Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ : یا كَالَّذِيْ : اس شخص کے مانند جو مَرَّ : گزرا عَلٰي : پر سے قَرْيَةٍ : ایک بستی وَّهِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گر پڑی تھی عَلٰي عُرُوْشِهَا : اپنی چھتوں پر قَالَ : اس نے کہا اَنّٰى : کیونکر يُحْيٖ : زندہ کریگا ھٰذِهِ : اس اللّٰهُ : اللہ بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا فَاَمَاتَهُ : تو اس کو مردہ رکھا اللّٰهُ : اللہ مِائَةَ : ایک سو عَامٍ : سال ثُمَّ : پھر بَعَثَهٗ : اسے اٹھایا قَالَ : اس نے پوچھا كَمْ لَبِثْتَ : کتنی دیر رہا قَالَ : اس نے کہا لَبِثْتُ : میں رہا يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : دن سے کچھ کم قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ لَّبِثْتَ : تو رہا مِائَةَ عَامٍ : ایک سو سال فَانْظُرْ : پس تو دیکھ اِلٰى : طرف طَعَامِكَ : اپنا کھانا وَشَرَابِكَ : اور اپنا پینا لَمْ يَتَسَنَّهْ : وہ نہیں سڑ گیا وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلٰى : طرف حِمَارِكَ : اپنا گدھا وَلِنَجْعَلَكَ : اور ہم تجھے بنائیں گے اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلَى : طرف الْعِظَامِ : ہڈیاں کَيْفَ : کس طرح نُنْشِزُھَا : ہم انہیں جوڑتے ہیں ثُمَّ : پھر نَكْسُوْھَا : ہم اسے پہناتے ہیں لَحْمًا : گوشت فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهٗ : اس پر قَالَ : اس نے کہا اَعْلَمُ : میں جان گیا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ : قریہ سے مراد بیت المقدس یا دیر ہرقل۔ آگے ہم قصہ ذکر کریں گے۔ کالذی میں کاف زائد ہے اور الذی کا عطف الذی حاجَّ پر ہے یہ گذرنے والا شخص ارمیا تھا بقول ابن اسحاق ارمیا ہی خضر تھے۔ لیکن حاکم نے حضرت علی ؓ اور اسحاق بن بشیر (رح) نے حضرت عبد اللہ بن سلام کا قول نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ ( ارمیا نہیں) عزیر ( علیہ السلام) تھے۔ مجاہد (رح) نے واقعہ نمرود کے ساتھ اس قصہ کے نظم کو پیش نظر رکھ کر صراحت کی ہے کہ یہ شخص کوئی کافر تھا لیکن مجاہد کا یہ استدلال غلط ہے کیونکہ کافر اس عزت افزائی کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کی توجیہ میں کوئی یہ کہے کہ وہ کافر تھا لیکن نشان قدرت کو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد وہ مؤمن ہوگیا تھا تو ہم کہیں گے کہ پھر یہ شخص مؤمن بالغیب نہ رہا اور ایمان بالشہود ناقابل اعتبار ہے ( لہٰذا ایسا شخص عزت افزائی کے قابل نہیں) دونوں قصوں کی وجہ جامع صرف یہ ہے کہ دونوں واقعے تعجب انگیز ہیں اگرچہ ایک قصہ میں دعاء ربوبیت نہیں ہے جو شخص قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ اپنی کمزوری محسوس کر رہا ہو اس کو اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر تعجب ہو تو کیا بعید ہے ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے دیکھو نطفہ سے آدمی اور بیج سے درخت کس طرح بن جاتا ہے۔ ( یہ کیا کچھ کم تعجب انگیز ہے) وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا (یعنی وہ بستی ویران ہوگئی تھی پہلے چھتیں گری تھیں اوپر سے دیواریں بھی گرگئیں۔ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ( تو اس نے کہا اس بستی کو ( یعنی بستی والوں کو) مرے پیچھے اللہ کیسے زندہ کرے گا ؟ ) یہ استفہام انکاری نہیں بلکہ) عادۃً چونکہ ایسا ہونا بعید تھا تو انہوں نے اس بستی کو زندہ کرنے کی تمنا آگیں درخواست کی پھر وہ بطور تواضع اپنے کو اس قابل بھی نہ جانتے تھے کہ ان کی درخواست قبول ہو سکے اس لیے استفہام تمنائی کیا۔ محمد بن اسحاق نے بروایت وہب بن منبہ قصہ اس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ارمیا کو ناشیہ بن اموص شاہ بنی اسرائیل کے پاس اس کی امداد کے لیے مقرر فرمایا تھا ناشیہ نیک آدمی تھا۔ حضرت ارمیا کو اس کے پاس اللہ کے احکام لے کر جاتے تھے۔ جب بنی اسرائیل کے گناہ بہت بڑھ گئے تو اللہ نے ارمیا کے پاس وحی بھیجی کہ آئندہ میں اسرائیلیوں کو عظیم ترین مصیبت میں مبتلا کروں گا ایک ظالم کو ان پر مسلط کروں گا اور ان کی بیشتر تعداد کو تباہ کردوں گا یہ حکم سن کر ارمیانے فریاد وزاری کی ( اور بےقرار ہوگئے) اس پر وحی آئی جب تک تیری اجازت نہ ہوگی میں ان کو تباہ نہیں کروں گا اس حکم سے ارمیا خوش ہوگئے اس طرح تین سال گذر گئے مگر بنی اسرائیل کی نافرمانیاں بڑھتی ہی گئیں وحی آنا بھی کم ہوگئی بادشاہ نے ہرچند توبہ و استغفار کا مشورہ دیا۔ مگر لوگوں نے نہ مانا آخر بخت نصر شاہ بابل نے ناقابل مقابلہ فوج لے کر بنی اسرائیل کی طرف مارچ کیا (چڑھائی کی ‘ 12) بنی اسرائیل کا بادشاہ ڈر گیا۔ حضرت ارمیا نے فرمایا : مجھے اللہ کے وعدہ پر پورا اعتماد ہے اس کے بعد بحکم خدا ایک فرشتہ اسرائیلی آدمی کے بھیس میں حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے نبی میں اپنے گھر والوں کے متعلق آپ سے مسئلہ پوچھنے آیا ہوں میں نے ہمیشہ ان سے اچھا سلوک ہی کیا مگر وہ میری ناراضگی بڑھانے والی حرکتیں کرتے ہیں حضرت ارمیانے فرمایا : تم ان سے بھلائی کرتے رہو قطع تعلق نہ کرو اور خیر کی بشارت لو ( فرشتہ چلا گیا) کچھ مدت کے بعد وہی فرشتہ اسی آدمی کے بھیس میں پھر آیا اور پہلے کی طرح سوال کیا اور جواب بھی اس کو پہلے ہی کی طرح ملا کچھ زمانہ کے بعد بخت نصرنے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اس وقت ارمیا بیت المقدس کی دیوار پر بیٹھے ہوئے تھے اور بنی اسرائیل کا بادشاہ آپ سے کہہ رہا تھا اللہ کا وعدہ کیا ہوا جو آپ سے کیا تھا لیکن حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کو اللہ کے وعدہ پر بھروسہ تھا اور وہ خوش تھے اچانک وہی فرشتہ اسی آدمی کے بھیس میں پھر آیا اور اپنے گھر والوں کی شکایت کی۔ حضرت ارمیا نے فرمایا : کیا ابھی تک وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے فرشتہ نے کہا یا نبی اللہ اب تک تو جو دکھ مجھے پہنچتا تھا میں صبر کرتا تھا لیکن اب تو وہ اللہ کی ناراضگی کے عظیم ترین کام کرتے ہیں اس لیے مجھے اللہ کے لیے غصہ آیا ہے جس خدا نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے ‘ میں اسی خدا کے واسطے آپ سے درخواست کرتا ہوں آپ انکے لیے بددعا کردیجئے اللہ ان کو غارت کرے۔ یہ سن کر حضرت ارمیا ( علیہ السلام) نے دعا کی اے زمین و آسمان کے بادشاہ اگر وہ تیری ناراضگی کے کام کر رہے ہیں تو ان کو تباہ کردے دعا کے بعد فوراً اللہ تعالیٰ نے ایک بجلی گرائی جس سے قربان گاہ میں آگ بھڑک اٹھی اور سات دروازے زمین میں دھنس گئے حضرت ارمیا ( علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب تیرا وعدہ کیا ہوا ‘ ندا آئی ان پر جو عذاب آیا وہ صرف تیری بددعا سے آیا ہے اس وقت حضرت ارمیا کو معلوم ہوا کہ وہ شخص حقیقت میں اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ تھا اس کے بعد حضرت ارمیا ( علیہ السلام) جنگل کو نکل گئے۔ بخت نصر نے آکر بیت المقدس کو تباہ کردیا اور ملک شام کو روند ڈالا۔ اسرائیلیوں کو قتل کیا اور قیدی بنایا یہی وہ پہلی سزا تھی جو اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کی بےجا حرکتوں کی وجہ سے دی تھی۔ جب بخت لوٹ کر بابل کو چلا گیا تو ارمیا اپنے گدھے پر سوار ہو کر ( جنگل سے واپس) آئے آپ کے ساتھ توشہ دان میں کچھ عرق انگور اور ایک ٹوکری انجیر تھے آکر بیت المقدس پر ٹھہر گئے اور تباہی کو دیکھ کر بولے : انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا۔ پھر آپ نے رسی سے گدھے کو باندھا اور اللہ نے آپ پر نیند مسلط کردی۔ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ (پس اللہ نے اس کو مارڈالا ( یعنی موتنما نیند مسلط کردی) سعید بن منصور نے حسن بصری کا قول اور ابن ابی حاتم نے قتادہ کا قول نقل کیا کہ یہ نیند چاشت کے وقت شروع ہوئی تھی پھر۔ مِائَـةَ عَامٍ (سو برس تک وہ مردہ رہا۔ گدھا، عرق انگور اور انجیروں کا ٹوکرا بھی ان کے پاس ہی رہا۔ اللہ نے لوگوں کی نظروں سے ان کو چھپا دیا کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ ستّر سال اسی حالت پر گزر گئے۔ ستر برس کے بعد اللہ نے ایک فرشتہ نوشک شاہ فارس کے پاس بھیجا فرشتے نے جا کر کہا اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ بیت المقدس اور ایلیا کی از سر نو تعمیر کر تاکہ یہ پہلے سے زیادہ آباد ہوجائیں۔ حسب الحکم نوشک نے آباد کاری شروع کردی اور ادھر ایک مچھر بخت نصر کے دماغ میں گھس گیا اور اللہ نے مچھر کے ذریعہ سے اس کو ہلاک کردیا اور جو اسرائیلی بابل میں اس وقت تک زندہ رہ گئے تھے ان کو رہائی دلادی وہ سب بیت المقدس اور اس کے مضافات میں واپس آگئے اور تیس برس میں پہلے سے بہتر آبادی ہوگئی اس وقت اللہ تعالیٰ نے ارمیا ( علیہ السلام) کو پھر زندہ کرکے۔ ثُمَّ بَعَثَهٗ (اٹھا دیا یہ وقت غروب آفتاب سے کچھ پہلے کا تھا اللہ نے آپ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا اور۔ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ (اس نے ارمیا سے پوچھا آپ کا یہاں توقف کتنا ہوا ارمیا ( علیہ السلام) کو خیال ہوا کہ یہ یوم خواب کا ہی سورج ہے ( جو قریب غروب ہے) اس لیے۔ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا (کہا کہ میں ایک دن یہاں ٹھہرا پھر سورج کی طرف منہ موڑ کر دیکھا تو سورج کو قریب غروب دیکھ کر فرمایا : اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ (یا دن سے کچھ کم) قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ (فرشتہ نے کہا نہیں بلکہ آپ یہاں سو برس رہے) فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ (اب اپنے کھانے پینے یعنی انجیر اور عرق کو دیکھ لو کہ) لَمْ يَتَسَـنَّهْ (کوئی چیز بھی نہیں بگڑی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انجیر ابھی درخت سے توڑے گئے ہیں اور عرق ابھی نچوڑا گیا ہے۔ کسائی نے کہا گویا برسہا برس کی مدت ان پر نہیں گذری تھی۔ حمزہ کسائی اور یعقوب نے حالت وصل میں لَمْ یَتَسَنَّہ کی ھاء کو حذف کرکے یَتَسَنَّ پڑھا ہے۔ لیکن حالت وقف میں باقی رکھا ہے اسی طرح آیت : فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہِ میں بھی اصحاب ثلاثہ کی یہی قرأت ہے۔ جو لوگ ھاء کو حذف نہیں کرتے وہ اس کو اصلی (یعنی مادہ کی) ھا قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لفظ سِنَۃ سے بنا ہے اور سنۃ کی تاء اصل میں ھاء تھی اور سنۃ کی اصلی سنھۃٌ تھی کیونکہسنۃ کی تصغیر سُنَیْھَۃٌ آتی ہے اور مصدرمَسَانَھَۃٌ آتا ہے لیکن اگر اس کو اصلی ھا نہ کہا جائے اور لام کلمہ میں اصلاً واؤ قرار دیا جائے تو یہ ھاء سکتہ ہوگی واؤ کو فتحہ ما قبل کی وجہ سے الف سے بدل دیا پھر الف کو حذف کردیا اور ھا سکتہ حالت وقف میں بڑھا دی بعض علماء کا قول ہے کہ لَمْ یَتَسَنّہ کی اصل لَمْ یَتَسَنَّنْ تھی ( اصل مادہ سَنٌّ ہے) اَلْحَمَأَ الْمَسْنُوْنُ کا اور اس کا ایک مادہ ہے تیسرے نون کو حرف علت سے بدل دیا گیا ہے جیسے آیت دَسَّاھَا میں ( دَسَّااصل میں دَسَّسَ تھا) لَمْ یَتَسَنَّہ کی مفرد ضمیر طعام و شراب کی طرف راجع ہے۔ (مرجع اگرچہ تثنیہ ہے ضابطہ کے مطابق تثنیہ کی ضمیر ہونی چاہئے لیکن مفرد لانے کی وجہ یہ ہے کہ) طعام و شراب کی جنس ایک ہی ہے ( یعنی دونوں غذا ہیں) وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ ( اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو حسب الحکم ارمیا ( علیہ السلام) نے گدھے کی طرف دیکھا۔ بقول بعض علماء گدھا ویسا ہی زندہ سالم کھڑا تھا جیسا اسکو باندھ کر سوئے تھے سو سال تک گدھے نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ نئی رسی اسکے گلے میں بندھی ہوئی تھی رسی بھی خراب نہیں ہوئی تھی۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ گدھا مرچکا تھا ہڈیاں بھی گل چکی تھیں پھر ارمیا ( علیہ السلام) کی نظر کے سامنے بحکم خدا ایک ہوا میدان اور پہاڑ سے اسکی ہڈیاں سمیٹ کر لائی کیونکہ پرندے اور درندے انکو جا بجا لے جا چکے تھے ( پھر اللہ نے گدھے کو زندہ کردیا) میں کہتا ہوں کہ مؤخر الذکر قول پر لفظ واَنظُر دلالت کررہا ہے کیونکہ اگر کھانے پینے کی طرح گدھا بھی صحیح سالم باقی ہوتا تو فانظر الی طعامک و شرابک و حمارک کہنا چاہئے تھا ( دوبارہ مستقل طور پر اُنْظُر کہنے کی ضرورت نہ تھی) وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ (یعنی ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی دلیل لوگوں کو دکھانے کے لیے تجھے بنائیں گے۔ بعض علماء کے نزدیک آیت کے شروع میں واؤ زائد ہے۔ فراء نے کہا اس آیت کا تعلق فعل محذوف سے ہے ( اور واو عطف جملہ کے لیے ہے) یعنی اور ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے تیری دوبارہ زندگی کو حیات بعد الموت کی دلیل بنائیں۔ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ ( یعنی گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو یہ مطلب اس صورت میں ہوگا جب گدھے کو مردہ اور فنا شدہ مان لیا جائے۔ اکثر اہل تفسیر کا یہی قول ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ خود حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کی ہڈیاں مراد ہیں ( اوّل) آپ کی آنکھیں اور سر زندہ کیا گیا اس وقت تک باقی بدن فرسودہ بوسیدہ ہی تھا اور ہڈیاں صاف ( بےگوشت اور) پراگندہ پڑی ہوئی تھیں۔ لیکن اس قول کی تردید رسول اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ انبیا کے اجسام اللہ نے زمین کے لیے حرام کردیئے ہیں ‘ (زمین ان کو گلا نہیں سکتی) ۔ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ( کس طرح ہم ان کو زمین سے اٹھا کر باہم جوڑتے ہیں یہ ترجمہ نُنْشِز پڑنے کی صورت میں ہوگا جو اہل حجاز و اہل بصرہ کے علاوہ تمام قاریوں کی قرأت ہے اہل حجاز و بصرہ ننشرھا راء کے ساتھ پڑھتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ ( انشار زندہ کرنا اور نشور زندہ ہونا) آیت میں آیا ہے : ثم اذا شاء انشرہ ایک اور آیت ہے : وَ اِلَیْہِ النُّشُوْر . ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا (پھر ہم ہڈیوں کو گوشت پہناتے ہیں چناچہ اللہ نے ہڈیوں کو گوشت اور خون ( کا لباس) پہنا دیا اور وہ آدمی زندہ ہوگیا یا ہڈیاں گوشت کا لباس پہن کر گدھے کا مجسمہ بن گئیں پھر فرشتہ نے اس میں روح پھونک دی اور گدھا زندہ اٹھ کھڑا ہوا اور رینگنے لگا۔ آیت میں الفاظ کی کچھ تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل عبارت اس طرح تھی : بَلْ لَبِثْتَ مِأَۃَ عَامٍ اَمَتْنَاکَ ثُمَّ اَحْیَیْنَا فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہ وَانْظُرْ اِلٰی حَمَارِکَ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوھَا لَحْمًا وَ فَعلْنَا ذٰلِکَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنّاسِ ۔ بلکہ تو سو سال یہاں رہا ہم نے تجھے مردہ کردیا تھا پھر زندہ کردیا اب اپنے کھانے پینے کو دیکھ لے کہ کوئی چیز خراب نہیں ہوئی ہے اور گدھے کو دیکھ اور ہڈیوں کو دیکھ کہ کس طرح ہم ان کو جمع کر کے جوڑتے اور پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں ہم نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تجھے لوگوں کو ( قیامت کا) یقین دلانے کے لیے نشانی بنائیں۔ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ (جب اللہ کی حکمت (اور قدرت) اس شخص پر کھل گئی تو اس نے کہا۔ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (مجھے یقین ہے کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اَعْلَمْ قراءت جمہور کی ہے۔ حمزہ اور کسائی نے اِعْلَمْ بصیغۂ امر پڑھا ہے۔ اس صورت میں کہنے والا فرشتہ ہوگا یا اللہ یا اس شخص نے خود اپنے نفس کو خطاب کیا ہوگا۔ روایت میں آیا ہے کہ بخت نصر بیت المقدس کو تباہ کرکے بنی اسرائیل کو قید کرکے بابل لے گیا۔ قیدیوں میں حضرت عزیر ( علیہ السلام) ، حضرت دانیال ( علیہ السلام) اور حضرت داؤد کی نسل کے کچھ لوگ بھی تھے کچھ مدت کے بعد عزیر ( علیہ السلام) قید سے چھوٹ گئے اور گدھے پر واپس آگئے۔ دیر ہرقل پر پہنچے تو دجلہ کے ساحل پر اترے اور بستی میں چکر لگایا مگر کوئی آدمی نہ ملا، ہاں تمام درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے آپ نے کچھ پھل کھائے اور انگوروں کا عرق نچوڑ کر پیا اور بقیہ پھل ایک ٹوکری میں رکھ لیے اور بچا ہوا عرق مشکیزے میں بھر لیا اور بستی کی تباہی کو دیکھ کر بولے : اَنّٰی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا الخ . قتادہ نے حضرت کعب کا قول اور ضحاک اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس کا بیان نیز سدی نے بروایت مجاہد حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب سو برس تک مردہ رکھنے کے بعد اللہ نے عزیر ( علیہ السلام) کو زندہ کردیا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں آئے لیکن نہ لوگوں کو پہچان سکے نہ ان کے مکانوں کو نہ لوگوں نے ان کو پہچانا صرف اندازہ سے اپنے گھر پر پہنچے تو ایک نابینا اپاہج بڑھیا ملی جس کی عمر 120 سال تھی حقیقت میں وہ حضرت عزیر ( علیہ السلام) کی باندی تھی جب حضرت گھر سے نکلے تھے تو وہ بیس برس کی تھی آپ نے اس بڑھیا سے پوچھا کیا یہ عزیر کا مکان ہے بڑھیا نے کہا جی ہاں ! لیکن میں نے تو عزیر ( علیہ السلام) کا تذکرہ اتنی مدت کے بعد آج سنا ہے ( تم کون ہو) ؟ حضرت نے فرمایا : میں عزیر ( علیہ السلام) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سو سال تک مردہ کردیا تھا پھر زندہ کردیا۔ بڑھیا نے کہا : عزیر ( علیہ السلام) تو مقبول الدعوات شخص تھے اگر تم عزیر ( علیہ السلام) ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میری آنکھیں واپس مل جائیں۔ حضرت نے دعا کی اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیا آنکھیں درست ہوگئیں پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑی ہو بڑھیا بالکل تندرست ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور حضرت کو دیکھ کر پہچان کر بولی میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ بلا شبہ عزیر ( علیہ السلام) ہیں۔ اس وقت حضرت عزیر ( علیہ السلام) کا بیٹا سو سال کا بوڑھا تھا اور پوتے پوتیاں بھی بوڑھے ہوچکے تھے مگر آپ کے سر اور داڑھی کے بال سیاہ تھے۔ باندی آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے جلسوں میں پہنچی اور پکار کر کہا یہ عزیر ( علیہ السلام) ہیں لوگوں نے اس کی بات کو سچ نہ جانا باندی نے کہا میں تمہاری فلاں باندی ہوں عزیر ( علیہ السلام) کی دعا سے اللہ نے میری آنکھیں لوٹا دیں اور میرے پاؤں چلا دیئے یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سو برس تک مردہ کردیا تھا پھر زندہ کردیا یہ سن کر لوگ اٹھے اور حضرت کے بیٹے نے کہا میرے باپ کے دونوں شانوں کے درمیان ہلالی شکل کا ایک کالا مسہ تھا کھول کر دیکھا گیا تو آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مسّہ برآمد ہوا اور ثابت ہوگیا کہ آپ عزیر ( علیہ السلام) ہی ہیں۔ سدی (رح) اور کلبی کا بیان ہے کہ جب حضرت عزیر اپنی قوم کے پاس لوٹ کر پہنچے تو تورات موجود نہ تھی کیونکہ بخت نصر نے تورات جلادی تھی آپ رو دیئے ایک فرشتہ نے ایک برتن میں پانی لاکر پلا یا ‘ پلاتے ہی پوری تورات کی تصویر دل میں اتر آئی۔ آپ بنی اسرائیل کے پاس لوٹ کر آئے تو تورات یاد تھی فرمایا : میں عزیر ( علیہ السلام) ہوں لوگوں نے آپ کی بات جھوٹ جانی۔ آپ نے اپنی یاد سے پوری توریت لکھوا دی بنی اسرائیل کہنے لگے توریت تو ضائع ہوچکی تھی کسی کو بھی یاد نہ تھی۔ اب جس شخص کے دل میں اللہ نے توریت ڈالی وہ بلا شبہ خدا کا بیٹا ہی ہے۔ سورة توبہ میں پورا قصہ انشاء اللہ ذکر کیا جائے گا۔
Top