا علاج کردیا وہ تمام سہاروں سے بےنیاز ہو کر محض اللہ کے سہارے پر اس طرح زندگی گزارتا ہے کہ مشکل سے مشکل مائوف لمحوں میں بھی کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ اسے موت بھی آئے تو وہ اسے اللہ کا پیغام سمجھ کر مسکراتا ہوا قبول کرتا ہے۔ اعتراف سے دعا تک کا سفر سورة الفاتحہ کے آغاز سے وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُُ تک پورا سفر ایک بندے کے اقرار واعتراف کا سفر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمت اور اس کے مسلسل نظام ربوبیت کے ساتھ ساتھ جب اس کی رحمت کو اپنے اندر باہر دائیں بائیں بلکہ پوری کائنات میں پھوار کی طرح برستا ہوا دیکھتا ہے تو بےساختہ اس کی زبان سے حمد وثنا کا نغمہ جاری ہوجاتا ہے۔ پھر اسی کیفیت میں جب وہ اپنی اور مخلوقات کی زندگیوں میں قانون مکافات کو جاری وساری پاتا ہے تو اللہ کی صفت عدالت اور اس کی ہمہ گیر حاکمیت کا تصور اس کے ذہن میں ابھرنے لگتا ہے یہ دونوں تصورات جب اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں کہ ایک طرف وہ اللہ کی حمد وثنا میں ڈوبا ہوا ہے اور دوسری طرف قانون مکافات اس کی فکر مندیوں میں اضافہ کررہا ہے تو وہ بےساختہ اللہ کے آستانے پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔ اسی کی بندگی اور غلامی اور اسی سے استعانت اس کی زندگی کا سرمایہ بن جاتی ہے۔ یہی اس کے لیے پناہ گاہ بھی ہے اور اس کے قلب و ضمیر کے لیے فرحت بخش بھی۔ وہ بندگی کے اعتراف سے سرشار ہوتا ہے تو توکل واعتماد اس کی شخصیت میں پختگی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن جب ان احساسات کے ساتھ وہ اللہ کی بندگی کے لیے زندگی کے کٹھن راستوں پر سفر کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی فکری شخصیت کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوناپڑتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ یہاں قیاسی فلسفوں نے اس قدر دھول اڑائی ہے کہ حقیقت نفس الامری کا سراغ لگانابہت مشکل ہوگیا ہے پھر وہ انسانی زندگی کے دروبست کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسے یہ دیکھ کر پریشانی ہوتی ہے کہ صحیح نظام اخلاق کی بنیادیں تلاش کرنا ہی ایک مشکل کام ہوگیا ہے چہ جائیکہ اس پورے نظام کو تلاش کیا جائے۔ پھر وہ انسانی احساسات، انفعالات، خواہشات اور مزعومات کی دنیا کو سنوارنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اسے بیشمار پگڈنڈیوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ پریشانیوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ایک طرف اس کے اندر کا بےپناہ جذبہ ہے جو اسے بندگی کے سفر پر رواں دواں رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف متذکرہ بالاسفر کی دشواریاں ہیں جو اسے ایک ایک قدم اٹھانے سے روکتی ہیں۔ اب تک تو اقرار و اعتراف کے جذبات نے اسے یہاں تک پہنچایا تھا لیکن اب جب وہ اپنے سامنے کوئی راستہ کھلتا ہوا نہیں دیکھتاتو مجبوراً یا بےساختہ اقرار و اعتراف کے اسلوب سے ہٹ کر وہ دعا کا اسلوب اختیار کرتا ہے اور اپنے پروردگار سے وہ دولت مانگتا ہے جو اس کی زندگی کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسکے دل سے آواز اٹھتی ہے۔ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ لا (الفاتحۃ 1: 6) (یا اللہ ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو ہمیں تیری رضا تک پہنچا دے) یہاں پہنچ کر جب ہم پلٹ کر سورة فاتحہ میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت ربوبیت کو دیکھتے ہیں۔ تو فوراذہن کے افق پر اس کی صفت ربوبیت کی وہ وسعتیں روشن ہوجاتی ہیں جس کا ذکر پروردگار نے کتاب پاک میں تفصیل سے کیا ہے۔ ان ساری تفصیلات کو سمیٹنا تو ہم جیسے عاجز لوگوں کے بس کا کام نہیں البتہ اسے سمجھنے کے لیے مختصر گزارشات پیش خدمت ہیں۔ تکوین وجود کے چار مراتب خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب میں تکوین وجود کے چار مراتب بیان فرمائے ہیں۔ خلق، تسویہ، تقدیر اور ہدایت۔ کائنات کی ہر مخلوق کا عدم سے وجود میں آنا اس کی صفت خلق کا اظہار ہے۔ مگر ہر مخلوق کا اس طرح پیدا کیا جاناجس طرح اسے ہونا چاہیے تھا اور اس کے نک سک کا درست ہونا اور اس میں انتہا درجہ کا تناسب پایا جانا اور ہر طرح سے اپنے ماحول سے اس کا مناسبت رکھنا اور ماحول کا اس کے ساتھ مناسب ہونایہ وہ چیز ہے جو کو تسویہ کہا گیا ہے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کی ہر مخلوق اپنے وجود کے اعتبار سے اس طرح واقع ہوئی ہے کہ اس کا جسم اور اس کا ماحول باہم دگر ایک دوسرے کے لیے معاون و مددگار بن گئے ہیں۔ پرند ہوا میں اڑتے ہیں تو انھیں پر عطا کیے گئے۔ مچھلیاں پانی میں پید اہوتی ہیں تو انھیں تیرنا سکھایا گیا۔ حشرات الارض کو ڑاکرکٹ میں پیدا ہوتے ہیں تو انھیں رینگنا سکھایا۔ مچھلی خشکی میں پیدانھیں کی گئی۔ پرندے پانی میں پیدا نہیں کیے گئے اس لیے کہ ان کا جسمانی تناسب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر مخلوق کے لیے یہ پہلے سے طے کردیا گیا کہ اسے کس طرح کا کام انجام دینا ہے ؟ اس کی حدود کار کیا ہوں گی ؟ اس کی قوت عمل کس طرح کی ہوگی ؟ اسے کب تک کس حال میں رہنا ہے ؟ اور کس حد تک اپنے کام کو انجام دینا ہے ؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اور اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے اسے کون سی صلاحیت درکا رہے ؟ یہ وہ چیز ہے جسے قرآن کریم میں تقدیر کا نام دیا گیا ہے۔ چناچہ سورج کو پیدا کیا گیا تو اس کا مقصد وجود مقرر کردیا گیا۔ چاند کو پیدا کیا گیا تو اس کے عمل کا ایک دائرہ ٹھہرا دیا گیا۔ ستارے بنائے گئے تو انھیں ان کی ڈیوٹیاں سمجھا دی گئیں۔ نباتات سے لے کر آسمان کی ہر مخلوق تک ہر ایک کے لیے ایک تقدیر بنادی گئی۔ چناچہ یہ ممکن نہیں ہے کہ سورج اپنے دائرہ ٔ کار سے باہر نکل جائے اپنے مقصد وجود یعنی کائنات کو روشنی دینے اور گرمی پہنچانے سے رک جائے۔ یہ ممکن نہیں کہ چاند اپنی حلاوت سے اہل زمین کو محروم کردے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ستارے جھلملانا چھوڑدیں۔ یہ ناممکن ہے کہ پھول خوشبو دینے اور پانی پیاس بجھانے سے انکار کردے۔ ہر ایک اپنے اپنے کام پر لگا ہوا ہے اور انھیں اپنا مقصد وجود اور دائرہ ٔ کار اچھی طرح معلوم ہے اور اگر شعور کی آنکھ سے مزید کام لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ تمام مخلوقات کو یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ تمہیں اپنے اپنے فرائض کس طرح انجام دینا ہیں۔ مچھلی کو اگر پانی میں تیرنے کا حکم دیا گیا تو ایسا نہیں کہ اسے تیرنا نہ سکھایا گیا ہو۔ پرند کے لیے اگر ہوا میں اڑنامقدر کیا گیا تو ایسا نہیں ہے کہ اسے اڑنے کی تعلیم نہ دی گئی ہو۔ سورج، چاند اور ستاروں کو جس کام پر لگادیا گیا ہے ایسا نہیں ہے کہ انھیں اس کی ہدایت نہ دی گئی ہو۔ قرآن کریم کہتا ہے : لاَالشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآاَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَوَلَاالَّیْلَ سَابِقُ النَّھَارِ ط (یٰس ٓ 40: 36) ( سورج کی مجال نہیں کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور رات کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے، ہر ایک کا اپنا دائرہ کار ہے اور اپنے دائرے میں مصروفِ عمل ہے) اس کی ہدایت کی ہمہ گیری کا عالم یہ ہے کہ کائنات کی کوئی چیز ایسی دکھائی نہیں دیتی کہ اسے وجود ملاہو اور وہ غایت وجود سے بیخبر ہو اور پھر اس کو روبعمل لانے سے وہ بےبہرہ ہو۔ اس نے کلیوں کو پیدا کیا ہے تو انھیں چٹکنا بھی سکھایا۔ اس نے پھول کو پیدا کیا تو اس کو مہکنا بھی سکھایا۔ اس نے درختوں کو پیدا کیا تو انھیں لہکنا بھی سکھایا۔ اس نے ستاروں کو پیدا کیا تو انھیں جھلملانا اور ٹمٹمانا بھی سکھایا ہے۔ اس نے بادل کو پیدا کیا تو اسے کڑکنا بھی سکھایا۔ اس نے رعد کو گرجنا اور بجلی کو کوندنا بھی سکھایا۔ اس نے پرندے کو چہکنا اور ہوا کو چلنا سکھایا۔ اس نے آگ کو جلانا اور پانی کو بہنا سکھایا۔ اس نے حسن کو مچلنا اور عشق کو پگھلنا سکھایا۔ غرضیکہ کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جسے اس نے تقدیر اور ہدایت سے نہ نوازا ہو۔ حتیٰ کے غور وفکر کے اگر چند اور اوراق الٹے جائیں تو بعض چیزیں ایسی سامنے آتی ہیں کہ آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مچھلیوں میں سے دو کا سفر بہت حیرت انگیز ہے۔ 1 ۔ سامن مچھلی یہ اگر کسی ندی میں پیدا ہو تو جوان ہونے کے بعد یہ پہلے دریا میں اور وہاں سے سمندر میں چلی جاتی ہے اور وہاں مدتوں رہتی ہے اور جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی موت قریب آگئی ہے تو وہ واپس چل پڑتی ہے۔ یہ سمندر اور دریا سے ہوتی ہوئی ندی کے اس مقام پر جارکتی ہے جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ اگر وہ دوران سفر کسی غلط ندی کی طرف مڑجائے تو اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ واپس آجاتی ہے۔ 2 ۔ ایل مچھلی یہ کسی ندی میں ہو یا دریا میں جوان ہونے کے بعد اپنے وطن سے چل پڑتی ہے اور ہزاروں میل دور جزائر برمودہ (اوقیانوس) میں چلی جاتی ہے۔ وہاں بچے دے کر مرجاتی ہے یہ بچے وہاں سے چل کر اپنی ماں کے وطن میں آجاتے ہیں اور وہاں سے پھر جزائر برمودہ میں پہنچ کر پہلے بچے دیتے ہیں بعد ازاں مرجاتے ہیں۔ ہدایت کے چار مراحل تکوین وجود اور تکمیل وجود کے یہ چار مراحل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو پیدا فرمایا پھر اس کا تسویہ کیا، پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کردی اور پھر اسے اس کی تقدیر کے مطابق زندگی اور معیشت کی راہ پر چلنے کا طریقہ سکھایا۔ یعنی ہدایت عطا فرمائی۔ ہدایت الہام 1 اس ہدایت پر اگر غور کیا جائے تو اس کے چار طریقے معلوم ہوتے ہیں۔ نباتات میں یہ ہدایت فطری رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں بیلیں زمین پر پھیلتی، پودے سر اٹھاتے، درخت تن کر کھڑے ہوتے ہیں پھر ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی ہدایت کے مطابق برگ وبار لاتا اور پھل اور پھول دیتا ہے۔ لیکن حیوانات میں ہم اس فطری ہدایت کو اندرونی الہام کی شکل میں دیکھتے ہیں کہ ہر حیوان کا بچہ ادھر پیدا ہوتا ہے ادھر کوئی الہام کرنے والا اسے یہ الہام کرتا ہے کہ تیری غذا ماں کے سینے میں یا تیرے قریب ہی رکھ دی گئی ہے وہاں سے تجھے اس طرح حاصل کرنا ہے۔ چناچہ ہم بلی کے بچے کو دیکھتے ہیں کہ ابھی اس نے آنکھیں کھولی نہیں اور خارج کے موثرات نے اسے چھوا تک نہیں مگر وہ اپنی ماں کی چھاتی کو ٹٹولتا ہے اس پر منہ مارتا ہے اور پستان کو منہ میں لے کر چوسنے لگتا ہے اور بلی فرط محبت سے اسے چاٹ رہی ہے۔ آپ نے بلی کو دیکھا ہوگا ج سے اس سے پہلے بچے کو جننے کا کوئی تجربہ نہیں ہے مگر جیسے ہی اس کے وضع حمل کے دن قریب آتے ہیں وہ الگ تھلگ کونے کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے اور پھر کسی الگ کونے کو عافیت کی جگہ سمجھتے ہوئے بیٹھ جاتی ہے اور بچے جن دیتی ہے اور پھر وہ جس طرح اپنے بچوں کی نگہداشت کرتی ہے اور ایک موہوم خطرہ محسوس کرتے ہوئے مختلف جگہیں بدلتی ہے یہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ کوئی اندرونی الہام ہے جو اسے ہر معاملہ کی ہدایت دے رہا ہے۔ خود انسان کا بچہ جو جانوروں کے بچوں سے بھی زیادہ بےبس ہوتا ہے جس کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ : وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ م بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا لا (النحل 16: 78) ” وہ ذات ہے جس نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ “ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بچے کے پید اہوتے ہی ماں کی مامتابے تاب ہو کر اسے سینے سے لگاتی ہے اور وہ ماں کی چھاتی کے ساتھ منہ مارنے لگتا ہے اور پستان منہ میں لے کر چوسنے لگتا ہے تاکہ اپنی غذا حاصل کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس بچے کو یہ کون سکھاتا ہے کہ تیری غذا ماں کی چھاتی میں ہے اور تجھے اس طرح اسے چوسنا ہے یہ وہ اندرونی الہام ہے جس کے ذریعے انسان کو سب سے پہلی ہدایت دی جاتی ہے۔ ہدایت حواس 2 ہدایت کا دوسر امرتبہ حواس اور مدرکات ذہنی کی ہدایت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اس جوہرِدماغ سے محروم ہیں جسے عقل و فکر سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم فطرت نے انھیں ادراک و احساس کی کی وہ تمام قوتیں دے دی ہیں جن کی زندگی ومعیشت کے لیے ضرورت تھی اور ان کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، توالد وتناسل اور ہدایت و نگرانی کے تمام فرائض حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس وادراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لیے ایک ہی طرح کی نہیں بلکہ ہر وجود کو اتنی ہی اور ویسی ہی استعداددی گئی جیسی استعداد اس کے احوال فطرت کے لیے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوت شامہ نہایت دوررس ہوتی ہے اس لیے کہ اسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کرتی ہے، چیل اور عقاب کی نگاہ تیزہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اڑتے ہوئے اپنا شکار نہ دیکھ سکیں یہی وہ ہدایت ہے جس کی طرف حضرت مو سیٰ (علیہ السلام) کی زبانی ارشاد کیا گیا ہے فرعون نے جب پوچھا : فَمَنْ رَّبُّـکُمَا یَامُوْسٰی (طٰہٰ 20: 49) (اے موسیٰ تمہارا پروردگار کون ہے ؟ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : قَالَ رَبُّنَاالَّذِیْ ٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھُدٰی (طٰہٰ 20: 50) (ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اسے ہدایت دی) یعنی اس پر زندگی اور معیشت کی راہ کھول دی۔ پھر یہی وہ ہدایت ہے جسے دوسری جگہ راہ عمل آسان کردینے سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ فرمایا : مِنْ اَیِّ شَیْ ئٍ خَلَقَہٗ ۔ ط مِنْ نُطْفَۃٍ ط خَلَقَہٗ فَقَدَّ رَہٗ ۔ لا ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ ۔ لا (عبس 80: 18۔ 20) (اس نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا۔ نطفہ سے پیدا کیا پھر اس کی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں کے لیے ایک اندازہ ٹھہرادیا پھر اس پر زندگی اور عمل کی راہ آسان کردی) ہدایت کے یہ دو مرتبے ہوئے جسے ہم ہدایتِ الہام اور ہدایتِ حواس کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دونوں مرتبے انسان اور حیوان سب کے لیے ہیں۔ الہام کی ہدایت انسان اور حیوان میں سعی و طلب کا ولولہ پیدا کرتی ہے۔ حواس کی ہدایت کا مرتبہ اس سے بلند تر ہے۔ یہ ہمیں دیکھنے، سننے، چکھنے، چھونے اور سونگھنے کی قوتیں بخشتی ہیں اور انہی کے ذریعے ہم خارج کا علم حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ ہدایت ہمارے لیے معلومات بہم پہنچاتی ہے۔ جوہرعقل 3 حیوان کے لیے تو ہدایت کے یہ دونوں مرتبے کافی ہیں۔ کیونکہ اسے زندگی کا جو طریقہ اور جو نصب العین سکھایا گیا ہے اس کے لیے کسی تیسرے مرتبہ ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن انسان کے حیوان کے لیے تو ہدایت کے یہ دونوں مرتبے کافی ہیں کیونکہ اسے زندگی کا جو طریقہ اور جو نصب العین سکھایا گیا ہے اس کے لیے کسی تیسرے مرتبہ ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن انسان کے لیے ایک تیسرے مرتبہ ہدایت کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے لیے مجرد احساس کافی نہیں اور نہ صرف محسوسات کا علم اس کے لیے کفایت کرتا ہے۔ انسان کو تو استنباط اور استنتاج کی بھی ضرورت ہے۔ احکام کی بھی ضرورت ہے اور کلیات کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ کام صرف حواس کی ہدایت سے ممکن نہیں۔ اس لیے انسان کو ایک تیسرے مرتبہء ہدایت سے نوازا گیا۔ یہ وہ ہے جسے جوہرِ عقل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جوہرِ عقل دراصل اسی قوت کی ایک ترقی یافتہ حالت ہے جس نے حیوانات میں الہام ووجدان اور حواس کی روشنی پید اکردی ہے۔ جس طرح انسان کا جسم اجسام ِ ارضی کی سب سے اعلیٰ کڑی ہے اسی طرح اس کی معنوی قوت بھی تمام معنوی قوتوں کا برترین جوہر ہے۔ روح حیوانی کا وہ جو ہرِادراک جو نباتات میں مخفی اور حیوانات کے وجدان و مشاعر میں نمایاں تھا انسان کے مرتبہ میں پہنچ کردرجہء کمال تک پہنچ گیا اور جو ہر عقل کے نام سے پکارا گیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہدایتِ فطرت کے ان تینوں مرتبوں میں سے ہر مرتبہ اپنی قوت و عمل کا ایک خاص دائرہ رکھتا ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر اس مرتبہ سے ایک بلند تر مرتبہ موجود نہ ہوتا تو ہماری معنوی قوتیں اس حد تک ترقی نہ کرسکتیں جس حد تک فطرت کی رہنمائی سے ترقی کررہی ہیں۔ الہام کی ہدایت ہم میں طلب و سعی کا جوش پیدا کرتی ہے۔ مطلوبات زندگی کی راہ پر لگاتی ہے۔ لیکن ہمارے وجود سے باہر جو کچھ موجود ہے اس کا ادراک حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ کام حواس کی ہدایت کا ہے۔ وجدان کی راہنمائی جب درماندہ ہوجاتی ہے تو حواس کی دستگیری نمایاں ہوتی ہے۔ آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں، زبان چکھتی ہے، ہاتھ چھوتا ہے، ناک سونگھتی ہے۔ اور اس طرح ہم اپنے وجود کے باہر کی تمام محسوس اشیا کا ادراک حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد تک ہی کام دے سکتی ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ آنکھ دیکھتی ہے مگر صرف اسی حالت میں جبکہ دیکھنے کی تمام شرطیں موجود ہوں اور اگر کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے۔ مثلاً روشنی نہ ہو یا فاصلہ زیادہ ہو تو ہم آنکھ رکھتے ہوئے بھی ایک موجودچیز کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ علاوہ بریں حواس کی ہدایت صرف اتنا ہی کرسکتی ہے کہ اشیا کا احساس پیدا کردے لیکن مجرد احساس کافی نہیں ہے ہمیں استنباط واستتناح کی بھی ضرورت ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم کلیات وضع کرتے ہیں اور کلیات سے احکام نکالتے ہیں۔ اور یہ کام عقل کی ہدایت کا ہے۔ اسے مثال سے یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ حواس تعمیر کے کام میں مزدوروں کی طرح ہیں۔ جن کا کام خام مواد مہیا کرنا، بکھری ہوئی چیزیں فراہم کرنا اور مسالہ بہم پہنچانا ہے اور عقل کی حیثیت ایک معمار کی ہے جس کا کام بکھرے ہوئے مواد کو جوڑ کر ایک عمارت کی تشکیل دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حواس کے بعد عقل کا جوہر عطا نہ کیا جاتاتو ہماری بکھری ہوئی معلومات، ہمارے منتشر محسوسات، ہماری زندگی کے کسی شعبہ کے لیے معاون ثابت نہ ہوتے کیونکہ ان سے کام لینا، انھیں ترتیب دینا اور ان سے کلیات وضع کرنا اور پھر ان سے احکام استنباط کرنا۔ عقل کا کام ہے اور عقل کی عدم موجودگی میں ظاہر ہے یہ کام نہیں ہوسکتا تھا اور ہم زندگی کے میدان میں ناکام ہوجاتے۔ پھر ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وجدان اور فطری الہام کی نگرانی کے لیے حواس کی راہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ وجدان اور احساس غلطیوں سے مبرا نہیں۔ ان کی تصحیح و نگرانی کے لیے ہمیں حواس کی راہنمائی کی ضروت ہے اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حواس کی راہنمائی بھی نارسائی کا شکار ہوتی ہے اور غلطیوں سے محفوظ بھی نہیں۔ مثلاً ہم دور سے ایک چیز دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ایک سیاہ نقطے سے زیادہ حجم نہیں رکھتی۔ حالانکہ وہ ایک عظیم الشان گنبد ہوتی ہے۔ ہم بیماری کی حالت میں شہد جیسی میٹھی چیز چکھتے ہیں لیکن ہماری قوت ذائقہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ اس کا مزاکڑوا ہے۔ ہم تالاب میں لکڑی کا عکس دیکھتے ہیں لکڑی بالکل سیدھی ہوتی ہے۔ لیکن عکس میں ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی عارضے کی وجہ سے کان بجنے لگتے ہیں اور ہمیں ایسی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں اب اگر مرتبہء حواس سے ایک بلند تر مرتبہء ہدایت کا وجود نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ ہم حواس کی درماندگیوں میں حقیقت کا سراغ پاسکتے لیکن ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت نمودار ہوتی ہے۔ وہ حواس کی درماندگیوں میں ہماری راہنمائی کرتی ہے وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ سورج ایک عظیم الشان کرہ ہے۔ اگرچہ ہماری آنکھ اسے ایک سنہری تھال سے زیادہ محسوس نہیں کرتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہے کہ شہد کا مزاہر حال میں میٹھا ہے اور اگر ہمیں کڑوا محسوس ہوتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ ہمارے منہ کا مزا بگڑ گیا ہے۔ وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ بعض اوقات خشکی بڑھ جانے سے کان بجنے لگتے ہیں۔ اور ایسی حالت میں جو صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ خارج کی صدائیں نہیں خود ہمارے دماغ کی گونج ہوتی ہے۔ عقل کو مکمل ہدایت تسلیم کرنے کے نقصانات گزشتہ معروضات میں آپ نے دیکھا کہ وجدان اور الہام کی ہدایت کے بعد حواس کی ہدایت نمودار ہوئی کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اور پھر حواس کے بعد عقل کی ہدایت نمودار ہوئی۔ کیونکہ حواس کی ہدایت بھی ایک خا ص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اور اس کے ساتھ یہ بات بھی کہ وہ غلطیوں اور نارسائیوں سے محفوظ بھی نہیں تھی۔ ٹھیک اسی طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ دونوں کمزوریاں عقل کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ عقل زندگی کے ہر شعبہ میں نہ تو مکمل رہنما ہے اور نہ بالکل صحیح رہنما ہے۔ اس کا بھی ایک محدود دائرئہ عمل ہے جس سے یہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اور اس کی کارفرمائی بھی غلطیوں سے مبرانھیں۔ کیونکہ اس کا دائرہ عمل جیسا کچھ بھی ہے وہ محسوسات کے دائرے میں محدود ہے۔ یعنی وہ صرف اس حد تک کام دے سکتا ہے۔ جس حدتک ہمارے حواس خمسہ معلومات بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن محسوسات کی سرحد سے آگے کیا ہے ؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے ؟ جس سے آگے ہماری چشم حواس نہیں بڑھ سکتی۔ یہاں پہنچ کر عقل یک قلم درماندہ ہوجاتی ہے اور اس کی ہدایت ہمیں کوئی روشنی نہیں دے سکتی۔ بقول اقبال : خرد سے راہ رو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہگذر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے یوں کہنا چاہیے کہ عقل ایک صحیح راہنما ہے۔ لیکن مکمل نہیں۔ غلطی ہماری ہے کہ ہم اسے ایک مکمل راہنما سمجھ کر زندگی کے ہر دائرہ عمل میں اس سے راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی آدمی نے کسی صراف سے یہ پوچھا کہ صراف میاں تمہارا میزان کیسا ہے ؟ اس نے کہا بالکل صحیح ہے۔ بالکل صحیح تولتا ہے۔ ذرہ بھر کمی بیشی نہیں ہونے دیتا۔ اس نے کہا اگر تمہاری بات صحیح ہے تو پھر اس میں اپنی دکان تول کر دکھائو۔ اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا بھلے آدمی یہ دکانیں تولنے کے لیے تھوڑے بنایا گیا ہے۔ اس میں تو سونا چاندی تولتے ہیں۔ اس نے کہا کہ تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا میزان صحیح ہے۔ اس نے کہا میں نے صحیح کہا تھا۔ یہ غلطی میزان کی نہیں تمہاری ہے کہ تم اس میں وہ چیز تلوانا چاہتے ہو جو اس کے دائرہ ٔ کار سے باہر ہے۔ ہم بھی عقل سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جو اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کا دائرئہ کار محسوسات تک محدود ہے۔ طبیعات تک محدود ہے رہی یہ بات کہ محسوسات کے دائرہ کے پیچھے کیا ہے اور مابعد الطبعیات کیا ہے عالم لاہوت اور عالم الٰہیات کیا ہے، عالم ملکوت کا کیا حال ہے ؟ عالم برزخ میں کیا ہو رہا ہے ؟ عالم آخرت میں کیا ہوگا ؟ موت اور زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ روح کس چیز کا نام ہے کائنات کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے ؟ اللہ کی صفات کیا ہیں ؟ اخلاقی مسلمات کی حقیقت کیا ہے ؟ قوموں کے عروج وزوال کے اصل اسباب کیا ہیں ؟ وہ اخلاقی نقطہ کیا ہے جس سے انسانیت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر انسانیت پروان چڑھتی ہے ؟ انسانیت کے مسلّمہ مسائل کا اجتماعی حل کیا ہے ؟ انسان کے اندر بیٹھا ہوا انسان کس چیز سے مرتا اور کس چیز سے جیتا ہے ؟ یہ وہ زندگی اور کائنات کے حقائق ہیں جس سے پردہ اٹھانا عقل کی بساط سے باہر ہے۔ لیکن جب ہم انہی چیزوں کا جواب عقل سے مانگتے ہیں تو ہم اس پر ایک ایسابوجھ لاد دیتے ہیں جس کا تحمل اس میں نہیں ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے بالکل پیش پا افتادہ حقائق بھی انسانی عقل کی گرفت سے باہر معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ غور فرمایئے کہ نفس انسانی طرح طرح کی خواہشوں اور جذبوں میں کچھ اس طرح گھرا ہوا ہے بلکہ اس طرح مقہور واقع ہوا ہے کہ جب بھی عقل اور جذبات میں کشمکش ہوتی ہے تو اکثر حالتوں میں فتح جذبات ہی کی ہوتی ہے۔ بسا اوقات عقل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ فلاں فعل مضر اور مہلک ہے لیکن جذبات ہمیں ترغیب دیتے ہیں اور ہم اس کے ارتکاب سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتے۔ عقل کی بڑی سے بڑی دلیل بھی ہمیں ایسا نہیں بنا دے سکتی کہ غصے کی حالت میں بےقابو نہ ہوجائیں اور بھوک کی حالت میں مضر غذ ا کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں۔ جذبات تو پھر بھی ایک زور دار شے ہے۔ وہم تو انسانی احساسات میں سے ایک کمزورحس کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات وہم جیسا کمزور جذبہ بھی عقل انسانی پر غالب آجاتا ہے۔ عقل جانتی ہے کہ ایک انسان کو گزرنے کے لیے ایک فٹ یا زیادہ سے زیادہ دو تین فٹ چوڑی گزرگاہ کافی ہے۔ اگر کسی عقل کے پرستار سے یہ پوچھا جائے کہ دریا کے اوپر گزرگاہ بنانے کے لیے کتنا چوڑا پل ہونا چاہیے تو وہ عقل کے مطابق اتنی ہی چوڑائی تجویز کرے گا۔ لیکن اگر کسی عقل کے پرستار سے کسی ایسے پل پر سے گزرنے کو کہا جائے جو تین فٹ چوڑا ہو لیکن اس کے نیچے سے گزرنے والادریا طغیانی پر آیا ہوا ہو جس کی موجیں اچھل کر دریا کے پل کو چھو رہی ہوں تو یہی عقل کا پرستار کبھی اس پل پر سے گزرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ بلکہ اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوکرگزرنے سے صاف انکار کردے گا۔ غور فرمائیے کہ جس عقل کو جذبات اپنا اسیر بنالیں اور وہم اسے شکست دے دے وہ زندگی کے معامالات حل کرنے میں کہاں تک مئو ثر ہوسکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ عقل کے میزان ہونے اور موثر رہنما ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب اس کے دائرہ کار سے باہر اس کو استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے ایک مکمل رہنما سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی کمزوری کا عالم بھی آپ نے دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو جذبات اور وہم کی زنجیروں سے آزاد کرنے سے بھی عاجز ہے۔ یہاں تک تو معاملہ پھر بھی عقل کے موثر نہ ہونے کا ہے لیکن اس وقت تو معاملہ بہت خطرناک ہوجاتا ہے جب عقل نہ صرف یہ کہ موثر نہیں رہتی بلکہ بعض دفعہ اپنی رہنمائی میں وہ غلط نتائج پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں اخلاقی زندگی تباہ و برباد ہوکررہ جاتی ہے۔ یہ موقع وہ ہے جب عقل کو خواہشات کا غلام بنادیا جاتا ہے انسان عجیب واقع ہوا ہے کہ وہ اصلاً ان خواہشات کی پیروی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے بروئے کارلاتے ہوئے نام عقل کا رکھتا ہے۔ حالانکہ اگر دیانت داری سے غور کیا جائے تو وہاں عمل دخل عقل کا نہیں بلکہ سراسر خواہشات کا ہوتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کریم نے ایک جگہ ارشاد فرمائی : وَلَوِاتَّبَعَ الحَقَّ اَھَوَاَئَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتَ وَلْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ (المومنون : 23۔ 17) (کہ اگر حق ہوائے نفس کی پیروی کرنے لگے تو زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ ہے وہ تباہ ہوجائے ) اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ فلسفہ قانون میں فلاسفہ کا ایک گروہ پایا جاتا ہے جن کا نمایاں نمائندہ مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فرائیڈ میں ہے۔ انھوں نے اپنے نظریہ کی وضاحت کے لیے ” دی لیگل تھیوری “ کے نام سے ایک کتاب لکھی اس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : ” عقل صرف انسانی جذبات و خواہشات کی غلام ہے اور اس کو انہی کا غلام ہونا بھی چاہیے۔ عقل کا اس کے سوا اور کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ان جذبات کی بندگی اور ان کی اطاعت کرے۔ “ پھر اس نظرئیے سے جو نتیجہ نکلنا چاہیے وہ ڈاکٹر فرائیڈ میں کے الفاظ میں یہ ہے کہ : ” اس کے سوا ہر چیز یہاں تک کہ اچھے برے کے تصورات اور یہ الفاظ کہ فلاں کام ہونا چاہیے اور فلاں کام ہونے کے لائق ہے کلی طور پر جذباتی باتیں ہیں اور دنیا میں اخلاق نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ “ ممکن ہے کہ آپ اسے محض ایک فلسفی کی بڑسمجھیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں عقل کی برتری کا دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ عقل کی غلامی کی جارہی ہے وہاں عملی زندگی میں یہی فلسفہ ہمیں حاکم دکھائی دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاق کی ہر قدر رفتہ رفتہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ رحم اتنی بڑی اخلاقی قدر ہے کہ شائد کوئی اس کا انکار نہ کرسکے۔ ہیرو شیما اور ناگاسا کی پر گرائے جانے والے بموں سے انسانیت پر جو ظلم ہوا انسانیت کی پیشانی آج بھی اس سے عرق آلود ہے۔ لیکن اندازہ فرمائیے کہ جب اس واقعہ کو خالصتاً عقل کی نگاہ سے دیکھا گیا تو اسے ظلم کی بجائے رحم بنادیا گیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جیسی علمی اور عالمی کتاب میں ان تباہ کاریوں کا ذکر بعد میں کیا گیا جو ایٹم بم کی بدولت ہیرو شیما اور ناگاسا کی میں برپا ہوئیں لیکن ایٹم بم کے تعارف میں یہ جملہ سب سے پہلے لکھا گیا ہے : ” سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ایٹم بم نے جنگ کو مختصر کرکے دس لاکھ امریکی سپاہیوں اور اڑھائی لاکھ برطانوی سپاہیوں کی جانیں بچائیں۔ “ انداہ فرمائیے کہ اس قسم کی منطق میں کون سے ظلم وستم اور کون سی سفاکی ایسی ہے جسے عقل کے خلاف کہا جاسکے۔ اسی طرح شرم وحیا انسان کا سب سے بڑا جوہر ہے لیکن خالص عقل کے پیروکاروں نے جس طرح اس کی مٹی پلید کی ہے اور اس بنیادی قدر کو جس طرح انسانی زندگی سے خارج کردیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے میں شرم وحیاء سے معذرت کے ساتھ آٹھ سو سالہ پرانی ایک مثال پیش کررہا ہوں۔ تاریخ اسلام میں ایک فرقہ ” باطنیہ “ کے نام سے گزرا ہے۔ اس کا ایک مشہور لیڈر عبیداللہ القیروانی اپنے ایک مکتوب میں لکھتا ہے : وما العجب من شئی کالعجب من رجل یدعی العقل ثم یکون لہ اخت او بنت حسناء ولیست لہ زوجۃ فی حسنھا فیحرمھا علی نفس وینکحھا من اجنبی ولو عقل الجاھل لعلم انہ احق باختہ وبنتہ من الاجنبی وماوجہ ذلک الاان صاحبھم حرم علیھما الطیبات (الفرق بین الفرق لعبدالقاہر البغدادی) اس سے زیادہ تعجب کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک شخص عقل کا دعویدار ہونے کے باوجود ایسی حماقتیں کرتا ہے کہ اس کے پاس نہایت خوبصورت بہن یا بیٹی موجود ہوتی ہے اور خود اس کی بیوی اتنی حسین نہیں ہوتی مگر وہ اس خوبصورت بہن یا بیٹی کو اپنے اوپر حرام قرار دے کر اسے کسی اجنبی سے بیاہ دیتا ہے حالانکہ ان جاہلوں کو اگر عقل ہوتی تو وہ یہ سمجھتے کہ ایک اجنبی شخص کے مقابلے میں اپنی بہن اور بیٹی کے وہ خود زیادہ حق دار ہیں۔ اس بےعقلی کی وجہ دراصل صرف یہ ہے ان کے آقا نے ان پر عمدہ چیزوں کو حرام کردیا ہے۔ آپ ممکن ہے کہ اسے آٹھ سو سالہ پرانی غیر ترقی یافتہ حالت کی عکاس سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں جس طرح عقل خالص کی پیروی میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح اس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار کی پامالی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کے دور میں بہن سے نکاح باقاعدہ ایک نعرہ بن چکا ہے اور امریکہ کی بعض ریاستوں میں باقاعدہ اس کے حق میں جلوس نکالے گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اس بداخلاقی کو روکنے کے لیے میڈیکل سائنس کے حوالے سے یہ دلیل دی جاتی رہی ہے کہ استلذاذ بالاقارب سے طبی نقصانات ہوتے ہیں۔ لیکن آج مغربی دنیا میں اس موضوع پر کتابیں آرہی ہیں انھوں نے نہ صرف ان طبی نقصانات کی توجیہ کو غلط ثابت کردیا ہے بلکہ استلذاذ بالاقارب کو انھوں نے انسان کی فطری خواہش یعنی ہیومن ارج (Human Urge) قرار دے کر انسان کا بنیادی حق تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے اور اس پر باقاعدہ کتابیں لکھی جا رہیں ہیں۔ اور اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ ہم جنس پرستی کے جواز کابل تالیوں کی گونج میں منظور کرچکی ہے اور یہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی قابل نفرت خصلت جس کیوجہ سے قوم لوط پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ نہ صرف کوئی برائی نہیں رہی بلکہ اسے باقاعدہ ایک علم بنادیا گیا ہے۔ آپ امریکہ کی لائبریریوں میں جائیں تو وہاں آپ کو اس برائی کے حق میں لکھی ہوئی کتابوں پر مشتمل علیحدہ سیکشن ملے گا۔ جس کا عنوان ہوگا۔” گے اسٹائل آف لائف “ (Gay Style of life) چند سال پیشتر امریکی رسالے ٹائم نے لکھا کہ خلیج کی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں میں سے تقریباً ایک ہزار افراد کو صرف اس لیے فوج سے نکال دیا گیا کہ وہ ہم جنس پرست تھے۔ لیکن اس اقدام کے خلاف امریکہ میں شور مچ رہا ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں اور چاروں طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ آپ نے جن لوگوں کو ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے فوج کے عہدوں سے برخاست کیا ہے یہ آپ نے ایک خلاف ِعقل حرکت کی ہے۔ اس لیے ان کو دوبارہ بحال ہونا چاہیے اور اس کے حق میں دلیل یہ دی جارہی ہے کہ یہ ایک ہیومن ارج ہے اور ہیومین ارج کو دبایا نہیں جاسکتا اور یہ سب کچھ عقل کی بنیاد پر ہورہا ہے اور اب تو یہ معاملہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ بات صرف جنس انسانی کی نہیں رہی بلکہ اب تو جانوروں کتوں، گدھوں اور گھوڑوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور اس کو بھی باقاعدہ فخریہ بیان کیا جارہا ہے۔ وحی نبوت کی ہدایت اس تمام بحث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان اور حیوان کی زندگی کے تحفظ اور اس کو معیشت کی راہ پر لگانے کے لیے سب سے پہلے فطری رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ایک خاص حد تک اپنا کام کرتی ہے۔ اس کے بعد باہر کی زندگی کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے حواس خمسہ کی راہنمائی مہیا فرمائی۔ حواس خمسہ نے محسوسات کے دائرے میں رہ کر انسانی زندگی کو آگے بڑھایا۔ پھر جب انسان کے قدم محسوسات سے آگے بڑھے تو اسے عقل کی راہنمائی عطا فرمائی گئی۔ اب ہم نے تفصیل سے دیکھا کہ عقل انسان کی راہنمائی کے لیے بہت موثر رہنماہونے کے باوجود اعمال کی درستگی اور انضباط کے لیے کافی نہیں۔ وہ قدم قدم پر جذبات کی اسیر ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ قوت واہمہ سے شکست کھاجاتی ہے اور اگر یہ جذبات ہوائے نفس کی لپیٹ میں آجائیں تو پھر عقل نہ صرف اس کے سامنے بےدست و پا ہوجاتی ہے بلکہ عموماً وہ ہوائے نفس کی وکالت کرنے لگتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاقی قدریں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ عقلی مسلمات شکست وریخت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اب جس پروردگار نے قدم قدم پر حیوان اور انسان کی راہنمائی فرمائی کیا یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کو غلطان وپیچان چھوڑدے کہ وہ ہوائے نفس کا شکار ہو کر اپنی زندگی اور آخرت کو تباہ کرلے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس پروردگار کی رحمت سے یہ بات یقینا بعید ہے کہ وہ عقل کے بعد انسان کو کسی اور راہنمائی سے محروم فرمادے بلکہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جس طرح وجدان کے بعد حواس کی رہنمائی پروردگار نے عطا فرمائی اور حواس کے بعد عقل کی، اسی طرح اس نے اپنے ذمہ یہ بات لے رکھی ہے کہ عقل کے بعد زندگی کو رہنما سے محروم نہیں رکھے گا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جابجا ان مراتب ہدایت کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد فرمایا : اِنَّاخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ تَبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۔ اِنَّاھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّاشَاکِرًاوَّاِمَّاکَفُوْرًا۔ (الدھر 76: 2۔ 3) (ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا جسے ایک کے بعد ایک، مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں۔ پھر اسے ایسا بنادیا کہ سننے والا، دیکھنے والا وجود ہوگیا۔ ہم نے اس پر راہ عقل کھول دی۔ اب یہ اس کا کام ہے کہ یا تو شکر کرنے والاہو یاناشکرا۔ یعنی یا تو اللہ کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک ٹھیک کام میں لائے اور فلاح وسعادت کی راہ اختیار کرے یا ان سے کام نہ لے اور گمراہ ہوجائے ) اَ لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ ۔ لا وَلِسَانًاوَّشَفَتَیْنِ ۔ لا وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ ۔ ج (البلد 90: 8۔ 9) کیا ہم نے اسے ایک چھوڑ دو دو آنکھیں نہیں دے دی ہیں (جن سے وہ دیکھتا ہے) اور زبان اور ہونٹ نہیں دیئے ہیں (جو گویائی کا ذریعہ ہیں) اور کیا اس کو ہم نے (سعادت و شقاوت کی، دونوں راہیں نہیں دکھادیں ؟ ) وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ ۔ (السجدہ : 32۔ 9) (اور اللہ نے تمہارے لیے سننے اور دیکھنے کے حواس پیدا کردیئے اور سوچنے کے لیے دل (یعنی عقل) تاکہ تم شکر گزار رہو (یعنی اللہ کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک طریقہ پر کام میں لائو) ان آیات اور ان کے ہم معنی آیات میں حواس اور مشاعر اور عقل و فکر کی ہدایت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، لیکن وہ تمام مقامات جہاں انسان کی روحانی سعادت و شقاوت کا ذکر کیا گیا ہے وحی ونبوت کی ہدایت سے متعلق ہیں۔ مثلاً اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی۔ ز وَاِنَّ لَنَالَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلیٰ ۔ (الیل 92: 12۔ 13) (بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم راہنمائی کریں اور یقیناآخرت اور دنیادونوں ہمارے ہی لیے ہیں) یعنی دنیا وآخرت کی ضرورتوں کے لیے رہنمائی ہماری ذمہ داری ہے۔ وَاَماَّ ثَمُوْدُفَھَدَیْنٰـھُمْ فَاسْتَحَبُّوالْعَمٰی عَلَی الْھُدٰی (حم السجدہ 41: 17) اور باقی رہی قوم ثمود، تو اسے بھی ہم نے راہ حق دکھلادی تھی۔ لیکن اس نے ہدایت کی راہ چھوڑکر اندھے پن کاشیوہ اختیار کیا) وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَالَنَھْدِیْنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ ع (العنکبوت 29: 69) (اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جانفشانی کی تو ضروری ہے کہ ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیں اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو نیک عمل ہیں) انسانی زندگی کی ضرورتیں جہاں کھانا پینا، اوڑھنا پہننا، لوگوں سے میل جول رکھنا، عناصر قدرت اور عناصر فطرت سے مستفید ہونا ہیں وہاں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ یہ جانے کہ باہمی میل جول کے آداب کیا ہیں، خود میری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ میری زندگی کے کیا فرائض اور کیا حقوق ہیں ؟ شائستگی اور دل بستگی کیا ہے ؟ ان کے آداب کیا ہیں ؟ دوسروں کے مجھ پر حقوق کیا ہیں ؟ ہمسائیگی کیا ہے ؟ اخوت و محبت کسے کہتے ہیں ؟ ماں باپ کا احترام کیا ہے ؟ علم کس چیز کا نام ہے اور اس کی حدود کیا ہیں ؟ عورت اور مرد کا رشتہ کیا ہے اور اس کی نزاکتیں کیا ہیں ؟ محرم کسے کہتے ہیں اور نامحرم کون ہے ؟ عبادات کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ دنیا ہمیشہ رہے گی یا ختم ہوجائیگی ؟ اس کا انجام فنا ہے یا بقاء ہے ؟ کیا کوئی دوسری دنیا بھی ہے ؟ تو اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا میں مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاؤں گا ؟ یہ عالم برزخ کیا ہے ؟ اور عالم آخرت کیا ہے ؟ اللہ کی صفات کیسی ہیں ؟ وہ اگر ہمارا مالک ہے تو وہ کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے ؟ قربانیوں کی حقیقت کیا ہے ؟ آدمی ایک دوسرے کے لیے ایثار کرتا ہے تو اس کا صلہ کیا ہوگا ؟ اخلاقی مسلمات کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے ؟ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب کیا ہیں ؟ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کن کاموں سے زندہ ہوتی ہے اور کن کاموں سے مرجاتی ہے ؟ اور اسی طرح کے بیشمار سوالات ہیں جن کا جواب انسان کو ملنا چاہیے۔ مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ان کا جواب نہ حواس کے پاس ہے اور نہ عقل کے پاس۔ اب اگر ہمیں اپنے محسوسات کی دنیا میں جوابات دینے کے لیے حواس و عقل کی راہنمائی دی گئی ہے تو کیا عالم ناسوت اور عالم ملکوت کی حقیقتوں کے لیے اور اپنی دنیا میں سرفرازی اور آخرت میں سرخروئی کے لیے اور اس آنکھ کے پردے کے پیچھے کے حقائق کو جاننے کے لیے ہمیں کوئی راہنمائی نہیں دی جائے گی ؟ اور ہم بیخبر ی میں غلط سلط فیصلے کرتے رہیں گے۔ یقیناوہ ذات جس نے چیونٹی تک کی ضرورتیں پوری کی ہیں وہ انسان کو اس سے بیخبر نہیں رکھ سکتی۔ چناچہ اس نے حواس و عقل کے ذریعے کے بعد ہمیں ایک اور ذریعہء علم بھی بخشا جس کا نام وحی اور رسالت ہے اور اس وحی کے حاملین کو پیغمبر نبی یا رسول کہتے ہیں۔ اس ذریعہ سے انسانوں کو وہ سب کچھ بتایا گیا جو اس کی دنیوی، اخروی اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورت تھی۔ بلکہ اس ذریعہ علم کے ذریعے انسانوں کی دنیا بھی اور آخرت بھی تباہ ہونے سے بچالی گئی۔ تاریخی حقائق ہمارے سامنے ہیں کتنی قومیں اس صفحہ ہستی پر قوت کانشان بن کر اٹھیں لیکن اپنی اخلاقی بےراہ روی اور غلط فیصلوں کے نتیجے میں اللہ کے عذاب کانشانہ بنیں۔ آسمانی کتابوں نے جابجا اس تاریخ کو بیان کیا ہے تاکہ انسان اس بات کو سمجھے کہ انسانی بقاء کا دارومدار اس کی اخلاقی زندگی اور توانائی پر ہے۔ کیونکہ اخلاقی زندگی میں گراوٹ انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ بلکہ انسانیت سے تہی دامن کردیتی ہے۔ وہ شرم وحیا سے عاری ہوکر کتوں، بلیوں کی سطح پر آجاتا ہے۔ رحم و مروت سے بےبہرہ ہوکر درندوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ حرام و حلال سے بےگانہ ہو کر حشرات الارض کی جگہ نشے کی حالت میں گلی کوچوں میں پڑا دکھائی دیتا ہے۔ آخرت کی محبت سے محروم ہو کر اور حب دنیا کا اسیر بن کر بندہ درہم و دینار بن جاتا ہے۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اس ذریعہ علم کو پہچانیں جسے وحی الہٰی کہا جاتا ہے۔ چناچہ اسی علم کی یافت اور اسی دولت کے حصول کے لیے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ لا ہمیں سیدھی راہ دکھا۔ کیونکہ یہ وہ ہدایت ہے جس کا سر رشتہ سراسر پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ اس ہدایت کا تعلق ان معاملات سے ہے جن کا حل کرنا فطری الہام حواس خمسہ اور عقل کے بس کا کام نہیں جس کی تفصیل ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں اور دوسری طرف انسانی زندگی کی ضرورت کا حال یہ ہے کہ وہ اس علم اور ہدایت کے بغیر چند قدم بھی سفر نہیں کرسکتی۔ دین اور دنیا دونوں میں کامیابی کی ضمانت اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہی راہنمائی اور ہدایت ہے اور مزید یہ بات بھی کہ یہاں جس ہدایت کے لیے دعا کی تلقین کی گئی ہے وہ صرف ذہنی یا عملی راہنمائی کے لیے ہی نہیں بلکہ قلب و ضمیر کی راہنمائی بھی ہے۔ انسانی عقل بڑے سے بڑا معجزہ بھی اگر سر کر ڈالے تو اس کا تعلق یقینا انسانی ذہن سے ہوتا ہے لیکن جہاں تک قلبی نور و بصیرت اور انسان کے احساسات کی تطہیر کا تعلق ہے اور قوت عمل میں افزونی اور قبولیت میں آسانی کا تعلق ہے جسے توفیق کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ تو سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ اس کے سوا کوئی عطا نہیں کرسکتا اور یہاں جس صراط مستقیم کی ہدایت کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے اس میں صرف صراط مستقیم کی عطا ہی شامل نہیں بلکہ اس کے لیے حالات کو ہموار کرنا توفیق عطا ہونا اور قبولیت کی امید پیدا ہونا یہ سب کچھ شامل ہے۔ ہدایت کی اس وسعت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی دولت ہے جو یقینا اللہ ہی سے مانگی جاسکتی ہے اور وہی اس کا عطا کرنے والا بھی ہے۔ اس عظیم دولت کی تعبیر یہاں اس قدر سہل اور آسان بنا کے پیش کی گئی ہے کہ اس سے زیادہ آسان تعبیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہدایت کا لفظ بھی جانا پہچانا ہے اور صراط مستقیم بھی ایک آسان ترکیب ہے جو نہ صرف عربی زبان میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے بلکہ اس کا مفہوم اور معنی تو ہر زبان میں بکثرت مستعمل ہے لیکن یہ دونوں لفظ چونکہ قرآن پاک کی اصطلاح بن چکے ہیں اس لیے قرآن پاک نے مختلف مقامات پر انھیں جن معنوں میں استعمال کیا ہے اس سے ایک مفہوم متعین کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نہایت اختصار سے اس کی کسی حد تک وضاحت کردیں۔ ہدایت کا مفہوم ہدایت کا لفظ جس طرح راہنمائی کرنے، راہ دکھانے اور راہ پر لگا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح یہ منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک مسافر جب کسی سے راستہ پوچھتا ہے تو راستہ بتانے والا کبھی تو اسے وہیں کھڑا کھڑا ہاتھ کے اشارے سے مختلف نشانات بتا کر راستے کو واضح کردیتا ہے، اسے راستہ دکھانا اور عربی میں اراء الطریق کہتے ہیں اور دوسری صورت راستہ بتانے کی یہ ہوتی ہے کہ مسافر کا ہاتھ پکڑ کر اسے منزل تک پہنچا دیا جائے۔ اسے ایصال الی المطلوب کہتے ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ راستہ چلنے والا اپنی منزل کی دوری اور راستے کی دشواریوں کے باعث گھبرا اٹھتا ہے۔ بعض دفعہ سفر کے آغاز ہی کے لیے تیار نہیں ہوتا اور بعض دفعہ راستہ کی کٹھنائیاں دیکھ کر سفر کا ارادہ چھوڑ دیتا ہے اور ناکامی کا داغ لیے اپنے گھر کو لوٹ آتا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اس کے دل میں سفر کی امنگ پیدا کی جائے، راستہ کی دشواریوں کو سر کرنے کے لیے حوصلے کی دولت دی جائے اور وہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ذہن میں یہ بات بٹھا لے کہ راہ کی سختیاں حقیقت میں سامان سفر ہوتی ہیں جس کے بغیر سفر کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ طبیعت میں اس کیفیت کا پیدا کرنا کبھی تو قلبی نور و بصیرت کے ذریعے ہوتا ہے کہ دل میں اک روشنی پیدا ہوتی ہے جس سے تمام تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور سفر کے آغاز کی ہمت ہوجاتی ہے اور کبھی دل میں حوصلے کی ایسی ترنگ اٹھتی ہے جو راہ کی سختیوں کو سفر کی سنت سمجھ کر برداشت کرنے کا شوق پیدا کرتی ہے، اسے اللہ کی توفیق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے تینوں معنوں میں ہدایت کے لفظ کو بار بار استعمال کیا ہے جب وہ کہتا ہے کہ قرآن کریم تمام جن و انس کے لیے ہدایت بن کر آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انھیں زندگی گزارنے کا وہ راستہ بتاتا ہے جس پر چل کر وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں اور جب وہ یہ بتاتا ہے کہ اصحاب کہف چند لڑکے بالے تھے جب وہ اللہ پر ایمان لے آئے اور پھر ایمان کے مطابق زندگی گزارنا، بت پرستوں کے دیس میں ان کے لیے مشکل ہوگیا اور دل ان کے ڈولنے لگے تو ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا یعنی ان کے دلوں کو حوصلے سے باندھ دیا اور ان کے دلوں میں وہ استقامت اور اولوالعزمی پیدا کی جس کے نتیجے میں وہ آبادی چھوڑ کر غاروں کا راستہ اختیار کرنے پر تیار ہوگئے۔ یہ وہ دل کا نور اور بصیرت ہے جس نے ان کے لیے مشکلات آسان کردیں اور کبھی قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط (الروم : 30۔ 69) جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی توفیق دیتے ہیں یعنی ان کے راستے کی دشواریاں ہم ان کے لیے سہل بنا دیتے ہیں اور منزل انھیں اس حد تک محبوب ہوجاتی ہے کہ وہ اس کی طرف بڑھنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے۔ اس تفصیل سے آپ کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجائیگی کہ سورة فاتحہ میں صراط مستقیم کی ہدایت کی جو دعا سکھائی گئی ہے وہ سب کے لیے ہے اس میں عوام بھی شامل ہیں اور خواص بھی حتی کہ انبیائے کرام بھی اللہ سے ہمیشہ یہی دعا مانگتے رہے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی ہمیشہ نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اگر ہدایت کا ایک ہی مفہوم ہوتا تو یقینا سب کے لیے مناسب نہ ہوتا۔ عوام کی دعا اور ہوتی اور خواص کی اور لیکن ہدایت کے ان مختلف مفاہیم کو دیکھ کر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر دعا مانگنے والا اپنے اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق اللہ سے ہدایت مانگتا ہے۔ پھر دل کا نور اور بصیرت سب کے لیے یکساں نہیں ہوتی۔ ایک عامی کے لیے اس کے دل و دماغ کے مطابق فی الجملہ اطمینان کافی ہے لیکن قربت خداوندی کے مسافروں کے لیے تو ہمت کے مطابق الگ الگ مقامات ہیں۔ کوئی ایک مقام پر پہنچ کر مطمئن ہوجاتا ہے تو دوسرا سالک اپنی منزل کو بہت دور سمجھتا ہے اس لیے وہ اگلے مقام کے لیے بےقرار رہتا ہے۔ اللہ کی توفیق سب کی دستگیری کرتی ہے۔ لیکن ہر ایک کو بقدر ہمت عطا ہوتی ہے۔ دل کا اطمینان دماغ کی آسودگی اور بندگی کا سوز و گداز اس دعا کے نتیجے میں سب کو ملتا ہے لیکن ہر ایک اپنے اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق نوازا جاتا ہے صالحین صلاحیتِ عمل سے نوازے جاتے ہیں اولیاء ودلایت کے مرتبے سے اور انبیا کرام نبوت کے مدارج اعلیٰ پر فائز کیے جاتے ہیں۔ اور پھر تمام انبیا بھی یکساں مقام نہیں رکھتے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ میں کبھی اپنے اللہ کے ساتھ ایسے قرب سے نوازا جاتا ہوں جہاں کسی مقرب فرشتے کا بھی گزر نہیں ہوتا۔ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کا مفہوم اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں ضمیر جمع کی ہے۔ حالانکہ ہر مانگنے والا واحد ہوتا ہے لیکن وہ اپنی دعا میں جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تیرے چاہنے والوں کے قافلے کا ایک فرد ہوں۔ میری عاجزی میری بےبسی میری بےبضاعتی میری کم ہمتی پر پروردگار نظر نہ فرما بلکہ جب اس قافلے کے بڑے بڑے لوگوں پر رحمت کی برکھا برسے تو میں بھی اسی بارش سے نہال کیا جاؤں۔ سمندر کا قطرہ بھی سمندر میں رہ کر سمندر ہی ہوتا ہے۔ میں بےقدرو بےقیمت سہی لیکن بڑے لوگوں کے ساتھ تیری رحمت یقینا مجھے ان کے ساتھ نوازنے میں بخل نہیں کرے گی۔ اس دعا میں صراط مستقیم کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ صراط کے معنی راہ کے ہیں اور مستقیم کے معنی سیدھا ہونے کے۔ پس صراط مستقیم ایسی راہ ہوئی جو سیدھی ہو کسی قسم کا پیچ و خم نہ ہو۔ اللہ کے دین کے لیے اس سے بہتر تعبیر ممکن نہیں۔ کیونکہ جب بھی آدمی کسی منزل پر پہنچنے کے ارادے سے نکلتا ہے تو اس کی سب سے پہلے کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں ایسا راستہ اختیار کروں جو سیدھا منزل تک جاتاہو۔ کیونکہ سیدھی راہ ہی ہمیشہ مختصر ہوتی ہے اور بالآخر وہی شاہراہ عام کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ جتنے غلط راستے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ طویل اور ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لیے دنیا کی ہر زبان میں ہمیشہ صحیح بات اور صحیح طرز عمل کو مستقیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ انسان کے فکر وعمل کا کوئی گوشہ ہو صحت و درستگی کی راہ ہمیشہ وہی ہوگی جو سیدھی راہ ہو، جہاں انحراف اور کجی پیدا ہوئی نقص و فساد ظہور میں آگیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں سیدھا ہونا اور سیدھی چال چلنا فلاح وسعادت کے معنی میں عام طور پر بولا جاتا ہے گویا اچھائی کے معنی میں یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو تمام نوع انسانی کی عالم گیر تعبیر کہی جاسکتی ہے۔ حضرت مسیح کے چار سو برس پہلے دارایوش اول نے جو فرامین کندہ کرائے تھے ان میں سے بےستون کا کتبہ آج تک موجود ہے۔ اور اس کا خاتمہ ان جملوں پر ہوتا ہے (اے انسان ! ہورامزد کا (یعنی خدا کا) تیرے لیے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر سیدھا راستہ نہ چھوڑ گناہ سے بچتارہ) خود پیغمبر اسلام ﷺ نے بھی حقیقت کی وضاحت کے لیے یہی تعبیر اختیار فرمائی۔ عن ابن مسعود قال خط لنا رسول اللہ ﷺ بیدہ ثم قال ھذا سبیل اللہ مستقیما ثم خط خطوطا عن یمین ذلک الخط وعن شمالہ ثم قال ھذہ السبیل لیس منھا سبیل الاعلیہ شیطان یدعوالیہ ثم قرء ھذہ الایۃ (اخرجہالنسائی و احمد و البزار و ابن منذر و ابو الشیخ و الحاکم وصحہ) (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا راستہ ہے، بالکل سیدھا اس کے بعد اس لکیر کے دونوں طرف بہت سی ترچھی لکیریں کھینچ دیں، اور فرمایا یہ طرح طرح کے راستے ہیں جو بنالیے گئے ہیں، اور ان میں کوئی راستہ نہیں جس کی طرف بلانے کے لیے ایک شیطان موجود نہ ہو۔ پھر یہ آیت پڑھی) وَاَنَّ ھٰذَاصِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمَا فَا تَّبِعُوْہُ ج (الانعام 6: 153) مزید ہم دیکھتے ہیں کہ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر الف لام عہد کا ہے اس سے یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اس صراط مستقیم سے ہر سیدھا راستہ مراد نہیں بلکہ کوئی خاص راستہ ہے جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے۔ چناچہ بعد کے الفاظ میں اس اشارے کو کھول دیا ہے۔ البتہ صراط مستقیم کے لفظ میں اس راستے پر چلنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ تم اس راستے پر چلنے سے پہلے گھبرا نہ جانا۔ کیونکہ یہ راستہ سیدھا راستہ ہے اور سیدھے راستے کبھی دشوار نہیں ہوتے وہ تمام راستوں میں قریب تر اور سہل تر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کو واضح کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے انعام کیا۔ ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا یا وہ گمراہ ہوئے۔ اس میں متعدد باتیں قابل غور ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ دعا مانگنے والاجو اس وضاحت سے صراط مستقیم کی دعا مانگ رہا ہے کیا وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر اس نے یہ وضاحت نہ کی تو اللہ تعالیٰ شاید اس کی دعا کو پوری طرح سمجھ نہ سکے کوئی بھی اس راستے کا مسافر ایسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ تو پھر اس وضاحت کا کیا مقصد ہوسکتا ہے ؟ معمولی سے تدبر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دعا مانگنے والا اس وضاحت سے اپنے شوق اور وارفتگی کا اظہار کررہا ہے۔ اور اس کا بےقرار دل عبادت کے جذبے سے سرشار اس راستے کی تلاش میں بےچین ہورہا ہے جس پر چل کر وہ اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق گزارسکتا ہے اور اللہ کی رضا کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اور وہ جلد از جلد ان بڑے لوگوں کے قافلے میں شریک ہونا چاہتا ہے جو اس صراط مستقیم پر چلنے میں کامیاب ہوئے اور اللہ کے انعام کے مستحق ٹھہرے۔ وہ اپنی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو دیکھتے ہوئے ان انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونا چاہتا ہے تاکہ ان کی قربت اور ان سے نسبت اس کی کوتاہیوں کی تلافی کردے۔ اور غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَالضَّآلِّیْنَ ۔ ع (الفاتحہ : 7) کہہ کر اپنی بےزاری اور نفرت کا اظہار ان لوگون سے کررہا ہے جنھوں نے صراط مستقیم پر چلنے سے انکار کردیا یا اس سے بھٹک گئے اور اس طرح وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے۔ اس طرح وہ اپنے لیے استقامت واستواری کی دعا کرتا ہے۔ اور ان لوگوں سے بچنے کی توفیق مانگتا ہے جو اس صراط مستقیم سے بےگانہ یا افراط وتفریط کا شکار ہیں۔
Top