Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ : یا كَالَّذِيْ : اس شخص کے مانند جو مَرَّ : گزرا عَلٰي : پر سے قَرْيَةٍ : ایک بستی وَّهِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گر پڑی تھی عَلٰي عُرُوْشِهَا : اپنی چھتوں پر قَالَ : اس نے کہا اَنّٰى : کیونکر يُحْيٖ : زندہ کریگا ھٰذِهِ : اس اللّٰهُ : اللہ بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا فَاَمَاتَهُ : تو اس کو مردہ رکھا اللّٰهُ : اللہ مِائَةَ : ایک سو عَامٍ : سال ثُمَّ : پھر بَعَثَهٗ : اسے اٹھایا قَالَ : اس نے پوچھا كَمْ لَبِثْتَ : کتنی دیر رہا قَالَ : اس نے کہا لَبِثْتُ : میں رہا يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : دن سے کچھ کم قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ لَّبِثْتَ : تو رہا مِائَةَ عَامٍ : ایک سو سال فَانْظُرْ : پس تو دیکھ اِلٰى : طرف طَعَامِكَ : اپنا کھانا وَشَرَابِكَ : اور اپنا پینا لَمْ يَتَسَنَّهْ : وہ نہیں سڑ گیا وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلٰى : طرف حِمَارِكَ : اپنا گدھا وَلِنَجْعَلَكَ : اور ہم تجھے بنائیں گے اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلَى : طرف الْعِظَامِ : ہڈیاں کَيْفَ : کس طرح نُنْشِزُھَا : ہم انہیں جوڑتے ہیں ثُمَّ : پھر نَكْسُوْھَا : ہم اسے پہناتے ہیں لَحْمًا : گوشت فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهٗ : اس پر قَالَ : اس نے کہا اَعْلَمُ : میں جان گیا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق سے گزر ہو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا تو خدا نے اسکی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا کہ تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہو ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
(تفسیر) 259۔ : (آیت)” اوکالذی مر علی قریۃ “۔ یا اس شخص کی مانند جو گزرا ایسی بستی پر سے) اسی آیت کا تعلق پچھلی آیت کے ساتھ ہے ، تقدیری عبارت یوں ہوگی ” الم تر الی الذی حاج ابراھیم فی ربہ “۔ کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص کو جو ایسی بستی پر سے گزرے بعض نے کہا کہا س کی تقدیری عبارت یوں ہوگی ، ” ھل رایت کالذی حاج ابراھیم فی ربہ “۔ کہ کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے جھگڑا کیا اس کے رب کے بارے میں ۔ مر علی قریۃ “ کی تفسیر میں مختلف اقوال : یا کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص کو جو گزرا ایسی بستی پر گزرنے والا شخص کون تھا ؟ اس کے متعلق حضرت قتادہ (رح) ، عکرمہ (رح) اور ضحاک (رح) کا قول ہے کہ یہ عزیز بن شرخیا تھے ، وہب بن منبہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ارمیاء بن حلقیا تھا۔ ابن اسحاق (رح) نے کہا کہ ارمیاء ہی خضر تھے مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہے اس کی بعثت میں شک ہے ۔ اس قریہ کے متعلق بھی مفسرین کا اختلاف ہے ، وہب (رح) عکرمہ (رح) قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ قریۃ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ارض مقدسہ ہے ، اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دیر سابر آباد ہے ۔ امام سدی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مسلم آباد ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد دیر ہرقل ہے ۔ اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد وہ زمین ہے جہاں کے بستی والوں کو ہلاک کیا گیا تھا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے اور بعض نے کہا کہ یہ ایسی بستی تھی جو انگوروں سے بھرپور تھی اور بیت المقدس کے دو فرسخ کے قریب تھی (وھی خاویۃ اور وہ گر پڑی تھی) جیسا کہ کہا جاتا ہے خوی البیت واؤ کے کسرہ کے ساتھ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی چیز گرجائے ، (علی عروشھا) عروش سے مراد چھتیں ہیں اور اس کا واحد عرش ہے اور کہا گیا ہے کہ ہر بناء پر عرش ہے، مطلب یہ ہوگا کہ پہلے اس کی چھتیں گرپڑیں پھر ان پر دیواریں گرپڑیں ۔ (قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا “ کہنے لگے کیسے زندہ کرے گا اللہ اس بستی کو میرے پیچھے) اس کا سبب محمد بن اسحاق (رح) نے جو وہب بن منبہ (رح) سے روایت کی ہے ، واقعہ اس طرح ہے ۔ بنی اسرائیل کی تباہی کا منظر : اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کو ناشیہ بن اموص کی طرف مدد کے لیے بھیجا جو بنی اسرائیل کا بادشاہ تھا ، ناشیہ نیک صالح آدمی تھا ارمیاء ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر جاتے تھے ، جب بنی اسرائیل نافرمانیوں میں بہت آگے بڑھ گئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت ارمیاء کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کو جا کر میری نعمتوں کو یاد دلاؤ اور ان کے گناہوں سے ان کو آگاہ کرو اور ان کو میری طرف دعوت دو ، حضرت ارمیاء نے کہا کہ میں کمزور ہوں ، اگر آپ میری اس میں مدد نہیں فرمائیں گے تو میں تو عاجز ہوں ، اگر آپ مجھے وہاں نہیں پہنچائیں گے میں ناکام ہوجاؤں گا ، اگر آپ نے میری مدد نہ کی اللہ عزوجل نے وحی کی کہ میں تمہاری مدد کروں گا پھر حضرت ارمیاء بنی اسرائیل کی طرف گئے ، اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہاں جا کر ان کو کیا کہنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے عین خطبہ کے وقت ایسے فصیح وبلیغ الفاظ الہام فرمائے جن میں اعمال صالحہ پر ثواب اور گناہوں کی سزا کا ذکر تھا ، اس خطبہ کے آخر میں حضرت ارمیاء کے دل میں یہ بات بھی القاء کردی کہ اگر یہ پھر بھی اپنے گناہوں سے باز نہیں آتے ان کو یہ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میری عزت کی قسم تم پر ایسے فتنے کو مسلط کر دوں گا جس سے حکیم بھی متحیر ہوجائے گا اور تمہارے اوپر ایسے ظالم حکمرانوں کو مسلط کروں گا جس کی ہیبت تمہارے دلوں میں ڈال دی جائے گی اور اس کے دل سے تمہارے لیے شفقت کو ختم کر دوں گا اور وہ تم پر اندھیری رات کی طرح ظلم ڈھائے گا ، پھر اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کی طرف وحی بھیجی کہ میں بنی اسرائیل کو ہلاک کرنے لگا ہوں اور اس میں یافث اہل بابیل میں سے بھی ہیں اور یہ یافث بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ، جب حضرت ارمیاء (علیہ السلام) نے یہ خبر سنی تو انہوں نے چیخ ماری اور رونے لگے اور اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور اپنے سر پر ریت ڈالنا شروع کردی ، جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آہ زاری اور رونا سنا تو آواز دی اے ارمیاء میں نے تمہاری طرف جو وحی کی اس کی وجہ سے تم مشقت میں پڑگئے ، فرمایا جی ہاں میرے رب ! بنی اسرائیل کو اس وقت تک ہلاک نہ کرنا جب تک اس کے بارے میں مجھے ان کی ہلاکت کا سبب معلوم نہ ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت کی قسم کہ میں بنی اسرائیل کو اس وقت تک ہلاک نہیں کروں گا جب تک اس کے متعلق آپ کو بتلا نہ دوں ، حضرت ارمیاء اس پر خوش ہوگئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حق