Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 111
وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّنَا : ہم نَزَّلْنَآ : اتارتے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے وَكَلَّمَهُمُ : اور ان سے باتیں کرتے الْمَوْتٰى : مردے وَحَشَرْنَا : اور ہم جمع کردیتے عَلَيْهِمْ : ان پر كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے قُبُلًا : سامنے مَّا : نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا : وہ ایمان لاتے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر يَجْهَلُوْنَ : جاہل (نادان) ہیں
اور خواہ ہم ان پر فرشتوں ہی کو اتار دیتے اور (خواہ) ان سے مردے (بھی) باتیں کرنے لگتے اور (خواہ) ہم ہر چیز کو ان کے پاس ان کے سامنے ہی لاکرجمع کردیتے، جب بھی یہ لوگ ایمان لانے کے نہ تھے،161 ۔ سوا اس کے کہ اللہ ہی چاہے لیکن ان میں سے زیادہ تر جہالت ہی سے کام لیتے ہیں،162 ۔
161 ۔ (اس لیے کہ فرط شرارت اور شدت عناد سے یہ طلب حق کا قصدہی نہیں کرتے) بیان منکرین اسلام کی شدت عناد وقساوت قلب کا ہورہا ہے کہ بالفرض ان کی ساری فرمائشیں پوری کردی جائیں اور دنیا بھر کے خوارق انہیں دکھلادیئے جائیں، جب بھی چونکہ وہ اپنے میں طلب صادق پیدا ہی نہیں کرتے، اس لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی الٹی سیدھی تاویل کر ہی لیں گے۔ اور ایمان بہرحال نہ لائیں گے۔ (آیت) ” ولواننا نزلنا الیھم الملئکۃ “۔ جیسا کہ خود ان کی فرمائشیں ہیں۔ (آیت) ” لولا انزل علینا الملئکۃ۔ وکلمھم الموتی “۔ جیسا کہ خود ان کی فرمائشیں تھی۔ (آیت) ” فاتوا بابآینا۔ وحشرناعلیھم کل شیء قبلا “۔ یعنی ہر غیب ان پر مکشوف کردیتے۔ آیت سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مشاہدۂ خوارق سے نفع ہرگز لازمی نہیں۔ اصل شے طلب صادق ہے۔ عاشق کہ شد کہ یار بہ حالش نظرنہ کرد۔ اے خواجہ دردنیست وگرنہ طبیب ہست اور مولانائے رومی (رح) صاحب مثنوی کی زبان میں، آب کم جو تشنگی آوربہ دست تابجوشد آب از بالاؤپست امام المفسرین فخر رازی (رح) نے لکھا ہے کہ کوئی ایک معجزہ تو پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ جس سے عوام صادق وکاذب کے درمیان فرق کرسکیں۔ لیکن ایک سے زیادہ کا مطالبہ کرتے رہنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ ورنہ پھر ہر دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے کی طلب برابر بڑھتی ہی رہے گی، اور سلسلہ کبھی ختم ہی نہ ہوگا۔ المعجزۃ الواحدۃ لابدمنھا لیتمیز الصادق من الکاذب فاما الزیادۃ علیھا فتحکم محض ولا حاجۃ الیہ والا فلھم ان یطلبوا بعد ظھور المعجزۃ الثانیۃ ثالثۃ وبعد الثالثۃ رابعۃ ویلزم ان لاتستقر الحجۃ (کبیر) 162 ۔ جہالت یہی کہ ایمان کا تو قصد ہی نہیں اور فرمائشیں خوارق ومعجزات کی پھر بھی کیے جاتے ہیں۔ پیغمبر کی اصل تعلیمات اور ایمان کے مقصد وغایت پر غور ہی نہیں کرتے۔ اور پیغمبر کو گویا ساحر یا شعبدہ باز سمجھتے ہیں۔ یہ معنی بھی لیے گئے ہیں کہ اتنا نہیں سمجھتے کہ ہر معجزہ وخارق عادت تمامتر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ قال اصحابنا المراد یجھلون بان الکل من اللہ وبقضاۂ وقدرہ (کبیر) (آیت) ” الآان یشآء اللہ “۔ یعنی ان کی تقدیر ہی بدل دی جائے۔ مشیت انہیں زبردستی راہ ہدایت پر لے آئے تو اور بات ہے۔
Top