Dure-Mansoor - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ : یا كَالَّذِيْ : اس شخص کے مانند جو مَرَّ : گزرا عَلٰي : پر سے قَرْيَةٍ : ایک بستی وَّهِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گر پڑی تھی عَلٰي عُرُوْشِهَا : اپنی چھتوں پر قَالَ : اس نے کہا اَنّٰى : کیونکر يُحْيٖ : زندہ کریگا ھٰذِهِ : اس اللّٰهُ : اللہ بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا فَاَمَاتَهُ : تو اس کو مردہ رکھا اللّٰهُ : اللہ مِائَةَ : ایک سو عَامٍ : سال ثُمَّ : پھر بَعَثَهٗ : اسے اٹھایا قَالَ : اس نے پوچھا كَمْ لَبِثْتَ : کتنی دیر رہا قَالَ : اس نے کہا لَبِثْتُ : میں رہا يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : دن سے کچھ کم قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ لَّبِثْتَ : تو رہا مِائَةَ عَامٍ : ایک سو سال فَانْظُرْ : پس تو دیکھ اِلٰى : طرف طَعَامِكَ : اپنا کھانا وَشَرَابِكَ : اور اپنا پینا لَمْ يَتَسَنَّهْ : وہ نہیں سڑ گیا وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلٰى : طرف حِمَارِكَ : اپنا گدھا وَلِنَجْعَلَكَ : اور ہم تجھے بنائیں گے اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلَى : طرف الْعِظَامِ : ہڈیاں کَيْفَ : کس طرح نُنْشِزُھَا : ہم انہیں جوڑتے ہیں ثُمَّ : پھر نَكْسُوْھَا : ہم اسے پہناتے ہیں لَحْمًا : گوشت فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهٗ : اس پر قَالَ : اس نے کہا اَعْلَمُ : میں جان گیا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا
یا اس شخص کی طرح سے جو گزرا ایک بستی پر اور وہ اس حال میں تھی کہ چھتوں پر اس کی دیواریں گری پڑی تھیں، یہ شخص کہنے لگا کہ اللہ کیونکر زندہ فرمائے گا اس بستی کو اس کی موت کے بعد، پس اللہ تعالیٰ نے اس کو سو سال تک مردہ رکھا پھر اسے اٹھا دیا، اس سے سوال فرمایا کہ تو کتنے عرصہ تک ٹھہرا رہا۔ اس نے کہا کہ میں ایک دن یا ایک دن سے کم ٹھہرا ہوں، فرمایا بلکہ تو سو سال تک ٹھہرا رہا ہے، سو تو دیکھ لے اپنے کھانے کو اور پینے کی چیز کو وہ سڑی گلی نہیں ہے اور دیکھ لے اپنے گدھے کو، اور تاکہ ہم تجھے نشانی بنا دیں لوگوں کے لئے اور دیکھ ہڈیوں کی طرف ہم ان کو کیسے جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہنا دیتے ہیں، سو جب اس پر یہ سب کچھ ظاہر ہوگیا تو کہنے کہ میں جانتا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (اور اس نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب میں حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے لفظ آیت ” او کالذی مر علی قریۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ (ایک دن) اللہ کے نبی عزیر (علیہ السلام) اپنے شہر سے نکلے اور وہ نوجوان تھے ایک بستی پر گزرے جس کی چھتیں گری ہوئی تھی۔ (دیکھ کر) فرمایا اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کو کس طرح زندہ فرمائیں گے ان کی موت کے بعد پس حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے سو سال تک موت دے دی، پھر انہیں دوبارہ زندہ کیا کہ پہلے ان کی آنکھوں کو پیدا فرمایا تو آپ اپنی ہڈیوں کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑنے لگیں۔ پھر ان پر گوشت چڑھایا گیا، پھر اس میں روح پھونکی گئی اور ان سے پوچھا گیا کتنی مدت (یہاں) رہے تو انہوں نے فرمایا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ اللہ پاک نے فرمایا بلکہ تو سو سال رہا۔ (پھر) وہ جب اپنے شہر میں آئے اور ان کا پڑوسی جو موچی تھا اور جوانی کی حالت میں اس کو چھوڑ گئے تھے وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ (2) اسحاق بن بشر، الخطیب، ابن عساکر نے عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ عزیر (علیہ السلام) وہ بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سو سال تک موت دی پھر جن کو زندہ فرمایا۔ (3) ابن جریر ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عزیر بن سرو خا (علیہ السلام) وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرمایا لفظ آیت ” او کالذی مر علی قریۃ “ (4) ابن جریر نے عکرمہ، قتادہ، سلیمان بن بریدہ وضحاک اور سدی رحمہم اللہ سے اسی کی مثل نقل کیا ہے۔ عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ (5) اسحاق بن بشر ابن عساکر نے حضرت ابن عباس کعب حسن اور وھب (رح) سے اور بعض کی روایت بعض سے زیادہ ہے کہ عزیر (علیہ السلام) نیک بندے اور حکیم تھے ایک دن وہ اپنی زمین کی طرف نکلے جس کی دیکھ بھال کرتے تھے جب واپس لوٹے تو ایک دن ویران جگہ پر پہنچے جب دوپہر کا وقت تھا اور ان کو گرمی محسوس ہوئی وہ اپنے گدھے پر اس ویران جگہ میں داخل ہوگئے اپنے گدھے سے اترے ان کے پاس ایک ٹوکری تھی جس میں انجیر تھا اور دوسری میں انگور تھے وہ اس ویران جگہ کے سائے میں اترے اور ایک پیالہ نکالا اور اس میں انگوروں کو نچوڑا پھر سوکھی روٹی نکالی جو ان کے پاس تھی اس روٹی کو پیالے میں ڈالا تاکہ یہ بھیگ جائے اور آپ کھا سکیں پھر اپنی گدی کے بل لیٹ گئے اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی پھر ان گھروں کی چھتوں کی طرف دیکھا اور جو کچھ ان میں تھا اس کو بھی دیکھا اور وہ گھر اپنی چھتوں پر گرے ہوئے تھے حالانکہ اس کے رہنے والے ہلاک ہوچکے تھے۔ اور بوسیدہ ہڈیوں کو دیکھ کر فرمایا لفظ آیت ” انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا “ (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو موت کے بعد ان کو کیسے زندہ فرمائیں گے) اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زندہ فرمائیں گے) لیکن اس کو بڑے تعجب سے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو بھیج کر ان کی روح کو قبض فرما لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو چار سو سال تک موت میں رکھا، جب ان کو سو سال ہوگئے تو بنی اسرائیل میں کئی تبدیلیاں ہوگئی تھیں (پھر) اللہ تعالیٰ نے عزیر (علیہ السلام) کے پاس ایک فرشتے کو بھیجا اس نے ان کے دل کو بنایا تاکہ اس کے ذریعہ ہر چیز کو سمجھ لیں، اور آنکھوں کو بنایا تاکہ ان کے ساتھ دیکھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مردوں کو زندہ فرماتے ہیں۔ اس نے آپ کے دوسرے اعضاء مکمل کرلیے اور آپ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، پھر ان کی ہڈیوں کو گوشت، کھال اور بال پہنائے گئے، پھر ان میں روح پھونکی گئی تو وہ ہر چیز کو دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ تو فرشتے نے کہا (یہاں) کتنی مدت رہے۔ انہوں نے فرمایا ایک دن۔ اس وجہ سے کہ آپ دن کے شروع میں دوپہر کے وقت سوئے تھے۔ اور دن کے آخر میں ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا اٹھے تھے۔ پھر کہا یا دن کا کچھ حصہ (یہاں سویا ہوں گا) اور مجھے ایک دن پورا نہیں ہوا۔ فرشتے نے ان سے کہا بلکہ آپ سو سال (یہاں) لیٹے رہے۔ اب آپ اپنے کھانے اور پینے کی طرف دیکھ لیں۔ یعنی خشک روٹی اور انگوروں کا رس جو پیالے میں تھا یہ دونوں چیزیں اپنی حالت پر پڑی ہیں نہ انگوروں کے رس میں کوئی تغیر ہوا اور نہ خشک روٹی میں کوئی تبدیلی آئی۔ اسی کو فرمایا لفظ آیت ” لم یتسنۃ “۔ یعنی لفظ آیت ” لم یتغیر “ (کہ ان میں کوئی تغیر نہیں ہوا) اور اسی طرح انجیر اور انگور بھی اپنی حالت پر تھے (کوئی ان میں تبدیلی نہیں آئی تھی) گویا آپ نے دل میں ان سب باتوں کو عجیب سمجھا، فرشتے نے کہا آپ نے میری بات کو عجیب سمجھا ذرا آپ اپنے گدھے کی طرف دیکھئے۔ جب گدھے کی طرف دیکھا تو اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی تھی، کھوکھلی ہوچکی تھیں فرشتے نے گدھے کی ہڈیوں کو آواز دی ان ہڈیوں نے آواز کو سنا تو ہر طرف سے اکٹھی ہونی شروع ہوئیں، فرشتے نے ہڈیوں کو جوڑ دیا۔ عزیر (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے، اور پھر فرشتے نے ان ہڈیوں کے رگیں اور پٹھے بنائے پھر ان پر گوشت چڑھایا پھر اس پر کھا اور بالوں کو اگایا پھر اس میں فرشتے نے روح پھونک دی۔ تو گدھا اپنے سر اور کان کو آسمان کی طرف اٹھائے اور ہینگتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ اسی کو فرمایا لفظ آیت ” وانظر الی حمارک ولنجعلک ایۃ للناس وانظر الی العظام کیف ننشزھا ثم نکسوھا لحما “ یعنی اپنے گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھئے سب اپنی جگہ پر جڑ گئی ہیں یہاں تک کہ جب ہڈیوں کا ڈھانچہ تیار ہوگیا تو فرمایا دیکھو کس طرح ہم اس کو گوشت پہناتے ہیں (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر “ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں مردوں کو زندہ کرنے وغیرہ میں۔ وہ اپنے گدھے پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں آئے۔ لوگوں نے ان کو نہ پہچانا اور نہ انہوں نے لوگوں کو پہچانا اور انہوں نے اپنے گھر کو بھی نہ پہچانا آپ چلتے چلتے اپنے گھر کے پاس پہنچے، وہاں ایک اپاہج اندھی بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی جس کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور وہ ان کی لونڈی تھی، جب عزیر (علیہ السلام) وہاں سے نکلے تو وہ بیس سال کی تھی۔ اس وقت وہ ان کو پہچانتی اور سمجھتی تھی، عزیر (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اور اے بڑھیا، کیا یہ گھر عزیر کا ہے، اس نے کہا ہاں اور رونے لگی اور کہا اتنے سال میں کوئی ایسا شخص نہیں جس نے عزیر کا ذکر کیا ہوا اور لوگ عزیر کو بھول گئے، انہوں نے فرمایا میں عزیر ہوں، اس نے کہا سبحان اللہ عزیر کو تو ہم سو سال سے گم کرچکے ہیں، اس کا کہیں ہم نے ذکر نہیں سنا، انہوں نے پھر فرمایا میں عزیر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو سو سال تک موت دی، پھر مجھ کو زندہ فرما دیا، بڑھیا نے کہا عزیر ایسا آدمی تھا، جس کی دعا قبول کی جاتی تھی، وہ مریض کے لئے اور مصیبت والے کے لئے عافیت اور شفاء کی دعا کرتا تھا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میری آنکھیں لوٹ آئیں اور میں تجھ کو دیکھ لوں، اگر تو عزیر ہے تو میں تجھ کو پہچان لوں گی، انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اور اپنے ہاتھ کو اس کی آنکھوں پر پھیرا۔ تو اس کی آنکھیں ٹھیک ٹھاک ہوگئیں، انہوں نے (پھر) اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اللہ کے حکم سے کھڑی ہوجا، اللہ تعالیٰ نے اس کی ٹانگیں ٹھیک کردیں اور وہ صحیح طور پر کھڑی ہوگئی، گویا رسی کھل گئی اس نے آپ کو دیکھا اور کہنے لگی میں گواہی دیتی ہو بلاشبہ تو عزیر ہے۔ وہ عورت نبی اسرائیل کے محلہ کی طرف گئی۔ وہ لوگ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک شیخ عزیر (علیہ السلام) کے بیٹے بھی تھے جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال تھی، اور وہ ان کے پوتے بھی بوڑھے تھے وہ بھی مجلس میں (موجود) تھے۔ عورت نے ان کو آواز دی۔ اور کہا یہ عزیر (علیہ السلام) تمہارے پاس آچکے ہیں۔ انہوں نے اس عورت کی بات کو جھٹلایا۔ وہ عورت کہنے لگی میں فلاں عورت تمہاری باندی ہوں۔ انہوں نے میرے لئے اپنے رب سے دعا کی تو میری آنکھیں لوٹ آئیں اور میری ٹانگیں بھی ٹھیک ہوگئیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سو سال تک ان کو موت دی پھر ان کو زندہ فرما دیا، لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہو کر دیکھنا شروع کیا ان کے بیٹے نے کہا میرے والد کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک سیاہ علامت تھی، ان کے کندھوں کو کھولا گیا تو وہ عزیر ہی نکلے۔ نبی اسرائیل نے کہا ہمارے درمیان کوئی بھی تورات کا حافظ نہیں تھا، ان احادیث کا جو ہم کو عزیر (علیہ السلام) کے علاوہ دوسروں نے بیان کیں اور بخت نصر نے تو رات کو جلا دیا تھا، اس میں کوئی چیز باقی نہ رہی سوائے اس کے جو لوگوں نے یاد کرلی تھی پس آپ ہمارے لئے تورات کو لکھ دیجئے۔ آپ کے والد ” سروخانے “ بخت نصر کے دور میں تورات کو دفن کردیا تھا ایک ایسی جگہ میں جو سوائے عزیر (علیہ السلام) کے کوئی نہیں جانتا تھا۔ عزیر (علیہ السلام) ان کو ساتھ لے کر اس جگہ پر گئے اس کو کھودا اور تورات کو نکالا کتاب کے اوراق بوسیدہ ہوچکے تھے اور لکھائی مٹ چکی تھی آپ ایک سایہ کے نیچے بیٹھ گئے اور نبی اسرائیل بھی ان کے اردگرد بیٹھے تو آپ نے تورات کو نئے سرے سے لوگوں کے لئے لکھا آسمان سے دو ستارے نازل ہوئے اور ان کے پیٹ میں داخل ہوگئے (ان کی برکت سے) تورات (پھر سے) یاد ہوگئی اور انہوں نے بنی اسرائیل کو لکھوا دی اس وجہ سے یہودیوں نے کہا عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اسی قول کی وجہ سے ستاروں کا اترنا اور تورات کی تجدید اور بنی اسرائیل کے لئے آپ کا قیام تھا اور آپ نے حزقیل کے دور میں عراق کی زمین میں ان کے لئے تورات لکھی تھی اور وہ بستی جس میں ان کی وفات ہوئی اس کو سابر آباد کہا جاتا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ لفظ آیت ” ولنجعلک ایۃ للناس “ یعنی بنی اسرائیل کے لئے آپ کو نشانی بنایا کیونکہ آپ چالیس سال کی عمر میں وصال فرما گئے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو جوان اٹھایا جیسا کہ آپ موت کے دن تھے۔ (5) فریابی عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن عبید بن عمیر ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” او کالذی مر علی قریۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ گذرنے والے نبی تھے جن کا نام ارومیا تھا۔ (6) عبدالرزاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے العظمہ میں وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب بیت المقدس کو کھنڈر بنا دیا گیا اور کتابوں کو جلا دیا گیا اور ایک پہاڑ کے کونے میں کھڑے ہو کر فرمایا لفظ آیت ” انی یحی ہذہ اللہ بعد موتھا “ اللہ تعالیٰ نے ان کو سو سال تک موت دے دی پھر اس کو زندہ کیا اور پہلی حالت پر آباد کیا۔ آپ ہڈیوں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑتی ہیں پھر ہڈیوں کی طرف دیکھا کہ ان کو پٹھے اور گوشت کیسے پہنایا جاتا ہے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر “ (یعنی جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے) پھر فرمایا لفظ آیت ” فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنہ “ اپنے کھانے اور پینے کی طرف دیکھو کہ وہ خراب نہیں ہوا اور ان کا کھانا انجیر تھے ایک ٹوکری میں پانی تھا مٹکے میں۔ (7) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” او کالذی مر علی قریۃ “ میں قریۃ سے مراد بیت المقدس ہے عزیر (علیہ السلام) اس کے پاس سے گذرے جب بخت نصر نے اس کو ویران کردیا تھا۔ (8) قتادہ، ضحاک اور ربیع سے اس طرح مروی ہے۔ (9) ابن ابی حاتم نے جیسا کہ محمد بن سلیمان السیاری سے روایت کیا کہ میں نے اہل شام میں سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے سو سال تک موت دی پھر اس کو اٹھایا اس کا نام حز قیل بن بوزا تھا۔ (10) اسحاق بن بشر، اور ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ عزیر (علیہ السلام) اور بخت نصر کا معاملہ دور عرصہ میں تھا۔ (ا 1) اسحاق اور ابن عساکر نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ عزیر (علیہ السلام) اور بخت نصر کا قصہ عیسیٰ اور سلیمان (علیہما السلام) کے درمیان پیش آیا۔ (12) اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ عزیر (علیہ السلام) اور بخت نصر کا قصہ عیسیٰ اور سلیمان (علیہما السلام) کے درمیان پیش آیا۔ (13) ابن جریر، ابن المنذر نے بن جریج کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خاویۃ “ سے مراد خراب ہے یعنی ویران۔ (14) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خاویۃ “ سے مراد ہے کہ اس میں کوئی نہیں (رہتا) تھا۔ (15) ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” علی عروشھا “ سے مراد ہے اس کی چھتیں۔ (16) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خاویۃ علی عروشھا “ سے مراد ہے کہ وہ گری ہوئی تھی اپنی چھتوں پر۔ (17) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا “ سے مراد ہے کہ ویران ہونے کے بعد یہ بستی کس طرح آباد ہوگی۔ (18) سعید بن منصور، عبد بن حمید اور بیہقی نے بعث میں حسن (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فاماتہ اللہ ماءۃ عام ثم بعثہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ ان کو چاشت کے وقت موت دی گئی اور سورج غروب ہونے سے پہلے ان کو پھر زندہ کیا گیا، سب سے پہلے اس کے اعضاء میں سے ان کی آنکھوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا تاکہ وہ ان دونوں آنکھوں کے ساتھ ہڈیوں کی طرف دیکھے کہ کس طرح اپنی جگہ پر جڑتی ہیں۔ (19) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (پہلے) انہوں نے فرمایا میں ایک دن ٹھہرا پھر تو جہ کی پھر کچھ باقی حصہ سورج کا دیکھا تو فرمایا میں دن کا کچھ حصہ رہا۔ (20) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ کھانا جو ان کے ساتھ تھا ایک چھوٹی ٹوکری انجیر کی تھی اور پینے کے لئے ایک مشکیزہ میں انگور کا شیرہ تھا۔ (21) مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ان کا کھانا انجیر کی ایک چھوٹی ٹوکری تھی اور پینے کے لئے ایک گھڑا شراب کا تھا۔ (22) ابو یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لم یتسنہ “ سے مراد ہے لفظ آیت لم یتغیر یعنی متغیر ہوا۔ لفظ آیتلم یتسنہ کا معنی (23) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے اس سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” لم یتسنہ “ کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ اس میں کئی سالوں سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، انہوں نے عرض کیا، کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں، کیا تو نے شاعر کا یہ قول نہیں سنا۔ لفظ آیت طاب منہ العطعم والریح معا لن تراہ یتغیر من اسن ترجمہ : اس کا ذائقہ اور خوشبو دونوں اچھی ہیں، ہرگز تو اس میں کسی قسم کا تغیر۔ (24) عبد بن حمید ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لم یتسنہ “ سے مراد ہے کہ وہ بدبودار نہیں ہوا۔ (25) ابن راھویہ نے اپنی مسند میں ابو عبید نے فضائل میں، عبدد بن حمید، ابن جریر، ابن الانباری نے مصاحف میں ھانی البربری (رح) (جو حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام ہیں) سے روایت کیا کہ جب حضرت عثمان ؓ نے مصاحف لکھوائے تو ان کو تین آیات میں شک ہوا، تو انہوں نے ان (آیات) کو بکری کے کندے میں لکھا اور مجھے یہ دے کر ابی بن کعب اور زید بن ثابت ؓ کے پاس بھیجا۔ میں ان دونوں کے پاس گیا اور ابی بن کعب ؓ کو میں نے وہ آیات پیش کیں انہوں نے اس کو پڑھا اور اس طرح لکھا ہوا تھا لفظ آیت ” لا تبدیل للخلق ذلک الدین القیم “ (الروم آیت 3) انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک لام کو مٹا دیا اور اس کو یوں لکھا لفظ آیت ” لا تبدیل لخلق اللہ “ اور اس میں یہ بھی پایا (دوسری آیت) لفظ آیت ” فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنن “ انہوں نے نون کو مٹا دیا اور یوں لکھا لفظ آیت ” لم یتسنہ “ اور اس میں پڑھا (تیسری آیت) لفظ آیت ” فأمھل الکفرین “ انہوں نے الف کو مٹا دیا اور اس کو لکھا لفظ آیت ” فمھل “ اور پھر اس میں زید بن ثابت ؓ نے بھی دیکھا پھر میں اس کو لے کر (دوبارہ) حضرت عثمان ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اسی طرح سب مصاحب میں لکھوا دیا۔ (26) ابو عبید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن الانباری نے ھانی (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں پیغام پہنچانے والا تھا، حضرت عثمان ؓ اور زید بن ثابت ؓ کے درمیان۔ زید نے فرمایا عثمان ؓ سے پوچھو لفظ آیت ” لم لیتسن “ ہے یا لفظ آیت ” لم یتسنہ “ ہے حضرت عثمان ؓ نے فرمایا اس میں لفظ آیت ” ھا “ کو زیادہ کر دو ۔ (27) سفیان بن عینیہ اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے لفظ آیت ” ولنجعلک ایۃ للناس “ کے بارے میں روایت کیا آپ لوگوں کے لئے نشانی اس طرح تھی کہ آپ ایک سو چالیس سال کے تھے اور جوان تھے۔ اور آپ کے پوتے سو سال کے بوڑھے تھے۔ (28) ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ (29) ابن جریر المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” کیف ننشزھا “ سے مراد ہے لفظ آیت ” نخرجھا “ یعنی ہم ان کو کیسے نکالیں گے۔ (30) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لم یتسنہ “ سے مراد ہے کہ سو سال کے بعد بھی کھانا خراب نہ ہوا۔ (حالانکہ) کھانا اور پینا اس سے (بہت) کم مدت میں خراب ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا لفظ آیت ” وانظر الی العظام کیف ننشزھا “ ان ہڈیوں کی طرف دیکھو ہم کس طرح اس سے ڈھانچہ تیار کرتے ہیں۔ (31) حاکم نے (اور اس نے اس کو صحیح کہا) زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (یوں) پڑھا لفظ آیت ” کیف ننشزھا “ زا کے ساتھ۔ (32) الفریانی ابن منصور اور مسدد، عبد بن حمید اور ابن المنذر نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” کیف ننشزھا “ زا کے ساتھ۔ اور زید ؓ نے اس پر اپنے مصحف میں نقطہ ڈالا تھا۔ (33) ابی بن کعب رض اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” کیف ننشزھا “ کو زاء کے ساتھ لکھا ہے۔ (34) الفریابی سعید بن منصور، عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” ننشرھا “ را کے ساتھ۔ را کے ساتھ۔ (35) ابن المنذر نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” ننشرھا “ را کے ساتھ۔ (36) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (37) ابن جریر نے سدی سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کیف ننشزھا “ سے مراد ہے کہ (کس طرح) ہم ان کو حرکت دیتے ہیں۔ (38) ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کیف ننشزھا “ سے مراد ہے کہ کس طرح ہم ان کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ (39) عبدالرزاق عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا لفظ آیت ” فلما تبین لہ قال اعلم “ پھر فرمایا کہ ان کو یہ کہا گیا تھا۔ (40) سعید بن منصور اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” قال اعلم “ اور وہ کہتے تھے ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی افضل نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے (خود) فرمایا لفظ آیت ” اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر “ یعنی کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (41) ابن جریر نے ہارون (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قرات میں یوں لفظ آیت ” قیل اعلم ان اللہ “ یعنی امر کا صیغہ تھا۔ (42) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کہ حضرت عبداللہ ؓ کی قرات میں یوں تھا لفظ آیت ” قیل اعلم “۔
Top