Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ
: یا
كَالَّذِيْ
: اس شخص کے مانند جو
مَرَّ
: گزرا
عَلٰي
: پر سے
قَرْيَةٍ
: ایک بستی
وَّهِيَ
: اور وہ
خَاوِيَةٌ
: گر پڑی تھی
عَلٰي عُرُوْشِهَا
: اپنی چھتوں پر
قَالَ
: اس نے کہا
اَنّٰى
: کیونکر
يُحْيٖ
: زندہ کریگا
ھٰذِهِ
: اس
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْدَ
: بعد
مَوْتِهَا
: اس کا مرنا
فَاَمَاتَهُ
: تو اس کو مردہ رکھا
اللّٰهُ
: اللہ
مِائَةَ
: ایک سو
عَامٍ
: سال
ثُمَّ
: پھر
بَعَثَهٗ
: اسے اٹھایا
قَالَ
: اس نے پوچھا
كَمْ لَبِثْتَ
: کتنی دیر رہا
قَالَ
: اس نے کہا
لَبِثْتُ
: میں رہا
يَوْمًا
: ایک دن
اَوْ
: یا
بَعْضَ يَوْمٍ
: دن سے کچھ کم
قَالَ
: اس نے کہا
بَلْ
: بلکہ
لَّبِثْتَ
: تو رہا
مِائَةَ عَامٍ
: ایک سو سال
فَانْظُرْ
: پس تو دیکھ
اِلٰى
: طرف
طَعَامِكَ
: اپنا کھانا
وَشَرَابِكَ
: اور اپنا پینا
لَمْ يَتَسَنَّهْ
: وہ نہیں سڑ گیا
وَانْظُرْ
: اور دیکھ
اِلٰى
: طرف
حِمَارِكَ
: اپنا گدھا
وَلِنَجْعَلَكَ
: اور ہم تجھے بنائیں گے
اٰيَةً
: ایک نشانی
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَانْظُرْ
: اور دیکھ
اِلَى
: طرف
الْعِظَامِ
: ہڈیاں
کَيْفَ
: کس طرح
نُنْشِزُھَا
: ہم انہیں جوڑتے ہیں
ثُمَّ
: پھر
نَكْسُوْھَا
: ہم اسے پہناتے ہیں
لَحْمًا
: گوشت
فَلَمَّا
: پھر جب
تَبَيَّنَ
: واضح ہوگیا
لَهٗ
: اس پر
قَالَ
: اس نے کہا
اَعْلَمُ
: میں جان گیا
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ : قریہ سے مراد بیت المقدس یا دیر ہرقل۔ آگے ہم قصہ ذکر کریں گے۔ کالذی میں کاف زائد ہے اور الذی کا عطف الذی حاجَّ پر ہے یہ گذرنے والا شخص ارمیا تھا بقول ابن اسحاق ارمیا ہی خضر تھے۔ لیکن حاکم نے حضرت علی ؓ اور اسحاق بن بشیر (رح) نے حضرت عبد اللہ بن سلام کا قول نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ ( ارمیا نہیں) عزیر ( علیہ السلام) تھے۔ مجاہد (رح) نے واقعہ نمرود کے ساتھ اس قصہ کے نظم کو پیش نظر رکھ کر صراحت کی ہے کہ یہ شخص کوئی کافر تھا لیکن مجاہد کا یہ استدلال غلط ہے کیونکہ کافر اس عزت افزائی کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کی توجیہ میں کوئی یہ کہے کہ وہ کافر تھا لیکن نشان قدرت کو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد وہ مؤمن ہوگیا تھا تو ہم کہیں گے کہ پھر یہ شخص مؤمن بالغیب نہ رہا اور ایمان بالشہود ناقابل اعتبار ہے ( لہٰذا ایسا شخص عزت افزائی کے قابل نہیں) دونوں قصوں کی وجہ جامع صرف یہ ہے کہ دونوں واقعے تعجب انگیز ہیں اگرچہ ایک قصہ میں دعاء ربوبیت نہیں ہے جو شخص قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ اپنی کمزوری محسوس کر رہا ہو اس کو اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر تعجب ہو تو کیا بعید ہے ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے دیکھو نطفہ سے آدمی اور بیج سے درخت کس طرح بن جاتا ہے۔ ( یہ کیا کچھ کم تعجب انگیز ہے) وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا (یعنی وہ بستی ویران ہوگئی تھی پہلے چھتیں گری تھیں اوپر سے دیواریں بھی گرگئیں۔ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ( تو اس نے کہا اس بستی کو ( یعنی بستی والوں کو) مرے پیچھے اللہ کیسے زندہ کرے گا ؟ ) یہ استفہام انکاری نہیں بلکہ) عادۃً چونکہ ایسا ہونا بعید تھا تو انہوں نے اس بستی کو زندہ کرنے کی تمنا آگیں درخواست کی پھر وہ بطور تواضع اپنے کو اس قابل بھی نہ جانتے تھے کہ ان کی درخواست قبول ہو سکے اس لیے استفہام تمنائی کیا۔ محمد بن اسحاق نے بروایت وہب بن منبہ قصہ اس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ارمیا کو ناشیہ بن اموص شاہ بنی اسرائیل کے پاس اس کی امداد کے لیے مقرر فرمایا تھا ناشیہ نیک آدمی تھا۔ حضرت ارمیا کو اس کے پاس اللہ کے احکام لے کر جاتے تھے۔ جب بنی اسرائیل کے گناہ بہت بڑھ گئے تو اللہ نے ارمیا کے پاس وحی بھیجی کہ آئندہ میں اسرائیلیوں کو عظیم ترین مصیبت میں مبتلا کروں گا ایک ظالم کو ان پر مسلط کروں گا اور ان کی بیشتر تعداد کو تباہ کردوں گا یہ حکم سن کر ارمیانے فریاد وزاری کی ( اور بےقرار ہوگئے) اس پر وحی آئی جب تک تیری اجازت نہ ہوگی میں ان کو تباہ نہیں کروں گا اس حکم سے ارمیا خوش ہوگئے اس طرح تین سال گذر گئے مگر بنی اسرائیل کی نافرمانیاں بڑھتی ہی گئیں وحی آنا بھی کم ہوگئی بادشاہ نے ہرچند توبہ و استغفار کا مشورہ دیا۔ مگر لوگوں نے نہ مانا آخر بخت نصر شاہ بابل نے ناقابل مقابلہ فوج لے کر بنی اسرائیل کی طرف مارچ کیا (چڑھائی کی ‘ 12) بنی اسرائیل کا بادشاہ ڈر گیا۔ حضرت ارمیا نے فرمایا : مجھے اللہ کے وعدہ پر پورا اعتماد ہے اس کے بعد بحکم خدا ایک فرشتہ اسرائیلی آدمی کے بھیس میں حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے نبی میں اپنے گھر والوں کے متعلق آپ سے مسئلہ پوچھنے آیا ہوں میں نے ہمیشہ ان سے اچھا سلوک ہی کیا مگر وہ میری ناراضگی بڑھانے والی حرکتیں کرتے ہیں حضرت ارمیانے فرمایا : تم ان سے بھلائی کرتے رہو قطع تعلق نہ کرو اور خیر کی بشارت لو ( فرشتہ چلا گیا) کچھ مدت کے بعد وہی فرشتہ اسی آدمی کے بھیس میں پھر آیا اور پہلے کی طرح سوال کیا اور جواب بھی اس کو پہلے ہی کی طرح ملا کچھ زمانہ کے بعد بخت نصرنے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اس وقت ارمیا بیت المقدس کی دیوار پر بیٹھے ہوئے تھے اور بنی اسرائیل کا بادشاہ آپ سے کہہ رہا تھا اللہ کا وعدہ کیا ہوا جو آپ سے کیا تھا لیکن حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کو اللہ کے وعدہ پر بھروسہ تھا اور وہ خوش تھے اچانک وہی فرشتہ اسی آدمی کے بھیس میں پھر آیا اور اپنے گھر والوں کی شکایت کی۔ حضرت ارمیا نے فرمایا : کیا ابھی تک وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے فرشتہ نے کہا یا نبی اللہ اب تک تو جو دکھ مجھے پہنچتا تھا میں صبر کرتا تھا لیکن اب تو وہ اللہ کی ناراضگی کے عظیم ترین کام کرتے ہیں اس لیے مجھے اللہ کے لیے غصہ آیا ہے جس خدا نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے ‘ میں اسی خدا کے واسطے آپ سے درخواست کرتا ہوں آپ انکے لیے بددعا کردیجئے اللہ ان کو غارت کرے۔ یہ سن کر حضرت ارمیا ( علیہ السلام) نے دعا کی اے زمین و آسمان کے بادشاہ اگر وہ تیری ناراضگی کے کام کر رہے ہیں تو ان کو تباہ کردے دعا کے بعد فوراً اللہ تعالیٰ نے ایک بجلی گرائی جس سے قربان گاہ میں آگ بھڑک اٹھی اور سات دروازے زمین میں دھنس گئے حضرت ارمیا ( علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب تیرا وعدہ کیا ہوا ‘ ندا آئی ان پر جو عذاب آیا وہ صرف تیری بددعا سے آیا ہے اس وقت حضرت ارمیا کو معلوم ہوا کہ وہ شخص حقیقت میں اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ تھا اس کے بعد حضرت ارمیا ( علیہ السلام) جنگل کو نکل گئے۔ بخت نصر نے آکر بیت المقدس کو تباہ کردیا اور ملک شام کو روند ڈالا۔ اسرائیلیوں کو قتل کیا اور قیدی بنایا یہی وہ پہلی سزا تھی جو اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کی بےجا حرکتوں کی وجہ سے دی تھی۔ جب بخت لوٹ کر بابل کو چلا گیا تو ارمیا اپنے گدھے پر سوار ہو کر ( جنگل سے واپس) آئے آپ کے ساتھ توشہ دان میں کچھ عرق انگور اور ایک ٹوکری انجیر تھے آکر بیت المقدس پر ٹھہر گئے اور تباہی کو دیکھ کر بولے : انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا۔ پھر آپ نے رسی سے گدھے کو باندھا اور اللہ نے آپ پر نیند مسلط کردی۔ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ (پس اللہ نے اس کو مارڈالا ( یعنی موتنما نیند مسلط کردی) سعید بن منصور نے حسن بصری کا قول اور ابن ابی حاتم نے قتادہ کا قول نقل کیا کہ یہ نیند چاشت کے وقت شروع ہوئی تھی پھر۔ مِائَـةَ عَامٍ (سو برس تک وہ مردہ رہا۔ گدھا، عرق انگور اور انجیروں کا ٹوکرا بھی ان کے پاس ہی رہا۔ اللہ نے لوگوں کی نظروں سے ان کو چھپا دیا کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ ستّر سال اسی حالت پر گزر گئے۔ ستر برس کے بعد اللہ نے ایک فرشتہ نوشک شاہ فارس کے پاس بھیجا فرشتے نے جا کر کہا اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ بیت المقدس اور ایلیا کی از سر نو تعمیر کر تاکہ یہ پہلے سے زیادہ آباد ہوجائیں۔ حسب الحکم نوشک نے آباد کاری شروع کردی اور ادھر ایک مچھر بخت نصر کے دماغ میں گھس گیا اور اللہ نے مچھر کے ذریعہ سے اس کو ہلاک کردیا اور جو اسرائیلی بابل میں اس وقت تک زندہ رہ گئے تھے ان کو رہائی دلادی وہ سب بیت المقدس اور اس کے مضافات میں واپس آگئے اور تیس برس میں پہلے سے بہتر آبادی ہوگئی اس وقت اللہ تعالیٰ نے ارمیا ( علیہ السلام) کو پھر زندہ کرکے۔ ثُمَّ بَعَثَهٗ (اٹھا دیا یہ وقت غروب آفتاب سے کچھ پہلے کا تھا اللہ نے آپ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا اور۔ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ (اس نے ارمیا سے پوچھا آپ کا یہاں توقف کتنا ہوا ارمیا ( علیہ السلام) کو خیال ہوا کہ یہ یوم خواب کا ہی سورج ہے ( جو قریب غروب ہے) اس لیے۔ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا (کہا کہ میں ایک دن یہاں ٹھہرا پھر سورج کی طرف منہ موڑ کر دیکھا تو سورج کو قریب غروب دیکھ کر فرمایا : اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ (یا دن سے کچھ کم) قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ (فرشتہ نے کہا نہیں بلکہ آپ یہاں سو برس رہے) فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ (اب اپنے کھانے پینے یعنی انجیر اور عرق کو دیکھ لو کہ) لَمْ يَتَسَـنَّهْ (کوئی چیز بھی نہیں بگڑی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انجیر ابھی درخت سے توڑے گئے ہیں اور عرق ابھی نچوڑا گیا ہے۔ کسائی نے کہا گویا برسہا برس کی مدت ان پر نہیں گذری تھی۔ حمزہ کسائی اور یعقوب نے حالت وصل میں لَمْ یَتَسَنَّہ کی ھاء کو حذف کرکے یَتَسَنَّ پڑھا ہے۔ لیکن حالت وقف میں باقی رکھا ہے اسی طرح آیت : فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہِ میں بھی اصحاب ثلاثہ کی یہی قرأت ہے۔ جو لوگ ھاء کو حذف نہیں کرتے وہ اس کو اصلی (یعنی مادہ کی) ھا قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لفظ سِنَۃ سے بنا ہے اور سنۃ کی تاء اصل میں ھاء تھی اور سنۃ کی اصلی سنھۃٌ تھی کیونکہسنۃ کی تصغیر سُنَیْھَۃٌ آتی ہے اور مصدرمَسَانَھَۃٌ آتا ہے لیکن اگر اس کو اصلی ھا نہ کہا جائے اور لام کلمہ میں اصلاً واؤ قرار دیا جائے تو یہ ھاء سکتہ ہوگی واؤ کو فتحہ ما قبل کی وجہ سے الف سے بدل دیا پھر الف کو حذف کردیا اور ھا سکتہ حالت وقف میں بڑھا دی بعض علماء کا قول ہے کہ لَمْ یَتَسَنّہ کی اصل لَمْ یَتَسَنَّنْ تھی ( اصل مادہ سَنٌّ ہے) اَلْحَمَأَ الْمَسْنُوْنُ کا اور اس کا ایک مادہ ہے تیسرے نون کو حرف علت سے بدل دیا گیا ہے جیسے آیت دَسَّاھَا میں ( دَسَّااصل میں دَسَّسَ تھا) لَمْ یَتَسَنَّہ کی مفرد ضمیر طعام و شراب کی طرف راجع ہے۔ (مرجع اگرچہ تثنیہ ہے ضابطہ کے مطابق تثنیہ کی ضمیر ہونی چاہئے لیکن مفرد لانے کی وجہ یہ ہے کہ) طعام و شراب کی جنس ایک ہی ہے ( یعنی دونوں غذا ہیں) وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ ( اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو حسب الحکم ارمیا ( علیہ السلام) نے گدھے کی طرف دیکھا۔ بقول بعض علماء گدھا ویسا ہی زندہ سالم کھڑا تھا جیسا اسکو باندھ کر سوئے تھے سو سال تک گدھے نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ نئی رسی اسکے گلے میں بندھی ہوئی تھی رسی بھی خراب نہیں ہوئی تھی۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ گدھا مرچکا تھا ہڈیاں بھی گل چکی تھیں پھر ارمیا ( علیہ السلام) کی نظر کے سامنے بحکم خدا ایک ہوا میدان اور پہاڑ سے اسکی ہڈیاں سمیٹ کر لائی کیونکہ پرندے اور درندے انکو جا بجا لے جا چکے تھے ( پھر اللہ نے گدھے کو زندہ کردیا) میں کہتا ہوں کہ مؤخر الذکر قول پر لفظ واَنظُر دلالت کررہا ہے کیونکہ اگر کھانے پینے کی طرح گدھا بھی صحیح سالم باقی ہوتا تو فانظر الی طعامک و شرابک و حمارک کہنا چاہئے تھا ( دوبارہ مستقل طور پر اُنْظُر کہنے کی ضرورت نہ تھی) وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ (یعنی ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی دلیل لوگوں کو دکھانے کے لیے تجھے بنائیں گے۔ بعض علماء کے نزدیک آیت کے شروع میں واؤ زائد ہے۔ فراء نے کہا اس آیت کا تعلق فعل محذوف سے ہے ( اور واو عطف جملہ کے لیے ہے) یعنی اور ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے تیری دوبارہ زندگی کو حیات بعد الموت کی دلیل بنائیں۔ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ ( یعنی گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو یہ مطلب اس صورت میں ہوگا جب گدھے کو مردہ اور فنا شدہ مان لیا جائے۔ اکثر اہل تفسیر کا یہی قول ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ خود حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کی ہڈیاں مراد ہیں ( اوّل) آپ کی آنکھیں اور سر زندہ کیا گیا اس وقت تک باقی بدن فرسودہ بوسیدہ ہی تھا اور ہڈیاں صاف ( بےگوشت اور) پراگندہ پڑی ہوئی تھیں۔ لیکن اس قول کی تردید رسول اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ انبیا کے اجسام اللہ نے زمین کے لیے حرام کردیئے ہیں ‘ (زمین ان کو گلا نہیں سکتی) ۔ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ( کس طرح ہم ان کو زمین سے اٹھا کر باہم جوڑتے ہیں یہ ترجمہ نُنْشِز پڑنے کی صورت میں ہوگا جو اہل حجاز و اہل بصرہ کے علاوہ تمام قاریوں کی قرأت ہے اہل حجاز و بصرہ ننشرھا راء کے ساتھ پڑھتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ ( انشار زندہ کرنا اور نشور زندہ ہونا) آیت میں آیا ہے : ثم اذا شاء انشرہ ایک اور آیت ہے : وَ اِلَیْہِ النُّشُوْر . ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا (پھر ہم ہڈیوں کو گوشت پہناتے ہیں چناچہ اللہ نے ہڈیوں کو گوشت اور خون ( کا لباس) پہنا دیا اور وہ آدمی زندہ ہوگیا یا ہڈیاں گوشت کا لباس پہن کر گدھے کا مجسمہ بن گئیں پھر فرشتہ نے اس میں روح پھونک دی اور گدھا زندہ اٹھ کھڑا ہوا اور رینگنے لگا۔ آیت میں الفاظ کی کچھ تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل عبارت اس طرح تھی : بَلْ لَبِثْتَ مِأَۃَ عَامٍ اَمَتْنَاکَ ثُمَّ اَحْیَیْنَا فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہ وَانْظُرْ اِلٰی حَمَارِکَ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوھَا لَحْمًا وَ فَعلْنَا ذٰلِکَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنّاسِ ۔ بلکہ تو سو سال یہاں رہا ہم نے تجھے مردہ کردیا تھا پھر زندہ کردیا اب اپنے کھانے پینے کو دیکھ لے کہ کوئی چیز خراب نہیں ہوئی ہے اور گدھے کو دیکھ اور ہڈیوں کو دیکھ کہ کس طرح ہم ان کو جمع کر کے جوڑتے اور پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں ہم نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تجھے لوگوں کو ( قیامت کا) یقین دلانے کے لیے نشانی بنائیں۔ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ (جب اللہ کی حکمت (اور قدرت) اس شخص پر کھل گئی تو اس نے کہا۔ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (مجھے یقین ہے کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اَعْلَمْ قراءت جمہور کی ہے۔ حمزہ اور کسائی نے اِعْلَمْ بصیغۂ امر پڑھا ہے۔ اس صورت میں کہنے والا فرشتہ ہوگا یا اللہ یا اس شخص نے خود اپنے نفس کو خطاب کیا ہوگا۔ روایت میں آیا ہے کہ بخت نصر بیت المقدس کو تباہ کرکے بنی اسرائیل کو قید کرکے بابل لے گیا۔ قیدیوں میں حضرت عزیر ( علیہ السلام) ، حضرت دانیال ( علیہ السلام) اور حضرت داؤد کی نسل کے کچھ لوگ بھی تھے کچھ مدت کے بعد عزیر ( علیہ السلام) قید سے چھوٹ گئے اور گدھے پر واپس آگئے۔ دیر ہرقل پر پہنچے تو دجلہ کے ساحل پر اترے اور بستی میں چکر لگایا مگر کوئی آدمی نہ ملا، ہاں تمام درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے آپ نے کچھ پھل کھائے اور انگوروں کا عرق نچوڑ کر پیا اور بقیہ پھل ایک ٹوکری میں رکھ لیے اور بچا ہوا عرق مشکیزے میں بھر لیا اور بستی کی تباہی کو دیکھ کر بولے : اَنّٰی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا الخ . قتادہ نے حضرت کعب کا قول اور ضحاک اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس کا بیان نیز سدی نے بروایت مجاہد حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب سو برس تک مردہ رکھنے کے بعد اللہ نے عزیر ( علیہ السلام) کو زندہ کردیا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں آئے لیکن نہ لوگوں کو پہچان سکے نہ ان کے مکانوں کو نہ لوگوں نے ان کو پہچانا صرف اندازہ سے اپنے گھر پر پہنچے تو ایک نابینا اپاہج بڑھیا ملی جس کی عمر 120 سال تھی حقیقت میں وہ حضرت عزیر ( علیہ السلام) کی باندی تھی جب حضرت گھر سے نکلے تھے تو وہ بیس برس کی تھی آپ نے اس بڑھیا سے پوچھا کیا یہ عزیر کا مکان ہے بڑھیا نے کہا جی ہاں ! لیکن میں نے تو عزیر ( علیہ السلام) کا تذکرہ اتنی مدت کے بعد آج سنا ہے ( تم کون ہو) ؟ حضرت نے فرمایا : میں عزیر ( علیہ السلام) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سو سال تک مردہ کردیا تھا پھر زندہ کردیا۔ بڑھیا نے کہا : عزیر ( علیہ السلام) تو مقبول الدعوات شخص تھے اگر تم عزیر ( علیہ السلام) ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میری آنکھیں واپس مل جائیں۔ حضرت نے دعا کی اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیا آنکھیں درست ہوگئیں پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑی ہو بڑھیا بالکل تندرست ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور حضرت کو دیکھ کر پہچان کر بولی میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ بلا شبہ عزیر ( علیہ السلام) ہیں۔ اس وقت حضرت عزیر ( علیہ السلام) کا بیٹا سو سال کا بوڑھا تھا اور پوتے پوتیاں بھی بوڑھے ہوچکے تھے مگر آپ کے سر اور داڑھی کے بال سیاہ تھے۔ باندی آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے جلسوں میں پہنچی اور پکار کر کہا یہ عزیر ( علیہ السلام) ہیں لوگوں نے اس کی بات کو سچ نہ جانا باندی نے کہا میں تمہاری فلاں باندی ہوں عزیر ( علیہ السلام) کی دعا سے اللہ نے میری آنکھیں لوٹا دیں اور میرے پاؤں چلا دیئے یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سو برس تک مردہ کردیا تھا پھر زندہ کردیا یہ سن کر لوگ اٹھے اور حضرت کے بیٹے نے کہا میرے باپ کے دونوں شانوں کے درمیان ہلالی شکل کا ایک کالا مسہ تھا کھول کر دیکھا گیا تو آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مسّہ برآمد ہوا اور ثابت ہوگیا کہ آپ عزیر ( علیہ السلام) ہی ہیں۔ سدی (رح) اور کلبی کا بیان ہے کہ جب حضرت عزیر اپنی قوم کے پاس لوٹ کر پہنچے تو تورات موجود نہ تھی کیونکہ بخت نصر نے تورات جلادی تھی آپ رو دیئے ایک فرشتہ نے ایک برتن میں پانی لاکر پلا یا ‘ پلاتے ہی پوری تورات کی تصویر دل میں اتر آئی۔ آپ بنی اسرائیل کے پاس لوٹ کر آئے تو تورات یاد تھی فرمایا : میں عزیر ( علیہ السلام) ہوں لوگوں نے آپ کی بات جھوٹ جانی۔ آپ نے اپنی یاد سے پوری توریت لکھوا دی بنی اسرائیل کہنے لگے توریت تو ضائع ہوچکی تھی کسی کو بھی یاد نہ تھی۔ اب جس شخص کے دل میں اللہ نے توریت ڈالی وہ بلا شبہ خدا کا بیٹا ہی ہے۔ سورة توبہ میں پورا قصہ انشاء اللہ ذکر کیا جائے گا۔
Top