دے کر بھیجا وہ بنی اسرائیل کی ہلاکت پر راضی نہیں، پھر فرشتہ آیا اس نے خبر دی ، پھر انہوں نے فرمایا اگر رب العزت عذاب دیتا تو ہمارے بہت سارے گناہوں کے سبب ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں معاف کردیا ، پھر وحی کے بعد تین سال تک رہے لیکن اس دوران بنی اسرائیل میں نافرمانیاں بڑھتی گئیں ، قریب تھا کہ سب بنی اسرائیل ہلاک ہوجاتے ، بادشاہ نے توبہ و استغفار کا مشورہ دیا مگر لوگوں نے نہیں مانا ، آخر اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کیا اور یہ ساتھ ہزار افراد کی فوج لے کر بیت المقدس کی طرف مارچ کیا تو فرشتہ حضرت ارمیاء کے پاس آیا اور یہ خبر سنائی تو حضرت ارمیاء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی تھی کہ وہ میری ازات کے بغیر بنی اسرائیل کو تباہ نہیں کرے گا ، اس پر ارمیاء نے مزید یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور مجھے اس پر پختہ یقین ہے ، پھر جب بنی اسرائیل کا وقت پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کو انسانی شکل میں ارمیاء کے پاس بھیجا ، ارمیاء نے اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ وہ کہنے لگا میں بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی ہوں میں اپنے گھر والوں کے متعلق مسئلہ پوچھنے آیا ہوں کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ صلح رحمی کرتا ہوں اور ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا ہوں لیکن وہ ہمیشہ میری بےاکرامی اور ناراضگی پیدا کرنے کی حرکتیں کرتے ہیں ، مجھے ان کے متعلق بتلائے ، حضرت ارمیاء نے کہا کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ان سے جدائی اختیار نہ کرو اور ان کو نیکی کی دعوت دو ، پھر وہ فرشتہ کچھ دن ٹھہرا رہا پھر وہ فرشتہ انسانی شکل میں ارمیاء کے پاس آیا اور پہلے کی طرح سوال کیا کہ میں اپنے گھر والوں کے متعلق آپ سے پوچھتا ہوں ، ارمیاء نے کہا کہ آپ ان کو اخلاق کی تعلیم دو ، اس شخص نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ان کو کرامت وعزت کا کوئی علم نہیں مگر پھر بھی میں ان کے ساتھ رحمت والامعاملہ کرتا ہوں ، پھر بھی حضرت ارمیاء نے اس شخص سے کہا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ احسان والا معاملہ فرما اور اللہ سے ان کی اصلاح کے لیے دعا مانگ کہ وہ نیک صالح بن جائیں ، وہ فرشتہ واپس چلا گیا اور چند دن وہ رکے رہے ، ادھر اللہ تعالیٰ نے بخت نصر اور اس کی فوج کو بیت المقدس کے اردگرد ٹڈیوں کی طرح پھیلا دیا ، بنی اسرائیل اس سے خوفزدہ ہوگئے اس وقت فرشتہ ارمیاء (بادشاہ) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ کا کیا ہوا وعدہ کہاں گیا وہ بادشاہ کہنے لگے مجھے اپنے رب پر پختہ یقین ہے پھر وہ فرشتہ حضرت ارمیاء کے پاس آیا ، اس وقت حضرت ارمیاء بیت المقدس کی دیوار پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہنس رہے تھے اور لوگوں کو خوشخبری دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہے جو اللہ نے وعدہ کیا تھا ، وہ فرشتہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا ، ارمیاء نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو، فرشتہ نے کہا کہ میں وہی سائل ہوں جو پہلے دو مرتبہ آپ سے اپنے گھر والوں کے متعلق پوچھ چکا ہوں ، ارمیاء نے کہا کہ وہ اس بات سے ابھی تک باز نہیں آئے جس پر وہ تھے ، فرشتہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! ابھی تک تو جو دکھ انہوں نے مجھے پہنچایا ، میں صبر کرتا رہا لیکن اب وہ خدا کی ناراضگی کے بڑے بڑے کام کرنے لگ گئے تو حضرت ارمیاء نے کہا کہ ان کو کون سا عمل کرتے ہوئے تم نے دیکھا ؟ فرشتے نے کہا کہ وہ کام جو اللہ کی بڑی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں اس لیے مجھے ان کے لیے غصہ آیا اس لیے میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں اللہ کا نام لے کر جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہلاکت کی دعا کریں ، حضرت ارمیاء (علیہ السلام) نے کہا اے زمین و آسمان کے بادشاہ اگر وہ حق پر ہیں تو تو ان کو باقی رکھ اور اگر وہ ایسے عمل پر ہیں جو تیری ناراضگی کا سبب ہیں تو ان کو ہلاک فرما ، جب حضرت ارمیاء (علیہ السلام) کی زبان سے الفاظ نکلے تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بیت المقدس کی طرف ایک بجلی گرائی جس سے قربان گاہ میں آگ بھڑک اٹھی اور سات دروازے زمین میں دھنس گئے جب یہ حالت حضرت ارمیاء (علیہ السلام) نے دیکھی تو چیخ ماری اور اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور ریت اپنے سر پر ڈالنے لگے اور عرض کرنے لگے اے آسمانوں اور زمینوں کے مالک کہاں ہے وہ کیا ہوا وعدہ جو میرے ساتھ کیا تھا ، آواز آئی کہ ان پر جو عذاب آیا وہ تمہاری بددعا کی وجہ سے آیا اس وقت حضرت ارمیاء (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ سوال پوچھنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا فرشتہ تھا ، حضرت ارمیاء (علیہ السلام) اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف نکل گئے ، ادھر بخت نصر اپنی فوج کو لے کر بیت المقدس میں داخل ہوگیا اور شام کو بھی اس نے روند ڈالا اور بنی اسرائیلون کو اس نے قتل کروا دیا اور بیت المقدس کو فنا کردیا ، پھر بخت نصر نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ ہر شخص اپنی کمان مٹی سے بھر کر بیت المقدس پر ڈالے ، ہر ایک نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ بیت المقدس مٹی سے بھر گیا ، پھر بخت نصر نے اعلان کیا کہ شہر میں جو بھی چیز ہے اس کو لا کر یہاں جمع کیا جائے ، اس کے سامنے چھوٹے بڑے سب بنی اسرائیلوں کو جمع کیا گیا ، ان میں سے اس نے ستر ہزار بچوں کو چنا اور اپنی فوج میں تقسیم کردیا ، ہر شخص کے حصے میں چار بچے آئے اور ان بچوں میں دانیال حانیال کی اولاد بھی تھی ، اور باقی بنی اسرائیلوں میں سے تین حصے کیے ، ایک ثلث کو قتل کرو ادیا ، ایک ثلث کو قید کردیا اور ایک ثلث کو شام میں سکونت دی ، یہ بنی اسرائیلوں کے واقعات میں سے پہلا واقعہ ہے جو ان کے ظلم کی پاداش میں ان کو عذاب ملا، جب ان سے بخت نصر بابل چلا گیا اور اس کے ساتھ بنی اسرائیل کے قیدی بھی تھے تو ارمیاء اپنے گدھے پر سوار ہو کر آئے اور آپ کے ساتھ توشہ دان میں کچھ عرق انگور اور ایک ٹوکری انجیر کی تھی ، جب بیت المقدس پہنچے تو اس کی تباہی کو دیکھ کر (قال انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا “۔ فرمایا اس بستی کو میرے پیچھے کیسے زندہ کرے گا) اور کہنے والے نے کہا کہ بیت المقدس کے پاس سے گزرنے والے حضرت عزیز (علیہ السلام) تھے ۔ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کیا اور بنی اسرائیلوں کو قید کرکے بابل لے گیا ، اس میں حضرت عزیز (علیہ السلام) ، دانیال (علیہ السلام) اور سات ہزار حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اہل بیت شامل تھے ، جب یہ بستی تک پہنچے تو وہاں ایک درخت کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آئی ، اس درخت سے انہوں نے پھل کھایا اور انگور کو نچوڑا اور اس سے پیا اور اس درخت کے پھل کو اپنے تھیلے میں ڈالنے لگے اور عرق انگور سے اپنے مشکیزے کو بھرنے لگے ، جب انہوں نے بستی کی ہلاکت کو دیکھا فرمایا (آیت)” انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا “۔ یہ فرمانا تعجب کی وجہ سے تھا نہ کی شک کی وجہ سے ، وہب کی حدیث کی مانند حدیث ذکر فرمائی کہ پھر انہوں نے مضبوط رسی کے ساتھ اپنے گدھے کو باندھا ، اللہ تعالیٰ نے ان کو نیند مسلط کردی اور سو سال تک ان کی روح کو کھینچ لیا اور ان کے گھوڑے یا گدھے کو موت دے دی اور انگور کا عرق اور پھل (انجیر) ان کے پاس جوں کے توں موجود تھے ، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند کو مسلط کیا تھا وہ وقت چاشت کا تھا اور اسی پھل کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا تاکہ کسی دیکھنے والے کو نظر نہ آئے اور درندوں اور پرندوں کو ان کا گوشت کھانے سے روک دیا تھا ۔ جب ستر سال گزر گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ نوشک شاہ فارس کے پاس بھیجا ، فرشتے نے جا کر اس سے کہا اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ بیت المقدس اور الیاء کی از سر نو تعمیر کر تاکہ یہ پہلے سے زیادہ آباد ہوجائیں تو بادشاہ نے ایک ہزار قہرمان متعین کیے اور ہر ایک قہر مان کے ساتھ تین تین سو ہزار عامل مقرر کیے اور وہ شہر کو تعمیر کرنے لگے ، ادھر بخت نصر کو ہلاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر اس کے دماغ میں ڈال دیا ، اس طرح بنی اسرائیلوں کو اس سے نجات دلوائی ، بابل میں کوئی بنی اسرائیل فوت نہیں ہوا وہ سب کے سب واپس آ کر بیت المقدس میں رہنے لگے۔ اس شہر کو تیس سال میں تعمیر کردیا ، پھر بنی اسرائیلیوں کی کثرت ہوگئی جس طرح وہ پہلے تھے جب سو سال پورے ہوگئے تو حضرت عزیز (علیہ السلام) کی پہلے آنکھیں پیدا فرمائی جبکہ پورا جسم میت تھا پھر ان کے جسم کو زندہ کیا اور وہ اپنے جسم کو دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے اپنے گدھے کی طرف دیکھا ، اس کی ہڈیاں متفرق تھیں ، آسمان سے آواز آئی اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں جمع ہونے کا حکم دیتا ہے پس ہو ہڈیاں بعض کے ساتھ بعض مل گئیں ، پھر آواز دی کہ اللہ تمہیں حکم کرتا ہے کہ تم اپنے اوپر گوشت اور جلد بھی پہن لو ، پھر وہ اسی طرح ہوگئیں پھر آواز دی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم کرتا ہے کہ تم زندہ ہوجاؤ اور کھڑے ہوجاؤ ، گدھا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کے لیے شہر کو دوبارہ تعمیر کروا دیا جس طرح ان کے جانے کے وقت شہر موجود تھا ۔ (آیت)” فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ “ پس اللہ نے اس کو مار ڈالا اور وہ سو سال تک مردہ رہا پھر اس کو اٹھا دیا) یعنی اس کو سو سال کے بعد زندہ کیا (قال کم بعثت “۔ فرمایا آپ کا یہ ٹھہرنا کتنا عرصہ رہا) کتنا عرصہ ٹھہرے ، بعض حضرات نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سو سال بعد زندہ کیا تو ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیجا جو ان سے یہ سوال پوچھے کہ کتنا عرصہ یہاں ٹھہرے رہے (قال لبثت یوما) حضرت ارمیاء نے کہا کہ میں ایک دن یہاں ٹھہرا رہا) یہ بات انہوں نے اس لیے فرمائی کہ جب ان کو نیند آئی اور وہ وقت چاشت کا تھا اور جب انہیں زندہ کیا گیا تو غروب آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت تھا ، ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ ٹھہرے تو انہوں نے سورج کو دیکھ کر کہا کہ وہ غروب ہو رہا ہے تو یہ جواب