Fahm-ul-Quran - Al-Furqaan : 8
اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
اَوْ يُلْقٰٓى : یا ڈالا (اتارا) جاتا اِلَيْهِ : اس کی طرف كَنْزٌ : کوئی خزانہ اَوْ تَكُوْنُ : یا ہوتا لَهٗ جَنَّةٌ : اس کے لیے کوئی باغ يَّاْكُلُ : وہ کھاتا مِنْهَا : اس سے وَقَالَ : اور کہا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ تَتَّبِعُوْنَ : نہیں تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر۔ صرف رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : جادو کا مارا ہوا
” یا اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتاردیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا۔ ظالم کہتے ہیں تم لوگ تو ایک سحر زدہ شخص کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ (8)
فہم القرآن ربط کلام : رسالت مآب ﷺ پر کفار کے مزید اعتراضات رسالت مآب ﷺ کے بارے میں کفار یہ بھی ہرزاسرائی کرتے کہ یہ تو مالی اعتبار سے غریب آدمی ہے اگر واقعی یہ اللہ کا منتخب اور پسندیدہ نبی ہوتا تو اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہونا چاہیے تھی۔ نقدی ناسہی کم از کم اس کے پاس کوئی ایسا باغ ہوتا جس سے خود کھاتا اور اپنے بال بچوں کو کھلاتا۔ رسول معظم ﷺ کی غربت کا بہانہ بنا کر وہ لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس سوال کا جواب دینا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ دولت انسان کے شرف کا معیار نہیں ہے پھر کفار مسلمانوں کو یہ کہہ کر پھسلانے کی کوشش کرتے کہ یہ ایسا شخص ہے جس کو جادو ہوچکا ہے۔ جس بناء پر ایسی باتیں کرتا ہے جس کو عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کفار کی ان باتوں کا قرآن مجید نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے اس لیے یہاں ان کا یہی جواب مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ ﷺ غور فرمائیں کہ یہ لوگ آپ سے کس قسم کی توقعات اور آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ایمان لانے کے لیے مخلص ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد ہے کہ لوگوں کو آپ سے دور کردیں۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ خود گمراہ ہوچکے ہیں۔ اب ہدایت کی طرف آنے کی ان میں استعداد ختم ہوچکی ہے۔
Top