Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
بتلا ہم کو راہ سیدھی
آخری تین آیتیں جن میں انسان کی دعا و درخواست کا مضمون ہے اور ایک خاص دعا کی تلقین ہے یہ ہیں (آیت)۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 9 غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا، راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے گم ہوگئے،
ان تینوں آیات میں چند باتیں قابل غور ہیں
تکمیل الدرایہ فی تفصیل درجات الہدایہیہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت کے لئے دعا جو اس آیت میں تعلیم فرمائی گئی ہے اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عامہ مؤمنین ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ اور حضرات انبیاء (علیہم السلام) بھی اس کے مامور ہیں جو بلاشبہ ہدایت یافتہ بلکہ دوسروں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں، پھر اس حاصل شدہ چیز کی باربار دعا مانگنے کا کیا مطلب ہے ؟
اس کا جواب ہدایت کی پوری حقیقت معلوم کرنے پر موقوف ہے اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے جس سے سوال مذکور کے علاوہ ان تمام اشکالات کا بھی جواب معلوم ہوجائیگا جو مفہوم ہدایت کے متعلق قرآن کریم کے بہت سے مقامات میں عموماً پیش آتے ہیں اور ہدایت کی حقیقت سے ناآشنا قرآن کی بہت سی آیات میں باہمی تضاد واختلاف محسوس کرنے لگتا ہے،
لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزل مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جس کے مختلف درجات ہیں
ایک درجہ ہدایت کا عام ہے جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات، نباتات، حیوانات وغیرہ کو شامل ہے یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بےجان بےشعور چیزوں کو ہدایت سے کیا کام ؟
کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ اپنے اپنے درجے کے موافق حیات و احساس بھی رکھتا ہے اور عقل و شعور بھی، یہ دوسری بات ہے کہ یہ جوہر کسی نوع میں کم کسی میں زیادہ ہے اسی وجہ سے جن اشیاء میں یہ جوہر بہت کم ہے ان کو بےجان، بےشعور سمجھا اور کیا جاتا ہے احکام الٰہیہ میں بھی ان کے ضعف شعور کے آثار کا اتنا اثر آیا کہ ان کو احکام کا مکلّف نہیں بنایا گیا، جن مخلوقات میں حیات کے آثار تو نمایاں ہیں مگر عقل و شعور نمایاں نہیں ان کو ذی حیات جاندار مگر بےعقل و شعور کہا جاتا ہے اور جن میں حیات کے ساتھ عقل و شعور کے آثار بھی نمایاں نظر آتے ہیں ان کو ذوی العقول کہا جاتا ہے اور اسی اختلاف درجات اور عقل و شعور کی کمی بیشی کی وجہ سے تمام کائنات میں احکام شرعیہ کا مکّلف صرف انسان اور جنات کو قرار دیا گیا ہے کہ ان میں عقل و شعور بھی مکمل ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسری انواع و اقسام میں حیات و احساس یا عقل و شعور بالکل نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے،
وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ (سورة بنی اسرائیل44)
یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس کی پاکی (قالاً یاحالاً) بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی بیان کرنے کو سمجھتے نہیں ہو،
اور سورة نور میں ارشاد ہے
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ (آیت نمبر 41)
یعنی کیا تجھ کو معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں اور (بالخصوص) پرندے جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے ہیں سب کو اپنی اپنی دعا اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے،
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی پاکی بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی معرفت پر موقوف ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہی سب سے بڑا علم ہے اور یہ علم بدون عقل شعور کے نہیں ہوسکتا اس لئے ان آیات سے ثابت ہوا کہ تمام کائنات کے اندر روح وحیات بھی ہے ادراک و احساس بھی عقل و شعور بھی مگر بعض کائنات میں یہ جو جوہر اتنا کم اور مخفی ہے کہ عام دیکھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا اسی لئے عرف میں ان کو بےجان یا بےعقل کہا جاتا ہے اور اس بناء پر ان کو احکام شرعیہ کا مکلف بھی نہیں بنایا گیا قرآن کریم کا یہ فیصلہ اس وقت کا ہے جب دنیا میں نہ کہیں کوئی فلسفی تھا نہ کوئی فلسفہ مدون تھا بعد میں آنے والے فلاسفروں نے بھی اپنے اپنے وقت میں اس کی تصدیق کی قدیم فلاسفہ میں بھی اس خیال کے کچھ لوگ گذرے ہیں اور جدید فلاسفہ اور اہل سائنس نے تو پوری وضاحت کے ساتھ اس کو ثابت کیا ہے،
