ترکیب : اِھْدِ امر حاضر معروف انت اس کا فاعل اور نَا مفعول اول۔ اور الصِّرَاط موصوف الْمُسْتَقِیْمَ صفت دونوں مل کے مفعول ثانی۔ فعل اپنے فاعل اور دونوں مفعولوں سے ملکر جملہ فعلیہ انشائیہ ہوا اور معنًا یہ نستعین میں جو اعانت مطلوب تھی اس کا بیان ہے کہ ہم آپ سے یہ استعانت چاہتے ہیں کہ آپ ہم کو ہر امر میں خواہ دینی ہو یا دنیوی سیدھے راستے پر چلائیں۔ افراط وتفریط یعنی کمی زیادتی سے بچائیں۔ پس پہلے جملے سے ربط اس طور سے ہوا۔
معانی الفاظ : ہدایت : زبان عرب میں مقصود کا رستہ دکھانا یا مطلوب تک پہنچانا ہے اور ہدیہ (تحفہ) سے چونکہ تحفہ دینے والوں کی محبت معلوم ہوتی ہے اس لیے اس کو ہدیہ کہتے ہیں اور ہوا دی الوحش ان وحشی اور صحرائی جانوروں کو کہتے ہیں کہ جو سب کے آگے آگے چلا کرتے ہیں کیونکہ وہ ان سب کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن عرف میں اس کا استعمال نیک چیزوں کی رہنمائی میں ہوتا ہے۔ اور وہاں کہ جہاں فائدہ اور بھلائی حاصل ہو۔ پس اس لیے چوری ‘ بدکاری وغیرہ کا رستہ بتانے کو ہدایت نہ کہیں گے نہ قید خانہ کی راہ بتانے کو ہدایت بولا جائے گا۔ اور قرآن میں جو (کہ ان دوزخیوں کو جہنم کا رستہ بتلائو) آیا ہے تو علیٰ سبیل استہزا آیا ہے۔ چونکہ علماء میں سے بعض کہتے تھے کہ ہدایت کے معنی راہ دکھانا اور بعض کہتے تھے کہ مطلوب تک پہنچانا تو اس کا فیصلہ بعض محققین نے یوں کیا ہے کہ جہاں اس کا استعمال مفعول ثانی کی طرف لام اور الیٰ کے ذریعہ سے ہوگا تو وہاں اراءۃ الطریق یعنی راہ دکھانا مراد لیا جاوے گا۔ جیسا کہ اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقُوْمُ اور ھَدَیْنَا ھُمُ الیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ اور جہاں کہ بغیر ان دونوں کے ہوگا تو وہاں ایصال الی المطلوب ہوگا یعنی مقصود تک پہنچانا جیسا کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ فقیر کہتا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں بعض پر اس کا خلاف بھی ہے پس اس امر میں قرائن اور مواقع سے بہتر کوئی چیز نہیں۔
تفسیر : خدا تعالیٰ کی ہدایت کے بیشمار اقسام ہیں کہ جن کا شمار کرنا مشکل ہے لیکن ان کی اجناس عالیہ یہ ہیں :
اول مرتبہ : ہدایت الہامی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مطلب کا القا ہوتا ہے جیسا کہ بچہ کو پیدا ہوتے ہی دودھ پینا اور رو کر اپنی حالت درد کو بیاں کرنے کا الہام ہوتا ہے۔ درختوں کو زمین سے پانی چوس کر بڑھنا ‘ پھل پھول لانا ‘ شاخوں کا فضا کی طرف پھیلنا۔ علی ہذالقیاس عالم میں سے کوئی چیز بھی اس کے فیض سے محروم نہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کا علم ہے اور اس پر ہم ایمان لائے ہوئے ہیں اور وہ بھی اسی قسم کی ہدایت کا ثمرہ ہے اس کی طرف اس آیت کا اشارہ ہے اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی کہ ” ہر شے کو اس کے مناسب طور پر پیدا کر کے رہنمائی کی “۔
دوسرا مرتبہ : ہدایت احساسی کا ہے کہ حواس ظاہری کان ‘ آنکھ ‘ ناک ‘ چکھنا ‘ چھونا (2) حواس باطنی ‘ حس مشترک ‘ خیال ‘ وہم ‘ حافظہ ‘ قوت متصرفہ عطا فرما کر گرم و سرد ‘ نافع و مضر چیزوں کا تمیز کرنا بتلایا۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو انسان کیا بلکہ حیوان کی زندگی نہ ہوتی۔ یہ فیض تمام حیوانات پر ہے۔ اس کی طرف بھی آیت مذکورہ میں اشارہ ہے۔
تیسرا مرتبہ : ہدایت عقلی ہے کہ جو چیز حواس سے غائب ہے اور جہاں کہ حواس کی رسائی نہیں وہاں انسان کی عقل مدرکات حواس ظاہری اور باطنی سے کلیات انتزاع کرکے فی الفور کام لیتی ہے۔ دیکھئے جب کان میں بہت سے لوگوں سے کسی واقعہ کی خبر پہنچتی ہے تو عقل اسی وقت اس خبر کی صداقت کا حکم لگا دیتی ہے۔ وہاں استدلال اور ترتیب مقدمات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس فیضِ الٰہی سے حکماء ‘ حمقاء تمام انسان بلکہ جن اور فرشتہ بھی فیضیاب ہیں اس کی طرف بھی آیت سابقہ میں اشارہ ہے۔
