Al-Qurtubi - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ : یا كَالَّذِيْ : اس شخص کے مانند جو مَرَّ : گزرا عَلٰي : پر سے قَرْيَةٍ : ایک بستی وَّهِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گر پڑی تھی عَلٰي عُرُوْشِهَا : اپنی چھتوں پر قَالَ : اس نے کہا اَنّٰى : کیونکر يُحْيٖ : زندہ کریگا ھٰذِهِ : اس اللّٰهُ : اللہ بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا فَاَمَاتَهُ : تو اس کو مردہ رکھا اللّٰهُ : اللہ مِائَةَ : ایک سو عَامٍ : سال ثُمَّ : پھر بَعَثَهٗ : اسے اٹھایا قَالَ : اس نے پوچھا كَمْ لَبِثْتَ : کتنی دیر رہا قَالَ : اس نے کہا لَبِثْتُ : میں رہا يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : دن سے کچھ کم قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ لَّبِثْتَ : تو رہا مِائَةَ عَامٍ : ایک سو سال فَانْظُرْ : پس تو دیکھ اِلٰى : طرف طَعَامِكَ : اپنا کھانا وَشَرَابِكَ : اور اپنا پینا لَمْ يَتَسَنَّهْ : وہ نہیں سڑ گیا وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلٰى : طرف حِمَارِكَ : اپنا گدھا وَلِنَجْعَلَكَ : اور ہم تجھے بنائیں گے اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلَى : طرف الْعِظَامِ : ہڈیاں کَيْفَ : کس طرح نُنْشِزُھَا : ہم انہیں جوڑتے ہیں ثُمَّ : پھر نَكْسُوْھَا : ہم اسے پہناتے ہیں لَحْمًا : گوشت فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهٗ : اس پر قَالَ : اس نے کہا اَعْلَمُ : میں جان گیا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق سے گزر ہو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا تو خدا نے اسکی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا کہ تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہو ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
آیت نمبر : 259۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” او کالذی مر علی قریۃ وھی خاویۃ علی عروشھا “۔ او معنی پر محمول کرتے ہوئے عطف کے لئے ہے اور امام کسائی اور فراء کے نزدیک تقدیر کلام یہ ہے : ھل رایت کالذی حاج ابراھیم فی ربہ او کالذی مر علی قریۃ۔ اور مبرد نے کہا ہے : اس کا معنی ہے (آیت) ” الم ترالی الذی حاج ابراھیم فی ربہ، الم تر من ھو، کالذی مر علی قریۃ۔ پس کلام میں من ھو کے الفاظ مضمر ہیں۔ ابو سفیان بن حسین نے ” او کالذی مر “ واؤ کے فتحہ کے ساتھ قرات کی ہے اور یہ واؤ عاطفہ ہے اور اس پر الف استفہام داخل ہے جس کا معنی تقریر (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 347 دارالکتب العلمیہ) (پختہ کرنا) ہے۔ اور القریۃ (یعنی خاص بستی) کو قریۃ (کوئی بستی) کا نام دیا گیا ہے اس لئے کہ اس میں لوگوں کا اجتماع تھا، یہ ان کے اس قول سے ہے : قریت الماء یعنی میں نے پانی جمع کیا۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ سلیمان بن بریدہ، ناجیہ بن کعب، قتادہ، حضرت ابن عباس ؓ ربیع، عکرمہ اور ضحاک رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے جو اس بستی کے پاس سے گزرا تھا وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے۔ حضرات وہب بن منبہ، عبداللہ بن عبید بن عمیر، عبداللہ بن بکر بن مضر رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : وہ ارمیاہ تھے اور وہ نبی تھے ابن اسحاق نے کہا ہے : ارمیاء ہی حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں، نقاش نے وہب بن منبہ سے اسے بیان کیا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے۔ اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے مگر یہ کہ وہ ایک نام ہو جو اس نام کے موافق ہو کیونکہ حضرت خضر (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہم عصر تھے اور یہ جو اس بستی کے پاس سے گزرے وہ ان کے بعد کے زمانہ میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے جیسا کہ اسے حضرت وہب بن منبہ نے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : اگر خضر (علیہ السلام) ہی ارمیاء ہوں تو کوئی بعید نہیں کہ وہی ہوں کیونکہ حضرت خضر (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت سے اب تک مسلسل موجود ہیں، اس بارے میں صحیح روایت اسی طرح ہے، اس کا بیان سورة الکہف میں آئے گا اور اگر وہ اس واقعہ سے پہلے وصال فرما چکے ہیں تو پھر ابن عطیہ کا قول صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ نحاس اور مکی نے حضرت مجاہد (رح) سے بیان کیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی تھا اس کا نام معلوم نہیں۔ نقاش نے کہا ہے : کہا جاتا ہے وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کا غلام تھا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 347 دارالکتب العلمیہ) سہیلی نے قتبی سین بیان کیا ہے وہ ان کے دو قولوں میں سے ایک کے مطابق شقیا تھے اور وہ جس نے اس بستی کو برباد ہونے کے بعد زندہ (آباد) کیا تھا وہ کو شک الفارسی ہے۔ اور حضرت وہب بن منبہ، حضرت قتادہ، حضرت ربیع بن انس وغیرہم کے قول کے مطابق وہ بستی جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ بیت المقدس ہے۔ فرمایا : وہ مصر سے آنے والا تھا اور اس کے جس طعام و شراب کا ذکر کیا گیا ہے وہ سبز انجیر اور انگور اور چمڑے سے بنا ہوا ایک چھوٹا سابرتن شراب کا تھا اور یہ بھی ہے کہ اس میں جوس تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے : پانی کا ایک مٹکا تھا یہی اس کی شراب تھی اور وہ جس نے اس وقت بیت المقدس کو خالی کرایا وہ بخت نصر تھا اور وہ عراق پر لہراسب کی طرف سے پھر یستاسب بن لہراسب والد اسبند یاد کی جانب سے والی تھا۔ نقاش نے بیان کیا ہے کہ ایک قوم نے کہا ہے : یہ ایک الٹی کی ہوئی بستی تھی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے ابو صالح کی روایت میں کہا ہے کہ بخت نصر نے بنی اسرائیل سے جنگ لڑی اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ وہ انہیں لے کر آیا اور ان میں عزیر بن شرخیا بھی تھے اور وہ بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھے، پس وہ ان کے ساتھ بابل کی طرف آئے، وہ ایک دن اپنے کسی کام سے ہرقل کی عبادت گاہ کی طرف دریائے دجلہ کے کنارے پر نکلے، پس وہ درخت کے سائے میں اترے اور وہ اپنے ایک گدھے پر سوار تھے۔ انہوں نے درخت کے سائے میں گدھا باندھا پھر بستی کا چکر لگایا اور وہاں کوئی رہائشی نہ دیکھا اور یہ بستی اپنی چھتوں کے بل گری پڑی تھی تو کہا : کیونکر اللہ تعالیٰ اسے اس کی ہلاکت و بربادی کے بعد زندہ کرے گا، اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلاشبہ یہ وہ بستی ہے جس سے موت کے ڈر سے ہزاروں افراد نکلے۔ ابن زید نے یہی کہا ہے اور ابن زید سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ لوگ جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے وہ ہزاروں تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : تم مر جاؤ ان کے پاس سے کوئی آدمی گزرا درآنحالیکہ وہ خالی ہڈیاں تھے جو بالکل ظاہر تھیں، پس وہ آدمی کھڑے ہو کر دیکھنے لگا اور اس نے کہا : کیونکر اللہ تعالیٰ اسے اس کی موت کے بعد زندہ کرے گا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے سو برس تک مردہ رکھا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ابن زید کی جانب سے یہ قول آیت کے الفاظ کے مناقض ہے، کیونکہ یہ آیت ایسی بستی کو متضمن ہے جو گری پڑی ہے اور اس میں کوئی انیس وغمخوار نہیں ہے اور ہذہ کے ساتھ اشارہ اسی بستی کی طرف ہے، اور اسے زندہ کرنے سے مراد اسے آباد کرنا ہے اور اس میں عمارتوں اور رہنے والوں کا موجود ہونا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 347 دارالکتب العلمیہ) حضرت وہب بن منبہ، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک، حضرت ربیع اور حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : وہ بستی بیت المقدس ہے جبکہ اسے بخت نصر بابلی نے تباہ و برباد کردیا تھا۔ اور طویل حدیث میں ہے کہ جس وقت بنی اسرائیل ایسے واقعات سے دو چار ہوئے تو ارمیاء یا عزیز اس بستی کے پاس ٹھہرے اور وہ بہت بڑے ٹیلے کی مانند تھی بیت المقدس کے وسط میں، کیونکہ بخت نصر نے اپنے لشکر کو اس کی طرف مٹی منتقل کرنے کا حکم دیا تھا یہاں تک کہ اس نے اسے پہاڑ کی طرح بنادیا اور ارمیاء نے گھروں کو دیکھا، ان کی دیواروں ان کی چھتوں پر گری پڑی ہیں۔ تو انہوں نے کہا : کیونکر اللہ تعالیٰ اسے اس کی موت کے بعد زندہ کرے گا۔ اور العریش کا معنی ہے : مکان کی چھت اور ہر وہ شے جو اس لئے تیار کی جاتی ہے کہ وہ سایہ دے یا وہ چھپا لے تو وہ عریش ہے اور اسی سے عریش الدالیہ بھی ہے (کنویں کی من) اور اسی سے رب کریم کا ارشاد بھی ہے : (آیت) ” ومما یعرشون “۔ سدی نے کہا ہے : کہتے ہیں ھی ساقطۃ علی سقفھا “۔ یعنی چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں گر پڑی، اسے طبری نے اختیار کیا ہے اور سدی کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے : اس کا معنی ہے وہ بستی لوگون سے خالی ہے اور گھر قائم ہیں، اور خاویۃ کا معنی خالیۃ (خالی ہونا) ہے۔ اور الخواء کا اصل (معنی) الخلو ہے کہا جاتا ہے : خوالدار وخویت تخوی خواء (یہ الف ممدودہ کے ساتھ بھی ہے) وخویا : اقوت یعنی گھر کا ساکنین سے خالی ہونا (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ، 9 3 داراحیاء التراث العربیۃ) اور اسی طرح جب وہ ساقط ہوجائے، گر جائے اور اسی معنی میں رب کریم کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فتلک بیوتھم خاویۃ بما ضلموا “۔ (نمل : 52) اس میں خاویۃ بمعنی خالیہ ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خاویۃ بمعنی ساقطۃ ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : (آیت) ” فھی خاویۃ علی عروشھا “ یعنی وہ گرنے والی ہے اپنی چھتوں پر۔ الخواء الجوع پیٹ کے غذا سے خالی ہونے کے لئے بولا جاتا ہے اور خوت المرأۃ اور خویت بھی ہے خوی یعنی عورت کا پیٹ ولادت کے وقت خالی ہوگیا۔ اور خویت لھا تخویۃ کہا جاتا ہے جب تو اس کے لئے کھانا تیار کرے جسے وہ کھائے گی اور اس سے مراد طعام ہے۔ اور الخوی فعیل کے وزن پر ہے اور اس سے مراد زمین کا نشیبی ہموار حصہ ہے۔ اور خوی البعیر جب اونٹ کین بیٹھنے کے وقت اس کا پیٹ زمین سے دور ہوا اور اسی طرح آدمی اپنے سجدے کی حالت میں ہوتا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا “۔ اس کا معنی ہے : کون سے طریقے اور کون سے سبب سے اللہ تعالیٰ اسے موت کے بعد زندہ کرے گا ؟ ظاہر لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بستی کو آبادی اور مکینوں کے ساتھ زندہ کرنے کے بارے سوال ہے جیسا کہ اب ان خراب وبرباد شہروں کے بارے کہا جاتا ہے جو آباد ہونے اور مکینوں سے دور ہوتے ہیں کہ یہ کیونکر اپنی بربادی کے بعد آباد ہوں گے، گویا کہ یہ وہاں کھڑے ہونے والے کی طرف سے اظہار افسوس ہے جو اس شہر پر عبرت کی نظر ڈال رہا ہے جس میں اس کے گھر والے اور اس کے دوست احباب موجود تھے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اس کی ذات میں ایسی شے سے مثال بیان فرمائی جو اس سے عظیم تر ہے جس بارے میں اس نے سوال کیا ہے اور وہ مثال جو اس کے لئے اس کی ذات میں بیان کی گئی ہے وہ احتمال رکھتی ہے کہ اس کا سوال بنی آدمی کے مردوں کو زندہ کرنے کے بارے ہو، یعنی اللہ تعالیٰ کیونکر اس کے مردوں کو زندہ کرے گا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 348 دارالکتب العلمیہ) علامہ طبری نے بعض سے بیان کیا ہے کہ اس نے کہا : یہ قول احیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک ہے اور اسی لئے اس کی ذات میں اس کی مثال بیان کی گئی ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : اس پر اللہ تعالیٰ کی قدرت میں کوئی شک داخل نہیں ہو سکتا کہ وہ بستی کو دوبارہ آباد کرکے اسے زندہ کردے۔ بلاشبہ دوسری وجہ میں شک کا تصور صرف جاہل کی طرف کیا جاسکتا ہے اور درست یہ ہے کہ آیت میں شک کی کوئی تاویل نہ کی جائے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 348 دارالکتب العلمیہ) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فاماتہ اللہ مائۃ عام، مائۃ یہ ظرف کی بناء پر منصوب ہے اور عام بمعنی سال ہے، کہا جاتا ہے : سئون عوم یہ پہلے کی تاکید کے لئے ہے جیسے کہا جاتا ہے : بینھم شغل شاغل، اور عجاج نے کہا ہے : من مر اعوام السنین العوم اس میں العوم السنین کی تاکید کے لیے ہے۔ اور یہ تقدیر میں عائم کی جمع ہے، مگر یہ مفرد مذکور نہیں ہوتا کیونکہ یہ اسم نہیں ہے بلکہ یہ تو تاکید ہے، جوہری نے یہی کہا ہے اور نقاش نے کہا ہے : العام مصدر ہے جیسا کہ عوم مصدر ہے اور اس کے ساتھ سال بھر کے زمانے کا نام رکھا گیا ہے کیونکہ یہ سورج کے فلک میں گھومنے اور چکر لگانے سے پیدا ہوتا ہے۔ اور العوم، السبح کی طرح ہے (یعنی تیرنا) اور رب العالمین نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” کل فی فلک یسبحون “۔ (الانبیائ) (سب (اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں) ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ نقاش کے قول کے معنی میں ہے اور العام اس بنا پر القول اور القال کی طرح ہے اور اس اماتت (مارنے) کا ظاہر معنی جسم سے روح کو نکالنا ہے اور اس آیت کے قصص میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اس کے لئے بھیجا جو اسے آباد کرے گا اور اس بارے میں اہتمام اور کوشش کرے گا، یہاں تک کہ اس کی آبادی کا کمال کہنے والے کو دوبارہ اٹھانے (زندہ کرنے) کے ساتھ ہوگا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 349 دارالکتب العلمیہ) اور کہا گیا ہے کہ جب اس کی موت کو ستر برس گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے ملوک فارس میں سے ایک عظیم بادشاہ بھیجا اسے کو شک کہا جاتا ہے تو اس نے اسے تیس سال میں آباد کردیا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ثم بعثہ “۔ اس کا معنی ہے : پھر اس نے اسے زندہ کردیا۔ اس کے بارے میں کلام ہوچکی ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” قال کم لبثت “۔ یہ قول کہنے والے کے بارے میں اختلاف ہے، کہا گیا ہے کہ رب العالمین ہے اور اس نے اسے یہ نہیں کہا : ” اگر تو سچا ہے “ جیسا کہ ملائکہ کو فرمایا تھا جیسا کہ پہلے بحث گزر چکی ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس نے آسمان کی جانب سے ہاتف غیبی سے سنا وہ اسے یہ کہہ رہا ہے اور یہ بھی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اس سے مخاطب ہوئے اور یہ بھی ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے کہا۔ اور یہ بھی ہے کہ ایک مومن آدمی جو اس کی قوم میں سے تھا اور اس نے اسے مرتے وقت دیکھا تھا اور وہ اس کے زندہ ہونے کے وقت تک زندہ تھا تو اس نے اسے کہا : (آیت) ” کم لبثت “ (کتنی مدت تو یہاں ٹھہرا رہا) میں (مفسر) کہتا ہوں : اظہر بات یہ ہے کہ کہنے والا خود اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وانظر الی العظام کیف ننشزھا ثم نکسوھا لحما “۔ واللہ اعلم۔ اہل کوفہ نے ” کم لبت “ پڑھا ہے یعنی ثا کو تا میں قریب المخرج ہونے کی وجہ سے ادغام کردیا ہے کیونکہ ان دونوں کا مخرج طرف لسان اور ثنایا علیا کی جڑیں ہیں اور اس اعتبار سے بھی کہ یہ دونوں حروف مہموسہ میں سے ہیں نحاس نے کہا ہے : ثا اور تا کا مخرج جدا جدا ہونے کی وجہ سے اظہار احسن اور بہتر ہے اور کہا جاتا ہے : یہ سوال علی جہۃ تقریر فرشتے کے واسطہ سے تھا اور کم ظرف کی بنا پر محل نصب میں ہے۔ (آیت) ” قال لبثت یوما او بعض یوم “۔ اس نے یہ قول اس بنا پر کیا جو اس کے نزدیک تھا اور جو اس کے گمان میں تھا اور اس بناء پر وہ اپنی خبر دینے میں جھوٹا نہیں ہو سکتا اور اسی کی مثل اصحاب کہف کا قول ہے : (آیت) ” قالو لبثنا یوم او بعض یوم “۔ (الکہف : 19) ترجمہ : بعض نے کہا ہم ٹھہرے ہوں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ) بلاشبہ وہ تین سو نوے برس تک ٹھہرے رہے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور وہ جھوٹے نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اس مدت کی خبر دی جو ان کے نزدیک تھی، گویا کہ انہوں نے کہا : جو ہمارے نزدیک ہے اور جو ہمارے گمان میں ہے (وہ یہ ہے) کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے اور اس کی نظر ذوالیدین کے قصہ میں حضور نبی مکرم ﷺ کا قول بھی ہے : لم اقصر ولم انس (1) (سنن نسائی، کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 181، ایضا صحیح بخاری باب ھل یاخذ الامام الخ، حدیث نمبر 873، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (یعنی نہ نماز کم ہوئی اور نہ میں بھولا) اور لوگوں میں سے جو کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے وہ اس بنا پر ہے کہ اس میں جھوٹ حقیقتا موجود ہے لیکن اس کے سبب اس کا مواخذہ نہیں، ورنہ جھوٹ سے مراد کسی شے کے بارے میں ایسی خبر دینا ہے جو اس کی حقیقت کے خلاف ہو اور یہ علم اور جہالت کے سبب مختلف نہیں ہوتا اور یہ اصول کی نظر میں واضح اور بین ہے اور اس بنا پر جائز ہے کہ یہ کہا جائے : بیشک انبیاء (علیہم السلام) کسی شے کے بارے میں ایسی خبر دینے سے معصوم نہیں ہیں جو خلاف واقعہ ہو، بشرطیکہ وہ بالقصد اور بالارادہ نہ ہو، جیسا کہ وہ سہو ونسیان سے معصوم نہیں ہیں، اور یہ وہ ہے جو اس آیت سے تعلق رکھتا ہے اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ ابن جریج، قتادہ اور ربیع نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اسے ایک دن صبح کو موت دی پھر اسے غروب آفتاب سے پہلے زندہ کر کے اٹھا دیا گیا تو اس نے اسے ایک دن گمان کیا اور کہا : میں ایک دن ٹھہرا پھر اس نے سورج کو باقی دیکھا اور اسے جھوٹا ہونے کا خوف لاحق ہوا تو اس نے کہہ دیا : ” یا دن کا کچھ حصہ “ تو اسے کہا گیا : ” بلکہ تو سو سال تک ٹھہرا رہا “۔ اور بستی کی آبادی، اس کے درخت اور اس کی ان عمارتوں کو دیکھا جو اس پر دال تھیں۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 348 دارالکتب العلمیہ) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فانظر الی طعامک : طعام سے مراد وہ انجیر ہے جو اس نے اس بستی کے درختوں سے جمع کیا تھا جس کے پاس سے گزرا تھا (آیت) ” وشرابک لم یتسنہ “۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس طرح قرات کی ہے۔ ” وھذا طعامک وشرابک لم یتسنہ “۔ (اور یہ تیرے کھانے اور تیرے پینے کا سامان ہے، یہ باسی نہیں ہوا) اور طلحہ بن مصرف وغیرہ نے اس طرح پڑھا ہے : وانظر لطعامک وشرابک لمائۃ سنۃ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 348 دارالکتب العلمیہ) اور جمہور نے وصل کلام میں ہا کو ثابت رکھا ہے مگر اخوان (حمزہ اور کسائی) اسے حذف کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس پر وقف ہا کے ساتھ ہے اور طلحہ بن مصرف نے بھی لم تسن، وانظر پڑھا ہے سین میں تا کو مدغم کیا گیا ہے۔ (4) اور جمہور کی قرات کے مطابق ہا اصلیہ ہے اور ضمہ کو جزم کے سبب حذف کردیا گیا ہے اور یہ یتسنۃ ہوجاتا ہے یہ السنہ سے ہے یعنی سالوں نے اسے تبدیل نہیں کیا۔ جوہری نے کہا ہے : اور کہا جاتا ہے سنون اور السنۃ یہ السنین کی واحد ہے، اور اس کے ناقص ہونے میں دو قول ہیں۔ ان میں سے ایک کے مطابق یہ وادی ہے اور آخر میں ہا ہے اور اس کی اصل سنھۃ، جبھۃ کی مثل ہے کیونکہ یہ سنھۃ النخلۃ وتسنھت سے ہے جب اس پر کئی سال گزر جائیں۔ اور نطنلۃ سناء یعنی درخت ایک سال بار آور ہوتا ہے اور دوسرا سال بار آور نہیں ہوتا۔ اور سنھاء بھی ہے۔ جیسا کہ انصار میں سے کسی نے کہا ہے : فلیست بسنھاء ولا رجبیۃ ولکن عرایا فی السنین الجوائح (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ، 46 داراحیاء التراث العربیۃ) اور اسنھت عندبنی فلان تو اس کے پاس مقیم رہا، وتسنیت بھی ہے۔ اور استاجرتہ مساناۃ ومسانھۃ بھی ہے اور اس کی تصغیر سنیۃ اور سنیھۃ ہے۔ نحاس نے کہا ہے : جس نے لم یتسن اور انظر پڑھا ہے اس نے تصغیر میں سنیۃ کہا ہے اور الف کو جزم کے لئے حذف کردیا ہے اور وقف ہا پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں : لم یتسنہ یہ ہابیان حرکت کے لئے ہوتی ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ اس کی اصرحمۃ اللہ علیہ سائیتہ مساناۃ سے ہے یعنی میں نے اس کے ساتھ یکے بعد دیگرے کئی سال معاملہ کیا۔ یا یہ سانھت (ہا کے ساتھ) سے ہے پس اگر یہ سانیت سے ہو تو اس کیا اصل یتسنی ہے اور الف جزم کی وجہ سے گر گئی، اور یہ اصل میں وادی ہے اور اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے سنوات اور اس میں ہابرائے سکتہ ہے اور اگر یہ سانھت سے ہو تو پھر ہافعل کے لام کلمہ کی جگہ ہے اور سنۃ کی اصل اس بناء پر سنھۃ ہے اور پہلے قول کی بنا پر سنوۃ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اسن الماء سے ماخوذ ہے۔ (یہ تب کہا جاتا ہے) جب پانی متغیر ہوجائے اور اس بنا پر اس کا یتاسن ہونا لازم آتا ہے، ابو عمر والشیبانی نے کہا ہے : یہ اس ارشاد سے ہے (آیت) ” حما مسنون (الحجر) پس معنی ہے کہ وہ متغیر نہ ہوا۔ زجاج نے کہا ہے : اس طرح نہیں ہے کیونکہ قول باری تعالیٰ مسنون کا معنی متغیر (تبدیل شدہ) نہیں ہے بلکہ اس کا معنی زمین کی سبزی اور طراوت پر انڈیل دیا جانا ہے، مہدوی نے کہا ہے : شیبانی کے قول کے مطابق اس کی اصل یتسنن ہے۔ دو نونوں میں سے ایک کو یا سے بدل دیا گیا ہے کیونکہ اس میں تضعیف (مضاعف ہونا) مکروہ ہے تو یہ یتسنی ہوگیا۔ پھر حالت جزی میں الف کو گرا دیا گیا اور سکتہ کے لئے با داخل کردی گئی۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : (آیت) ’ لم یتسنہ “ کا معنی ہے : وہ بدبو دار نہیں ہوا۔ نحاس نے کہا ہے : اس کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں اصح یہ ہے کہ یہ السنۃ سے ہے یعنی سالوں نے اسے تبدیل نہیں کیا، اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ السنۃ سے ہو اور اس کا معنی قحط سالی ہیں۔ اور اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین “۔ (الاعراف : 130) ترجمہ : اور بیشک ہم نے پکڑ لیا فرعونیوں کو قحط سالی سے۔ اور حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ” اللھم اجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (2) (صحیح بخاری، کتاب الاستسقاء جلد 1، صفحہ 136، وزارت تعلیم، صحیح بخاری باب تسیۃ الولید، حدیث نمبر 5732، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اے اللہ ! ان پر قحط سالی مسلط کر دے حضرت یوسف (علیہ السلام) (کے زمانے) کے قحط کی طرح) اسی سے کہا جاتا ہے : اسنت القوم یعنی قوم قحط میں مبتلا ہوگئی پس معنی یہ ہوگا : قحطوں اور خشک سالیوں نے تیرے طعام کو تبدیل نہیں کیا یا سالوں اور برسوں نے اسے متغیر نہیں کیا یعنی وہ اپنی طراوت اور عمدگی پر باقی رہا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وانظر الی حمارک “۔ حضرت وہب بن منبہ وغیرہ نے کہا ہے : اس کی ہڈیوں کے جڑنے اور اس کے ایک ایک عضو کے زندہ ہونے کی طرف دیکھ، اور بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح زندہ کیا یہاں تک کہ وہ جڑی ہوئی ہڈیاں ہوگیا، پھر اس پر گوشت پیدا کردیا یہاں تک کہ وہ کامل گدھا بن گیا، پھر اس کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے اس میں روح پھونک دی تو گدھا کھڑا ہو کر ہینگنے لگا، یہی مؤقف اکثر مفسرین کا ہے۔ حضرت ضحاک اور حضرت وہب بن منبہ سے بھی یہ روایت کیا گیا ہے کہ ان دونوں نے کہا، بلکہ اسے کہا گیا : تو اپنے گدھے کی طرف دیکھ درآنحالیکہ وہ اپنے باندھنے کی جگہ میں کھڑا ہے، سو برس میں اسے کوئی شے (آفت، تکلیف) نہیں پہنچی۔ اور وہ ہڈیاں جن کی طرف اس نے دیکھا ہے وہ اس کی اپنی ہڈیاں تھیں، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں اور اس کے سر کو پہلے زندہ کردیا اور ابھی اس کا سارا جسم مردہ تھا، ان دونوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ارمیاء اور اس کے گدھے کی طرف اتنی طویل مدت تک دیکھنے سے اندھا کیے رکھا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 350 دارالکتب العلمیہ) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولنجعلک ایۃ للناس “۔ فراء نے کہا ہے کہ قول باری تعالیٰ (آیت) ” ولنجعلک “ میں واؤ داخل کی گئی ہے اس پر دلالت کرنے کے لئے کہ یہ اپنے مابعد فعل کے لیے شرط ہے، اس کا معنی ہے : (آیت) ” ولنجعلک ایۃ للناس “۔ ودلالۃ علی البعث بعد الموت جعلنا ذالک “۔ (اور یہ سب اس لئے) (کہ ہم بنائیں تجھے لوگوں کے لئے نشان) اور ہم نے بعث بعد الموت پر بطور دلیل اسے بنایا ہے اور اگر تو چاہے تو واؤ کو مقحمہ زائدہ بنالے اور اعمش نے کہا ہے : اس کے نشانی ہونے کا محل یہ ہے کہ وہ اپنی اسی حالت پر نوجوان اٹھا جس حالت پر وہ اس دن تھا جس دن فوت ہوا اور اس نے بیٹے اور پوتے بڑھاپے کی حالت میں پائے، حضرت عکرمہ نے کہا ہیں : جس دن وہ فوت ہوا اس وقت اس کی عمر چالیس برس تھی۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 350 دارالکتب العلمیہ) اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عزیر اپنے گھر والوں سے نکلے اور پیچھے اپنی حاملہ بیوی چھوڑی، آپ کی عمر پچاس سال تھی اور اللہ تعالیٰ نے سو برس آپ کو مردہ حالت میں رکھا، پھر آپ کو اٹھایا اور آپ لوٹ کر اپنے گھر والوں کی طرف گئے اس حال میں کہ آپ پچا سال کے جوان تھے اور آپ کا بیٹا سو برس کا تھا پس آپ کا بیٹا آپ سے پچاس برس بڑا تھا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کو زندہ کیا تو وہ اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور اپنے محلہ میں آئے تو نہ وہ لوگوں کو پہچان سکے اور نہ ہی لوگ انہیں پہچان سکے اور انہوں نے اپنے گھر میں ایک نابینی بڑھیا کو پایا وہ انکی کنیز تھی۔ جب حضرت عزیر ان سے نکلے تھے اس وقت اس کی عمر بیس برس تھی، تو آپ نے اسے فرمایا : کیا یہ عزیر کا گھر ہے ؟ اس نے کہا : یہاں۔ پھر وہ رونے لگی : عزیر اتنے برس سے ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔ آپ نے فرمایا : میں عزیر ہوں۔ اس نے کہا : بلاشبہ عزیر تو سو برس سے ہم سے گم اور مفقود ہیں۔ آپ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے سو برس تک مجھے موت دیئے رکھی پھر اس نے مجھے زندہ فرما دیا ہے۔ بڑھیا نے کہا : عزیر تو مریض کے لئے مستجاب الدعوات تھے اور کسی مصیبت واذیت میں مبتلا آدمی افاقہ پالیتا تھا تو آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ میری بصارت مجھے لوٹا دے، سو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ پھیرا تو وہ اسی جگہ صحت یاب ہوگئی، گویا اسے بیزیوں سے آزاد کردیا گیا تو وہ کہنے لگی : میں شہادت دیتی ہوں بلاشبہ تو عزیر ہے۔ پھر وہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کی طرف چل پڑی اور ان میں حضرت عزیر کا بوڑھا بیٹا بھی تھا اس کی عمر ایک سو اٹھائیں برس تھی اور اس کے بیٹوں کے بیٹے بھی بوڑھے تھے تو بڑھیا نے کہا : اے قوم ! قسم بخدا یہ عزیر ہے، تو آپ کا بیٹا لوگوں کے ساتھ آپ کی طرف آیا تو ان کے بیٹے نے کہا میرے باپ کی دونوں کندھوں کے درمیان ہلال کی مثل سیاہ نشان تھا، سو اس نے اسے دیکھا تو وہ عزیر ہی تھے، اور کہا گیا ہے : آپ اس حال میں آئے کہ آپ کو پہچاننے والے تمام ہلاک ہوچکے تھے تو آپ ان کے لئے ایک نشانی تھے جو آپ کی قوم میں سے زندہ تھے کیونکہ آپ کے احوال سننے کے سبب وہ یقین رکھتے تھے، ابن عطیہ نے کہا ہے : اتنی مدت آپ کو موت دینے میں اور پھر اس کے بعد آپ کو زندہ کرنے میں بہت عظیم نشانی ہے اور آپ کا سارا معاملہ آنے والے زمانے کے لئے علامت ونشانی ہے، بعض کو چھوڑ کر بعض کی تخصیص کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 350 دارالکتب العلمیہ) قولہ تعالیٰ (آیت) ” وانظر الی العظام کیف ننشزھا “۔ علمائے کوفہ اور ابن عامر نے زا کے ساتھ قرات کی ہے اور باقیوں نے را کے ساتھ اور ایان نے حضرت عاصم (رح) سے ننشرھا “ یعنی نون کے فتحہ، شین کے ضمہ اور را کے ساتھ روایت کیا ہے اور اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ حسن اور ابو حیوہ نے قرات کی ہے اور کہا گیا ہے : یہ دونوں لغتیں احیاء (زندہ کرنے) کے معنی میں ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے : رجع ورجعتہ اور غاض الماء وغضتہ، خسرت الدابۃ وخسر تھا، مگر لغت میں معروف یہ ہے : انشر اللہ الموتی فنشروا، یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا پس وہ زندہ ہوگئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ”’ ثم اذا شآء انشرہ “۔ (عبس) (پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا) اور اس کا اٹھنا کپڑے کے اٹھنے (لپیٹنے) کی مثل ہوگا۔ نشر المیت ینشرنشورا یعنی مرنے والا موت کے بعد زندہ ہوگیا۔ اعشی نے کہا ہے : حتی یقول الناس مما راؤا یا عجبا للمیت الناشر “۔ (2) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ، 55 داراحیاء التراث العربیۃ) یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے جو کچھ انہوں نے دیکھا موت کے بعد زندہ ہونے والے میت کا واقعہ کتنا عجیب ہے۔ گویا موت ہڈیوں اور اعضاء کو لپٹینے کا نام ہے اور احیاء اور اعضاء کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جمع کرنا نشر ہے، اور رہی ننشزھا “ کی قرات زا کے ساتھ تو اس کا معنی ہے :” ہم انہیں اٹھاتے ہیں ‘ اور النشز کا معنی ہے : زمین کی بلند اور اٹھی ہوئی جگہ۔۔۔۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : تری الثعلب الحولی فیھا کا نہ اذا ما علا نشزا حصان مجلل۔ اس میں نشزا بلند جگہ کے معنی میں ہی مذکور ہے۔ مکی نے کہا ہے : معنی یہ ہے تو ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم کیسے زندہ کرنے کے لئے ان میں سے بعض کو اٹھا کر بعض پر ترکیب کے ساتھ رکھتے ہیں، کیونکہ النشز کا معنی ” الارتفاع (بلند ہونا) ہے اور اسی سے المراۃ النشوز ہے اس سے مراد ایسی عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ موافقت کرنے سے بلند ہوتی ہے۔ (یعنی اس کے ساتھ موافقت نہیں کرتی) اور اسی سے رب العالمین کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” واذا قیل انشزوا فانشزوا “۔ (المجادلہ : 11) ترجمہ : اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو) یعنی تم اٹھو اور مل جاؤ۔ اور یہ بھی ہے کہ را کے ساتھ قرات ہو تو معنی احیاء (زندہ کرنا) ہے۔ اور ہڈیاں انفرادی طور پر زندہ نہیں ہوتیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں۔ اور زا اس معنی کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ بمعنی انضمام (ملنا) ہے نہ کہ بمعنی احیاء پس احیاء کے ساتھ آدمی متصف ہے نہ کہ انفرادی طور ہڈیاں اور یہ نہیں کہا جاسکتا : ھذا اعظم حی (یہ زندہ ہڈی ہے) لہذامعنی یہ ہوا : پس تو دیکھ ہڈیوں کی طرف ہم کیسے انہیں زمین میں ان کی جگہوں سے جسم کی طرف اٹھاتے ہیں (جس) جسم والے کو زندہ کرنا مقصود ہے۔ اور نخعی نے ننشزھا نون کے فتحہ، شین کے ضمہ اور زا کے ساتھ قرات کی ہے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت قتادہ ؓ سے یہی مروی ہے اور حضرت ابی بن کعب ؓ نے ننشیھا یا کے ساتھ قرات کی ہے۔ اور کسوہ سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ڈھانپ لیں۔ اور گوشت کو ان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور لبید نے اسلام کے لئے بطور استعارہ اسے استعمال کیا ہے، اور کہا ہے : حتی اکتسبت من الاسلام سربالا (1) (یہاں تک کہ میں نے اسلام سے لباس پہن لیا، یعنی میں نے اسلام قبول کرلیا، ) اور یہ سورت کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر “۔ (اعلم) میں ہمزہ قطعی ہے اور یہ روایت ہے کہ اللہ جل ذکرہ نے اس کے بعض (حصے) کو زندہ فرمایا پھر اسے دکھایا کہ اس نے اس کے بقیہ حصہ کو کیسے زندہ کیا ہے۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : بلاشبہ وہ دیکھنے لگا اللہ تعالیٰ کیسے بعض ہڈیوں کو بعض کے ساتھ جوڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب سے اول اس کے سر کو تخلیق فرمایا اور اسے کہا گیا : تو دیکھ تو اس وقت اس نے کہا : اعلم الف قطعی کے ساتھ، یعنی اعلم ھذا میں اسے جان گیا۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : (آیت) ” فلما تبین لہ “ میں معنی یہ ہے : جب اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے وہ شے اس کے لئے بالکل عیاں اور واضح ہوگئی جس سے وہ ناواقف تھا تو اس نے اپنے بالعین دیکھنے کو قبول کرلیا اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے کہا : اعلم (میں جان گیا) ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ خطا ہے، کیونکہ اس نے ایسی شے کو لازم کیا ہے لفظ جس کا تقاضا نہیں کرتا اور اس نے شاذ قول اور ضعیف احتمال کے مطابق تفسیر بیان کی ہے۔ یہ میرے نزدیک اس شے کے بارے میں اقرار نہیں ہے جس کا وہ اس سے پہلے انکار کرتا تھا جیسا کہ علامہ طبری نے گمان کیا ہے بلکہ یہ ایسا قول ہے جس پر اعتبار نے ابھارا ہے جیسا کہ ایک بندہ مومن جب اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے کوئی عجیب و غریب شے دیکھے تو کہتا ہے : ” لا الہ الا اللہ “۔ اور اسی طرح کے الفاظ۔ ابو علی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے میں علم کی اس قسم کو جان گیا جس کا علم میرے پاس نہ تھا۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 351 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں ہم نے یہ معنی حضرت قتادہ (رح) سے ذکر کیا ہے اور اسی طرح مکی (رح) نے کہا ہے مکی (رح) نے کہا ہے : بلاشبہ جب اس نے مردوں کو زندہ کرنے کے بارے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرلیا تو اس نے اپنے بارے میں خبر دی، اور اسے مشاہدہ کے ساتھ اس کا یقین ہوگیا اور اس نے اقرار کرلیا کہ وہ جانتا ہے اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے، یعنی میں علم کی اس قسم کو جان گیا ہوں معائنہ کی بنا پر جسے میں پہلے نہ جانتا تھا اور یہ ان کی قرات کے مطابق ہے جنہوں نے اعلم الف قطعی کے ساتھ پڑھا ہے اور وہ اکثر قراء ہیں۔ اور حمزہ اور کسائی نے ہمزہ وصل کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دو وجہوں کا احتمال رکھتا ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے فرشتے نے کہا : اعلم (تو جان لے) اور دوسری یہ کہ وہ اپنی ذات کو اجنبی اور منفصل مخاطب کے قائم مقام رکھے تو معنی یہ ہوگا کہ جب اس کے لئے حقیقت روشن ہوگئی تو اس نے اپنے آپ کو کہا : اے نفس تو جان لے یہ وہ علم یقینی ہے جسے تو بالعین نہ جانتا تھا اور اس معنی کی مثل میں ابو علی نے کہا ہے : ودع ہریرہ ان الرکب مرتحل الم تغتمض عیناک لیلۃ ارمدا۔ تو بلی کو چھوڑ دے بیشک قافلہ کوش کرنے والا ہے، کیا تیری آنکھیں آشوب چشم والی رات بند نہیں ہوئیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ابو علی اس معنی میں شاعر کے قول سے مانوس ہوئے ہیں : تذکر من انی ومن این شربہ یؤامر نفسیہ کذی الھجمۃ الابل : (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 352 دارالکتب العلمیہ) مکی (رح) نے کہا ہے : اور یہ بعید ہے کہ یہ اس کے لئے اللہ جل ذکرہ کی جانب سے علم کے بارے حکم ہو۔ کیونکہ اس نے تو اس پر اپنی قدرت ظاہر فرما دی ہے اور اسے ایسا امر دکھا دیا ہے جس کی صحت کا اسے یقین حاصل ہوگیا اور اس نے قدرت کا اقرار کرلیا، لہذا اس کا کوئی معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے علم کے بارے حکم دے بلکہ اس کے بارے وہ اپنے آپ کو حکم دے رہا ہے اور یہ جائز اور حسن ہے۔ اور حضرت عبداللہ ؓ کے حرف میں جو اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ یہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے علم کے بارے میں حکم ہے اس معنی میں کہ تو اس کے بارے میں علم کو لازم پکڑ لے اور یقین کرلے جب تو نے معائنہ کرلیا اور یقین کرلیا اس لئے کہ ان کی قرات میں ہے : قیل اعلم۔ اور یہ بھی کہ یہ اپنے ماقبل امر کے موافق ہے جو اس قول میں ہے : (آیت) ” فانظر الی طعامک “۔ اور (آیت) ” وانظر الی حمارک “۔ اور (آیت) ” وانظر الی العظام “۔ پس اسی طرح ہے۔ (آیت) ” اعلم ان اللہ “ اور حضرت ابن عباس ؓ پڑھتے تھے قیل اعلم اور کہتے تھے : کیا وہ بہتر ہے یا ابراہیم ؟ کیونکہ انہیں کہا گیا : (آیت) ” واعلم ان اللہ عزیز حکیم “۔ پس یہ واضح کرتا ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قول ہے جب اس نے احیاء (زندہ کرنے) کا معائنہ کرلیا۔
Top