الغرض ہدایت خداوندی کا یہ درجہ اولیٰ تمام مخلوقات، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان اور جنات کو شامل ہے اسی ہدایت عامہ کا ذکر قرآن کریم کی آیت اعطٰی کل شیء خلقہ ثم ھدی (50: 20) میں فرمایا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا فرمائی پھر اس خلقت کے مناسب اس کو ہدایت دی اور یہی مضمون سورة اعلیٰ میں ان الفاظ سے ارشاد ہوا
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى،
یعنی آپ اپنے پروردگار عالی شان کی تسبیح کیجئیے جس نے ساری مخلوقات کو بنایا پھر ٹھیک بنایا اور جس نے تجویز کیا پھر راہ بتائی۔
یعنی جس نے تمام مخلوقات کے لئے خاص خاص مزاج اور خاص خاص خدمتیں تجویز فرما کر ہر ایک کو اس کے مناسب ہدایت کردی،
اسی ہدایت عامہ کا نتیجہ ہے کہ کائنات عالم کے تمام انواع واصناف اپنا اپنا مقررہ فرض نہایت سلیقہ سے ادا کر رہے ہیں جو چیز جس کام کے لئے بنادی ہے وہ اس کو ایسی خوبی کے ساتھ ادا کر رہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے حضرت مولانا رومی نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے ،
خاک وباد و آب وآتش بندہ اند
بامن وتو مردہ باحق زندہ اند
زبان سے نکلی ہوئی آواز کے معنی کا ادارک نہ ناک کرسکتی ہے نہ آنکھ، حالانکہ یہ زبان سے زیادہ قریب ہیں اس ادراک کا فریضہ اللہ تعالیٰ نے کانوں کے سپرد کیا ہے وہی زبان کی بات کو لیتے ہیں اور ادراک کرتے ہیں، دانائے روم نے خوب فرمایا۔
مر زبان را مشتری جز گوش نیست
واقف این راز جز بےہوش نیست
اسی طرح کانوں سے دیکھنے یا سونگھنے کا کام نہیں لیا جاسکتا ناک سے دیکھنے یا سننے کا کام نہیں لیا جاسکتا سورة مریم میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے
اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (93: 19)
یعنی کوئی نہیں آسمان اور زمین میں جو نہ آوے رحمٰن کو بندہ ہو کر ،
دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے یعنی صرف ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے جو عرف میں ذوی العقول کہلاتی ہیں یعنی انسان اور جن، یہ ہدایت انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہر انسان کو پہنچتی ہے پھر کوئٰی اس کو قبول کرکے مومن مسلم ہوجاتا ہے کوئی رد کرکے کافر ٹھہرتا ہے،
تیسرا درجہ ہدایت کا اس سے بھی زیادہ خاص ہے کہ صرف مؤمنین ومتقین کے ساتھ مخصوص ہے یہ ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلا واسطہ انسان پر فائض ہوتی ہے اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے یعنی ایسے اسباب اور حالات پیدا کردینا کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہوجائے اور ان کی خلاف ورزی دشوار ہوجائے اس تیسرے درجے کی وسعت غیر محدود اور اس کے درجات غیرمتناہی ہیں یہی درجہ انسان کی ترقی کا میدان ہے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس درجہ ہدایت میں زیادتی ہوتی رہتی ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیادتی کا ذکر ہے، مثلاً وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى (17: 47) وَمَنْ يُّؤ ْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ
جو شخص اللہ پر ایمان لائے اس کے دل کو ہدایت کردیتے ہیں،
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا (69: 29) جو لوگ ہمارے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی مزید ہدایت کردیتے ہیں،
یہی وہ میدان ہے جہاں ہر بڑے سے بڑا نبی و رسول اور ولی اللہ آخر عمر تک زیادتی ہدایت و توفیق کا طالب نظر آتا ہے اسی مقام ہدایت کے متعلق مولانا رومی نے فرمایا،
اے برادر بےنہایت در گہے ست
ہرچہ بروے میرسی بروے مأیست
اور سعدی شیرازی نے فرمایا۔
نگویم کہ برآب قادر نیند
کہ برساحل نیل مستسقی اند
