Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ
: یا
كَالَّذِيْ
: اس شخص کے مانند جو
مَرَّ
: گزرا
عَلٰي
: پر سے
قَرْيَةٍ
: ایک بستی
وَّهِيَ
: اور وہ
خَاوِيَةٌ
: گر پڑی تھی
عَلٰي عُرُوْشِهَا
: اپنی چھتوں پر
قَالَ
: اس نے کہا
اَنّٰى
: کیونکر
يُحْيٖ
: زندہ کریگا
ھٰذِهِ
: اس
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْدَ
: بعد
مَوْتِهَا
: اس کا مرنا
فَاَمَاتَهُ
: تو اس کو مردہ رکھا
اللّٰهُ
: اللہ
مِائَةَ
: ایک سو
عَامٍ
: سال
ثُمَّ
: پھر
بَعَثَهٗ
: اسے اٹھایا
قَالَ
: اس نے پوچھا
كَمْ لَبِثْتَ
: کتنی دیر رہا
قَالَ
: اس نے کہا
لَبِثْتُ
: میں رہا
يَوْمًا
: ایک دن
اَوْ
: یا
بَعْضَ يَوْمٍ
: دن سے کچھ کم
قَالَ
: اس نے کہا
بَلْ
: بلکہ
لَّبِثْتَ
: تو رہا
مِائَةَ عَامٍ
: ایک سو سال
فَانْظُرْ
: پس تو دیکھ
اِلٰى
: طرف
طَعَامِكَ
: اپنا کھانا
وَشَرَابِكَ
: اور اپنا پینا
لَمْ يَتَسَنَّهْ
: وہ نہیں سڑ گیا
وَانْظُرْ
: اور دیکھ
اِلٰى
: طرف
حِمَارِكَ
: اپنا گدھا
وَلِنَجْعَلَكَ
: اور ہم تجھے بنائیں گے
اٰيَةً
: ایک نشانی
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَانْظُرْ
: اور دیکھ
اِلَى
: طرف
الْعِظَامِ
: ہڈیاں
کَيْفَ
: کس طرح
نُنْشِزُھَا
: ہم انہیں جوڑتے ہیں
ثُمَّ
: پھر
نَكْسُوْھَا
: ہم اسے پہناتے ہیں
لَحْمًا
: گوشت
فَلَمَّا
: پھر جب
تَبَيَّنَ
: واضح ہوگیا
لَهٗ
: اس پر
قَالَ
: اس نے کہا
اَعْلَمُ
: میں جان گیا
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق سے گزر ہو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا تو خدا نے اسکی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا کہ تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہو ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
(تفسیر) 259۔ : (آیت)” اوکالذی مر علی قریۃ “۔ یا اس شخص کی مانند جو گزرا ایسی بستی پر سے) اسی آیت کا تعلق پچھلی آیت کے ساتھ ہے ، تقدیری عبارت یوں ہوگی ” الم تر الی الذی حاج ابراھیم فی ربہ “۔ کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص کو جو ایسی بستی پر سے گزرے بعض نے کہا کہا س کی تقدیری عبارت یوں ہوگی ، ” ھل رایت کالذی حاج ابراھیم فی ربہ “۔ کہ کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے جھگڑا کیا اس کے رب کے بارے میں ۔ مر علی قریۃ “ کی تفسیر میں مختلف اقوال : یا کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص کو جو گزرا ایسی بستی پر گزرنے والا شخص کون تھا ؟ اس کے متعلق حضرت قتادہ (رح) ، عکرمہ (رح) اور ضحاک (رح) کا قول ہے کہ یہ عزیز بن شرخیا تھے ، وہب بن منبہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ارمیاء بن حلقیا تھا۔ ابن اسحاق (رح) نے کہا کہ ارمیاء ہی خضر تھے مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہے اس کی بعثت میں شک ہے ۔ اس قریہ کے متعلق بھی مفسرین کا اختلاف ہے ، وہب (رح) عکرمہ (رح) قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ قریۃ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ارض مقدسہ ہے ، اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دیر سابر آباد ہے ۔ امام سدی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مسلم آباد ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد دیر ہرقل ہے ۔ اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد وہ زمین ہے جہاں کے بستی والوں کو ہلاک کیا گیا تھا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے اور بعض نے کہا کہ یہ ایسی بستی تھی جو انگوروں سے بھرپور تھی اور بیت المقدس کے دو فرسخ کے قریب تھی (وھی خاویۃ اور وہ گر پڑی تھی) جیسا کہ کہا جاتا ہے خوی البیت واؤ کے کسرہ کے ساتھ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی چیز گرجائے ، (علی عروشھا) عروش سے مراد چھتیں ہیں اور اس کا واحد عرش ہے اور کہا گیا ہے کہ ہر بناء پر عرش ہے، مطلب یہ ہوگا کہ پہلے اس کی چھتیں گرپڑیں پھر ان پر دیواریں گرپڑیں ۔ (قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا “ کہنے لگے کیسے زندہ کرے گا اللہ اس بستی کو میرے پیچھے) اس کا سبب محمد بن اسحاق (رح) نے جو وہب بن منبہ (رح) سے روایت کی ہے ، واقعہ اس طرح ہے ۔ بنی اسرائیل کی تباہی کا منظر : اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کو ناشیہ بن اموص کی طرف مدد کے لیے بھیجا جو بنی اسرائیل کا بادشاہ تھا ، ناشیہ نیک صالح آدمی تھا ارمیاء ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر جاتے تھے ، جب بنی اسرائیل نافرمانیوں میں بہت آگے بڑھ گئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت ارمیاء کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کو جا کر میری نعمتوں کو یاد دلاؤ اور ان کے گناہوں سے ان کو آگاہ کرو اور ان کو میری طرف دعوت دو ، حضرت ارمیاء نے کہا کہ میں کمزور ہوں ، اگر آپ میری اس میں مدد نہیں فرمائیں گے تو میں تو عاجز ہوں ، اگر آپ مجھے وہاں نہیں پہنچائیں گے میں ناکام ہوجاؤں گا ، اگر آپ نے میری مدد نہ کی اللہ عزوجل نے وحی کی کہ میں تمہاری مدد کروں گا پھر حضرت ارمیاء بنی اسرائیل کی طرف گئے ، اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہاں جا کر ان کو کیا کہنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے عین خطبہ کے وقت ایسے فصیح وبلیغ الفاظ الہام فرمائے جن میں اعمال صالحہ پر ثواب اور گناہوں کی سزا کا ذکر تھا ، اس خطبہ کے آخر میں حضرت ارمیاء کے دل میں یہ بات بھی القاء کردی کہ اگر یہ پھر بھی اپنے گناہوں سے باز نہیں آتے ان کو یہ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میری عزت کی قسم تم پر ایسے فتنے کو مسلط کر دوں گا جس سے حکیم بھی متحیر ہوجائے گا اور تمہارے اوپر ایسے ظالم حکمرانوں کو مسلط کروں گا جس کی ہیبت تمہارے دلوں میں ڈال دی جائے گی اور اس کے دل سے تمہارے لیے شفقت کو ختم کر دوں گا اور وہ تم پر اندھیری رات کی طرح ظلم ڈھائے گا ، پھر اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کی طرف وحی بھیجی کہ میں بنی اسرائیل کو ہلاک کرنے لگا ہوں اور اس میں یافث اہل بابیل میں سے بھی ہیں اور یہ یافث بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ، جب حضرت ارمیاء (علیہ السلام) نے یہ خبر سنی تو انہوں نے چیخ ماری اور رونے لگے اور اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور اپنے سر پر ریت ڈالنا شروع کردی ، جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آہ زاری اور رونا سنا تو آواز دی اے ارمیاء میں نے تمہاری طرف جو وحی کی اس کی وجہ سے تم مشقت میں پڑگئے ، فرمایا جی ہاں میرے رب ! بنی اسرائیل کو اس وقت تک ہلاک نہ کرنا جب تک اس کے بارے میں مجھے ان کی ہلاکت کا سبب معلوم نہ ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت کی قسم کہ میں بنی اسرائیل کو اس وقت تک ہلاک نہیں کروں گا جب تک اس کے متعلق آپ کو بتلا نہ دوں ، حضرت ارمیاء اس پر خوش ہوگئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حق دے کر بھیجا وہ بنی اسرائیل کی ہلاکت