(آیت)” اھدنا الصراط المستقیم “ ” اھدنا بمعنی ارشدنا کے ہے یعنی ہماری رہنمائی فرما ۔ حضرت علی ؓ اور ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں ” اھدنا “ کا معنی ہے ہمیں ثابت قدم رکھ (یعنی اسی ہدایت پر جمائے رکھ) جس طرح کھڑے ہونے والے کو کہا جاتا ہے ، کھڑے رہو ۔ یہاں تک کہ میں تیری طرف لوٹ کر آجاؤں ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی کھڑے ہونے والی حالت پر دائم رہ ۔ ایمان والوں کی طرف سے یہ دعا باوجودیکہ وہ ہدایۃ پر ہیں بمعنی ہدایۃ پر ثابت رہنے کے ہوگی اور بمعنی مزید ہدایۃ طلب کرنے کے ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلہ عنایات و ہدایات کی انتہا اہل السنۃ والجماعۃ کے ہاں نہیں ہے ۔
” الصراط “ صراط کو سین کے ساتھ (یعنی سراط) بھی پڑھا گیا ہے، اسی قرات کو اویس نے یعقوب سے روایت کیا اور یہی اصل ہے۔ راستہ کو سراط اس لیے کہا گیا کہ سراط کے معنی نگلنے کے ہیں اور راستہ بھی قافلہ والوں نگل جاتا ہے اور صراط کی قراۃ زا کے ساتھ بھی ہے یعنی زراط بھی پڑھا گیا ہے اور حمزہ نے زاء کے اشمام کے ساتھ پڑھا ہے یعنی زاء کے مخرج کی طرف قدرے میلان کے ساتھ سراط کو پڑھا اور یہ تمام لغتیں صحیح ہیں ، مصحف (قرآن) کی موققۃ کے باعث اکثر قراء نے ص کی قراۃ کو اختیار کیا ہے یعنی صراط پڑھا ۔
(آیت)” والصراط المستقیم “ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں صراط مستقیم اسلام ہے مقاتل کا بھی یہی قول ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن کریم ہے، حضرت سیدنا علی ؓ سے مرفوعا روایت ہے کہ صراط مستقیم سے مراد کتاب اللہ ہے۔ حضرت سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں جنت کا راستہ ہے، حضرت سہل بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں اہل السنۃ والجماعۃ کا راستہ صراط مستقیم ہے ، بکر بن عبداللہ المزنی ؓ رسول اللہ ﷺ کے راستے کو صراط مستقیم قرار دیتے ہیں ۔ ابو العالیہ اور حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آپ کی آل اور صاحبین (یعنی ابوبکر وعمر ؓ صراط مستقیم ہے (یعنی ان کا راستہ)