درجات ہدایت کی اس تشریح سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو سب کو حاصل بھی ہے اور اس کے مزید درجات عالیہ حاصل کرنے سے کسی بڑے سے بڑے انسان کو استغناء بھی نہیں اسی لئے سورة فاتحہ کی اہم ترین دعا ہدایت کو قرار دیا گیا جو ایک ادنیٰ مومن کے لئے بھی مناسب حال ہے اور بڑے سے بڑے رسول اور ولی کے لئے بھی اتنی ہی اہم ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی آخر عمر میں سورة فتح کے اندر فتح مکہ کے فوائد وثمرات بتلاتے ہوئے یہ بھی ارشاد ہوا کہ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْاً یعنی مکہ مکرمہ اس لئے آپ کے ہاتھوں فتح کرایا گیا تاکہ آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت ہو، ظاہر ہے کہ سید الانبیاء ﷺ پہلے سے نہ صرف ہدایت یافتہ بلکہ دوسروں کے لئے بھی ہدایت مجسم تھے پھر اس موقع پر آپ کو ہدایت ہونے کے اس کے سوا کوئی معنی نہیں ہوسکتے کہ ہدایت کا کوئی بہت اعلیٰ مقام آپ کو اس وقت حاصل ہوا،
ہدایت کی اس تشریح سے آپ کے لئے فہم قرآن میں بہت سے فوائد حاصل ہوگئے،
اوّل یہ کہ قرآن میں کہیں تو ہدایت کو ہر مومن و کافر کے لئے بلکہ کل مخلوقات کے لئے عام فرمایا گیا ہے اور کہیں اس کو محض متقین کے ساتھ مخصوص لکھا گیا جس میں ناواقف کو تعارض کا شبہ ہوسکتا ہے ہدایت کے عام و خاص درجات معلوم ہونے کے بعد یہ شبہ خود بخود رفع ہوجاتا ہے کہ ایک درجہ سب کو عام اور شامل ہے اور دوسرا درجہ مخصوص ہے،
دوسرا فائدہیہ ہے کہ قرآن میں ایک طرف تو جگہ جگہ یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالمین یا فاسقین کو ہدایت نہیں فرماتے اور دوسری طرف مکرّر سکّرر یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت فرماتے ہیں اس کا جواب بھی درجات کی تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ہدایت عامہ سب کو کی جاتی ہے اور ہدایت کا تیسرا مخصوص درجہ ظالمین وفاسقین کو نصیب نہیں ہوتا،
تیسرا فائدہیہ ہے کہ ہدایت کے تین درجات میں سے پہلا اور تیسرا درجہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کا فعل ہے، اس میں کسی نبی یا رسول کا دخل نہیں انبیاء (علیہم السلام) اور رسولوں کا کام صرف دوسری درجہ ہدایت سے متعلق ہے،
قرآن کریم میں جہاں کہیں انبیاء (علیہم السلام) کو ہادی قرار دیا ہے وہ اسی دوسرے درجے کے اعتبار سے ہے اور جہاں یہ ارشاد ہے اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ (56: 28) یعنی آپ ہدایت نہیں کرسکتے جسکو چاہیں تو اس میں ہدایت کا تیسرا درجہ مراد ہے یعنی توفیق دینا آپ کا کام نہیں،
الغرض اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ایک جامع اور اہم ترین دعا ہے جو انسان کو سکھلائی گئی ہے، انسان کا کوئی فرد اس سے بےنیاز نہیں، دین اور دینا دونوں میں صراط مستقیم کے بغیر فلاح و کامیابی نہیں دنیا کی الجہنوں میں بھی صراط مستقیم کی دعا نسخہ اکسیر ہے مگر لوگ توجہ نہیں کرتے ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا۔
صراط مستقیم کونسا راستہ ہے ؟
سیدھا راستہ وہ ہے جس میں موڑ نہ ہوں، اور مراد اس سے دین کا وہ راستہ ہے جس میں افراط اور تفریط نہ ہو افراط کے معنی حد سے آگے بڑہنا اور تفریط کے معنی کوتاہی کرنا پھر اس کے بعد کی دو آیتوں میں اس صراط مستقیم کا پتہ دیا گیا ہے جسکی دعا اس آیت میں تلقین کی گئی ہے،
ارشاد ہوتا ہے، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا " اور وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ان کی تفصیل ایک دوسری آیت میں اس طرح آئی ہے اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا یعنی وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا یعنی انبیاء، اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، مقبولان بارگاہ الہی کے یہ چار درجات ہیں جن میں سب سے اعلیٰ انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور صدیقین وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی امت میں سب سے زیادہ رتبے کے ہوتے ہیں جن میں کمالات باطنی بھی ہوتے ہیں عرف میں ان کو اولیاء کہا جاتا ہے، شہداء وہ ہیں جنہوں نے دین کی محبت میں اپنی جان تک دے دی اور صلحاء وہ ہیں جو شریعت کے پورے متبع ہوتے ہیں واجبات میں بھی مستحبات میں بھی جن کو عرف میں نیک دیندار کہا جاتا ہے .
Top