Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ
: یا
كَالَّذِيْ
: اس شخص کے مانند جو
مَرَّ
: گزرا
عَلٰي
: پر سے
قَرْيَةٍ
: ایک بستی
وَّهِيَ
: اور وہ
خَاوِيَةٌ
: گر پڑی تھی
عَلٰي عُرُوْشِهَا
: اپنی چھتوں پر
قَالَ
: اس نے کہا
اَنّٰى
: کیونکر
يُحْيٖ
: زندہ کریگا
ھٰذِهِ
: اس
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْدَ
: بعد
مَوْتِهَا
: اس کا مرنا
فَاَمَاتَهُ
: تو اس کو مردہ رکھا
اللّٰهُ
: اللہ
مِائَةَ
: ایک سو
عَامٍ
: سال
ثُمَّ
: پھر
بَعَثَهٗ
: اسے اٹھایا
قَالَ
: اس نے پوچھا
كَمْ لَبِثْتَ
: کتنی دیر رہا
قَالَ
: اس نے کہا
لَبِثْتُ
: میں رہا
يَوْمًا
: ایک دن
اَوْ
: یا
بَعْضَ يَوْمٍ
: دن سے کچھ کم
قَالَ
: اس نے کہا
بَلْ
: بلکہ
لَّبِثْتَ
: تو رہا
مِائَةَ عَامٍ
: ایک سو سال
فَانْظُرْ
: پس تو دیکھ
اِلٰى
: طرف
طَعَامِكَ
: اپنا کھانا
وَشَرَابِكَ
: اور اپنا پینا
لَمْ يَتَسَنَّهْ
: وہ نہیں سڑ گیا
وَانْظُرْ
: اور دیکھ
اِلٰى
: طرف
حِمَارِكَ
: اپنا گدھا
وَلِنَجْعَلَكَ
: اور ہم تجھے بنائیں گے
اٰيَةً
: ایک نشانی
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَانْظُرْ
: اور دیکھ
اِلَى
: طرف
الْعِظَامِ
: ہڈیاں
کَيْفَ
: کس طرح
نُنْشِزُھَا
: ہم انہیں جوڑتے ہیں
ثُمَّ
: پھر
نَكْسُوْھَا
: ہم اسے پہناتے ہیں
لَحْمًا
: گوشت
فَلَمَّا
: پھر جب
تَبَيَّنَ
: واضح ہوگیا
لَهٗ
: اس پر
قَالَ
: اس نے کہا
اَعْلَمُ
: میں جان گیا
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا
یا اس شخص کی مانند [ جو (بحالت خواب) ایک ایسی بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس کو خیال گزرا کہ اللہ اس بستی کو کیسے زندہ کر دے گا ؟ پھر اللہ نے اس کو ( اسی حالت میں) ایک سو سال تک مارے رکھا پھر اٹھایا اور پوچھا کہ تو اس حالت میں کتنی دیر رہا ؟ تو اس نے کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصّہ ، ارشاد ہوا نہیں ! بلکہ تو سو سال تک یہاں ٹھہرا۔ اب اپنے کھانے اور پینے پر نظر ڈال کہ وہ ابھی تک گلا سڑا نہیں اور اپنی سواری کے گدھے کو بھی دیکھ کہ وہ کس حالت میں ہے ؟ اور یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم تجھے لوگوں کیلئے ایک نشانی بنائیں اور پھر اس کے جسم کی ہڈیوں پر غور کر کہ کس طرح ہم اس کا ڈھانچہ بنا کر کھڑا کردیتے ہیں اور پھر اس پر کس طرح گوشت کا غلاف چڑھا دیتے ہیں ، پس اس شخص پر یہ حقیقت کھل گئی تو وہ بول اٹھا میں یقین کرتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ نے ہرچیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کردیا ہوا ہے
زیر نظر آیت میں کس شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ؟ غور طلب ہے : 447: زیر نظر آیت کا ترجمہ چاہو جس کے ترجمہ سے پڑھو یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ یہ واقعہ کس شخصیت کا ہے ؟ کس بستی کا ہے ؟ اور کس زمانہ کا ہے ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ درس و عبرت حاصل کرنے کے لئے ان تینوں ہی سوالوں کے جواب کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ جو ہدایت اس آیت کریمہ سے مقصود ہے وہ ان سارے سوالوں اور ان کے جوابات سے مستغنیٰ ہے اور اس بحث میں گئے بغیر ہدایت حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ مفسرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو ایک حد تک آپس میں مختلف فیہ ہے اس لئے اس جگہ گفتگو کرنا حرام و ممنوع نہیں کیونکہ کسی صحیح حدیث میں اس کی وضاحت نہیں ملتی ہاں ! مقصود آیت متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ ” اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ “ کے الفاظ پر بہت بحث کی گئی ہے جس کو زیر بحث لانے کی ہم کو ضرورت نہیں۔ کسی نے اس شخص سے مراد حضرت عزیر (علیہ السلام) لئے ہیں کسی نے کوئی اور نبی ، بنی اسرائیل سے بھی مراد لئے ہیں لیکن بعض نے اس سے مراد کوئی کافر بھی لیا ہے کسی نے اس کو ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس واقعہ کا ہونا تسلیم کیا اور کسی نے بہت بعد کا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا زمانہ جو بنی اسرائیل میں سے ایک مشہور ومعروف نبی گزرے ہیں جن کے متعلق یہود کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ ” اللہ کے بیٹے ہیں “ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ ” وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ “ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یرمیاہ نبی ہیں۔ عزیر (علیہ السلام) کا زمانہ نبوت پانچویں صدی قبل مسیح تھا 450 ق م میں ڈیڑھ ہزار یہود کو ان کی قید اور جلاوطنی سے چھڑا کر واپس فلسطین لائے۔ بائیل میں ان کا نام عزرا کا تب یعنی کاتب تورات کی حیثیت سے آتا ہے۔ ایک صحیفہ بھی ان کے نام کی طرف منسوب ہے اور یرمیاہ نبی کا زمانہ ساتویں صدی قبل مسیح میں تھا اور تاریخ یہود میں آتا ہے کہ انہیں نبوت 646 ق م میں ملی تھی۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد حضرت حزقیل نبی بھی لئے ہیں جو یرمیاہ نبی کے ہم عصر اور چھٹی صدی قبل مسیح میں تھے۔ یہ بستی کونسی تھی ؟ نام مختلف لئے گئے ہیں لیکن اکثریت بیت المقدس کی طرف گئی ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ یہ شہر بخت نصر تاجدار باہل کے ہاتھوں 586 ق م میں پوری طرح تاخت و تاراج ہوا ہے بظاہر یہ واقعہ اسی شہر سے متعلق یعنی اس کی تباہی کے بعد قریب ہی کے زمانہ کا ہے۔ عجائب پرستوں نے اس قصہ اور واقعہ کو دیوپری کا قصہ بنا دیا ہے حالانکہ قرآن کریم کا انداز غور فکر کرنے کی طرف دعوت دینے کا ذکر ہے اس وقت بھی جب کہ یہ بصورت وحی نازل کیا گیا اور آج بھی اور رہتی دنیا تک اس کے اندر قومی زندگی کے لئے بہت سی راہنمائیاں ہیں جو ملتی رہی ہیں اور آج بھی مل رہی ہیں جب کہ کوئی ان کے حاصل کرنے والا بھی ہو۔ آیت کے معنی بالکل صاف ہیں اور کسی طرح کا ان میں ابہام نہیں۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کاف حرف تشبیہ کا ہے اور ” کان “ بھی اس کاف تشبیہ سے بنا ہے اور کاف تشبیہ کو بہ سبب کسی ضرورت کے مثلاً بغرض اہتمام تشبیہ یا تبدیل سیاق کلام یا کسی اور ضرورت زبان کے مشبہ بہ سے جدا کر کے مقدم کردینا بھی جائز ہے مثلاً زید کا لاسد سے جب کاف تشبیہ کو کسی سبب سے جدا کر کے مقدم کریں تو یوں کہیں گے۔ کان زید الاسد اس جگہ بھی الذی مشبہ بہ نہیں ہے بلکہ اس سے اس شخص کے مرور کی تشبیہ یا تمثیل مراد ہے پس تقدیر آیت کی یہ ہے : کہ ” الم ترالی الذی کانہ مرعلی قریۃ “ یعنی کیا نہیں دیکھا تو نے اس شخص کو جو گویا کہ گزرا تھا ایک قریہ پر۔ مگر نحوی قاعدہ کے مطابق ” کان “ کا لفظ الذی موصول کے صلہ میں واقع نہیں ہوسکتا تھا اس ضرورت سے حرف تشبیہ یعنی لفظ کان کو مقدم لانا پڑتا تھا اور وہ مقدم ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے اسم و خبر صلہ کے جزو تھے اس لئے ہرف کاف جو اصل لفظ تشبیہ کا تھا وہ اس جگہ مقدم کیا گیا۔ مطلب واضح ہوگیا کہ ” یعنی کیا نہیں دیکھا تو نے اس شخص کو جو گویا کہ گزرا تھا ایک قریہ پر اور درحقیقت وہ شخص گزرا نہیں تھا بلکہ اسی نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں ایک قریہ یعنی بستی پر گزرا ہوں جو ویران پڑی تھی۔ “ اور پھر پورا واقعہ جو اس نے دیکھا تھا بیان کردیا۔ قرآنِ کریم میں اس شخص کا جس کا رویا بیان ہوا ہے ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس قریہ کا جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا جس میں گزرنا اس شخص نے رؤیا میں دیکھا تھا اگرچہ اس بستی کے تعین کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اس سے کچھ مقصود نہیں کہ وہ کونسی بستی ہو اور تعین کرنے والوں نے اسکو جو تعین کیا ہے ممکن ہے کہ وہ ہی بستی ہو۔ البتہ اس شخص کا جس نے یہ رویا دیکھا تعین کرنا چاہئے اسی طرح بستی خود بخود متعین ہوجائے گی۔ یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ اقدس میں اس بستی کو اور اس گزرنے والے شخص کے متعلق ہر کوئی جانتا ہوگا جس وجہ سے ان کا تعین نہ کیا گیا ہو ممکن ہے۔ تاریخی واقعات سے جہاں تک کہ تحقیق ہو سکتی ہے اور پھر جن پر اعتماد بھی ہوسکتا ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نحمیانبی تھے اور یہ نبی عزیز (علیہ السلام) کے معاً بعد ہوئے۔ توریت میں جو واقعات بیت المقدس کی ویرانی کے لکھے ہیں اور جو زمانہ اس کا قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخت نصر نے 586 ق م میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور 584 ق م میں بیت المقدس کو فتح کرلیا اور معبد کو جلا دیا اور بیت المقدس کو تباہ وویران کردیا مگر کیخسرو بادشاہ ایران نے غلبہ پا کر یہودیوں کو قید بابل سے آزاد کیا اور 546 ق م میں انہوں نے بیت المقدس میں واپس آکر قربانیاں کیں اس کے بعد کسی بادشاہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی تعمیر کی اجازت دی اور کسی نے پھر منع کردیا۔ پھر 518 ق م میں دارا نے بیت المقدس کی تعمیر کی اجازت دی لیکن ہامان کی دشمنی سے اس پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ 467 ق م میں عزیز پیغمبر بیت المقدس گئے اور یہودیوں کی بھلائی کا زمانہ شروع ہوا مگر بیت المقدس اس طرح جلا ہوا اور گرا پڑا تھا کہ عزیر نبی بھی اللہ کو پیارے ہوئے اور ازیں بعد عممیانبی ان کی تحریک کو دوبارہ لے کر اٹھے ان کو بھی بیت المقدس کا بہت رنج تھا انہوں نے اللہ سے بہت التجا کی اور دعا کرتے رہے کہ وہ کسی طرح پھر تعمیر ہو۔ ایک وفعہ بادشاہ وقت کے پاس حاضر تھے لیکن بہت ہی رنجیدہ خاطر بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں رنجیدہ ہو انہوں نے کہا کہ میں کیوں زنجیدہ نہ ہوں کہ وہ شہر جس میں ہمارے آباء کے نشانات اور بیت المقدس جیسی عبادت گاہ تھی وہ ویران پڑا ہے۔ اس کے دروازے آگ سے جلے پڑے ہیں اور چھتیں ڈھ ڈھیری ہوئی ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا پھر آپ کیا چاہتے ہیں نممیانبی نے کہا کہ آپ مجھ کو وہاں جانے دیں تاکہ میں اس کو پھر تعمیر کروں۔ بادشاہ نے اجازت دی اور ایک میعاد بھی مقرر کردی کہ اتنے عرصہ کے اندر اندر اس کو تعمیر کرلو۔ حضرت نحمیابیت المقدس کی تعمیر میں مصروف تھے تو لوگ اور خصوصاً مخالفین ان پر ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ کیا وہ بیت المقدس کو دوبارہ بنائیں گے اس کے پتھروں کو جو جلے ہوئے اور خاک کے ڈھیروں کے تلے جمع ہیں نکال لیں گے۔ کتاب نحمیا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نحمیا کو بیت المقدس کی تعمیر کی بڑی ہی فکر تھی اور اپنے اللہ کے سامنے ہمیشہ التجا اور دعا کرتے تھے بلاشبہ ان کے دل میں یہ بات گزری ہوگی کہ اس شہر کے مرجانے یعنی ویران ہوجانے کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اس کو زندہ یعنی آباد کرے گا۔ انہیں تردوات اور اللہ سے التجا کرنے کے زمانہ میں جیسا کہ مقتضائے فطرت انسانی ہے حضرت نحمیا نے رویا میں دیکھا اور ان کو تسلی ہوئی کہ بیت المقدس آباد اور تعمیر ہوجائے گا۔ اس رویا کا ذکر اس آیت میں جس کی اس وقت تفسیر کی جا رہی ہے اور وہ رویا یہی ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ میں ایک قریہ میں گیا ہوں جو بالکل تباہ و برباد اور ویران پڑا ہے رویا ہی میں انہوں نے کہا کہ اس قریہ کے اس طرح مرجانے یعنی ویران ہوجانے کے بعد کس طرح اللہ اس کو زندہ یعنی آباد کردے گا۔ اسی حالت رویا میں انہوں نے دیکھا کہ میں مر گیا ہوں اور پھر جی اٹھا ہوں رویا ہی میں ان سے کسی نے کہا کہ کتنی دیر تک تم پڑے رہے انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن ایک دن سے کچھ کم اس نے رؤیا ہی میں کہا کہ تم تو سو برس تک پڑے رہے اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ وہ تو نہیں بگڑیں اور اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا کیا حال ہوگیا ہے اور دیکھو کہ اس کی ہڈیاں کس طرح ہلتی ہیں اور آپس میں ملتی ہیں اور پھر کس طرح ان کے اوپر گوشت چڑھتا ہے ۔ اس عجیب رویا سے جب وہ بیدار ہوئے تو ان کو مکمل تسلی ہوئی کہ بیت المقدس ضرور تعمیر ہوجائے گا پس یہی قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت و عظمت کو جتاتا ہے اور اس طرح زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے مفسرین نے اس سیدھی بات کو بھی ایک عجوبہ بات بنا کر بیان کیا اور سنی سنائی باتیں جن کی کوئی تحقیق نہ کی اور دور از کار قصے کہانیاں اس میں شامل کردیئے ۔ بہ ایں ہمہ ان تمام باتوں پر غور کیا جاتا ہے تو اصل بات بھی اس میں سے نکل آتی ہے۔ چناچہ اس مقام پر بھی جو روایت ابن عباس ؓ سے تفسیر کبیر میں بیان کی گئی ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ یہ تمام واقعہ جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے وہ ایک رؤیا تھا اس روایت میں بھی بجائے حضرت نحمیا کے حضرت عزیر کا نام لکھا ہے ممکن ہے کہ اس خواب کو دیکھنے والے حضرت عزیر ہی ہوں مگر تاریخ سے مطابقت کرنے سے حضرت نحمیا کا ہونا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اس روایت میں لکھا ہے کہ جب وہ بیت القدس میں پہنچے تو وہاں انجیر اور انگور پک رہے تھے۔ انہوں نے انجیر اور انگور کھائے اور انگوروں کو نچوڑ کر ان کا شیرہ پیا اور سو رہے اور سونے ہی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انکو مردہ کردیا اور سو برس تک مرے پڑے رہے۔ ان لفظوں سے صاف صاف ثابت ہوتا ہے کہ علماء متقدمین کی بھی یہ رائے تھی کہ یہ واقعہ حالت نوم میں گزرا تھا جس کو ہم نے سیدھی طرح رؤیا سے تعبیر کیا ہے۔ قرآنِ کریم کا سیاق کلام اس طرح پر واقع ہوا ہے کہ جو قصے اس میں بیان کئے گئے ہیں ان کا مقصد بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ دیکھو سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد گرامی سے کہا کہ میں نے گیارہ ستاروں ، چاند اور سورج کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ میں نے ایسا خواب میں دیکھا کہ چاند ستارے اور سورج مجھ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ خواب میں دیکھنا قرینہ کلام سے علانیہ روشن تھا والد نے فواً فرمایا کہ بیٹا اپنا خواب دوسرے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا اور پھر یہ سن کر بیٹے یعنی یوسف نے بھی نہیں فرمایا کہ ابوجان ! میں نے تو حقیقت میں دیکھا تھا ۔ اس مقام پر بھی حضرت نحمیا کے خواب کا مقصد بیان کیا گیا ہے اور پھر ” فَلَمَّا تَبَیَّنَ “ کے لفظ سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ تمام واقعات جو زیر نظر آیت میں بیان ہوئے ہیں رؤیا میں واقع ہوئے ہیں۔ رویا میں اصل حقیقت واضح کر کے دکھا دی گئی : 448: ” اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو ان پر برسوں پڑے رہنے کی کوئی نشان نہیں ہے اور اپنی سواری کے گدھے پر بھی نظر کرو کہ وہ کس حالت میں ہے ؟ “ اس پورے منظر سے گویا اللہ تعالیٰ نے حیات افرادی اور حیات قومی کا فرق ظاہر کر کے بتا دیا کہ حیات افراد میں صرف کھانے پینے کی اشیاء پر انحصار ہوتا ہے اگر یہ ساری چیزیں بافراغت ملتی رہیں تو حیات افراد موجود رہتی ہے اور اس کا تعلق روز مرہ زندگی کے ساتھ ہے لیکن قومی زندگی اور موت کا تعلق صدیوں سے ہوا کرتا ہے۔ کوئی قوم اچانک ہی نہیں مرتی بلکہ مرتے مرتے مرتی ہے اور اس طرح جب وہ زندہ ہونے لگتی ہے تو اچانک زندہ نہیں ہوجاتی بلکہ زندہ ہوتے ہوتے ہی زندہ ہوتی ہے۔ قوموں کا عروج وزوال انفرادی زندگی کی طرح نہیں ہوتا۔ اس رویا صادقہ میں انفرادی زندگی کو کھانے اور پینے کی اشیاء سے تعبیر کیا گیا اور قومی زندگی کو سواری کے جانور کے مرنے اس کی ہڈیاں اور پارہائے گوشت کے گل سڑجانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ پورا منظر دکھا کر اس کو باور کرا دیا گیا ہے کہ موت وحیات معنوی کے لئے یہی قانون قدرت اپنا کام کر رہا ہے جوان اصولوں سے فائدہ اٹھائے گا یقیناً ان کو فائدہ دیا جائے گا اور جو غافل رہے گا وہ بھی اپنی غفلت کا انجام دیکھے گا۔
Top