Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 73
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْٓ : وہ جو اِنْ شَآءَ : اگر چاہے جَعَلَ : وہ بنا دے لَكَ : تمہارے لیے خَيْرًا : بہتر مِّنْ ذٰلِكَ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَيَجْعَلْ : اور بنا دے لَّكَ : تمہارے لیے قُصُوْرًا : محل (جمع)
وہ ذات بہت برکت والی ہے اگر وہ چاہے تو آپ کو اس سے بہتر چیزیں عطا فرمادے (یعنی) باغات جن کے تابع نہریں جاری ہوں نیز آپ کے لئے بہت سے محل بنادے
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف ان کی سمجھ اتنی بات نہیں آتی کہ جس خالق کائنات نے ساری کائنات بنائی ہے وہ چاہتا تو ان کے اندازے سے زیادہ خوبصورت باغات جو ہمیشہ شاداب رہتے ، اور ان کی امیدوں سے بڑے دولت کے انبار آپ ﷺ کو عطا فرما دیتا ، ان کی امیدوں سے زیادہ عالی شان محلات آپ ﷺ کے لیے بنا دیتا ، یہ اس کی حکمت کہ اس نے عام آدمی کی خوش نصیبی سے آپ ﷺ کا مزاج عالی ہی ایسا بنایا کہ آپ ﷺ عام زندگی پسند فرماتے اور اپنی رحمت سے آپ ﷺ کو دنیا میں عام لوگوں ہی کی زندگی دی کہ آپ ﷺ ساری انسانیت کے لیے اللہ جل جلالہ کی رحمت ہیں تو ہر عام آدمی کی رسائی آپ ﷺ کی بارگاہ تک رہے ورنہ آپ ﷺ اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح سلطان ہوتے تو عام آدمی تک آپ ﷺ کا ارشاد ہی پہنچتا مگر سارے عرب کو فتح کرکے بہت بڑی اسلامی سلطنت بنا کر اس کے سلطان بن کر بھی آپ ﷺ کی حیات طیبہ انداز مبارک اور رہن سہن عام آدمی کا تھا ۔ (نبی کریم ﷺ کی بات کا اثر) آپ ﷺ سے اللہ کریم نے آپ ﷺ کی پسند بھی چاہی کہ ارشاد ہے اگر میں چاہتا تو پہاڑ سونے کے بن کر میرے ساتھ چلا کرتے مگر میں عام آدمی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں آپ ﷺ نے مثال دینے کے لیے بات کی مگر اس کا اثر یہ ہے کہ ان پہاڑوں میں واقعی سونا بھر گیا ، آج سب میں دریافت ہوچکا ہے بعض سے نکالا جا رہا ہے اور بعض کو محفوظ کردیا گیا ہے ۔ ان کا اصل مسئلہ آپ کا دولت مند ہونا یا عام زندگی اختیار کرنا نہیں ان کا مسئلہ قیامت کا انکار ہے اور انہیں روز آخرت پہ یقین نہٰں جب کہ قیامت کے منکرین کے لیے ہم نے دوزخ کا عذاب تیار کر رکھا ہے کہ قیامت کا انکار اللہ جل جلالہ کی عظمت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے انکار کا سبب بن رہا ہے لہذا یہ سارا وبال دوزخ کے عذاب کی صورت میں انہیں پیش آئے گا کہ جب اسے میدان حشر میں باہر سے دیکھیں گے تو اس کی گرج چمک اور دھاڑیں سن کر لڑزیں گے مگر دوزخ ہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دوزخ کے تنگ و تاریک گوشوں میں پھینک دیئے جائیں اگے تب انہیں سمجھ آئے گی اور موت کی آرزو میں چلائیں گے ، آج کے دن ایک نہیں سینکڑوں موتوں کو پکارو اور ان کی آرزو کرو تب بھی یہاں موت آئے گی نہ یہاں سے چھوٹ سکو گے ان سے فرمائیے کیا یہ انجام بہتر ہے یا وہ انعامات جن کا وعدہ اللہ جل جلالہ کے نیک بندوں سے کیا گیا ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے شاداب باغوں میں ان کا قیام ہوگا ان کے ایمان اور صالح کردار کا خوبصورت بدلہ ، اور وہ ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے کبھی وہاں سے نکالے نہ جائیں گے نہ ان باغوں پہ خزاں کا گذرہو گا بلکہ وہاں جس شے کی تمنا کریں گے پالیں گے یہ تیرے پروردگار کا پکا وعدہ ہے ۔ اور بتوں کے پچاری یا غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو تو ایسا لاجواب کیا جائے گا کہ جن کی وہ عبادت کرتے تھے انہیں ان کے روبرو طلب فرمایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا اور اپنی عبادت پہ لگا لیا یا یہ بدبخت خود ہی گمراہ ہو کر اس میں مبتلا ہوگئے تو سب کہہ اٹھیں گے اے اللہ تو پاک ہے یعنی تیرا علم کامل ہے اور تو خوب جانتا ہے بھلا ہمیں یہ کب زیب دیتا تھا اور ہماری کیا جرات کہ تجھے چھوڑ کر تیری عظمت سے منہ موڑ کر اپنے کو یہ کسی بھی دوسرے کو مخلوق کا معبود یا کار ساز بناتے یہ تو تیری نعمتوں پہ شکر کرنے کی بجائے بگڑ گئے ، تو نے انہیں نعمتیں دیں ان کو ان کے آباؤ و اجداد کو مہلت دی ، یہاں تک کہ یہ غافل ہوتے چلے گئے اور تیری عظمت تیری یاد کو سرے سے بھلا بیٹھے یہی اس قوم کی ہلاکت اور تباہی کا باعث بنا یعنی تیری یاد سے غفلت نے انہیں غیر اللہ کی عبادت میں لگا دیا تو ارشاد ہوگا کہ لو اب تو جن کی عبادت کرتے رہے انہوں نے بھی تمہارے عقائد کے جھوٹا اور غلط ہونے کی گواہی دے دی اب تمہارے پاس نہ تو عذاب سے بچنے کے لیے کوئی عذر ہے اور نہ کسی اور پر ڈالنے کے لیے کوئی دلیل اور نہ ہی اب تمہاری مدد کو کوئی آسکتا ہے بلکہ تم میں سے جو پیشوا بنے ہوئے تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا باعث بنتے رہے جن سے تمہیں امید تھی کہ عذاب سے چھڑا لیں گے انہیں اور بھی بہت زیادہ عذاب ہوگا ، اپنے کرتوتوں کے ساتھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ، ان کے یہ سارے اعتراضات کوئی علمی یا عقلی حیثیت نہیں رکھتے اس لیے کہ آپ ﷺ سے پہلے جو نبی اور رسول گذرے اور جن میں سے بعض کی نبوت کے یہ قائل بھی ہیں وہ بھی تو عام انسانی عادات ہی کے مطابق زندگی گذارتے تھے ، کھاتے پیتے بھی تھے اور کسب معاش بھی فرماتے تھے اور رب جلیل نے انسانوں کو ہی ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا باعث بنا دیا ہے امارت وغربت صحت وبیماری اختیار واقتدار یہ سارے فاصلے ایک ہی بات کو جانچنے کے لیے ہیں کہ اللہ کے کون سے بندے ثابت قدم رہتے ہیں اور انقلابات زمانہ سے سرخرو نکلتے ہیں اور تیرا پروردگار سب کچھ ملاحظہ فرما رہا ہے اور خود دیکھتا ہے ۔
Top