Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 8
اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
اَوْ يُلْقٰٓى : یا ڈالا (اتارا) جاتا اِلَيْهِ : اس کی طرف كَنْزٌ : کوئی خزانہ اَوْ تَكُوْنُ : یا ہوتا لَهٗ جَنَّةٌ : اس کے لیے کوئی باغ يَّاْكُلُ : وہ کھاتا مِنْهَا : اس سے وَقَالَ : اور کہا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ تَتَّبِعُوْنَ : نہیں تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر۔ صرف رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : جادو کا مارا ہوا
یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی  خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی)روزی حاصل کرتا۔ 16“ اور ظالم کہتے ہیں”تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی 17 کے پیچھے لگ گئے ہو۔“
سورة الْفُرْقَان 16 یہ گویا بدرجہ آخر ان کا مطالبہ تھا کہ اللہ میاں کم از کم اتنا تو کرتے کہ اپنے رسول کے لیے معاش کا کوئی اچھا انتظام کردیتے۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گزرا ہو۔ نہ خرچ کے لیے مال میسر، نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب، اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔ سورة الْفُرْقَان 17 یعنی دیوانہ۔ اہل عرب کے نزدیک دیوانگی کے دو ہی وجوہ تھے۔ یا تو کسی پر جن کا سایہ ہوگیا ہو۔ یا کسی دشمن نے جادو کر کے پاگل بنادیا ہو۔ ایک تیسری وجہ ان کے نزدیک اور بھی تھی، اور وہ یہ کہ کسی دیوی، یا دیوتا کی شان میں آدمی کوئی گستاخی کر بیٹھا ہو اور اس کی مار پڑگئی ہو۔ کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجوہ نبی ﷺ کے مطابق بیان کرتے تھے۔ کبھی کہتے اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہوگیا۔ کچھ کہتے کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کردیا۔ اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی کی بےادبی کرنے کا خمیازہ ہے جو غریب بھگت رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اتنا ہوشیار بھی مانتے تھے کہ ایک دار الترجمہ اس شخص نے قائم کر رکھا ہے اور پرانی پرانی کتابوں کے اقتباسات نکلوا نکلوا کر یاد کرتا ہے۔ مزید براں وہ آپ کو ساحر اور جادوگر بھی کہتے تھے، گویا آپ ان کے نزدیک مسحور بھی تھے اور ساحر بھی۔ اس پر ایک اور ردّا شاعر ہونے کی تہمت کا بھی تھا۔
Top