پر راضی نہیں، پھر فرشتہ آیا اس نے خبر دی ، پھر انہوں نے فرمایا اگر رب العزت عذاب دیتا تو ہمارے بہت سارے گناہوں کے سبب ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں معاف کردیا ، پھر وحی کے بعد تین سال تک رہے لیکن اس دوران بنی اسرائیل میں نافرمانیاں بڑھتی گئیں ، قریب تھا کہ سب بنی اسرائیل ہلاک ہوجاتے ، بادشاہ نے توبہ و استغفار کا مشورہ دیا مگر لوگوں نے نہیں مانا ، آخر اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کیا اور یہ ساتھ ہزار افراد کی فوج لے کر بیت المقدس کی طرف مارچ کیا تو فرشتہ حضرت ارمیاء کے پاس آیا اور یہ خبر سنائی تو حضرت ارمیاء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی تھی کہ وہ میری ازات کے بغیر بنی اسرائیل کو تباہ نہیں کرے گا ، اس پر ارمیاء نے مزید یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور مجھے اس پر پختہ یقین ہے ، پھر جب بنی اسرائیل کا وقت پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کو انسانی شکل میں ارمیاء کے پاس بھیجا ، ارمیاء نے اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ وہ کہنے لگا میں بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی ہوں میں اپنے گھر والوں کے متعلق مسئلہ پوچھنے آیا ہوں کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ صلح رحمی کرتا ہوں اور ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا ہوں لیکن وہ ہمیشہ میری بےاکرامی اور ناراضگی پیدا کرنے کی حرکتیں کرتے ہیں ، مجھے ان کے متعلق بتلائے ، حضرت ارمیاء نے کہا کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ان سے جدائی اختیار نہ کرو اور ان کو نیکی کی دعوت دو ، پھر وہ فرشتہ کچھ دن ٹھہرا رہا پھر وہ فرشتہ انسانی شکل میں ارمیاء کے پاس آیا اور پہلے کی طرح سوال کیا کہ میں اپنے گھر والوں کے متعلق آپ سے پوچھتا ہوں ، ارمیاء نے کہا کہ آپ ان کو اخلاق کی تعلیم دو ، اس شخص نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ان کو کرامت وعزت کا کوئی علم نہیں مگر پھر بھی میں ان کے ساتھ رحمت والامعاملہ کرتا ہوں ، پھر بھی حضرت ارمیاء نے اس شخص سے کہا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ احسان والا معاملہ فرما اور اللہ سے ان کی اصلاح کے لیے دعا مانگ کہ وہ نیک صالح بن جائیں ، وہ فرشتہ واپس چلا گیا اور چند دن وہ رکے رہے ، ادھر اللہ تعالیٰ نے بخت نصر اور اس کی فوج کو بیت المقدس کے اردگرد ٹڈیوں کی طرح پھیلا دیا ، بنی اسرائیل اس سے خوفزدہ ہوگئے اس وقت فرشتہ ارمیاء (بادشاہ) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ کا کیا ہوا وعدہ کہاں گیا وہ بادشاہ کہنے لگے مجھے اپنے رب پر پختہ یقین ہے پھر وہ فرشتہ حضرت ارمیاء کے پاس آیا ، اس وقت حضرت ارمیاء بیت المقدس کی دیوار پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہنس رہے تھے اور لوگوں کو خوشخبری دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہے جو اللہ نے وعدہ کیا تھا ، وہ فرشتہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا ، ارمیاء نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو، فرشتہ نے کہا کہ میں وہی سائل ہوں جو پہلے دو مرتبہ آپ سے اپنے گھر والوں کے متعلق پوچھ چکا ہوں ، ارمیاء نے کہا کہ وہ اس بات سے ابھی تک باز نہیں آئے جس پر وہ تھے ، فرشتہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! ابھی تک تو جو دکھ انہوں نے مجھے پہنچایا ، میں صبر کرتا رہا لیکن اب وہ خدا کی ناراضگی کے بڑے بڑے کام کرنے لگ گئے تو حضرت ارمیاء نے کہا کہ ان کو کون سا عمل کرتے ہوئے تم نے دیکھا ؟ فرشتے نے کہا کہ وہ کام جو اللہ کی بڑی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں اس لیے مجھے ان کے لیے غصہ آیا اس لیے میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں اللہ کا نام لے کر جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہلاکت کی دعا کریں ، حضرت ارمیاء (علیہ السلام) نے کہا اے زمین و آسمان کے بادشاہ اگر وہ حق پر ہیں تو تو ان کو باقی رکھ اور اگر وہ ایسے عمل پر ہیں جو تیری ناراضگی کا سبب ہیں تو ان کو ہلاک فرما ، جب حضرت ارمیاء (علیہ السلام) کی زبان سے الفاظ نکلے تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بیت المقدس کی طرف ایک بجلی گرائی جس سے قربان گاہ میں آگ بھڑک اٹھی اور سات دروازے زمین میں دھنس گئے جب یہ حالت حضرت ارمیاء (علیہ السلام) نے دیکھی تو چیخ ماری اور اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور ریت اپنے سر پر ڈالنے لگے اور عرض کرنے لگے اے آسمانوں اور زمینوں کے مالک کہاں ہے وہ کیا ہوا وعدہ جو میرے ساتھ کیا تھا ، آواز آئی کہ ان پر جو عذاب آیا وہ تمہاری بددعا کی وجہ سے آیا اس وقت حضرت ارمیاء (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ سوال پوچھنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا فرشتہ تھا ، حضرت ارمیاء (علیہ السلام) اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف نکل گئے ، ادھر بخت نصر اپنی فوج کو لے کر بیت المقدس میں داخل ہوگیا اور شام کو بھی اس نے روند ڈالا اور بنی اسرائیلون کو اس نے قتل کروا دیا اور بیت المقدس کو فنا کردیا ، پھر بخت نصر نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ ہر شخص اپنی کمان مٹی سے بھر کر بیت المقدس پر ڈالے ، ہر ایک نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ بیت المقدس مٹی سے بھر گیا ، پھر بخت نصر نے اعلان کیا کہ شہر میں جو بھی چیز ہے اس کو لا کر یہاں جمع کیا جائے ، اس کے سامنے چھوٹے بڑے سب بنی اسرائیلوں کو جمع کیا گیا ، ان میں سے اس نے ستر ہزار بچوں کو چنا اور اپنی فوج میں تقسیم کردیا ، ہر شخص کے حصے میں چار بچے آئے اور ان بچوں میں دانیال حانیال کی اولاد بھی تھی ، اور باقی بنی اسرائیلوں میں سے تین حصے کیے ، ایک ثلث کو قتل کرو ادیا ، ایک ثلث کو قید کردیا اور ایک ثلث کو شام میں سکونت دی ، یہ بنی اسرائیلوں کے واقعات میں سے پہلا واقعہ ہے جو ان کے ظلم کی پاداش میں ان کو عذاب ملا، جب ان سے بخت نصر بابل چلا گیا اور اس کے ساتھ بنی اسرائیل کے قیدی بھی تھے تو ارمیاء اپنے گدھے پر سوار ہو کر آئے اور آپ کے ساتھ توشہ دان میں کچھ عرق انگور اور ایک ٹوکری انجیر کی تھی ، جب بیت المقدس پہنچے تو اس کی تباہی کو دیکھ کر (قال انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا “۔ فرمایا اس بستی کو میرے پیچھے کیسے زندہ کرے گا) اور کہنے والے نے کہا کہ بیت المقدس کے پاس سے گزرنے والے حضرت عزیز (علیہ السلام) تھے ۔ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کیا اور بنی اسرائیلوں کو قید کرکے بابل لے گیا ، اس میں حضرت عزیز (علیہ السلام) ، دانیال (علیہ السلام) اور سات ہزار حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اہل بیت شامل تھے ، جب یہ بستی تک پہنچے تو وہاں ایک درخت کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آئی ، اس درخت سے انہوں نے پھل کھایا اور انگور کو نچوڑا اور اس سے پیا اور اس درخت کے پھل کو اپنے تھیلے میں ڈالنے لگے اور عرق انگور سے اپنے مشکیزے کو بھرنے لگے ، جب انہوں نے بستی کی ہلاکت کو دیکھا فرمایا (آیت)” انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا “۔ یہ فرمانا تعجب کی وجہ سے تھا نہ کی شک کی وجہ سے ، وہب کی حدیث کی مانند حدیث ذکر فرمائی کہ پھر انہوں نے مضبوط رسی کے ساتھ اپنے گدھے کو باندھا ، اللہ تعالیٰ نے ان کو نیند مسلط کردی اور سو سال تک ان کی روح کو کھینچ لیا اور ان کے گھوڑے یا گدھے کو موت دے دی اور انگور کا عرق اور پھل (انجیر) ان کے پاس جوں کے توں موجود تھے ، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند کو مسلط کیا تھا وہ وقت چاشت کا تھا اور اسی پھل کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا تاکہ کسی دیکھنے والے کو نظر نہ آئے اور درندوں اور پرندوں کو ان کا گوشت کھانے سے روک دیا تھا ۔ جب ستر سال گزر گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ نوشک شاہ فارس کے پاس بھیجا ، فرشتے نے جا کر اس سے کہا اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ بیت المقدس اور الیاء کی از سر نو تعمیر کر تاکہ یہ پہلے سے زیادہ آباد ہوجائیں تو بادشاہ نے ایک ہزار قہرمان متعین کیے اور ہر ایک قہر مان کے ساتھ تین تین سو ہزار عامل مقرر کیے اور وہ شہر کو تعمیر کرنے لگے ، ادھر بخت نصر کو ہلاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر اس کے دماغ میں ڈال دیا ، اس طرح بنی اسرائیلوں کو اس سے نجات دلوائی ، بابل میں کوئی بنی اسرائیل فوت نہیں ہوا وہ سب کے سب واپس آ کر بیت المقدس میں رہنے لگے۔ اس شہر کو تیس سال میں تعمیر کردیا ، پھر بنی اسرائیلیوں کی کثرت ہوگئی جس طرح وہ پہلے تھے جب سو سال پورے ہوگئے تو حضرت عزیز (علیہ السلام) کی پہلے آنکھیں پیدا فرمائی جبکہ پورا جسم میت تھا پھر ان کے جسم کو زندہ کیا اور وہ اپنے جسم کو دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے اپنے گدھے کی طرف دیکھا ، اس کی ہڈیاں متفرق تھیں ، آسمان سے آواز آئی اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں جمع ہونے کا حکم دیتا ہے پس ہو ہڈیاں بعض کے ساتھ بعض مل گئیں ، پھر آواز دی کہ اللہ تمہیں حکم کرتا ہے کہ تم اپنے اوپر گوشت اور جلد بھی پہن لو ، پھر وہ اسی طرح ہوگئیں پھر آواز دی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم کرتا ہے کہ تم زندہ ہوجاؤ اور کھڑے ہوجاؤ ، گدھا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کے لیے شہر کو دوبارہ تعمیر کروا دیا جس طرح ان کے جانے کے وقت شہر موجود تھا ۔ (آیت)” فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ “ پس اللہ نے اس کو مار ڈالا اور وہ سو سال تک مردہ رہا پھر اس کو اٹھا دیا) یعنی اس کو سو سال کے بعد زندہ کیا (قال کم بعثت “۔ فرمایا آپ کا یہ ٹھہرنا کتنا عرصہ رہا) کتنا عرصہ ٹھہرے ، بعض حضرات نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سو سال بعد زندہ کیا تو ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیجا جو ان سے یہ سوال پوچھے کہ کتنا عرصہ یہاں ٹھہرے رہے (قال لبثت یوما) حضرت ارمیاء نے کہا کہ میں ایک دن یہاں ٹھہرا رہا) یہ بات انہوں نے اس لیے فرمائی کہ جب ان کو نیند آئی اور وہ وقت چاشت کا تھا اور جب انہیں زندہ کیا گیا تو غروب آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت تھا ، ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ ٹھہرے تو انہوں نے سورج کو دیکھ کر کہا کہ وہ غروب ہو رہا ہے تو یہ جواب دیا (اوبعض یوم) دن کا کچھ حصہ (قال فرمایا) فرشتے نے کہا (بل بعثت مائۃ عام فانظر الی طعامک) نہیں بلکہ آپ یہاں سو برس رہے پس دیکھو اپنے کھانے کو) کھانے سے مراد انجیر ہے اور (وشرابک) پینے کو یعنی انگور کے عرق کو (لم یتسنہ کہ اس میں کوئی چیز نہیں بگڑی) کھانے کی اشیاء خراب نہیں ہوئیں ، انجیر اس طرح تھے گویا کہ ابھی درخت سے اتارے ہوں اور انگور کا عرق ایسے تھا جیسے کہ ابھی نچوڑا گیا ہو ، امام کسائی فرماتے ہیں کہ گویا ان پر برس کی مدت نہیں گزری اور اسی طرح حمزہ (رح) کسائی (رح) اور یعقوب (رح) نے پڑھا ہے ۔ ” لم یتسن “ وصل کی صورت میں ھا کو حذف کرنے کے ساتھ پڑھا ہے اور اسی طرح ” فبھداھم اقتدہ “ میں بھی اور دوسرے قراء کے نزدیک ھاء کو پڑھا ہے وصلا اور وقفا دونوں صورتوں میں ، جب ھاء حالت وصل میں ساقط کردی تو ھاء ساکتہ کو حالت وقف میں بڑھا دی تو ” لم یتسنی “۔ یاء کو حروف جازمہ کی وجہ سے حذف کردیا ، اس کی جگہ ھاء وقف بڑھا دی ، ابو عمرو فرماتے ہیں کہ ” لم یستنہ “ اصل میں ” یتسنن “ تھا دو نون کے ساتھ من حماء مسنون “ اس کا مطلب ہے کہ وہ متغیر نہیں ہوا تو ہم نے ایک نون کو ی سے بدل دیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” ثم ذھب الی اھلہ یتمطی “ ہے ۔ یتمطی “ اصل میں ” یتمطط “ تھا اور اسی طرح ” وقد خاب من دساھا “۔ دساھا اصل میں ” دسسھا “ تھا تو ہم نے دونوں صورتوں میں ھاء کو ثابت رکھا اور اس کو لام کلمے کے مقابلے میں رکھا یہ ان حضرات کے نزدیک ہے جن کے ہاں ” یتسنہ “ کی اصل ” السنۃ السنھۃ “ اور اس کی تصغیر ” سنیھۃ “ اور اس کا فعل ” المسانھۃ “ آتا ہے ۔ ” لم یستنہ “ تثنیہ کا لفظ ذکر نہیں کیا حالانکہ ماقبل میں طعام وشراب دو چیزیں تھیں دونوں چیزوں کے تبدیل ہونے کے لیے چونکہ ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اس لفظ میں دونوں شریک ہیں یا چونکہ دونوں کا تعلق غذائیت کے ساتھ ہے اس لیے واحد کی ضمیر لائے یا ایک کے ذکر کو دوسرے پر قیاس کیا گیا ۔ (آیت ” وانظر الی حمارک “ اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو) جب انہوں نے گدھے کی طرف دیکھا وہ اس کی چمکتی ہوئی ہڈیاں تھیں پھر اللہ تعالیٰ نے ہڈیاں کو ان کے سامنے جوڑا پھر اس پر گوشت اور جلد ڈالی پھر اس کو زندہ کردیا ، اس حال میں کہ حضرت ارمیاء اس کو دیکھ رہے تھے (اور ولنجعلک ایۃ اللناس بنائیں گے تجھے نشانی آنے والے لوگوں کے لیے) بعض حضرات کے نزدیک آیت کے شروع میں واؤ زائدہ ہے ، فراء (رح) فرماتے ہیں واؤ کو ذکر کرکے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے بعد فعل محذوف ہے عبارت اس طرح ہوگی ” ولنجعلک ایۃ عبرۃ ودلالۃ علی البعث بعدالموت “ ۔ یعنی ہم نے ایسے اس لیے کہا تاکہ بعث بعد الموت کو لوگوں کو دکھانے کے لیے دلیل بنائیں ، یہی اکثر مفسرین کا قول ہے اور ضحاک (رح) وغیرہ نے کہا کہ جب حضرت ارمیاء (علیہ السلام) کو اس بستی کی طرف لوٹایا تو اس وقت یہ جوان تھے اور ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد بوڑھے ہوچکے تھے ، ان کے سر کے بال اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے ، (وانظر الی العظام کیف ننشزھا) دیکھو ہڈیوں کی طرف کس طرح ہم انہیں جوڑتے ہیں) اہل حجاز کے نزدیک اور اہل بصرہ کے نزدیک ” ننشز “ زاء کے ساتھ ہے اور ان کے علاوہ قراء حضرات راء کے ساتھ پڑھتے ہیں ، اس کا معنی ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں ، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میت کو زندہ کیا ، انشاء زندہ کرنا اور انشرہ نشورا زندہ ہونا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” ثم