دیا (اوبعض یوم) دن کا کچھ حصہ (قال فرمایا) فرشتے نے کہا (بل بعثت مائۃ عام فانظر الی طعامک) نہیں بلکہ آپ یہاں سو برس رہے پس دیکھو اپنے کھانے کو) کھانے سے مراد انجیر ہے اور (وشرابک) پینے کو یعنی انگور کے عرق کو (لم یتسنہ کہ اس میں کوئی چیز نہیں بگڑی) کھانے کی اشیاء خراب نہیں ہوئیں ، انجیر اس طرح تھے گویا کہ ابھی درخت سے اتارے ہوں اور انگور کا عرق ایسے تھا جیسے کہ ابھی نچوڑا گیا ہو ، امام کسائی فرماتے ہیں کہ گویا ان پر برس کی مدت نہیں گزری اور اسی طرح حمزہ (رح) کسائی (رح) اور یعقوب (رح) نے پڑھا ہے ۔ ” لم یتسن “ وصل کی صورت میں ھا کو حذف کرنے کے ساتھ پڑھا ہے اور اسی طرح ” فبھداھم اقتدہ “ میں بھی اور دوسرے قراء کے نزدیک ھاء کو پڑھا ہے وصلا اور وقفا دونوں صورتوں میں ، جب ھاء حالت وصل میں ساقط کردی تو ھاء ساکتہ کو حالت وقف میں بڑھا دی تو ” لم یتسنی “۔ یاء کو حروف جازمہ کی وجہ سے حذف کردیا ، اس کی جگہ ھاء وقف بڑھا دی ، ابو عمرو فرماتے ہیں کہ ” لم یستنہ “ اصل میں ” یتسنن “ تھا دو نون کے ساتھ من حماء مسنون “ اس کا مطلب ہے کہ وہ متغیر نہیں ہوا تو ہم نے ایک نون کو ی سے بدل دیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” ثم ذھب الی اھلہ یتمطی “ ہے ۔ یتمطی “ اصل میں ” یتمطط “ تھا اور اسی طرح ” وقد خاب من دساھا “۔ دساھا اصل میں ” دسسھا “ تھا تو ہم نے دونوں صورتوں میں ھاء کو ثابت رکھا اور اس کو لام کلمے کے مقابلے میں رکھا یہ ان حضرات کے نزدیک ہے جن کے ہاں ” یتسنہ “ کی اصل ” السنۃ السنھۃ “ اور اس کی تصغیر ” سنیھۃ “ اور اس کا فعل ” المسانھۃ “ آتا ہے ۔ ” لم یستنہ “ تثنیہ کا لفظ ذکر نہیں کیا حالانکہ ماقبل میں طعام وشراب دو چیزیں تھیں دونوں چیزوں کے تبدیل ہونے کے لیے چونکہ ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اس لفظ میں دونوں شریک ہیں یا چونکہ دونوں کا تعلق غذائیت کے ساتھ ہے اس لیے واحد کی ضمیر لائے یا ایک کے ذکر کو دوسرے پر قیاس کیا گیا ۔ (آیت ” وانظر الی حمارک “ اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو) جب انہوں نے گدھے کی طرف دیکھا وہ اس کی چمکتی ہوئی ہڈیاں تھیں پھر اللہ تعالیٰ نے ہڈیاں کو ان کے سامنے جوڑا پھر اس پر گوشت اور جلد ڈالی پھر اس کو زندہ کردیا ، اس حال میں کہ حضرت ارمیاء اس کو دیکھ رہے تھے (اور ولنجعلک ایۃ اللناس بنائیں گے تجھے نشانی آنے والے لوگوں کے لیے) بعض حضرات کے نزدیک آیت کے شروع میں واؤ زائدہ ہے ، فراء (رح) فرماتے ہیں واؤ کو ذکر کرکے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے بعد فعل محذوف ہے عبارت اس طرح ہوگی ” ولنجعلک ایۃ عبرۃ ودلالۃ علی البعث بعدالموت “ ۔ یعنی ہم نے ایسے اس لیے کہا تاکہ بعث بعد الموت کو لوگوں کو دکھانے کے لیے دلیل بنائیں ، یہی اکثر مفسرین کا قول ہے اور ضحاک (رح) وغیرہ نے کہا کہ جب حضرت ارمیاء (علیہ السلام) کو اس بستی کی طرف لوٹایا تو اس وقت یہ جوان تھے اور ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد بوڑھے ہوچکے تھے ، ان کے سر کے بال اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے ، (وانظر الی العظام کیف ننشزھا) دیکھو ہڈیوں کی طرف کس طرح ہم انہیں جوڑتے ہیں) اہل حجاز کے نزدیک اور اہل بصرہ کے نزدیک ” ننشز “ زاء کے ساتھ ہے اور ان کے علاوہ قراء حضرات راء کے ساتھ پڑھتے ہیں ، اس کا معنی ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں ، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میت کو زندہ کیا ، انشاء زندہ کرنا اور انشرہ نشورا زندہ ہونا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” ثم اذا شاء انشرہ “ اور لازم (والیہ النشور) استعمال ہوتا ہے اور دوسرے حضرات اس کو زاء کے ساتھ پڑھتے ہیں تو معنی ہوگا ، کہ ہم کیسے ان بوسیدہ ہڈیوں کو زمین سے اٹھاتے ہیں اور بعض کو بعض کے ساتھ جوڑتے ہیں ، ” انشاء الشیئ “ کہتے ہیں کسی چیز کو بلند کرنا اور اوپر اٹھانا ، اس آیت کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس سے گدھے کی ہڈیاں مراد ہے امام سدی (رح) کے نزدیک اس سے حضرت عزیز (علیہ السلام) کی ہڈیاں مراد ہیں کہ جب ان کو زندہ کیا تو ہم نے کہا کہ دیکھئے اپنے گدھے کی طرف وہ ہلاک اور اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیجی جو اس گدھے کی ہڈیاں ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں ، کوئی پہاڑ میں اور بعض ہڈیوں کو پرندے اور چوپائے لے گئے تھے ان سب کو جمع کیا ، اس حال میں کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے ، کہ وہ گدھا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا اور اس پر نہ گوشت تھا اور نہ ہی خون (ثم نکسوھا لحما پھر ہم ان ہڈیوں کو گوشت پہناتے ہیں) پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا تو وہ گدھا بن گیا جو بغیر روح کے تھا پھر ایک فرشتہ چلتا ہوا آیا اس نے گدھے کے ناک میں پھونک ماری تو گدھا کھڑا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بولنے لگا ، بعض مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد حضرت عزیز (علیہ السلام) کی ہڈیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گدھے کو زندہ رکھا اور ان کو موت دی تھی جب ان کو زندہ کرنا چاہا تو سب سے پہلے ان کی آنکھیں زندہ کیں پھر ان کے سر کو زندہ کیا جبکہ بقیہ جسم سارا مردہ تھا ، پھر فرمایا کہ دیکھ اپنے گدھے کو یہ اسی طرح کھڑا ہے جس طرح تو نے اس کو باندھا تھا ، سو سال تک اس نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا، ویسے کھڑا ہے اور اس کی رسی کی طرف دیکھا وہ بھی خراب نہیں ہوئی تھی جب سے اس کو باندھا گیا تھا اب تقدیری عبارت یوں ہوگی کہ تو دیکھ اپنے گدھے کی طرف اور دیکھ اپنی ہڈیوں کی طرف کہ ہم کیسے ان کو پیدا کرتے ہیں ۔ یہ قول حضرت قتادہ (رح) کا ہے جو انہوں نے کعب (رح) وضحاک (رح) سے اور انہوں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا تھا ، امام سدی (رح) اور مجاہد (رح) نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے دوسری روایت نقل کی ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت عزیز (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے سو سال کے بعد زندہ کیا تو یہ گدھے پر سوار ہو کر اپنی بستی یا شہر میں پہنچے ، یہ نہ لوگوں کو پہچان سکے اور نہ ہی اپنے مکانوں کو اور نہ لوگ ان کو پہچان سکے ، اندازے سے یہ ایک گھر میں پہنچے تو وہاں ایک بڑھیا جو اپاہج اور اندھی تھی اس کے اوپر ایک سوبیس سال گزر گئے ، وہ حضرت عزیز (علیہ السلام) کو جانتی تھی ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے اس سے کہا اے فلاں ! کیا یہ عزیر کا گھر ہے وہ کہنے لگی جی ہاں یہ گھر حضرت عزیز (علیہ السلام) کا ہے اور وہ یہ کہہ کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ اتنا اتنا عرصہ ہوگیا کسی کے منہ سے میں نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کا تذکرہ نہیں سنا ، حضرت عزیز (علیہ السلام) بولے میں عزیر ہوں ، کہنے لگی سبحان اللہ ! ہم نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو ایک سو سال تک گم پایا ، اس کا ذکر کہیں سے نہیں سنا ، کہنے لگے میں عزیر (علیہ السلام) ہوں ، اللہ نے مجھے ایک سو سال تک موت دید ی تھی پھر مجھے دوبارہ زندہ کیا ، وہ بڑھیا کہنے لگی حضرت عزیز (علیہ السلام) تو مستجاب الدعوات شخص تھے وہ مریض یا مصیبت زدہ کے لیے دعا کرتے تھے تو شفا مل جاتی تھی تو آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری آنکھیں لوٹا دے تاکہ میں آپ کو دیکھ سکوں ۔ اگر تو حضرت عزیز (علیہ السلام) ہے تو تجھے پہچان لوں گی ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے دعا کی اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو اس کی دونوں آنکھیں ٹھیک ہوگئیں ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ اللہ کے حکم سے کھڑی ہوجا تو وہ بالکل تندرست ہو کر کھڑی ہوگئی ، پھر اس نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ” اشھد انک عزیر “۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ عزیر (علیہ السلام) ہیں پھر یہ بنی اسرائیل کی طرف چلے ، یہ ان کی مجلسوں میں پہنچے اس وقت حضرت عزیز (علیہ السلام) کا بیٹا ایک سو اٹھارہ سال کا بوڑھا ہوچکا تھا اور اس مجلس میں آپ کے پوتے بھی بوڑھے ہوچکے تھے ، اس وقت اس بڑھیا نے اس مجلس میں آواز لگائی کہ یہ حضرت عزیز (علیہ السلام) ہیں جو تمہارے پاس آئے ہیں ، انہوں نے اس بات کو جھوٹ سمجھا ، اس نے کہا کہ میں فلاں وقت ان کی باندی تھی ، انہوں نے میرے لیے رب سے دعا کی کہ میری آنکھیں تندرست ہوگئیں اور میری ٹانگیں ٹھیک ہوگئیں ، اور میرا گمان ہے کہ اللہ نے ان کو سو سال موت دی پھر دوبارہ زندہ کیا ، یہ سن کر لوگ اٹھے ان کے بیٹے نے کہا کہ میرے والد کے کندھے کے درمیان ہلالی شکل کا ایک کالا مسہ تھا اس نے کندھے کو کھول کر دیکھا تو وہ نشانی پائی گئی وہ سمجھ گئے یہ حضرت عزیز (علیہ السلام) ہی ہیں ۔ سدی (رح) اور کلبی (رح) کا بیان ہے کہ جب حضرت عزیز (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے تو اس وقت بخت نصر نے تورات کو چلا دیا تھا کیونکہ اب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد نہیں تھا ، اس وجہ سے یہ رو دیئے ، ایک فرشتے نے برتن میں پانی لا کر آپ کو پلایا ، پانی پیتے ہی پوری تورات آپ کے سینے میں آگئی ، آپ بنی اسرائیل کے پاس لوٹ کر آئے تو پوری تورات زبانی یاد تھی آپ (علیہ السلام) نے قوم سے آکر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا ہے کہ میں عزیر ہوں ، قوم نے تصدیق نہیں کی ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں عزیر ہوں مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے تاکہ میں تمہارے لیے تورات کو دوبارہ رلکھواؤں وہ کہنے لگے ہمارے لیے تورات لکھواؤ تو انہوں نے پوری تورات لکھوا دی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ نے پوری تورات ڈالی وہ بلاشبہ خدا کا بیٹا ہے اور وہ عزیر ابن اللہ کہنے لگے اس کا مزید قصہ سورة برات میں آئے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ (فلما تبین لہ پھر جب یہ کیفیت واضح ہوگئی) جب یہ بات ان پر کھل گئی (قال اعلم تو اس نے کہا مجھے یقین ہے) حمزہ (رح) اور کسائی (رح) نے اس کو مجزوم پڑھا امر کی وجہ سے اور دوسرے حضرات نے اعلم امر کا صیغہ ہے اور بعض نے ہمزہ کو حذف اور میم کو مرفوع پڑھا ہے خبر ہونے کی وجہ سے مطلب یہ ہوگا کہ جب حضرت عزیز (علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا ماجرہ دیکھا تو فرمایا ” اعلم “ (ان اللہ علی کل شی قدیر بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے)
Top