Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
تو ہم نے کہا اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو اسی طرح خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
73۔ (آیت)” فقلنا اضربوہ “ تو ہم نے کہا کہ مارو اس مردے کو ” بعضھا “ بعض گائے کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ۔ اس بعض میں انہوں (مفسرین) نے اختلاف کیا ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور اکثر مفسرین فرماتے ہیں انہوں نے اس ہڈی کے ساتھ مارا جو غضروف (نرم ہڈی) کے قریب تھی جو کہ مقتل تھی (یعنی وہ جگہ جس پر مارنے سے جانور مرجاتا ہے) حضرت سعید بن جبیر (رح) اور حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ دم کے ابتدائی حصہ کو مارا کیونکہ پیدا ہونے میں یہی حصہ اول ہے اور اعضاء کے بوسیدہ ہونے میں یہ حصہ آخر ہے اور اسی پر دوسری دفعہ تخلیق کو مرکب کیا جائے گا جسے بعث کہتے ہیں ، حضرت ضحاک (رح) فرماتے ہیں گائے کی زبان کے ساتھ مارا ۔ حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں کہ یہ قول اس واقعہ سے متعلق زیادہ کرتا ہے کیونکہ زبان آلہ کلام ہے (اور وہ مقتول بھی اس طرح کرنے سے بولا ہے) کلبی (رح) اور عکرمہ (رح) فرماتے ہیں گائے کی دائیں ران کو مارا اور کہا گیا ۔ اس حال میں کہ اس کی گردن کی رگوں سے خون ٹپک رہا تھا اور کہا مجھے فلاں نے قتل کیا یہ کہنے کے بعد مردہ ہو کر گرگیا ۔ چناچہ قاتل مقتول کی میراث سے محروم کردیا گیا ۔ خبر میں ہے کہ (اس واقعہ) صاحب البقرہ کے بعد قاتل وارث (مقتول) نہیں ہوا اور اس میں اضمار ہے تقدیر (عبارت) یوں ہے ۔ ” فضربت فحی “ پس گائے پس گائے کے کچھ حصہ کو مارا گیا ، جس سے وہ مردہ زندہ ہوگیا۔ (آیت)” کذالک یحی اللہ الموتی “ (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرمائے گا) جس طرح عامیل کو زندہ کیا (آیت)” ویریکم ایاتہ لعلکم تعقلون “ کہا گیا تم اپنے آپ کو معاصی سے روکوگے ۔ باقی رہا اس کا مسئلہ کا حکم اسلام میں کہ جب کسی جگہ مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کا علم نہ ہو ، پس اگر تو وہاں کسی انسان کے ملوث ہونے کا قوی امکان ہو اور اس کی صورت یہ ہے کہ دل میں مدعی کے سچے ہونے کا (گمان) غالب ہو ۔ مثلا یہ کہ ایک جماعت کسی گھر یا جنگل میں جمع ہو ، جب وہ لوگ جدا ہوں تو وہاں ایک مقتول پایا جائے تو ایسی صورت میں یہ بات دل پر غالب ہے کہ قاتل انہیں میں ہے یا مقتول کسی محلہ یا بستی میں پایا جہاں کے سب لوگ مقتول کے دشمن ہیں کوئی غیر دشمن ان میں نہیں تو دل پر یہ بات غالب ہوگی کہ انہوں نے اس کو قتل کیا ہے تو ایسی صورت میں ولی مقتول نے ان میں کسی ایک پر دعوی کیا تو مدعی سے پچاس قسمیں مدعی علیہ کے خلاف اٹھوائی جائیں گی اور اگر اولیاء (مقتول) متعدد ہوں تو قسم ان پر تقسیم کردی جائے گی ، پھر اس کے بعد جب وہ قسمیں اٹھالیں گے تو اگر ان کا دعوی قتل خطاء کا ہے تو مقتول کے عاقلہ سے دیت لیں گے ۔ اور اگر ان کا دعوی قتل عمد کا ہے تو قاتل کے مال سے دیت لیں گے اور اکثر حضرات کے قول کے مطابق قصاص نہیں ہے اور بعض حضرات قصاص کی طرف گئے ہیں ، یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا قول ہے ، امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) نے بھی یہی کہا ہے اور اگر مدعی علیہ کے ملوث ہونے کے امکانات نہ ہوں تو پھر قول مدعی علیہ کا معتبر ہے بمع اس کی قسم کے ، پھر کیا اس مدعی علیہ سے ایک قسم لی جائے گی یا پچاس قسمیں ؟ تو اس میں دو قول ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ ایک ہی قسم ہوگی جیسے کہ باقی دعوؤں میں ہوتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ پچاس قسمیں لی جائیں گی خون کے معاملہ کی سنگینی کے باعث اور حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک کسی کو ملوث کرنے کا (شرعا) کچھ حکم نہیں ہے اور مدعی کی قسم سے آغاز نہیں کیا جائے گا اور (حضرت امام صاحب (رح) نے) فرمایا کہ جب کسی محلہ میں مقتول پایا جائجے تو محلہ کے صلحاء میں سے امام صاحب (رح) پچاس افراد کو منتخب کرے گا اور ان سے یہ قسم لے گا کہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا ہے اور نہ ہی انہیں قاتل کا علم ہے اس کے بعد (امام) وہاں سے باسیوں سے دیت لے گا اور اس امر کی کہ کسی کو ملوث کرنے کی صورت میں مدعی سے قسم کی ابتداء کرائی جائے گی ، دلیل یہ حدیث ہے ، عبداللہ بن سہل ؓ اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر کو نکلے ، دونوں اپنی روزی کے سلسلے میں آپس میں جدا ہوگئے ، پس عبداللہ بن سہل ؓ قتل ہوگئے تو محیصہ اور عبدالرحمن ؓ مقتول مذکور کے بھائی اور حویصہ بن مسعود ؓ حضور ﷺ کی طرف چلے اور حضور ﷺ کی خدمت میں عبداللہ بن سہل ؓ کے قتل کا ذکر کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا (تم پچاس قسمیں اٹھوائے جاؤ گے جس کے باعث تم اپنے ساتھی کے خون کے مستحق ٹھہرو گے یا اپنے قاتل کے) پس انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ (ہم کس طرح قسمیں اٹھائیں) ہم نے نہ تو قتل کا مشاہدہ کیا اور نہ حاضر تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ پھر یہود پچاس قسمیں اٹھا کر بری ہوجائیں گے تو مدعی حضرات نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم کفار قوم کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں ؟ تو حضور ﷺ نے اپنی طرف سے دیت دینے کا عزم فرمایا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی طرف سے دیت دی۔ بشیر بن یسار ؓ کہتے ہیں کہ سہل ؓ نے کہا کہ بیشک اس دیت والے جانوروں میں سے ایک جانور نے ہمارے کھلیان میں مجھے لتاڑ اور ایک روایت میں کہ مجھے سرخ اونٹنی نے جو اس دیت والے اونٹوں میں سے تھے ، ہمارے کھلیان میں لتاڑا ۔ اس سے دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے مدعی فریق کی قسموں سے ابتداء فرمائی تاکہ ان کی طرف سے ملوث کرنے کی جانب قوی ہوجائے اور وہ اس طرح کہ عبداللہ بن سہل ؓ خیبر میں مقتول پائے گئے اور انصار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں اور اہل خیبر میں باہمی عداوت واضح تھی اور دل پر یہ بات غالب تھی کہ حضرت عبداللہ بن سہل ؓ کو اہل خیبر نے ہی قتل کیا ہے اور قسم ہمیشہ اس شخص کی دلیل بنتی ہے جس کی جانب قوی ہوتی ہے اور ملوث نہ کرنے کی صورت میں مدعی علیہ کی جانب مضبوط ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ اصل بات تو مدعی علیہ کا بری الذمہ ہونا ہے اور مدعا علیہ کا قول معتبر ہوتا ہے قسم کے ساتھ ۔
Top