اذا شاء انشرہ “ اور لازم (والیہ النشور) استعمال ہوتا ہے اور دوسرے حضرات اس کو زاء کے ساتھ پڑھتے ہیں تو معنی ہوگا ، کہ ہم کیسے ان بوسیدہ ہڈیوں کو زمین سے اٹھاتے ہیں اور بعض کو بعض کے ساتھ جوڑتے ہیں ، ” انشاء الشیئ “ کہتے ہیں کسی چیز کو بلند کرنا اور اوپر اٹھانا ، اس آیت کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس سے گدھے کی ہڈیاں مراد ہے امام سدی (رح) کے نزدیک اس سے حضرت عزیز (علیہ السلام) کی ہڈیاں مراد ہیں کہ جب ان کو زندہ کیا تو ہم نے کہا کہ دیکھئے اپنے گدھے کی طرف وہ ہلاک اور اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیجی جو اس گدھے کی ہڈیاں ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں ، کوئی پہاڑ میں اور بعض ہڈیوں کو پرندے اور چوپائے لے گئے تھے ان سب کو جمع کیا ، اس حال میں کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے ، کہ وہ گدھا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا اور اس پر نہ گوشت تھا اور نہ ہی خون (ثم نکسوھا لحما پھر ہم ان ہڈیوں کو گوشت پہناتے ہیں) پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا تو وہ گدھا بن گیا جو بغیر روح کے تھا پھر ایک فرشتہ چلتا ہوا آیا اس نے گدھے کے ناک میں پھونک ماری تو گدھا کھڑا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بولنے لگا ، بعض مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد حضرت عزیز (علیہ السلام) کی ہڈیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گدھے کو زندہ رکھا اور ان کو موت دی تھی جب ان کو زندہ کرنا چاہا تو سب سے پہلے ان کی آنکھیں زندہ کیں پھر ان کے سر کو زندہ کیا جبکہ بقیہ جسم سارا مردہ تھا ، پھر فرمایا کہ دیکھ اپنے گدھے کو یہ اسی طرح کھڑا ہے جس طرح تو نے اس کو باندھا تھا ، سو سال تک اس نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا، ویسے کھڑا ہے اور اس کی رسی کی طرف دیکھا وہ بھی خراب نہیں ہوئی تھی جب سے اس کو باندھا گیا تھا اب تقدیری عبارت یوں ہوگی کہ تو دیکھ اپنے گدھے کی طرف اور دیکھ اپنی ہڈیوں کی طرف کہ ہم کیسے ان کو پیدا کرتے ہیں ۔ یہ قول حضرت قتادہ (رح) کا ہے جو انہوں نے کعب (رح) وضحاک (رح) سے اور انہوں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا تھا ، امام سدی (رح) اور مجاہد (رح) نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے دوسری روایت نقل کی ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت عزیز (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے سو سال کے بعد زندہ کیا تو یہ گدھے پر سوار ہو کر اپنی بستی یا شہر میں پہنچے ، یہ نہ لوگوں کو پہچان سکے اور نہ ہی اپنے مکانوں کو اور نہ لوگ ان کو پہچان سکے ، اندازے سے یہ ایک گھر میں پہنچے تو وہاں ایک بڑھیا جو اپاہج اور اندھی تھی اس کے اوپر ایک سوبیس سال گزر گئے ، وہ حضرت عزیز (علیہ السلام) کو جانتی تھی ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے اس سے کہا اے فلاں ! کیا یہ عزیر کا گھر ہے وہ کہنے لگی جی ہاں یہ گھر حضرت عزیز (علیہ السلام) کا ہے اور وہ یہ کہہ کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ اتنا اتنا عرصہ ہوگیا کسی کے منہ سے میں نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کا تذکرہ نہیں سنا ، حضرت عزیز (علیہ السلام) بولے میں عزیر ہوں ، کہنے لگی سبحان اللہ ! ہم نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو ایک سو سال تک گم پایا ، اس کا ذکر کہیں سے نہیں سنا ، کہنے لگے میں عزیر (علیہ السلام) ہوں ، اللہ نے مجھے ایک سو سال تک موت دید ی تھی پھر مجھے دوبارہ زندہ کیا ، وہ بڑھیا کہنے لگی حضرت عزیز (علیہ السلام) تو مستجاب الدعوات شخص تھے وہ مریض یا مصیبت زدہ کے لیے دعا کرتے تھے تو شفا مل جاتی تھی تو آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری آنکھیں لوٹا دے تاکہ میں آپ کو دیکھ سکوں ۔ اگر تو حضرت عزیز (علیہ السلام) ہے تو تجھے پہچان لوں گی ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے دعا کی اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو اس کی دونوں آنکھیں ٹھیک ہوگئیں ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ اللہ کے حکم سے کھڑی ہوجا تو وہ بالکل تندرست ہو کر کھڑی ہوگئی ، پھر اس نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ” اشھد انک عزیر “۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ عزیر (علیہ السلام) ہیں پھر یہ بنی اسرائیل کی طرف چلے ، یہ ان کی مجلسوں میں پہنچے اس وقت حضرت عزیز (علیہ السلام) کا بیٹا ایک سو اٹھارہ سال کا بوڑھا ہوچکا تھا اور اس مجلس میں آپ کے پوتے بھی بوڑھے ہوچکے تھے ، اس وقت اس بڑھیا نے اس مجلس میں آواز لگائی کہ یہ حضرت عزیز (علیہ السلام) ہیں جو تمہارے پاس آئے ہیں ، انہوں نے اس بات کو جھوٹ سمجھا ، اس نے کہا کہ میں فلاں وقت ان کی باندی تھی ، انہوں نے میرے لیے رب سے دعا کی کہ میری آنکھیں تندرست ہوگئیں اور میری ٹانگیں ٹھیک ہوگئیں ، اور میرا گمان ہے کہ اللہ نے ان کو سو سال موت دی پھر دوبارہ زندہ کیا ، یہ سن کر لوگ اٹھے ان کے بیٹے نے کہا کہ میرے والد کے کندھے کے درمیان ہلالی شکل کا ایک کالا مسہ تھا اس نے کندھے کو کھول کر دیکھا تو وہ نشانی پائی گئی وہ سمجھ گئے یہ حضرت عزیز (علیہ السلام) ہی ہیں ۔ سدی (رح) اور کلبی (رح) کا بیان ہے کہ جب حضرت عزیز (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے تو اس وقت بخت نصر نے تورات کو چلا دیا تھا کیونکہ اب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد نہیں تھا ، اس وجہ سے یہ رو دیئے ، ایک فرشتے نے برتن میں پانی لا کر آپ کو پلایا ، پانی پیتے ہی پوری تورات آپ کے سینے میں آگئی ، آپ بنی اسرائیل کے پاس لوٹ کر آئے تو پوری تورات زبانی یاد تھی آپ (علیہ السلام) نے قوم سے آکر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا ہے کہ میں عزیر ہوں ، قوم نے تصدیق نہیں کی ، حضرت عزیز (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں عزیر ہوں مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے تاکہ میں تمہارے لیے تورات کو دوبارہ رلکھواؤں وہ کہنے لگے ہمارے لیے تورات لکھواؤ تو انہوں نے پوری تورات لکھوا دی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ نے پوری تورات ڈالی وہ بلاشبہ خدا کا بیٹا ہے اور وہ عزیر ابن اللہ کہنے لگے اس کا مزید قصہ سورة برات میں آئے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ (فلما تبین لہ پھر جب یہ کیفیت واضح ہوگئی) جب یہ بات ان پر کھل گئی (قال اعلم تو اس نے کہا مجھے یقین ہے) حمزہ (رح) اور کسائی (رح) نے اس کو مجزوم پڑھا امر کی وجہ سے اور دوسرے حضرات نے اعلم امر کا صیغہ ہے اور بعض نے ہمزہ کو حذف اور میم کو مرفوع پڑھا ہے خبر ہونے کی وجہ سے مطلب یہ ہوگا کہ جب حضرت عزیز (علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا ماجرہ دیکھا تو فرمایا ” اعلم “ (ان اللہ علی کل شی قدیر بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے)
Top