Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 8
اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
اَوْ يُلْقٰٓى : یا ڈالا (اتارا) جاتا اِلَيْهِ : اس کی طرف كَنْزٌ : کوئی خزانہ اَوْ تَكُوْنُ : یا ہوتا لَهٗ جَنَّةٌ : اس کے لیے کوئی باغ يَّاْكُلُ : وہ کھاتا مِنْهَا : اس سے وَقَالَ : اور کہا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ تَتَّبِعُوْنَ : نہیں تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر۔ صرف رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : جادو کا مارا ہوا
یا اس کے پاس کوئی خزانہ غیب سے آپڑتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھاتا (پیتا) ،8۔ اور (یہ) ظالم کہتے ہیں کہ تم لوگ تو بس ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کررہے ہو،9۔
8۔ (اور اس کو فکر معاش سے غیبی طور پر فارغ البالی حاصل رہتی) جاہلی قوموں کے احولی اعتراضات نقل ہورہے ہیں، وحی ونبوت کا مسئلہ اصلا ہی ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہی دیوی دیوتا والا، اوتار والا عقیدہ دلوں میں جما ہوا تھا۔ خدا خود تو دنیا میں آسکتا ہے۔ کسی انسان بلکہ حیوان کے قالب میں آسکتا ہے۔ لیکن کسی بشر کو اپنا نائب، اپنا سفیر، اپنا پیامبر بنانا کیا معنی ؟۔ وہی بنیادی گمراہی جو جاہلی قوموں میں آج تک چلی آرہی ہے۔ (آیت) ” یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق “۔ یعنی کھانے پینے، چلنے پھرنے، خرید وفروخت کی ضرورتیں پوری کرنے میں یہ تو بالکل عام انسانوں کی طرح ہیں۔ انہیں پیغمبر کیسے مان لیا جائے ؟۔ گویا پیغمبری عام بشری ضرورتوں کے منافی تھی ! اسلام کی بنیاد خوارق پر نہیں بلکہ اصل تعلیمات پر ہے۔ بہ خلاف اس کے مسیحیوں خصوصا فرقہ کتھولک کے ہاں تو مذہب کی روح یا جان ہی خوارق ہیں۔ مفسر تھانوی (رح) نے لکھا ہے کہ آیت سے مشی فی الاسواق کا غیر مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور حدیث میں جو اس کی کراہت آئی ہے تو وہاں بلاضرورت بازاروں میں گھومنا پھرنا مراد ہے۔ بلکہ اگر عدم مشی فی الاسواق از راہ تکبر ہے تو مذموم عدم مشی قرار پائے گی اور محمودمشی ٹھیرے گی، جاہل مسلمانوں نے بھی آج انہیں جاہلی قوموں کے اثر سے یہی توقعات اولیاء امت سے متعلق قائم کرلی ہیں۔ بجائے ان کی زندگی کی صالحیت اور پاکیزگی پر نظر کرکے تلاش ہر وقت عجائب وخوارق کی کی جاتی ہے، اور عوام کے خیال میں اب بزرگی اور مقبولیت کا اصل معیار کرامتیں ہی رہ گئی ہیں ! 9۔ یہ وہ مسلمانوں کی طرف اشارہ کرکے کہتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب ان میں خدائی یا ملکوتی قوت کچھ بھی موجود نہیں اور پھر بھی یہ دعوی مامور من اللہ ہونے کا کیے جاتے ہیں تو لامحالہ ان کی عقل میں فتو رہے اور یہ سحر زدہ یا مجنون ہی ہیں۔
Top