چوتھا مرتبہ : ہدایت استدلال عقلی ہے۔ یعنی جہاں بداہت عقل کی رسائی نہیں وہاں مقدمات ترتیب دے کر نتیجہ نکالنا اور اس ذریعہ سے کسی نامعلوم چیز کو حاصل کرنا اور یقین پیدا کرنا۔ اس امر میں عقلاء و حکماء مخصوص ہیں۔ اس لیے ان کے اقوال کی عام لوگ پیروی کرتے ہیں۔ مگر عقل سے بسا اوقات قوت و ہم یہ مقابلہ کر بیٹھتی ہے اور اس کو راہ راست یعنی صراط مستقیم سے پھرا کر ادھر ادھر وادی اغلاط میں لے جاتی ہے۔ اسی لیے حکماء کے اقوال اور رائیں کبھی باہم متعارض اور مخالف بھی ہوتی ہیں۔ ایک حکیم کچھ کہتا ہے تو دوسرا اس کے برخلاف فرماتا ہے اور کبھی خود ایک ہی شخص ایک وقت ایک بات دریافت کر کے اس پر دل کو جمالیتا ہے۔ پھر دوسرے وقت آپ ہی اس کو غلط بتلاتا ہے۔ ہرچند اس غلطی سے بچانے کے لیے حکماء نے فن منطق بنایا مگر اس نے تو اور بھی پریشانی میں ڈال دیا۔ پس اس لیے خدا تعالیٰ نے اس کے واسطے
پانچواں مرتبہ : ہدایت کا الہام انبیاء (علیہم السلام) قائم کیا کہ جہاں عقول عاجز آجاویں وہاں خدا تعالیٰ الہام انبیاء کے ذریعہ سے رہنمائی کرتا ہے۔ پس اس لیے جس طرح عامیوں کو عقلا و حکما کے اقوال پر اعتماد تھا اسی طرح حکماء و عقلا کو انبیاء (علیہم السلام) کا اتباع ضرور ہوا کیونکہ ان کی رہنمائی کا یہی لوگ سبب ہیں۔ یہاں سے آپ کو ضرورت نبوت بھی بخوبی معلوم ہوگئی پس جو لوگ کہ منصب نبوت کے منکر ہیں جیسا کہ براہمہ وہم کی دلدل میں دھ سے ہوئے ہیں۔ چوتھے مرتبہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ کہ انسان کو ہم نے نیک و بد دونوں رستے بتلائے اور اس پانچویں مرتبہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَجَعَلْنَا ھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بْاَمْرْنَا کہ ہم نے انبیاء کو پیشوا بنایا کہ وہ ہمارے حکم کی رہنمائی کرتے ہیں۔
چھٹا مرتبہ : ہدایت انکشافی ہے کہ خدائے تعالیٰ بندہ کے دل سے حجاب ظلمانی اٹھا کر اس کو عالم غیب کا مشاہدہ کرا دے اور ہر چیز کی اصل حقیقت دکھا دے یہ ہدایت کا انتہائی مرتبہ ہے۔ یہ خواص انبیاء علیھم السلام کا حصہ ہے کہ جن کی اطاعت تمام خلق پر فرض ہے اور ان کے مریدوں اور پیروں میں سے بھی ان لوگوں کو (کہ جن کے قلوب میں آئینہ کی طرح ان کے انوار قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے) اس ہدایت میں سے کچھ حصہ مل جاتا ہے اور ان پیروں کو حواری یا اولیاء اور کبھی محدث کہتے ہیں۔ اس ہدایت کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہے ہم ان کو اپنا رستہ بتلا دیں گے۔ آپ کو یہاں سے نبی اور ولی کے معنی بھی بخوبی معلوم ہوگئے اور جو لوگ کہ نبوت کو بڑھئی لوہار کے کام کا ملکہ قرار دیتے ہیں ان کی غلط فہمی بھی معلوم ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دنیا کے تمام کاروبار اور عمدہ صنعتیں اور تدابیر ملک اور آخرت کے احکام اور قواعد شریعت سب خدا کی ہدایت کا نتیجہ ہیں۔
مگر آپ کو یہ بھی یاد رہے کہ یہ جتنے امور ہیں سب میں سیدھا رستہ ضرور ہے اور جہاں افراط وتفریط ہوئی ‘ سیدھے رستے سے الگ ہوا مقصد میں خرابی آئی۔ پس اسی لیے خدا تعالیٰ نے اِھْدِنَا کے بعد الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ذکر فرمایا یعنی یہ تعلیم کی یوں دعا مانگو کہ اے خدا ہم کو ہر امر میں سیدھا رستہ دکھا۔
