Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ : یا كَالَّذِيْ : اس شخص کے مانند جو مَرَّ : گزرا عَلٰي : پر سے قَرْيَةٍ : ایک بستی وَّهِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گر پڑی تھی عَلٰي عُرُوْشِهَا : اپنی چھتوں پر قَالَ : اس نے کہا اَنّٰى : کیونکر يُحْيٖ : زندہ کریگا ھٰذِهِ : اس اللّٰهُ : اللہ بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا فَاَمَاتَهُ : تو اس کو مردہ رکھا اللّٰهُ : اللہ مِائَةَ : ایک سو عَامٍ : سال ثُمَّ : پھر بَعَثَهٗ : اسے اٹھایا قَالَ : اس نے پوچھا كَمْ لَبِثْتَ : کتنی دیر رہا قَالَ : اس نے کہا لَبِثْتُ : میں رہا يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : دن سے کچھ کم قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ لَّبِثْتَ : تو رہا مِائَةَ عَامٍ : ایک سو سال فَانْظُرْ : پس تو دیکھ اِلٰى : طرف طَعَامِكَ : اپنا کھانا وَشَرَابِكَ : اور اپنا پینا لَمْ يَتَسَنَّهْ : وہ نہیں سڑ گیا وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلٰى : طرف حِمَارِكَ : اپنا گدھا وَلِنَجْعَلَكَ : اور ہم تجھے بنائیں گے اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلَى : طرف الْعِظَامِ : ہڈیاں کَيْفَ : کس طرح نُنْشِزُھَا : ہم انہیں جوڑتے ہیں ثُمَّ : پھر نَكْسُوْھَا : ہم اسے پہناتے ہیں لَحْمًا : گوشت فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهٗ : اس پر قَالَ : اس نے کہا اَعْلَمُ : میں جان گیا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا
( کیا نہیں دیکھا آپ نے اس شخص کو) جو ایک بستی پر گزرا ، جو کہ اپنے چھتوں پر گری ہوئی تھی ۔ اس شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کیسے زندہ کریگا ۔ اس کے ویران ہونے کے بعد ، پس اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر موت طاری کردی سو سال تک ، پھر اسے اٹھایا اور کہا کہ تو یہاں کتنی دیر تک رہا ہے۔ اس نے کہا ، میں یہاں ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم رہا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں بلکہ تو سو سال ٹھہرا ہے۔ پس دیکھ اپنے کھانے اور مشروب کی طرف ، وہ متغیر نہیں ہوا اور دیکھ اپنی سواری کے گدھے کی طرف اور تا کہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیں اور دیکھ ہڈیوں کی طرف ، کس طرح ہم ان کو ابھارتے ہیں ، پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں ، جب اس شخص پر بات واضح ہوگئی ، تو وہ کہنے لگا ، میں جانتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدر ت رکھنے والا ہے۔
ربط آیات گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کی مثال بیان فرمائی ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولیاء الرحمن کا نمونہ ہیں اور دوسری طرف نمروداولیاء الشیطان کی مثال ہے دونوں کا مناظرہ و مباحثہ اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دلائل وبراہین کی رو سے غالب آجانا اور کافر کا حیران و پریشان ہوجانا یہ سب بیان ہوچکا ہے ، اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دستگیری فرمائی اور اس بات کو ثابت کردیا کہ اللہ ولی الذین امنوا یعنی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا کارساز ہے ۔ اس مثال سے شیطان کی شطینت بھی سمجھ میں آئی کہ نمرود کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہی عطا کی تھی ، مگر اس انعام کا شکر گزار ہونے کی بجائے ، وہ شیطان کے پیچھے لگ گیا اور خود خدائی کا دعویدار بن گیا ۔ اس نے انعام الٰہی سے غلط فائدہ اٹھایا اور سر کشی اختیار کی جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے صراط مستقیم دکھانا چاہا تو اس نے جھگڑا شروع کردیا ۔ آ ج کے درس والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور مثال کے ذریعے اپنی قدرت کاملہ اور حیات بعد المحات کا مسئلہ سمجھایا ہے۔ یہ مثال بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کو ثابت کیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات معارف الٰہیہ میں شمارہوتے ہیں اور ان کو دیکھ کر انسان کا روز قیامت پر یقین پختہ ہوتا ہے ، لہٰذا خلیفہ وقت کا فرض ہے کہ وہ ایسے واقعات کی تشہیر کرے تا کہ لوگوں کے دلوں میں دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ متعلقہ شخص کون تھا اس آیت کی ابتداء او کالذی سے کی گئی ہے یعنی اس شخص کا واقعہ جس کا گزر ایک تباہ شدہ بستی پر ہوا اور اس نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ ایسی پامال شدہ بستی کو کیسے دوبارہ آباد کرے گا ۔ یہاں پر اس شخص کا تعارف نہیں کرایا گیا ۔ جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ۔ حدیث پاک میں بھی اس کی کوئی تصریح نہیں ملتی ، البتہ بائیبل ، تفسیری روایات اور تاریخ سے اس شخص کے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ مفسرین کے اقوال میں سے ایک قول تو یہ ہے کہ یہ شخص سرے سے مسلمان ہی نہیں تھا بلکہ حیات بعد المحات کا منکر تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی آنکھوں سے دوبارہ جی اٹھنے کا مشاہدہ کرایا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ شخص نہ صرف مومن تھا بلکہ اللہ کا نبی تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ کون سا نبی تھا ، تو بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ میاہ نبی تھے جن کا ذکر تورات میں موجود ہے اور زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ آپ عزیز (علیہ السلام) تھے اور اسی عجیب و غریب واقعہ کی بناء پر اسرائیلی آپ کو خدا کا بیٹا کہنے لگے ، جیسا کہ قرآن پاک میں موجود ہے وقالت الیھود عزیز ابن اللہ یعنی یہودیوں نے کہا کہ عزیز اللہ کا بیٹا ہے۔ تاریخی پس منظر یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت سے پانچ سو سال پہلے پیش آیا ۔ جب بنی اسرائیل میں سر کشی پیدا ہوگئی ۔ اور وہ مختلف قسم کی برائیوں میں مبتلا ہوگئے۔ تو اس وقت بابل پر بخت نصر جیسا جابر و ظالم بادشاہ حکمران تھا ، کہتے ہیں کہ نمرود کی طرح بخت نصر نے بھی پوری دنیا پر حکومت کی ۔ چناچہ اس نے شام و فلسطین پر حملہ کر کے تباہ و برباد کردیا اور یروشلم اور بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ بیشمار بنی اسرائیلیوں کو قتل کردیا اور لا تعداد لوگوں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا بنی اسرائیل کی تمام کتابیں تورات سمیت جلا ڈالیں ۔ حتیٰ کہ تورات کا ایک نسخہ بھی سلامت نہ بچا ، تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ قید ہونے والوں میں حضرت عزیر (علیہ السلام) بھی شامل تھے کچھ عرصہ بعد جب آپ قید سے رہا ہو کر واپس اپنے وطن آ رہے تھے تو یہ واقعہ راستے میں پیش آیا ، اس وقوعہ کے مقام کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ راستے میں کوئی شہر یا بستی تھی ۔ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ خود یروشلم کا شہر تھا۔ بہر حال اس کی حالت یہ تھی کہ مکانوں کی چھتیں اور دیواریں زمین بوس ہوچکی تھیں اور وہاں کوئی شخص زندہ سلامت موجود نہیں تھا۔ ایسامعلوم ہوتا تھا کہ کسی زمانے میں یہ ایک پر رونق اور آباد شہر تھا ، مگر اس وقت کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا تھا۔ واقعہ پر سطحی نظر کہتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) گدھے پر سوار آ رہے تھے ، آپ کے پاس کھانے پینے کا کچھ سامان بھی تھا ۔ ایک برتن میں پھلوں کا کچھ شیرہ تھا اور ایک ٹوکری میں انجیر تھے ۔ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو جلد خراب ہوجاتی ہیں ۔ بہر حال آپ کا اس اجڑے ہوئے شہر پر گزر ہوا ۔ کھنڈرات کو عبور کرتے ہوئے ایک مقام پر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیا یہ جڑا ہوا شہر بھی کبھی آباد ہوگا ؟ اسی سوچ و بچار میں کھنڈرات کے درمیان ایک مقام پر اترے ، گدھے کو باندھا ، کھانے کا کچھ حصہ کھایا اور باقی پاس رکھ لیا ، تھکے ہوئے تو تھے ہی ، ذرا آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے اور پھر ایسے سوئے کہ اللہ تعالیٰ نے سو سال تک سلائے رکھا۔ جس وقت سوئے تھے تو دن کا ابتدائی حصہ تھا اور جب پیدا ہوئے تو ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا ۔ اٹھنے کے بعد ان سے سوال و جواب ہوئے کہ کتنا عرصہ سوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ، مگر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ سو سال تک سوتے رہے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے کرشمہ کے طور پر انہیں دکھایا کہ اس سو سال کے عرصہ میں ان کا کھانا بالکل ترو تازہ تھا خراب نہیں ہوا تھا۔ البتہ ان کا گدھا مر چکا تھا اور اس کی ہڈیاں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے گدھے کو زندہ کیا ۔ جب عزیر (علیہ السلام) موت کی نیند سو رہے تھے تو اس دوران بخت نصر مر گیا ، ایران کے بادشاہ خسرو نے فلسطین پر حملہ کر کے اسے اپنے زیر نگیں کرلیا ، اور بنی اسرائیلوں کو آزاد کردیا اور انہیں فلسطین کو دوبارہ آباد کر نیکی اجازت دے دی چناچہ انہوں نے تیس سال کے مختصر عرصہ میں اس اجڑے ہوئے شہر کو دوبارہ آباد کرلیا اور پھر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ شہر کبھی ویران ہوا ہی نہیں ۔ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ پر رونق ہوگیا ۔ دنیا کی تاریخ میں آبادی اور بربادی کی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی ، مگر جنگ کے خاتمہ سے چند سال کے اندر اندر جرمنی اس طرح آباد ہوگیا کہ گویا وہاں کوئی حادثہ پیش ہی نہیں آیا ۔ بڑی بڑی بلڈنگیں ، فیکٹریاں ، کاروباری مراکز پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ معرض وجود میں آگئے۔ اسی طرح تیس سال کے عرصہ میں وہ شہر پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ آباد ہوگیا اور جب عزیر (علیہ السلام) اپنی موت کے سو سال پورے ہونے پر دوبارہ اٹھائے گئے تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میلوں تک پھیلے ہوئے کھنڈرات ہنستے بستے شہر میں تبدیل ہوچکے تھے ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے بطور نمونہ دکھا دیا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا ظہور ہے۔ تباہ شدہ بستی ارشاد ہوتا ہے اوکالذی مرعلی قریۃ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں آئی کہ وہ شخص جو ایک بستی پر گزرا ۔ یہ بستی یروشلم تھا یا کوئی اور نگری تھی ۔ وھی خاویۃ علی عروشھا اور اس بستی کی حالت یہ تھی کہ اپنی چھتوں پر گہری پڑی تھی ۔ تباہ و برباد ہوچکی تھی نہ کوئی دیوار سالم تھی اور نہ کسی مکان کی چھت باقی تھی بلکہ پوری بستی ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی ۔ وہاں کوئی زندہ سلامت آدمی موجود نہیں تھا ، اگرچہ عام خیال یہی ہے کہ یہ بستی بخت نصر بادشاہ نے تباہ کردی تھی مگر کہتے ہیں کہ یہ کسی حادثہ کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جب زبردست قسم کا زلزلہ آتا ہے تو سینکڑوں میل تک تباہی پھیل جاتی ہے ۔ بذرتہ کی بستی میں زلرلے نے وہ تباہی مچائی کہ رات کے تھوڑے سے حصہ میں دس بارہ ہزار کی آبادی میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا ۔ 1923 ء میں جاپان میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا ہزاروں میل زمین میں لمبے لمبے شگاف پڑگئے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ آدمی ہلاکت کے منہ میں چلے گئے تھے ، قیامت صغریٰ کا نمونہ تھا۔ 1935 ئ؁ میں کوئٹہ جیسا آباد شہر آفا ً فاناً ملبے میں تبدیل ہوگیا تھا۔ ہزاروں جانیں تلف ہوگئیں تھیں۔ بہر حال اللہ کے نبی نے بستی کی بربادی کو دیکھ کر تعجب کے ساتھ کہا قال انی یحییٰ ھذا اللہ بعد موتھا اس قدر تباہی کے بعد اللہ تعالیٰ اس بستی کو کیسے زندہ کریگا۔ یہاں پر حیات اور موت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اگر ھذہ سے مراد وہ بستی ہے۔ تو اس کا معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو دوبارہ کیسے آباد کریگا اور اگر اس سے مراد اس بستی کے لوگ ہیں جو بستی کی تباہی کے ساتھ ہی موت کی آغوش میں چلے گئے تھے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو کیسے زندہ کرے گا ، جب کہ ان پر موت طاری ہوچکی ہے۔ موت وحیات کا منظر حضرت عزیر (علیہ السلام) کے اس تعجب خیز سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس طرح دیا کہ فاماتہ اللہ مائۃ عام آپ پر سو سال تک کے لیے موت طاری کردی ۔ ثم بعثہ پھر آپ کو اٹھایا اور کہا قال کم لبثت تم کتنی دیر ٹھہرے یعنی اس حالت میں کتنا عرصہ رہے ، ذرا بتائو توسہی ۔ قال لبثت یوما ً او بعض یوم عرض کیا ، ایک دن یا دن سے کچھ کم ٹھہرا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ قال بل لبثت مائۃ عام بلکہ تم ایک سو سال تک ٹھہرے اور آپ کو باور کرانے کے لیے فرمایا فانظرالی طعامک وشرابک لم یتسنہ ذرا پنے کھانے اور مشروب کی طرف دیکھو ، وہ متغیر نہیں ہوا ، یعنی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد گل سڑکر خراب نہیں ہوا نہ اس کی شکل تبدیل ہوئی ہے ، نہ ذائقہ اور نہ رنگ ، یہ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت ہے کہ جلد خراب ہوجانے والی چیز کو اتنے لمبے عرصے تک محفوظ رکھا اور دوسری طرف خود عزیر (علیہ السلام) ہیں ۔ ان کا جسم سو سال تک کھنڈرات کے درمیان پڑا رہا مگر بالکل صحیح سلامت اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، نہ اس کا گوشت گلا سڑا اور نہ ہڈیاں علیحدہ ہوئیں ۔ جس طرح اس مالک الملک کے اصحاب کہف کو تین سو نو سال تک ایک غار میں محفوظ رکھا ، اسی طرح حضرت عزیر (علیہ السلام) کے جسم کو ایک سو سال تک آنچ نہ آنے دی ۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنی حکمت کے ساتھ ایسی چیزیں ظاہر کرتا ہے ، پورا شہر آباد ہوگیا ، مگر جس جگہ عزیر (علیہ السلام) آرام فرما تھے ، وہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوئی ۔ آج لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ دجال کہاں مقید ہے۔ آج دنیا کا کوئی حصہ نظروں سے اوجھل نہیں رہا ۔ آخر وہ کہاں چھپا ہوا ہے۔ بھائی اللہ تعالیٰ نے اسے لوگوں کی نظروں سے مخفی کردیا ہے ۔ جب اس کا حکم ہوگا ، ظاہر ہوجائے گا ۔ یاجوج ماجوج کی قوم بھی ایسی ہی ہے ، وہ بھی کسی کو نظر نہیں آتے ، انگریزوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پوری دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا ہے مگر یاجوج ماجوج کہیں نظر نہیں آئے ۔ مگر یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی حکمت سے چھپا رکھا ہے ۔ قرآن پاک میں موجود ہے جب اس کا حکم ہوگا یہ قوم پہاڑوں سے نکل کر ظاہر ہوجائے گی ۔ گدھا کیسے زندہ ہوا حضرت عزیر (علیہ السلام) کے خود اپنے ساتھ اور کھانے کے ساتھ تو یہ معاملہ ہوا ۔ سب انکے گدھے کا انجام دیکھئے ۔ ہمارے ہاں تو گدھے کی سواری کو مستحسن نہیں سمجھا جاتا ، مگر اس زمانے میں یہ ایک علیحدہ سواری شمار ہوتی تھی ۔ بڑے خوبصورت اور طاقتور گدھے ہوتے تھے ، خود حضور نبی کریم ﷺ نے گدھے کی سواری کی ہے۔ آپ بالکل تکلیف نہیں فرماتے تھے جو سواری میسر آئے ، استعمال میں لے آتے تھے جب آپ بنو قریظہ سے جنگ کے لیے تشریف لے گئے ۔ تو آپ کے پاس یہی سواری تھی اور اس پر پالان بھی نہیں تھا ۔ مگر آپ نے اسی حالت میں اس پر سفر کیا ۔ آپ نے اونٹ اور گھوڑے پر بھی سفر کیا اور اگر کوئی سواری نہیں ملی تو پیدل ہی چلے دیئے ، حضرت جابر ؓ بیمار ہوگئے آپ کا گھر مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ حضور ﷺ بیمار پرسی کے لیے جانا چاہتے تھے ، کوئی سواری نہیں ملی تو پیدل ہی چل دیئے۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ تشریف لائے تو آپ پر گردو غبارپڑا ہوا تھا ، بہر حال گدھے کی سواری کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عزیر (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے فرمایا۔ وانظرالی حمارک ذرا اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ اس کا کیا حشر ہوا ہے۔ فرمایا یہ سب واقعات پیش کرنے کا کوئی مقصد ہ۔ ولنجعلک ایۃ للناس تا کہ ہم آپ کو لوگوں کے لیے نتمونہ بنا دیں کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے موت طاری کرنے کے بعد پھر کس طرح زندہ کردیا ، اب دیکھو گدھا کس طرح زندہ ہوتا ہے۔ فرمایا وانظر الی العظام ان ہڈیوں کی طرف نگاہ کرو ۔ گدھا مر چکا ہے ، گوشت گل سڑ کر ختم ہوچکا تھا اور اس کی ہڈیاں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں ۔ فرمایا ان کی طرف دیکھو کیف ننشزھا ہم کس طرح ان کا ڈھانچہ تیار کرتے ہیں ۔ نشنر کا معنی ہوتا ہے ، ابھارنا ، اٹھارنا وغیرہ ناشزہ اس عورت کو کہتے ہیں ، جو خاوند کی نافرمان ہو اور مقابلے میں اٹھ کھڑ ی ہو۔ فرمایا دیکھو ! ہم ان ہڈیوں کو جوڑ کر ڈھانچہ تیار کرتے ہیں ۔ ثم نکسوھا لحما ً پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں چناچہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کی آنکھوں کے سامنے ہڈیاں ابھریں ، ان کا ڈھانچہ تیار ہوا ۔ پھر ان پر گوشت چڑھا ، گدھے کی شکل و صورت بنی اور پھر وہ زندہ ہو کر بولنے لگا۔ ہر ذی جان کا جسم ہڈیوں پر قائم ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، جب انسان مرجاتا ہے تو اسکے جسم کی تمام کثافتیں گل سڑ جاتی ہیں ۔ صرف دم کی ہڈی کسی نہ کسی صورت میں باقی رہتی ہے ۔ قیامت کے دن اسی ہڈی سے پورا ڈھانچہ اور پھر پورا جسم اٹھایا جائے گا ۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے گدھے پر وارد کیا اور پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) کی آنکھوں کے سامنے جیتے جاگتے گدھے کی صورت میں کھڑا کردیا۔ عالم برزخ وار د ہونے والی موت کے اس سو سالہ عرصہ کو عالم برزخ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جب کوئی انسان مر جاتا ہے۔ تو اس کا تعلق اس دنیا سے کٹ جاتا ہے اور قیامت کے روز دوبارہ جی اٹھنے تک برزخی زندگی کہلاتی ہے ۔ اس عرصہ میں انسان کو وقت کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ کتنا عرصہ برزخ میں ہو رہا ہے جیسا کہ سورة یٰسین میں آتا ہے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے ، تو کہیں گے من بعثنا من مرقدناھذا ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا ۔ ان کو ایسا ہی محسوس ہوگا جیسے کوئی شخص رات کو یا دن کے وقت کچھ دیر کے لیے سوتا ہے ، اور پھر اٹھ بیٹھتا ہے۔ یہی چیز حضرت عزیر (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آئی ، انہیں احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ سو سال تک سوئے رہے ہیں ، وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ دن کا کچھ حصہ سوئے ہیں ۔ عالم برز خ میں وقت کا احساس تو نہیں ہوتا ، مگر راحت اور تکلیف کا احساس ضرور ہوتا ہے ، جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ جب کسی شخص کو دفن کردیا جاتا ہے تو پھر منکر نکیر اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اس ابتدائی امتحان میں اگر وہ شخص کامیاب ہوا ہے ، تو اس کو میٹھی نیند سلا دیا جاتا ہے اور اس کے لیے راحت کا سامنا مہیا کردیا جاتا ہے۔ بر خلاف اس کے اگر وہ ناکام ہوگیا ہے۔ سوالات کا جواب نہیں دے سکا ، تو پھر قیامت تک کے لیے اسے تکلیف میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ اس طرح اسے تکلیف کا احساس تو ہوتا ہے مگر وقت کا احساس نہیں ہوتا ۔ اجسام کی حفاظت مرنے کے بعد ایک عام انسان کے جسم کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں ۔ قانون قدرت کے مطابق مردہ جسم گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں ۔ قبروں کی کھدائی کے دوران بعض اوقات چھوٹی موٹی ہڈیاں ملتی ہیں اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ملتیں ، البتہ اس امر پر اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام قبر میں بھی محفوظ رہتے ہیں ۔ ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھا سکے ، ہاں شہداء کے متعلق مشاہدہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شہداء کے جسم بھی قبروں میں محفوظ رہتے ہیں ۔ بخاری شریف میں روایت موجود ہے کہ بعض شہداء کو شہید ہوئے پنتالیس سال گزر چکے تھے ۔ بارش اور سیلاب کی وجہ سے ان کی قبروں میں شگاف پڑگئے ، تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کے جسم ویسے ہی محفوظ تھے جیسا وہ دفن کیے گئے ۔ ابھی پچھلے دنوں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ چھ سو سال پہلے تاتاریوں کے علاقے میں کفار سے لڑ کر شہید ہوئے تھے ، ان کے جسم بالکل محفوظ برآمد ہوئے تھے۔ یقین تین مدارج فلما تبین لہ جب یہ تمام چیزیں حضرت عزیر (علیہ السلام) پر واضح ہوگئیں ان کے سوال کا جواب مل گیا ۔ انہوں نے حیرانگی کے انداز میں سوال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو کیسے دوبارہ زندہ کریگا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی آنکھوں سے دکھا دیا کہ اس نے نہ صرف پورے شہر کو آباد کردیا بلکہ خود ان کو اور ان کے گدھے کو سو سال کے بعد پھر زندہ کردیا تو عزیر (علیہ السلام) نے کہا قال اعلم ان اللہ علی کل شی قدیر میں جان گیا ہوں اور مجھے علم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے ۔ آباد کو برباد اور اجڑے دیار کو پھر سے آباد کرسکتا ہے زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ کسی چیز کو تسلیم کرلینے یا اس پر یقین کرلینے کے تین درجے ہیں ، اگر کسی چیز کا علم کسی دوسرے ثقہ شخص کی معرفت ہو تو اسے علم الیقین کہتے ہیں ، کیونکہ ایسی چیز کا ادراک علم کے ذریعے ہوا ہے اور اگر کوئی شخص خود اپنی آنکھوں سے کوئی واقعہ دیکھ لے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں اور یقین کا تیسرا درجہ حق الیقین ہے اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب کوئی واقعہ خود اپنے ساتھ پیش آئے ۔ ظاہر ہے کہ جو چیز خود اپنے اوپر واردہوئی اور اس کی کیفیت خود اپنے اوپر طاری ہوئی ہو ۔ اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور یہ کسی چیز کو تسلیم کرلینے کا آخری درجہ یعنی حق الیقین ہے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ عین الیقین بھی ہے اور حی الیقین بھی عین الیقین اس لحاظ سے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے خود اپنی آنکھوں سے مردہ گدھے کو زندہ ہوتے دیکھا ۔ ان کی نظروں کے سامنے گدھے کی بوسیدہ ہڈیوں سے ڈھانچہ تیار ہوا ، پھر ان پر گوشت چڑھا ، گدھے کی شکل و صورت بنی اور پھر وہ آواز دینے لگا۔ یہ واقعہ حق الیقین کے درجے میں اس لحاظ سے ہے کہ یہ معاملہ خود عزیر (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا ، وہ خود سو سال تک موت کی آغوش میں رہے اور پھر زندہ ہوگئے ۔ جہاں تک پہلے درجے علم الیقین کا معلق ہے تو حضرت عزیر (علیہ السلام) کو بھی حاصل تھا ، کیونکہ آپ اللہ کے نبی اور برگزیدہ مومن تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قیامت کے دن دوبارہ جی اٹھنے پر علمی لحاظ سے بھی یقین تھا۔ اگلی آیت میں بھی اسی قسم کا واقعہ ہے ، وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار اور علم الیقین سے عین الیقین اور حق الیقین تک کا مشاہدہ ہے۔
Top