Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ
: کیا نہیں دیکھا آپ نے
اِلَى
: طرف
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
حَآجَّ
: جھگڑا کیا
اِبْرٰھٖمَ
: ابراہیم
فِيْ
: بارہ (میں)
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَنْ
: کہ
اٰتٰىهُ
: اسے دی
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: بادشاہت
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّيَ
: میرا رب
الَّذِيْ
: جو کہ
يُحْيٖ
: زندہ کرتا ہے
وَيُمِيْتُ
: اور مارتا ہے
قَالَ
: اس نے کہا
اَنَا
: میں
اُحْيٖ
: زندہ کرتا ہوں
وَاُمِيْتُ
: اور میں مارتا ہوں
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
:ابراہیم
فَاِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْتِيْ
: لاتا ہے
بِالشَّمْسِ
: سورج کو
مِنَ
: سے
الْمَشْرِقِ
: مشرق
فَاْتِ بِهَا
: پس تو اسے لے آ
مِنَ
: سے
الْمَغْرِبِ
: مغرب
فَبُهِتَ
: تو وہ حیران رہ گیا
الَّذِيْ كَفَرَ
: جس نے کفر کیا (کافر)
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
: ناانصاف لوگ
کیا تم نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں حجت کی تھی کہ اللہ نے اسے بادشاہت دے رکھی تھی ، جب ابراہیم نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو اس نے جواب میں کہا میں تو خود بخود زندہ ہوا ہوں اور خود ہی مروں گا ، اس پر ابراہیم نے کہا ، اللہ سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اس کو مغرب سے طلوع کر کے دکھا ، یہ سن کر وہ بادشاہ ہکا بکا ہوگیا اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ ظالموں پر کبھی کامیابی اور فلاح کی راہ نہیں کھولتا
رئیس المواحدین سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نمرود کے دربار میں : 443: انسان کبھی فسق و فجور سے باز نہیں رہ سکتا جب تک اس کو دو باتوں کا یقین نہ ہو ایک یہ کہ اللہ موجود ہے اور وہ ہمارے ہر عمل حیات کا نگران کار ومحافظ ہے دوسرا یہ کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اس کے متعلق ایک روز سوال کیا جائے گا اور احتساب اعمال سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ان دونوں باتوں کو یا تو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا یا کیا گیا تو صرف رسما ً حقیقتاً نہیں۔ پیچھے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مؤمن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور پھر جس کا حامی و مددگار اللہ ہوجائے وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور کافر کے مددگار و معاون طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہاں اسی ” مؤمن “ اور ” کافر “ کی وضاحت کا ایک واقعہ بطور مثال پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس کے سامنے واضح دائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور پھر اس حقیقت کے پیش کرنے کا ایسا انداز اختیار کیا گیا کہ وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا لیکن چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس لئے حق کھل کر واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ روشنی کی طرف نہیں آیا بلکہ تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا اور اس مثال سے دونوں کردار بھی کھل کر سامنے آگئے کہ ” مؤمن “ کیا شئے ہے اور ” کافر “ کس بلا کا نام ہے یا یہ کہ ایمان کسے کہتے ہیں اور کفر کیا ہوتا ہے ؟ چناچہ اس مثال میں مؤمن کا کردار سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا کردار ہے اور کافر کا کردار نمرود یعنی اس وقت کے بادشاہ کا ۔ نمرود اس وقت عراق کا بادشاہ تھا اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن اصلی بھی یہی ہے جس واقعہ کو اس جگہ ذکر کیا جا رہا ہے اس واقعہ سے بائیل بالکل خالی ہے لیکن تلمود میں یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے اگرچہ اس کی تفصیل کا انداز کیسا ہو کچھ ہو۔ ہاں اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نمرود کے ہاں سلطنت کا سب سے بڑا عہدے دار یعنی چیف آف دی اسٹیٹ تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کھلم کھلا شرک کی تردید شروع کردی اور تو حید کی تبلیغ اپنی آخری حد کو پہنچی اور وہ وہی وقت تھا جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے بت خانہ میں داخل ہو کر ان کے بتوں کو تہس نہس کردیا تھا تو ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے خود ان کا مقدمہ نمرود کے دربار میں پیش کردیا اور وہیں یہ گفتگو پیش آئی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ جھگڑا کس بات پر تھا ؟ جھگڑا اس بات پر تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا رب کون ہے ؟ جھگڑا کس سے تھا ؟ بادشاہ وقت ہے جس کا لقب نمرود تھا۔ جھگڑے کا باعث کیا تھا ؟ طاقت اور حکومت کا غلط استعمال۔ عقل و فکر کا ہمیشہ سے یہ تقاضا رہا ہے اور اب بھی ہے کہ جو بات ہو وہ دلیل سے ہو لیکن طاقت اور حکومت واقتدار نے ہمیشہ زور اور طاقت کے ذریعے بات منوانے کی کوشش کی ہے اس لئے اکثر و بیشتر جن لوگوں کے پاس عقل وفکر تھی انکے پاس حکومت نہ تھی اور جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوگئیں یعنی حکومت اور حکمت تو وہ دور اگرچہ کتنا ہی مختصر تھا لیکن قابل دید تھا۔ نمرود حکومت کے نشہ میں ایسا سرشار تھا کہ گویا وہ بادشاہ نہیں لیکن رب ہے : 444: نمرود کو اپنی ظاہری شان و شوکت اور جاہ و جلال کی وجہ سے دھوکا ہوگیا تھا کہ وہ بادشاہ ہی نہیں بلکہ اپنی سلطنت کا رب بھی ہے قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک حکومتوں کی مشترک خصوصیت یہی رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الارباب کی حیثیت سے تو مانتی ہیں لیکن صرف اللہ ہی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود تسلیم نہیں کرتیں۔ آج کے دور کی طرح اگر کسی نے ظاہری طور پر مانا بھی ہے تو عملی طور پر ضرور اس کی تردید کی ہے۔ خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک فوق الفطری خدائی سلسلہ جو اسباب پر حکمران ہے اور جس کی طرح انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لئے رجوع کرتا۔ اس خدائی میں وہ اللہ کے ساتھ ارواح اور فرشتوں ، جنوں اور سیاروں اور دوسری بہت سی نیک ہستیوں کو یا جن کو وہ نیک سمجھ بیٹھتے ہیں شریک ٹھہراتے ہیں ان سے دعائیں مانگتے ہیں۔ ان کے سامنے مراسم پر ستش اور کو رنش بجا لاتے ہیں ان کے آستانوں پر نذر و دنیا پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی یعنی حاکمیت جو قانون حیات مقرر کرنے کی مجاز اور اطاعت امر کی مستحق ہو اور جسے دینوی معاملات میں فرمانروائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے یا اسکے ساتھ شاہی خاندانوں اور مذہبی پروہتوں اور سوسائٹی کے وڈیروں میں تقسیم کردیا ہے۔ اکثر و بیشتر بادشاہ اور حکمران پارٹیاں اسی دوسرے معنوں میں خدائی کی مدعی ہوئی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں اور اسے مستحکم کرنے کیلئے انہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدا وؤں کی اولاد یا محبوب اور چہیتا ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور مذہبی طبقوں نے بھی اس معاملہ میں انکے ساتھ شریک ہونے کی اکثر سازش کی ہے۔ نمرود کا دعویٰ خدائی بھی اس دوسری قسم کا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا بالکل منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسباب عالم کے پورے سلسلے پر اس کی حکومت چل رہی ہے وہ علت العلل خدا ہی کو جانتا تھا لیکن سمجھتا تھا کہ انسان کا مرنا اور جینا خود بخود ہے گویا گھڑی میں جب ایک بار چابی بھر دی گئی تو اس کے بنانے والے پر کیا غور وفکر ضروری ہے۔ بس ضرورت کے مطابق چابی بھرو اور کام لو اور اس بحث میں مبتلا ہی نہ ہو کہ اس کے بنانے والا کون ہے ؟ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق بس میں ہی ہوں میری زبان قانون ہے۔ میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں کہ جس کے سامنے میں جوابدہ ہوں اور اس ملک کے سارے باشندے میرے سامنے جواب دہ ہیں اور عراق کا ہر باشندہ باغی و غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے تسلیم نہ کرے یا میرے سوا کسی دوسرے کے سامنے جواب دہ ہونے کو تسلیم کرے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العٰلمین ہی کو خدا اور معبود اور رب مانتا ہوں اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا قطعی طور پر منکر ہوں تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدہ کی جو زد پڑتی ہے اسے کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جرم بغاوت کے الزام میں نمرود کے سامنے پیش کئے گئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا گیا تھا کہ تیرا رب کون ہے ؟ تو جواب ارشاد فرمایا کہ وہی جو سب کا زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہے۔ یہ بات تو وہ سمجھ گیا لیکن مبحث کو خلط ملط کرنے کے لئے ” اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ 1ؕ“ یعنی میں تو خود ہی زندہ ہوا ہوں اور خود ہی مروں گا کے الفاظ کہہ کر جواب دیا جس سے گویا ایک نئی بحث کا دروازہ کھولنا چاہا اور بات سے بات نکال کر بحث کو طول دے کرکٹ حجتیاں پیدا کر کے دراصل وہ اپنا مطلب حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف تالی بج جائے۔ آج بھی جب عقل وفکر کی بات کی جاتی ہے اور پھر اس کا معقول جواب نہیں بن پڑتا تو بحث کو بڑی چالاکی اور شاطرانہ انداز سے کسی دوسری طرف پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ایک مناظرانہ چال ہے۔ نمرود نے بھی وہی کیا جو صاحب اقتدار اور طاقت ور لوگ ہمیشہ کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نمرود کی مناظرانہ چال کو سمجھ گئے تو بحث کو فرد سے اٹھا کر کائنات پر جا رکھا : 445: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اس کی چالاکی کو سمجھ گئے اور بڑے پیارے انداز کے ساتھ بحث کو ایک فرد سے اٹھا کر کائنات کے پورے نظام پر جا رکھا اور فرمایا کہ میرا رب تو وہی ہے جو آفتاب کو روز کے روز مشرق سے نکالتا ہے پھر تو ایک ہی دن مغرب سے نکال کر دکھا دے۔ بس یہ الفاظ سننا تھے کہ اس کی عقل ماری گئی۔ اب بحث ایک فرد کی زندگی اور موت کی نہ رہی بلکہ کائنات ارض کے پورے نظام کی طرف منتقل ہوگئی۔ تعجب ہے کہ بحث کو تو منتقل کرنا وہ بھی چاہتا تھا لیکن ایسی طرف جہاں بحث کو طول دیا جاسکے لیکن کمال ذہانت سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بحث کو منتقل کیا لیکن ایسی طرف جس سے آگے وہ کوئی بحث کر ہی نہ سکے ۔ وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اس صریح شکست کا تقاضا تو یہ تھا کہ فوراً ہدایت قبول کرلیتا لیکن اس کو طاغوت کی ہم نشینی حاصل تھی اس لئے اپنی ضد پر قائم رہا۔ ہدایت کے تمام اسباب فراہم ہوں پھر بھی ایک شخص ان سے کام نہ لے تو پھر اس کے لئے اور کوئی جدید سامان رہنمائی کا نہیں پیدا کیا جاسکتا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو پھر بحث ختم ہونے پر کبھی نہیں آسکتی۔ مناظرہ کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ مخالف کو تھوڑی دیر کے لئے حیران کردیا جائے اور یہاں بھی ایسا ہوگیا ۔ نمرود اس کا جواب کیوں نہ دے سکا ؟ عراقیوں کے اس وقت کے عقیدہ کے مطابق باشاہ وقت یعنی نمرود اوتار تھا سورج دیوتا کا اور سورج ہی کلدانیوں کے عقیدہ میں معبود اعظم تھا۔ اس کی مثال کو اور زیادہ قریب الفہم بنانے کے لئے موجد اعظم نے اس کو پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم سورج کے قادر و متصرف ہونے کے قائل ہو اور خود ہی اس کے اوتار بھی ہو زیادہ نہیں یہی کر دکھاؤ کہ سورج اپنے ارادہ سے عام سنت الٰہی کے خلاف ڈر اور اپنا رُخ بدل دے دوسروں پر قدرت رکھنا تو الگ رہا خود اپنے ہی اوپر اپنا ارادہ صرف کر دکھاؤ اور ارادہ بھی اتنا ہلکا کہ صرف رخ بدل دینا ہے۔ کسی خدا کی بےبسی کا منظر اور کیا پیش ہو سکتا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے استدلال وہی قائم رکھا صرف مخاطب کی سطحی ذہنیت کا لحاظ کر کے اسکی مثال دوسری پیش کردی اور فرمایا کہ اچھا حیاتی و موت نہ سہی۔ کائنات طبعی ہی کے خدائی نظام میں ایک معمولی ساتصرف کر کے دکھادو۔ نمرود سورج دیوتا کا اوتار تھا اور سورج کے خدائے اعظم ہونے کا قائل بھی اسی کے عقیدہ کے ابطال و تردید میں سورج ہی کو مثال میں پیش کرنا اس پر بہترین گرفت تھی اور وہ آخر اس کا جواب دے بھی کیا سکتا تھا ؟ نمرود نے ہدایت کا آخری موقعہ بھی ضائع کردیا : 446: قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق کہ ” فَبُهِتَ الَّذِیْ کَفَرَ 1ؕ“ کہ وہ عاجز و لا جواب ہوگیا تاہم وہ ایمان نہ لایا گویا کہ اس نے ہدایت کا آخری موقعہ بھی ضائع کردیا اور اتنے نازک موقعہ پر بھی اس کی چھٹی حس بیدار نہ ہوسکی۔ پھر آخر وہ ایمان لاتا بھی کیسے ؟ جو لوگ غصہ وعناد سے کجروی اختیار کئے ہوتے ہیں انہیں ہدایت بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ ظالمین وہی لوگ ہوتے ہیں جو خالی الذہن ہو کر کبھی حق اور حقیقت پر غور ہی نہیں کرتے اور اپنی ضد و نفسانیت قائم رہتے ہیں اس آیت سے مجموعی طور پر یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ایمان مستقیم اور فہم سلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس قصہ نے بتا دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی راہ میں ایک طاغوت حائل ہوا مگر اللہ نے ان کی فوراً راہنمائی کی اور ایک نئی دلیل و حجت سکھا دی اور اس طرح کائنات خلت کو ظلمت سے نور کی طرف لے آیا مگر نمرود طاغوت کی غلامی کرتا تھا خواہ وہ اس کی خواہش تھی یا حکومتی مجبوری اس لئے اور زیادہ وہ کفر میں پختہ کار ہوگیا۔ شخصیتیں دونوں اپنے اپنے وقت پر چلی گئیں لیکن کردار دونوں کا باقی رہ گیا۔ پھر اس کردار پر یہاں بھی فیصلہ ہوا اور وہاں بھی ہوگا۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو اس تفسیر کی اسی جلد میں یعنی سورة بقرہ کے حاشیہ نمبر 244 کے بعد درج کیا گیا ہے وہاں بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔
Top