واضح ہو : کہ جب تک ہر امر میں افراط (زیادتی) وتفریط (کمی) معلوم نہ ہوگی صراط مستقیم یعنی درمیانہ پن معلوم نہ ہوگا۔ پس سب سے پیشتر ہم عبادت اور استعانت میں جو افراط وتفریط ہے اس کو بیان کرتے ہیں۔ عبادت میں افراط یہ ہے کہ جہاں خدا کی کسی صفت کا ظہور دیکھے اسی کو پوجنے لگے جیسا مجوس اور ہنود کرتے ہیں انہوں نے کوئی چیز بھی نہ چھوڑی یہاں تک کہ جب ہندوستان میں ریل جاری ہوئی اور انجن کو جو بغیر بیل اور گھوڑوں کے خودبخود دوڑتا دیکھا تو بہت سے ہندوئوں نے ہر ہر کر کے اس کے آگے ڈنڈوت کی اور ریلشر مہاراج بنایا اور تفریط یہ کہ معاش دنیا اور کاروبار میں ایسا مشغول ہو کہ ذرا بھی خدا کی طرف توجہ نہ رہے عبادت تو کجا جیسا کہ اہل یورپ کا دستور ہے۔ شاید پیرس اور لندن اور برلن وغیرہ شہروں میں کبھی کوئی خدا کا 1 ؎ نام لیتا ہوگا۔ اور اسی طرح استعانت میں افراط یہ ہے کہ ہر چیز کو سبب سمجھ کر اور وسیلہ
حاجات جان کر اس سے سوال کرے اور ستاروں کی تاثیر سے اپنی سعادت و نحوست سمجھے۔ اور گھر اور بیوی اور ہتھیاروں اور دیگر اسباب معیشت میں نحوس وسعادت کا خیال کر کے سودائی بن جائے اور عناصر اور آفتاب و ماہتاب اور ارواح انسانیہ اور دیگر غیر مرئی چیزوں کو خدا تعالیٰ کے خزانہ غیب کا داروغہ یا مالک یا مختار جان کر ان سے مدد مانگے اور ان کے نام سے نذر و نیاز اور ہول وجگ کرے جیسا کہ ہنود کرتے ہیں اور ویدوں میں اب تک یہی مضامین بھرے پڑے ہیں کہ جس سبب سے یہ لوگ ہر چیز سے ڈرتے اور ہر چیز سے امید نفع رسائی کی رکھتے ہیں اور تفریط یہ کہ دوا و غذا وغیرہ اسباب معتبرہ کو بےاعتبار جانے اور خدا سے دعا کرنا اور نیکی اور خدا کی راہ میں دینے کو خیرو برکت کا سبب نہ سمجھ کر ان سے اعراض کرے اور جو چیزیں کہ عالم اسباب میں موثر ہیں ان کو فضول اور بےاعتبار جانے۔ اگرچہ صراط مستقیم کی تفصیل علم
1 ؎ بخلاف اس کے اہل اسلام کا کوئی شہر ایسا نہیں کہ جس میں پانچوں وقت بآواز بلند خدا کی توحید و تقدیس نہ پکاری جاتی ہو اور پھر سیکڑوں خدا کے بندے مل کر اس کی ثناء وصفت اور اس کی شکر گزاری اور اپنے گناہوں سے استفادہ اور اس سے دعا نہ کرتے ہوں اور اس کے آگے اپنے جسم و روح سے نہایت پاکیزہ حالت بنا کر نہ جھکتے ہوں۔ یہ سچے دین کی علامت ہے یا مخصوص مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں توہمہ وقت یہی حالت رہتی ہے۔ فقیر مکہ معظمہ میں جبل صفا کے نزدیک مقیم تھا شب کو تمام شب تکبیر و تحلیل کی آواز کانوں میں آتی تھی۔ 12 منہ
اخلاق کی کتابوں میں خوب کی ہے مگر کسی قدر مختصرطور پر یہاں بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ لان مالایذکر کلہ ولا یترک کلہ
واضح ہو : کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو تین قوتیں عطا فرمائی ہیں :
(اول) قوّت درّاکہ کہ جس سے ہر چیز کو جانتا ہے جس کو قوت عقلیہ اور نطقیہ بھی کہتے ہیں پس اس سے جس چیز کو جانتا ہے وہ یا خدا کی ذات وصفات اور اس کے افعال کے دنیا و آخرت میں آثار ہیں اور ان کے جاننے کو علم الٰہی کہتے ہیں اور اس میں افراط یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی کنہ حقیقت دریافت کرنے لگے اور اس کی صفات میں گھوڑے دوڑانے لگے جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ لوگ باہم قیل و قال اور سوال کریں گے کہ یہ چیزیں تو خدا نے بنائی ہیں خدا کو کس نے بنایا۔ پس جب یہ نوبت پہنچے تو یہ کہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ (متفق علیہ) اور اس کے لیے جسم اور مکان اور شکل اور حدوث اور صورت وغیرہ وہ صفات ثابت کرے جو اس کے تقدس کے منافی ہے۔ چناچہ یہود و نصاریٰ ہنود نے ایسا ہی کیا ہے کہ خدا کو مجسم اور حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہمشکل اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی صورت میں مانا اور کچھ لوگوں نے سور شیر وغیرہ حیوانات کی شکل میں ہو کر اس کا دنیا پر آنا اور کھانا پینا وغیرہ وہ باتیں ثابت کی ہیں کہ جن سے وہ بری ہے اور خالق کو مخلوق کے ساتھ مشابہ بنا دیا ہے 1 ؎ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبْیْرًا۔ یا بندہ کو عاجز محض جان کر تمام قبائح زنا و چوری کو اسی کی طرف نسبت کرے جیسا کہ جبریہ کرتے ہیں۔ یا یہ اعتقاد کرے کہ ایمان لانے کے بعد پھر بندے کو کسی گناہ پر عذاب دینا اس کا دستور نہیں بندہ جو چاہے سو کرے جیسا کہ پولوس اور اس کے مریدوں نصاریٰ کا عقیدہ ہے۔ ان کے مقلد اہل اسلام میں سے بھی بعض لوگ ہیں جن کو مرجیہ کہتے ہیں اور تفریط یہ کہ اس کی صفات کا انکار کیا جاوے اور اس کو اپنے خیال میں جزئیات مادیہ کے علم سے بےبہرہ جانے اور ایسا عاجز جانے کہ سوائے عقل اول کے اور کوئی چیز اس نے پیدا ہی نہیں کی جیسا کہ حکمائِ یونان اور مجوس کا عقیدہ ہے اور یہ کہ اس کی صفات سمع و بصر وغیرہ جو نصوص قرآنیہ سے ثابت ہیں ان سے بلا کسی وجہ وجیہہ کے انکار کیا جاوے اور یہ کہ اس کو گناہ بخشنے سے عاجز قرار دیا جاوے کہ بغیر اس بات کے کہ وہ سب کے عوض میں آدمی کی شکل میں خود آکر کفارہ ہو۔ یہود کے ہاتھ سے صلیب پر کھینچا جاوے گناہ معاف نہیں کرسکتا جیسا کہ پادریان حال کا عقیدہ ہے اور یہ کہ جمیع افراد عالم میں اسباب ہی کو موثر جان کر خدائے تعالیٰ کو نکما اور بیکار جانے جیسا کہ آریہ 2 ؎ کا عقیدہ ہے اور یہ کہ بندہ کو خالق مستقل جان کر افعال عباد کو اس کے قبضہ قدرت سے علیحدہ سمجھے جیسا کہ حال کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور اہل اسلام میں سے معتزلہ ان کے مقلد ہیں اس کے علاوہ اور بہت سی افراط وتفریط ہیں اور یا وہ چیزیں کہ جن کو بندہ جانتا ہے ارواح و ملائکہ و انبیاء و اولیاء وائمہ دین ہیں ان کے علم کو نبوات کہتے ہیں اور اس میں افراط یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایسا بڑھائے کہ درجہ خدائی تک پہنچائے جیسا کہ عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام)
کو خدا اور اس کا بیٹا کہتے ہیں یا بعض جہلا ان چیزوں کو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غیب داں ہیں ان کو بندوں کی حاجت براری اور فریاد رسی کی مستقل قدرت ہے 3 ؎ یہ خیال کر کے ان کی تصویروں کو اور ان کی قبروں کو اور تعزیہ کو پوجتے ہیں اور ان سے اولاد اور مال اور تندرستی اور عزت و آبرو مانگتے ہیں۔ جیسا کہ ہنود عناصر اور دیوتائوں اور بہت سے انسانوں کو اس لیے پوجتے ہیں چناچہ رگوید اور یجروید میں ان کی پرستش کے طریقے اور ان کی مدح میں منتر اور سکت ان ویدوں کی سن تھا میں مندرج ہیں اور اسی طرح پارسیوں کے دساتیران ہی باتوں سے بھرے پڑے ہیں جو چاہے دیکھ لے یا ان کو یوں سمجھے کہ خدا چاہے نہ چاہے یہ ہماری حاجت کو پورا کریں گے۔ اور حشر میں خواہ مخواہ اپنے پرستش کرنے والوں کو
1 ؎ ہندو کہتے ہیں کہ ایشر یعنی خدا کئی بار جب کہ اس کو ضرورت پڑی۔ سور ‘ شیر ‘ کچھوے ‘ انسان کے جسم میں ظاہر ہوا اور ان چیزوں کو اوتار کہتے ہیں جن میں سے راجہ رام چندر جی اور کرشن جی بھی اوتار مانے جاتے ہیں۔ عیسائیوں کا عقیدہ بھی قریب اسی کے ہی ہے کہ خدا تعالیٰ بشکل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ظاہر ہوا۔
2 ؎ ہندوئوں کا ایک فرقہ ہے جس کے اس زمانے میں پیش رو دیا نند سرستی تھے۔
3 ؎ بخلاف وسیلہ گردانے یا ان کے مزاروں کو محل رحمت واستجابت خلال کرنے کے اس میں کسی کو کلام نہیں۔ ابو الحسن حقانی
