Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 8
اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
اَوْ يُلْقٰٓى : یا ڈالا (اتارا) جاتا اِلَيْهِ : اس کی طرف كَنْزٌ : کوئی خزانہ اَوْ تَكُوْنُ : یا ہوتا لَهٗ جَنَّةٌ : اس کے لیے کوئی باغ يَّاْكُلُ : وہ کھاتا مِنْهَا : اس سے وَقَالَ : اور کہا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ تَتَّبِعُوْنَ : نہیں تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر۔ صرف رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : جادو کا مارا ہوا
یا اس کی طرف (آسمان سے) خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں کھایا کرتا۔ اور ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو
او یلقی الیہ کنز او تکون لہ جنۃ یا کل منہا یا (آسمان سے) اس کی طرف کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا (کہ وہ خرچ کرتا رہتا اور معاش کی طلب میں بازاروں میں گھومنے پھرنے کا محتاج نہ رہتا) یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس کے پھل وہ کھالیا کرتا (اور روزی پیدا کرنے کا ضرورت مند نہ رہتا) ۔ مذکورہ بالا عبارت میں کافروں نے تین اقوال کا ذکر کیا اور تنزلی ترتیب کے ساتھ کیا۔ اوّل یہ کہ رسول فرشتہ کیوں نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ فرشتہ نہیں بھی ہوتا تو کم از کم کوئی فرشتہ تصدیق کرنے والا اس کے ساتھ ہوتا ‘ تیسرے یہ کہ اگر ایسا بھی نہیں ہوا تو کم از کم اس کی روزی کا کوئی انتظام ہی ہوتا۔ (جس کی دو صورتیں تھی ‘ ایک غیبی اور دوسری ظاہری غیبی تو یہ کہ) اس کے پاس آسمان سے کوئی خزانہ آجاتا اور (ظاہری یہ کہ) یا اس کے پاس کھانے اور روزی حاصل کرنے کے لئے کوئی باغ ہوتا ‘ جیسے زمین داروں اور مالدار لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ وقال الظلمون ان تتبعوان الا رجلا مسحورا۔ اور ظالموں نے (یہ بھی) کہا کہ تم لوگ محض جادو زدہ آدمی کا ساتھ دے رہے ہو۔ جادو کی وجہ سے اس کی عقل ماری گئی ہے۔ (پاگل ہوگیا ہے) ۔ کافروں کی طرف سے یہ خطاب مسلمانوں کو تھا۔ بعض علماء نے مسحور کا ترجمہ کیا ہے۔ فریب خوردہ بعض نے ترجمہ کیا حق سے پھرا ہوا ‘ بعض نے کہا اسم مفعول بمعنی فاعل ہے۔ یعنی جادوگر۔
Top