Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : سے۔ جو رَزَقْنٰكُمْ : ہم نے دیا تمہیں مِّنْ قَبْلِ : سے۔ پہلے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خُلَّةٌ : اور نہ دوستی وَّلَا شَفَاعَةٌ : اور نہ سفارش وَالْكٰفِرُوْنَ : اور کافر (جمع) ھُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو ! اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تم کو رزق دیا ہے اس سے پیشتر کہ وہ دن آجائے جس میں خریدو فروخت نہیں ہگی۔ اور نہ دوستی ہوگی۔ اور نہ سفارش ہوگی اور جو لوگ کفر کرنے والے ہیں وہی بڑے ظالم ہیں۔
گذشتہ درس میں نبوت اور رسالت کا ذکر تھا۔ اس سے پہلے جہاد کا تذکرہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی حکمت بھی واضح فرمائی ہے۔ اس آیت میں اتفاق فی سبیل اللہ کا بیان ہے اس کا تعلق اس آیت کے ساتھ ہے۔ جس میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ ان کا ایک گروہ موت کے ڈر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر اللہ نے انہیں راستہ میں موت دیدی پھر اپنے خاص فضل سے انہیں دوبارہ زندگی عطا کی۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا قاتلوا فی سبیل اللہ اللہ کے راستے میں دشمنانِ خدا اور دشمنان دین ہے ٹکراجائو۔ اور پھر درمیان میں یہ بھی فرمایا ” من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسناً “ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنا دے۔ اور اللہ اسے بڑھا چڑھا کر عطا کریگا یہ مال خرچ کر نیکی ترغیب ہوگئی۔ جان و مال کی قربانی مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ سورة بقرہ سب سے لمبی سورة ہے۔ اور اس میں مختلف الانواع مسائل ذکر ہوئے ہیں۔ اس سورة میں عبادات ، معجزات اور معاملات کا بیان ہے۔ خصوصاً معاملات کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ عائلی قوانین یعنی نکاح و طلاق کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احکام کی تعمیل نفس پر شاق گزرتی ہے انسان کا نفس اور اس کی سوچ بوجھل ہوجاتی ہے۔ خصوصاً جان و مال کی قربانی پیش کرتے وقت بڑی دشواری پیش آتی ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کے لیے خاص تاکید فرمائی ہے اور اکثر لوگ جان و مال کی وجہ سے ہی معصیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ محبت کسی نفس کی ہو یا مال کی ، یہ انسان کو قانون کی خلاف ورزی پر ابھارتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر جان کو کھپانے کا حکم دیا ہے اور دوسری جگہ مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جان کو لگا دینا نسبتاً آسان سمجھتے ہیں۔ مگر مال کے خرچ کرنے میں بخیل واقع ہوتے ہیں یہ ایک روحانی بیماری ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ایّ دائود من البخل بخل سے بڑی بیماری کون سی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے…؎ گر جان طلبی مذائقہ نیست گر زر طلبی سخن دریں جاست یعنی اگر جان کا مطالبہ ہے تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں جان حاضر ہے اور اگر مال چاہتے ہیں تو یہ بات نہیں بن سکے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کے متعلق خصوصی احکام دیے ہیں۔ مال پر بہت سی عبادت موقوف ہیں اگر مال خرچ نہیں کیا جائے گا تو جہاد بھی نہیں ہوسکتا۔ زکوۃ ادا نہیں ہوتی ، حج نہیں ہوسکتا۔ چناچہ اگلے رکوع میں انفاق فی سبیل اللہ کا تذکرہ بالتفصیل آئے گا۔ انفاق فی سبیل اللہ چناچہ یہاں پر بھی ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین اٰمنو اے ایمان والو انفقوا مما رزقنکم خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔ مراد اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ یہاں پر رزقنکم خصوصاً توجہ طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو کچھ تمہارے پاس ہے یہ ہمارا عطا کردہ ہے ہم نے ہی اسباب و وسائل مہیا کیے تو تمہارے پاس مال آیا وگرنہ انسان اگر اپنی ذاتی کاوش کی بنا پر کچھ حاصل کرنا چاہتا ، تو اسے کچھ نہ ملتا۔ یہ مال ہم نے ہی تمہیں دیا ہے جس سے خرچ کرنے کا حکم دے رہے ہیں لہٰذا اس میں کسی قسم کی حیل و حجت نہیں ہونی چاہئے۔ اسی موضوع کو سورة نور میں بھی بیان فرمایا۔ جہاں غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں فرمایا واٰتو ھم من مال اللہ الذی اٰتکم اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے ان کو دو ، تاکہ وہ مکاتبت کرکے اپنی جان چھڑا سکیں۔ یہاں پر یہ نظریہ واضح کردیا گیا کہ ایماندار اپنے مال کو اپنی ذاتی چیز نہیں سمجھتا بلکہ اللہ کا انعام سمجھتا ہے جو اس نے مہربانی فرما کر عطا کیا۔ کبھی کوئی اسباب پیدا کردئیے۔ کہیں مزدوری مل گئی۔ نوکری میسر آگئی۔ کاروبار میں برکت ڈال دی۔ وراثت سے حصہ مل گیا کوئی تحفہ مل گیا یہ سب مالک الملک کے پیدا کردہ اسباب ہیں۔ اس لیے انسان کو جو بھی مال میسر آتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ملتا ہے لہٰذا اس کے راستے میں خیرات ، صدقات ، زکوۃ وغیرہ پر خرچ کرنا کوئی اپنا ذاتی کارنامہ نہیں سمجھناچاہئے۔ بلکہ اس توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس کا دیا ہوا مال اس کے حکم کے مطابق خرچ ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو مال خرچ کیا جارہا ہے وہ آیا کہاں سے ہے۔ کمائی حلال کی ہے یا حرام کی۔ ناجائز طریقے سے مال حاصل کر نیکی کی بھی سخت وعید ہے ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھائو۔ واجملوا فی الطلب طلب کرنے میں اچھا طریقہ اختیار کرو۔ حرام کی کمائی سے اجتناب کرو۔ حرام کی کمائی کھانے والے کی نہ عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ صدقہ کسی کام آتا ہے۔ اور یہی چیز مرنے کے بعد جہنم کا توشہ بنے گی۔ خرچ میں اعتدال کی راہ اب خرچ کرنے کے متعلق بھی اصول وقواعد ہیں۔ ہر شخص کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ فرمایا ولا تسرفو اسراف نہ کرو ولا تبذر فضول خرچی سے بچ جائو۔ اللہ کے دئیے ہوئے انعام کو صحیح طریقے سے خرچ کرو ہمارے دئیے ہوئے مال میں سے اپنی جائز ضرورتیں بھی پوری کرو۔ اور پھر حقوق و فرائض اور واجبات کا خیال بھی رکھو۔ جہاد کے لیے خرچ کرو۔ اقامت دین اور تبلیغ دین پر خرچ کرو۔ غرباء و مساکین کی اعانت کرو۔ مقروض کا قرضہ ادا کردو۔ تاہم اپنی ذاتی ضرورتیں مقدم ہیں۔ ان کو پہلے پورا کرو۔ یہ بات مستحسن نہیں کہ آدمی سارا مال خرچ کردے اور خود محتاج ہو کر بیٹھ جائے۔ اس کے لیے تو صدیق اکبر ؓ جیسا صبر درکار ہے۔ ایک صحابی کو کچھ سونا حاصل ہوا لا کر حضور ﷺ کے سامنے پیش کردیا کہ اے اللہ کے رسول میں یہ مال صدقہ کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا ایسا مت کرو پہلے اپنی ضروریات پورا کرو۔ اس کے بعد صدقہ کرو۔ خود محتاج ہو کر بیٹھ جائو گے تو پھر شکوہ کروگے۔ خاص طور پر جب کہ برداشت کا مادہ بھی نہ ہو۔ لہٰذا ہر کام میں اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ پورے کا پورا مال خرچ نہ کردو۔ بلکہ اپنی جائز ضروریات کیلئے بھی رکھ لو۔ روز قیامت خریدو فروخت نہ ہوگی فرمایا اللہ کے راستے میں خرچ کرو من قبل ان یاتی یوم لابیع فیہ پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے جب کوئی خریدو فروخت نہیں ہوسکے گی۔ اس سے مراد قیامت کا دن ہے اس دن اگر کوئی شخص کوئی قیمتی سے قیمتی چیز دیکر بھی ایمان یا کوئی نیکی خریدنا چاہے گا تو یہ ممکن ہوگا۔ اول تو کسی کے پاس دنیا کا مال و دولت ہوگا ہی نہیں جس سے کوئی چیز خریدی جاسکے۔ دوسرے وہاں کوئی بازار نہیں لگے گا جہاں خریدو فروخت ہوسکے۔ یہ دنیا عمل کی دنیا ہے۔ یہاں پر انسان اچھے اعمال کے ذریعے ، عبادات کے ذریعے ، مال خرچ کرکے آخرت کا توشہ خرید سکتا ہے مگر وہاں قیامت کے دن ایسی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی کمی کو خریدو فروخت کے ذریعے پورا کرسکے۔ وہاں خریدو فروخت قطعاً ناممکن ہوگی ۔ وہاں پر نیکی حاصل کر نیکی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ اس دارالعمل میں انسان والبقیت الصلحت خیر عند ربک کے مصداق آخرت کے لیے ذخیرہ بنا سکتا ہے۔ وہ تو دارالجزا ہوگا۔ قیامت کے دن تو کردہ اعمال کا بدلہ ملیگا۔ وہاں نئے سرے سے عمل کر نیکی اجازت نہیں ہوگی۔ نہ وہاں خریدو فروخت ہوگی۔ دوستی کام نہ آئے گی فرمایا ولا خلۃ وہاں پر عام دوستی بھی کام نہیں آئے گی۔ جس طرح اس دنیا میں اقربا پروری اور تعلقات کام آتے ہیں وہاں پر ایسا نہیں ہوگا۔ وہاں تو لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہونگے الاخلاء یومذ بعضھم لبعضٍ عدو مگر دوستی وہ کام آئیگی جس کی بنیاد نیکی اور تقویٰ پر ہوگی ” الا المتقین “ اہل ایمان کی دوستی وہاں پر قائم رہے گی۔ مگر فاسق و فاجر اور لہو و لعب والی دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہر ایسا دوست دوسرے سے نفرت کریگا۔ عام سفارش نہیں ہوگی فرمایا جس طرح خریدو فروخت اور عام دوستی نہیں ہوگی۔ قیامت کے دن ولا شفاعۃ عام سفارش بھی نہیں چلے گی۔ اس دنیا کا دستور ہے کہ بڑے لوگ سفارش کے ذریعے بڑے بڑے مجرموں کو چھڑا لیتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن ایسا نہیں ہوگا۔ وہاں سفارش ہوگی مگر اس شخص کے لیے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت مرحمت فرمائیں گے آگے آیۃ الکرسی آرہی ہے۔ جسے اعظم آیتہ فی القرآن کہا گیا ہے۔ اس میں مسئلہ سفارش کو واضح کیا گیا ہے۔ مشرک لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبود ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے اور ہمیں درجات بھی دلائیں گے۔ اس قسم کی سفارش قطعاً باطل ہے کیونکہ وہاں پر شفاعت مشروط ہوگی ۔ دوسرے مقام پر آتا ہے لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن وقال صواباً اس دن تو کوئی کلام بھی نہ کرسکے گا سوائے اس کے کہ جسے اللہ تعالیٰ اجازت دیں گے۔ اور وہ بھی اس شرط پر کہ اس کی بات ٹھیک ٹھیک ہو۔ غلط بات کر نیکی تو اجازت ہی نہیں ہوگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا میری شفاعت اس شخص تک پہنچے گی لمن لا یشرک باللہ شیئاً جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک میں ملوث نہ ہوا ہو۔ مشرک یادہریہ یا کسی اور بد عقیدہ کے لیے سفارش کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو ، جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لو۔ آج یہ موقع ہے۔ یہ عمل کی دنیا ہے اس میں جو کچھ کرسکتے ہو کرلو۔ کل کو دارالجزا میں جاکر یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ وہاں تو بدلہ دیاجائے گا۔ اس روز نہ کوئی شخص نیکی خرید سکے گا۔ نہ کوئی دوستی کام آئیگی اور نہ کوئی سفارش کام آئے گی یہ سب کچھ بتلا دیا۔ مزید شرائط اگلی آیت میں آئینگی۔ کفار ہی ظالم ہیں فرمایا والکفرون ھم الظلمون کفر کرنے والے ہی سب سے بڑے ظالم ہیں انہوں نے اللہ کے احکام ، اسکی کتاب اور اس کے انبیاء کا انکار کیا یہ انسان کے بدبخت ہونے کی واضح نشانی ہے۔ مشرک کے بارے میں واضح حکم ہے ان الشرک لظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اس سے بچ جائو۔ اگر شرک جیسے ظلم سے باز نہیں آئو گے تو پھر اللہ نے جہاد کا حکم بھی دیا ہے اس کے ذریعے کفر و شرک کی بیخ کنی کی جائے گی۔ اور اس کام کے لیے جہاں جان کی قربانی دینی پڑتی ہے وہاں مال بھی لگانا پڑتا ہے۔ اور یہی انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ آگے دو رکوع کے دوران انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر مزید تفصیل کے ساتھ آئے گا۔
Top