رنج و غم سے رہائی دیں گے جیسا کہ ہنود اپنے دیوتائوں کی نسبت اور مسیح (علیہ السلام) کی طرف عیسائی اب تک یہی اعتقاد رکھتے ہیں اور بعض جاہل اپنی جہالت اور سفاہت سے حضرات اولیاء اور انبیاء اور ان کے مزارات مقدسہ سے ایسی لغو باتیں عمل میں لاتے ہیں یا کسی ولی کو نبی کے رتبہ میں خیال کیا جاوے اور نبی کو شریک خدائی کردیا جاوے جیسا کہ عیسائی کرتے ہیں اور تفریط یہ کہ سرے سے غیر محسوس چیزوں کا منکر ہوجاوے۔ پس نہ وجود ملائکہ کا قائل ہو۔ نہ جن و شیطان کے وجود اور انبیاء (علیہم السلام) کو صرف رفارمر یعنی ناصح اور واعظ جانے ‘ نہ ان کے انکشاف کا معتقد ہو ‘ نہ ان کے خرق عادات معجزات و کرامات کا قائل جیسا کہ آج کل یورپ کے ملحدوں کا عقیدہ ہے اور ہندوستان میں ان کے مرید نیچریوں کا اعتقاد ہے یا انبیاء (علیہم السلام) کو معصوم و محفوظ نہ جانے ‘ نہ ملائکہ کی عصمت کا قائل ہو بلکہ اپنے نفس خبیث پر قیاس کر کے ان کو بھی ہر طرح کے گناہ میں ملوث سمجھے جیسا کہ اہل کتاب کا عقیدہ ہے کہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنی 1 ؎ دونوں بیٹیوں سے زنا کرنے والا اور حضرت ہارون 2 ؎ (علیہ السلام) کو بچھڑا پوجنے والا اور حضرت دائود 3 ؎ (علیہ السلام) کو اور یا کی بیوی بنت سبع سے حرام کرنے والا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) 4 ؎ کو بت پرستی کرنے والا سمجھتے ہیں اور یہ باتیں ان کی تورات اور دیگر کتب الہامیہ میں مذکور ہیں اور جیسا کہ ہنود دیوتائوں کو کہ جن کو وہ فرشتہ کہتے ہیں زنا کار اور سخت مکار جانتے ہیں۔ چناچہ اندر کا گوتم کی جورو سے زنا کرنا کتب مسلمہ ہنود میں مندرج ہے اور یہود میں بھی ہاروت ماروت کا قصہ مشہور تھا کہ انہوں نے شراب پی کر زہرہ سے زنا کیا کہ جن کی تقلید سے بعض ناسمجھ مفسروں نے اس بےاصل قصہ کو قرآن مجید کی تفاسیر میں لکھ دیا۔ 5 ؎ یا انبیاء (علیہم السلام) کے رتبہ کا لحاظ نہ کر کے ان کو بڑے بھائی کے برابر قرار دے دیا جاوے و غیر ذلک من العقائد الفاسدہ۔ یا وہ چیزیں کہ جن کو جانتا ہے قبر اور دوزخ اور جنت اور حساب اور میزان وغیرہ امور آخرت کے معاملات ہیں اور ان کے علم کو علم معاد اور علم سمعیات بھی کہتے ہیں اس میں افراط یہ ہے کہ ایمان کو ایسا موثر جانے کہ پھر اس کے لیے کوئی گناہ مضر نہ سمجھے اور جزائے اعمال میں خدا تعالیٰ کو محض مجبورجان کر گناہ بخشنے یا کسی عمل کے قبول نہ کرنے پر قادر نہ جانے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے اور تفریط یہ کہ یا تو سرے سے بعد مرنے کے جزا و سزا ‘ عذاب وثواب ‘ قبر و حشر کا قائل نہ ہو جیسا کہ دہریوں کا عقیدہ ہے اور جو قائل ہو تو پھر ادنیٰ سے گناہ کو بھی ایمان کا زائل کردینے والا جانے جیسا کہ خوارج کا عقیدہ ہے یا وہاں کے عذاب وثواب کو خیالی عذاب وثواب جانے جیسا کہ عیسائیوں اور حکمائِ یونان اور ان کے
مقلد نیچریوں کا عقیدہ ہے یا وہاں کے لذات اور عقوبات کو فانی جانے اور دنیا کے انقلابات پر محمول کرے وغیرذلک یا وہ چیزیں کہ جن کو انسان جانتا ہے علاوہ ان کے اور جواہر و اعراض ہیں کہ جن کے علوم کو علیٰ حسب اختلاف الموضوع علم طبعی اور ریاضی کہتے ہیں۔ پھر ہندسہ اور ہیئت اور نجوم زیچ اور اکر اور علم الحیوان وغیرہ بہت سے علوم انہیں علوم کے موضوعات کی شاخیں ہیں۔ پس ان میں افراط یہ ہے کہ ان میں ایسا مشغول ہو کہ دنیا ومافیہا سے خبر نہ ر ہے یا نجوم اور طلسم نیرنجات اور کیمیا وغیرہ ان فنون میں مشغول ہو کہ جو کارآمد نہیں۔ یا ان کی تاثیرات سعادت و نحوست ہی کا قائل ہو اور تفریط یہ کہ بالکل ان علوم سے بےبہرہ رہے یا ان چیزوں کی تاثیرات جسمانیہ کا بھی مطلق قائل نہ ہو۔
المختصر اس قوت ادراکیہ یا عقلیہ میں افراط وتفریط بری ہے ‘ درمیانی حالت عمدہ ہے اور اس کو حکمت کہتے ہیں کہ جو انسان کا بڑا کمال ہے اور
1 ؎ کتاب پیدائش 19 باب
2 ؎ کتاب خروج 32 باب
3 ؎ کتاب دوم سموئیل 11 باب
4 ؎ کتاب اول سلاطین 11 باب
5 ؎ چناچہ پادری فانڈر کی کتاب میزان الحق اور سید احمد خان صاحب نیچری کی تفسیر الفرقان میں مذکور ہے جیسا کہ مقدمہ کتاب میں اس کی خوب تشریح ہوچکی ہے۔
