Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 9
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسی ضَرَبُوْا : انہوں نے بیان کیں لَكَ : تمہارے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں (باتیں) فَضَلُّوْا : سو وہ بہک گئے فَلَا : لہٰذا نہ يَسْتَطِيْعُوْنَ : پاسکتے ہیں سَبِيْلًا : کوئی راستہ
دیکھو، کیسی کیسی عجیب حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات اِن کو نہیں سُوجھتی۔  18
سورة الْفُرْقَان 18 یہ اعتراضات بھی جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں کہ معترضین کس قدر عناد اور تعصب میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ان کی جو باتیں اوپر نقل کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ بحث کی جائے۔ ان کا بس ذکر کردینا ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مخالفین کا دامن معقول دلائل سے کس قدر خالی ہے اور وہ کیسی لچر اور پوچ باتوں سے ایک مدلل اصولی دعوت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک شخص کہتا ہے لوگو، یہ شرک جس پر تمہارے مذہب و تمدن کی بنیاد قائم ہے، ایک غلط عقیدہ ہے اور اس کے غلط ہونے کے یہ اور یہ دلائل ہیں۔ جواب میں شرک کے بر حق ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاتی، بس آوازہ کس دیا جاتا ہے کہ یہ جادو کا مارا ہوا آدمی ہے۔ وہ کہتا ہے کائنات کا سارا نظام توحید پر چل رہا ہے اور یہ یہ حقائق ہیں جو اس کی شہادت دیتے ہیں۔ جواب میں شور بلند ہوتا ہے جادوگر ہے۔ وہ کہتا ہے تم دنیا میں شتر بےمہار بنا کر نہیں چھوڑ دیے گئے ہو، تمہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے، دوسری زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، اور اس حقیقت پر یہ اخلاقی اور یہ تاریخی اور یہ علمی و عقلی امور دلالت کر رہے ہیں۔ جواب میں کہا جاتا ہے شاعر ہے۔ وہ کہتا ہے میں خدا کی طرف سے تمہارے لیے تعلیم حق لے کر آیا ہوں اور یہ ہے وہ تعلیم۔ جواب میں اس تعلیم پر کوئی بحث و تنقید نہیں ہوتی، بس بلا ثبوت ایک الزام چسپاں کردیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ کہیں سے نقل کرلیا گیا ہے۔ وہ اپنی رسالت کے ثبوت میں خدا کے معجزانہ کلام کو پیش کرتا ہے، خود اپنی زندگی اور اپنی سیرت و کردار کو پیش کرتا ہے، اور اس اخلاقی انقلاب کو پیش کرتا ہے جو اس کے اثر سے اس کے پیروؤں کی زندگی میں ہو رہا تھا۔ مگر مخالفت کرنے والے ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے۔ پوچھتے ہیں تو یہ پوچھتے ہیں کہ تم کھاتے کیوں ہو ؟ بازاروں میں کیوں چلتے پھرتے ہو ؟ تمہاری اردل میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہے ؟ تمہارے پاس کوئی خزانہ یا باغ کیوں نہیں ہے ؟ یہ باتیں خود ہی بتارہی تھیں کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور کون اس کے مقابلے میں عاجز ہو کر بےتکی ہانک رہا ہے۔
Top