Al-Qurtubi - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا، اور نہ گمراہوں کے
مسئلہ نمبر 29: صراط الذین انعمت علیھم صراط، الصراط سے بدل کل ہے جیسے تو کہتا ہے : جاء بی زید ابوک۔ اس آیت کا مطلب ہے ہمیں ہمیشہ اپنی ہدایت عطا فرما کیونکہ انسان راستہ کی طرف رہنمائی کیا جاتا ہے پھر وہ اس سے بھٹک بھی جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس صراط سے مراد اور صراط ہے۔ اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا فہم۔ یہ جعفر بن محمد کا قول ہے اور قرآن کی لغت الذین ہی ہے حالت رفع، نصبی اور جری میں اور ہذیل حالت رفعی میں اللذون کہتے ہیں۔ عربوں میں کچھ کہتے ہیں اللذو اور بعض الذی کہتے ہیں (خواہ حالت رفعی ہو نصبی ہو یا جری ہو) جیسا کہ آگے آئے گا۔ علیھم میں دس لغات ہیں : علیھم ھاء کے ضمہ اور میم کے سکون کے ساتھ ھا کے کسرہ اور میم کے سکون کے ساتھ۔ علیھمی ھا اور میم کے کسرہ اور کسرہ کے بعد یاء کے الحاق کے ساتھ۔ علیھمو۔ ھا کے کسرہ، میم کے ضمہ اور ضمہ کے بعد واو کی زیادتی کے ساتھ۔ علیھموھاء اور میم کے ضمہ اور میم کے بعد واؤ کے ادخال کے ساتھ علیھم ھا اور میم کے ضمہ کے ساتھ واو کی زیادتی کے بغیر۔ یہ چھ وجوہ قراء ائمہ سے منقول اور چار وجوہ عربوں سے منقول ہیں قراء کی طرف سے بیان نہیں کی گئیں۔ علیھمی ھا کے ضمہ، میم کے کسرہ اور میم کے بعد یاء کے ادخال کے ساتھ یہ حضرت حسن بصری نے عربوں سے حکایت کیا ہے۔ علیھم ھا کے ضمہ اور میم کے کسرہ کے ساتھ یاء کی زیادتی کے بغیر۔ علیھم ھا کے کسرہ اور میم کے ضمہ کے ساتھ واو کے الحاق کے بغیر۔ علیھم ھاء اور میم کے کسرہ کے ساتھ میم کے بعد یاء کے بغیر۔ یہ تمام صورتیں درست ہیں۔ یہ ابن انباری کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 30: حضرت عمر بن خطاب بن زبیر ؓ نے صراط من انعمت علیھم پڑھا ہے۔ علماء مفسرین کا اختلاف ہے کہ کون لوگ مراد ہیں جن پر انعام کیا گیا ہے۔ جمہور مفسرین نے فرمایا : اس سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذی انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا (النساء) (اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور کیا ہی اچھے ہیں یہ ساتھی ) ۔ ہدایت تقاضا کرتی ہے کہ یہ لوگ صراط مستقیم پر ہیں اور آیت اور الحمد میں ہی مطلوب ہے اور تمام اقوال کا مرجع یہی ہے۔ اس لئے متعدد اقوال ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ فاللہ المستعان۔ مسئلہ نمبر 31: اس آیت میں قدریہ اور معتزلہ، امامیہ کا رد ہے کیونکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان سے فعل کے صدور میں انسان کا ارادہ ہی کافی ہے خواہ وہ فعل طاعت ہو یا معصیت ہو کیونکہ ان کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خالق ہے وہ اپنے افعال کے صدور میں اپنے رب کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی تکذیب فرمائی کیونکہ انہوں نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کا اس کی بارگاہ سے سوال کیا۔ اگر معاملہ ان کے سپرد ہوتا اور ان کے اختیار میں ہوتا ان کے رب کے پاس یہ معاملہ نہ ہوتا تو وہ ہدایت کا اس سے سوال نہ کرتے اور ہر نماز میں بار بار سوال نہ کرتے۔ اسی طرح مصیبت کے دور کرنے میں اس کی طرف ان کا تضرع دزاری کرنا بھی ہے۔ اور مکروہ سے مراد ہدایت کے مخالف چیز ہے۔ جب انہوں نے کہا : صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین جس طرح انہوں نے اس سے اپنی ہدایت کا سوال کیا اس طرح انہوں نے سوال کیا کہ انہیں گمراہ نہ کر۔ اسی طرح وہ دعا مانگتے ہیں اور کہتے ہیں : ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا (آل عمران : 8) مسئلہ نمبر 32: غیر المغضوب علیھم والا الضآلین علماء کا اختلاف ہے کہ المغضوب علیھم اور الضآلین سے کون مراد ہیں۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ المغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں اور الضآلین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ عدی بن حاتم کی حدیث میں اور ان کے اسلام کے قصہ میں نبی کریم ﷺ سے یہ بات تفسیر سے ذکر کی گئی ہے (1) ۔ اس حدیث کو ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں اور ترمذی نے اپنی جامع میں نقل کیا ہے۔ اس تفسیر کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے جو یہود کے بارے میں وارد ہے وباء و بغضب من اللہ (البقرہ :61) (وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ ) اور فرمایا غضب اللہ علیھم (الفتح : 6) (ان پر اللہ کا غضب ہوا) اور نصاریٰ کے بارے میں فرمایا : قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا و ضلوا عن سواء السبیل (المائدہ 77) (جو گمراہ ہوچکی ہے پہلے سے (قوم) اور گمراکر چکے ہیں بہت سے لوگوں کو اور بھٹک چکے ہیں راہ راست سے) بعض علماء فرماتے ہیں : المغضوب علیھم سے مراد مشرکین ہیں اور الضآ لین سے مراد منافقین ہیں۔ اور بعض نے فرمایا : المغضوب علیھم مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے نماز میں اس سورت کی فرضیت کو ساقط کیا۔ الضآلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کی قراءت کی برکت سے گمراہ ہوئے۔ یہ قول سلمی نے اپنی “ حقائق ” میں اور ماوردی نے اپنی تفسیر میں حکایت کیا ہے لیکن اس قول کی کوئی حقیقت نہیں۔ ماوردی نے کہا : یہ قول مردود ہے کیونکہ جب اس کے مفہوم میں اخبار آپس میں معارض ہیں اور آثار مقابل ہیں اور اختلاف پھیلا ہوا ہے تو اس پر اس حکم کا اطلاق جائز نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : المغضوب علیھم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدعتوں کی اتباع کی اور اس وجہ سے ان پر غضب ہوا۔ الضآلین سے سنن ہدیٰ سے گمراہ لوگ مراد ہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ قول حسن ہے اور نبی کریم ﷺ کی تفسیر اولیٰ ، اعلیٰ اور احسن ہے۔ علیھم حالت رفعی میں ہے کیونکہ اس کا معنی ان پر غضب کیا گیا۔ لغت میں غضب کا معنی شدت ہے۔ رجل غضوب، یعنی سخت حلق والا شخص۔ الغضوب برے سانپ کو کہتے ہیں اس کی شدت کی وجہ سے۔ الغضبتہ اس ڈھال کو کہتے ہیں جو اونٹ کی جلد سے بنائی جاتی ہے اور تہہ در تہہ ہوتی ہے۔ اس کی شدت کی وجہ سے اسے الغضبۃ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت میں غضب کا معنی سزا کا ارادہ کرنا ہے۔ یہ ذات کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کی ذات کی صفات سے ہے۔ یا اس کا معنی نفس عقوبت (سزا) ہے۔ اسی مفہوم میں حدیث استعمال ہوئی ہے : ان الصدقۃ لتطفی غضب الرب۔ (1) (صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے یہ فعل کی صفت ہے ) ۔ مسئلہ نمبر 33: ولا الضآلین عرب کلام میں الضلال کا مطلب حق کے راستہ اور قصد کے طریقوں سے دور چلا جانا ہے۔ اس معنی میں یہ مثال ہے : ضل اللبن فی الماء، یعنی دودھ پانی میں غائب ہوگیا۔ ء اذا ضللنا فی الارض (السجدہ :10) ۔ یعنی ہم موت کے ساتھ غائب ہوجائیں گے اور مٹی بن جائیں گے۔ شاعر نے کہا : أ لم تسأل فتخبرک الدیار عن لحی المضلل این ساروا کیا تو نے نہیں پوچھا کہ تجھے گھے خبر دیتے غائب قبیلہ کے متعلق کہ وہ کہاں چلے گئے۔ الضلضلۃ اس ملائم پتھر کو کہتے ہیں پانی جسے وادی میں گھماتا رہتا ہے۔ اسی طرح الغضبۃ پہاڑ میں اس چٹان کو کہتے ہیں جس کا رنگ پہاڑ سے مختلف ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : او غضبۃ فی ھضبۃ ما امنعا مسئلہ نمبر 34: حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابی بن کعب نے غیر المغضوب علیھم وغیر الضالین پڑھا ہے (2) اور ان دونوں حضرات سے راء پر نصب اور جر کا پڑھنا مروی ہے اور جریہ الذین سے علیھم میں ھا اور میم سے بدل ہونے کی وجہ سے ہوگا یا الذین کی صفت کی حیثیت سے ہوگا۔ الذین معرفہ ہے اور اصول یہ ہے کہ معرفہ کی صفت نکرہ سے اور نکرہ کی صفت معرفہ سے نہیں لگائی جاتی۔ لیکن یہاں الذین سے متعین افراد نہیں ہیں بلکہ یہ عام ہے۔ پس یہ تیرے اس قول کے قائم مقام ہوگا : انی لا مربمثلک فاکرمہ۔ یا غیر کا لفظ معرفہ بن گیا ہے کیونکہ یہ دو چیزوں کے درمیان ہے جن کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے۔ (یعنی دو ضدوں کے درمیان ہے اور دو ضدوں کے درمیان غیر آئے تو معرفہ بن جاتا ہے) جیسے الحی غیر المیت، الساکن غیر المتحرک، القائم القاعد یہ ترکیب کے دو قول ہیں : پہلا فارسی کا ہے اور دوسرا زمخشری کا ہے اور غیر پر نصب کی دو وجہیں ہیں : یا تو الذین سے حال ہے یا علیھم میں ھا اور میم سے حال ہے۔ گویا تو نے کہا : انعمت علیھم لا مغضوبا علیھم یا استثناء کی بنا پر نصب ہے۔ گویا تو کہتا ہے : الا المغضوب علیھم۔ اور اعنی فعل کے ساتھ نصب جائز ہے۔ خلیل سے یہ حکایت کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 35: ولا الضآلین میں جو لا ہے اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ زائدہ ہے۔ یہ طبری کا قول ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا قول ہے : ما منعک الا تسجد (اعراف : 12) (اس میں لا زائدہ ہے) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ تاکید کے لئے داخل کیا گیا ہے تاکہ وہم نہ ہو کہ الضآلین، الذین پر معطوف ہے۔ یہ قول مکی اور مہدوی نے حکایت کیا ہے۔ کو فیوں نے کہا لا بمعنی غیر ہے۔ یہ عمر اور ابی کی قراءت ہے جیسا کہ نیچے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 36: الضآلین اصل میں الضاللین تھا۔ پہلے لام کی حرکت حذف کی گئی پھر لام کو لام میں ادغام کیا گیا۔ پس دو ساکن جمع ہوئے۔ مدۃ الالف اور لام مدغمہ۔ ایوب سختیانی نے ولا الضالین غیر ممدودہ ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ گویا اس نے التقاء ساکنین سے دوری اختیار کی۔ یہ بھی ایک لغت ہے۔ ابو زید نے حکایت کیا ہے، فرمایا : میں عمرو بن عبید کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے : فیومئذ لا یسأل عن ذنبہ انس ولا جان۔ میں نے گمان کیا انہوں نے غلطی کی ہے حتیٰ کہ میں نے عربوں سے سنا : دابۃ وشابۃ۔ ابو الفتح نے کہا : اس لغت پر بہت سے اقوال ہیں۔ اذا ما العوالی بالعبیط احمارت۔ (1) جب تازہ خون کی وجہ سے نیزوں کی انیاں سرخ ہوگئیں۔ سورة الحمد کی تفسیر ہم مکمل کرتے ہیں۔ سب تعریفیں اور احسان اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔
Top