صراط مستقیم کا مصداق اور اس کی افراط کو جربزہ کہتے ہیں یعنی عیاری و طراری اور تفریط کو عبادت اور بلادت (دوسری قوت شہویہ) ہے کہ جس پر منافع حاصل کرنے کا مدار ہے اور اسی کی وجہ سے مرغوب چیزوں کی خواہش ہوتی ہے۔ پس اس کی افراط یہ ہے کہ کھانے پینے اور جماع کرنے وغیرہ لذائذ میں ہمہ تن مصروف اور سراسر گرفتار ہوجائے اور اس مرتبہ کو فجور اور خلاعت بھی کہتے ہیں جس کا ثمرہ فحش اور بےحیائی ہے اور اس کی تفریط یہ ہے کہ جس قدر لذائذ اس کے لیے حلال اور مباح ہیں اور جن پر معیشت دنیا کی بنیاد قائم ہے ان کو بھی ترک کر بیٹھے جیسا کہ رہبان اور ہندوئوں کے فقیر جوگی اور گشائیں وغیرہم کرتے ہیں۔ قرآن اور نبی (علیہ السلام) نے جس طرح افراط سے منع فرمایا اسی طرح اس تفریط سے بھی کہ جس کو خمود کہتے ہیں بڑی تاکید سے روکا ہے قُلْ مَنْ حَرَّمَ زْیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیّْبَاتِ ” کہہ کس نے خدا کی ان ستھری اور زینت کی چیزوں کو حرام کیا ہے کہ جو اس نے اپنے بندوں کے لیے بنائی ہیں “ اور نبی ﷺ نے بھی فرمایا ہے لَا رُھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامْ ” کہ اسلام میں رہبانیت کا کچھ کام نہیں “ اور ان دونوں حالتوں کی درمیانی حالت کہ جس پر صراط مستقیم صادق آتا ہے عفت ہے اعنی اپنی خواہش نفسانی کو عقل اور شرح کے تابع بنانا اور اس عفت سے بہت سے اخلاق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ صبر ‘ قناعت ‘ جود ‘ سخاوت اور پھر سخاوت سے کرم اور ایثار کہ اور لوگوں کو بھلائی میں اپنے نفس پر مقدم رکھنا اور معاملات میں مساہلت یعنی فروگذاشت کرنا۔ اور تیسری قوت غضبیہ ہے کہ جس کے طفیل انسان خطرناک کاموں میں گر پڑتا ہے اور اپنے نفس اور اس کے متعلقوں سے مضرت کو دفع کرتا ہے اس افراط کو تہور کہتے ہیں کہ بغیر مصلحت جرأت اور دلیری کر بیٹھنا کہ جس طرح شیر وغیرہ درندے کرتے ہیں اس سے ظلم اور بےرحمی وغیرہ قبائح پیدا ہوتے ہیں۔ اس تہور کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں منع فرمایا ہے وَلَا تُلْقُوْا بْاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ کہ اپنی جانوں کو ہلاکی میں نہ ڈالو اور اس صفت کی تفریط کو جبن یعنی نامردی کہتے ہیں۔ بےغیرتی اور بزدلی کہ جو انسان کو اس کے ہم چشموں میں ذلیل و خوار اور غیر لوگوں کا غلام اور رعیت اور تابعدار بنا دیتی ہے اسی کا ثمرہ ہے۔ اس کی برائی بھی قرآن اور احادیث میں بکثرت آئی ہے اور صراط مستقیم یعنی درمیانی حالت کو شجاعت کہتے ہیں کہ جس سے بہت سے اخلاق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ علوِّہمتی اور استقلال اور حلم اور تحمل اور حمیت وغیرذلک۔
قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ہر ایک جانب کا اور توسط کا اور پھر جو ان سے اخلاق پسندیدہ پیدا ہوتے ہیں ان کا بکثرت بیان ہے۔ بخوف تطویل ہر مقام پر آیت لانا مناسب نہ جانا جو چاہے کتب اخلاق محمدیہ دیکھ لے۔ پس جب یہ تینوں قوتیں کامل ہوجاتی ہیں اعنی توسط کے مرتبہ میں آتی ہیں کہ جس کو صراط مستقیم کہتے ہیں تو اس کو عدالت کہتے ہیں کہ جس کی نسبت خدائے تعالیٰ قرآن مجید میں اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی۔ فرماتا ہے پھر اس عدالت سے بیشمار اخلاق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ محبت اور وفا اور شفقت کہ جس کو خدا ترسی کہتے ہیں اور کسی کے احسان کا بدلہ دینا اور حسن صحبت اور توکل اور ہر حقدار کا حق ادا کرنا کہ جس کا ثمرہ توحید و ایمان وطاعت خدا و رسول اور رعیت و ملک و شہر کی خیر خواہی اور ماں باپ بیوی اولاد یا عزیزوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا ‘ عمدہ تربیت کرنا ‘ غلاموں اور نوکروں اور بےزبان چارپایوں پر رحم کرنا ‘ ان کی وسعت سے زیادہ کام نہ لینا ‘ ان کی خوراک وغیرہ ضروریات کو بخوبی ادا کرنا وغیرہ وغیرہ اخلاق حمیدہ کہ جن کو فطرت انسانیہ اچھا جانتی ہے۔ ان سب باتوں کو خدا تعالیٰ نے ایک آیت میں کس خوبی سے ادا کردیا ہے کہ مثل نہیں اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُ بْالْعَدْلْ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرْ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَــعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ پس جب آپ کو لفظ ہدایت اور صراط مستقیم کے معنی بخوبی معلوم ہوگئے تو اب اس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ بندہ کو خدائے تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ تو مجھ سے یہ دعا کر کہ اے خدائے تعالیٰ تو مجھ کو صراط مستقیم (کہ جو ہر امر کی درمیانی حالت ہے) نصیب کر کیونکہ جب انسان کو صراط مستقیم پر چلنا نصیب ہوا تو سعادت مل گئی کہ جس کے لیے انبیاء (علیہم السلام) دنیا میں آئے ہیں اب اس دعا کو دیکھئے کہ جس کو پادری گرجا میں عبادت کے وقت پڑھتے ہیں۔ وہ یہ کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو تیری بادشاہت آوے۔ تیری مرضی جس طرح آسمان پر ہے ویسی زمین پر بھی ہو وے ہماری روز کی 1 ؎ روزی آج ہمیں دے الخ۔ بلاشک ان دونوں میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔ پس جس کی معرفت یہ دعا الہام ہو اس کو نبی نہ کہا جائے اور دعائے نان کے معلم کو نبی کہا جاوے اگر سخت ناانصافی اور تعصب نہیں تو اور کیا ہے ؟
نکات : (1) یہ کہ خدا تعالیٰ نے ان بیشمار علم اخلاق کی باتوں کو کہ جن کی تصریح آگے چل کر قرآن میں کی ہے اور پھر اپنے نبی ﷺ کی زبان سے احادیث میں بیان کرا دیا ہے سب کو سمیٹ کر ایک مختصر سے لفظ میں رکھ دیا کہ جو ہر وقت بندہ کو ہر طرح کی نیک چلنی کی طرف بلاتا ہے اور حالت ابتدائی میں تفصیل کرنا قانون تعلیم کے منافی ہے۔
(2) یہ کہ لفظ صراط آیا تاکہ عارف کی نظر میں پل صراط کا خیال پیدا ہو اور یہ جان لے کہ یہ تمام شریعت اس روز پل صراط کی صورت میں ظہور کرے گی۔ جو یہاں اس پر بآسانی چلتے ہیں وہاں اس پر وہ بآسانی چلیں گے۔ اگر لفظ طریق بولا جاتا تو یہ مطلب حاصل نہ ہوتا۔
(3) یہ کہ صراط کے بعد لفظ مستقیم آیا اس کی جگہ سویٰ وغیرہ دیگر الفاظ جو سیدھے ہونے کے معنی پر دلالت کرتے ہیں نہیں آئے۔ اس نکتہ کے لیے مستقیم میں استقامت پائی جاتی ہے کہ جس سے یہ ارشاد ہوا کہ صرف ایک بار ان اخلاق حمیدہ سے موصوف ہونا کافی نہیں بلکہ ان پر مداومت ہونی چاہیے اور ایک ملکہ پیدا ہونا چاہیے کہ جس کو استقامت کہتے ہیں چناچہ ایک جگہ خود فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہَ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (ترجمہ) جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر قائم بھی رہے تو ان کو نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غم کھاویں گے اور اسی لیے جس بات پر استقامت نہیں اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ چناچہ یہ قول مشہور ہے کہ الاستقامۃ فوق الکرامۃ۔ پس لفظ مستقیم میں ہمیشہ ان باتوں پر قائم رہنے کی طرف اشارہ ہے۔
(4) یہ کہ اھدنا ذکر کیا اہدنی بصیغہ واحد نہ آیا اس میں چند مصلحتیں ہیں۔
(1) یہ کہ یہ دعا ہے اور دعا جب سب لوگ مجتمع ہو کر کرتے ہیں وہ زیادہ قبول ہوتی ہے کیونکہ جب بہت سے قلوب عالم بالا کی طرف ہمت کرتے ہیں تو ان کے اثر ہمت کو عالم بالا سے مقصود کے وجود میں بڑا علاقہ ہے پس کبھی وہ دعا مصائب کے دفع کرنے میں صرف ہوتی ہے اور کبھی عالم حس میں متشکل ہو کر مقصود اور مطلوب بن جاتی ہے اور یہ ایک سِرِّالٰہی ہے کہ جس کو ہر شخص نہیں جانتا۔
(2) یہ کہ جب تک سب کو ہدایت نہ ہو تو اس دعا کرنے والے کا بھی پورا مقصد نہ پایا جاوے۔ کس لیے کہ تمام کاروبار عالم کے ایک دوسرے سے متعلق ہیں پس جب ایک راہ راست پر ہو اور نہ ہوں تو اس کو بڑی دقت پیش آئے اور دینی و دنیاوی معاملات میں بڑی مصیبتیں اٹھانی پڑیں اور جب کہ گھر یا شہر کے سب یا اکثر لوگ راہ راست پر ہوتے ہیں تو کامل فائدہ ہوتا ہے۔
(3) یہ کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تم خلق کی خیر خواہی اور دوسروں کی بھلائی کے بھی درپے رہو۔ نفسا نفسی نہ کرو۔ پس دعا میں جس طرح ان کو شریک کرتے ہو تو اس پر عمل بھی کرو کہ اور کاروبار میں ان کو شریک کرو اور رفاہ عام کا لحاظ رکھو۔ (4) یہ کہ دعا عاجزی اور احتیاج کا ثبوت ہے پس جس طرح وہ رب العالمین ہے اسی طرح اس سے سب کو اظہار احتیاج اور عاجزی کرنی چاہیے۔
واضح ہو کہ صراط مستقیم کو عقل سلیم پہچان سکتی ہے مگر اکثر اوقات وہم دخیل ہو کر غلطی میں ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے آپ دنیا میں سینکڑوں اختلافات اور ہزاروں تناقضات دیکھتے ہیں۔ دیکھئے جن چیزوں کو اہل عقل سلیم برا کہتے ہیں ان کو کج فہم بھلا بتلاتے ہیں۔ تمام بنی آدم گوشت کھانے کو مباح مانتے ہیں مگر تھوڑے سے ہندو برا جانتے ہیں۔ علی ہذالقیاس بحکم ” کس نگو ید کہ دوغ من ترش است “ ہر شخص اپنے
1 ؎ کیا اسی تعلیم کو الہام اور نبوت درکار ہے ؟ اے حضرت پیٹ بھرنے کی دعا تو گدھا بھی ہر روز مانگتا ہے۔ چناچہ اس دین میں جنت اور دوزخ یہی دنیا کی عیش و ناکامی ہے اسی لیے عیسائی نماز میں یہی دعا مانگتے ہیں۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ع
فکرِ ہر کس بقدر ہمت اوست حقانی
مذہب و ملت ‘ اخلاق و عادات ‘ معاشرت و معاملات کو راہ راست بتلاتا اور صراط مستقیم کا مصداق ٹھہراتا ہے۔ حلال خوروں سے پوچھئے تو وہ لال گرو کی اطاعت ہی کو باعث نجات بتلاتے ہیں۔ ہندو بت اور عناصر پرستی ہی کو مکتی کہتے ہیں۔ عیسائی تثلیت و کفارہ والوہیت مسیح کو ماننا حیات ابدی کہتے ہیں۔ پارسی آتش پرستی ہی میں سرگرم ہیں۔ الغرض کسی کے کچھ اقوال و افعال ہیں کسی کے کچھ اور بچن 1 ؎ اور کرم 2 ؎ ہیں مگر یہ تو سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ نہ سب حق ہیں نہ سب باطل کیونکہ نہ اجتماع النقیضین ممکن ہے نہ ارتفاع النقیضین۔ پس اس لیے ان میں ایک فریق صراط مستقیم پر ہے اور سب ضلال مبین میں گرفتار اور خوار ہیں۔ کس لیے کہ بری چیز کو بھلا جان کر اس پر نقد عمر عزیز کو صرف کرنا بڑے خسارہ کی بات ہے اور اسی لیے اس جہل مرکب کو حکما نے مرض لا دوا مانا ہے اور خدائے تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں اس کو سب سے بڑا مرض گردانا ہے۔ قُلْ ھَلْ نُنُبّْئُکُمْ بْالْاَخْسَرْیْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسِبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنُعًا ” تم کہو کہ آؤ ہم تم کو بتلا دیں کہ سب سے زیادہ کون خسارہ میں پڑے ہوئے ہیں وہ کہ دنیا میں جن کی کمائی اکارت گئی اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اچھا کر رہے ہیں۔ “ ؎
بروز حشر شود ہمچوروز معلومت
کہ با کہ باختہ عشق در شب دیجور
کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎
خواجہ پندارد کہ دارد حاصلے
خواجہ را حاصل بجز پندار نیست
لیکن جہاں عقل غلطیوں کی سخت دلدل میں پھنس جاتی ہے تو رحمت الٰہی اس کو الہام انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھ سے نجات دیتی ہے یعنی ایسے اختلافات میں انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین کسوٹی ہیں کہ جو ان سے مطابق ہیں تو ٹھیک ورنہ صراط مستقیم سے الگ ہیں۔