Madarik-ut-Tanzil - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کردیا۔ اور ایک مدت اسکے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا کے بارے میں) شک کرتے ہو۔
خالق وہی پھر بھی شک میں پڑے ہیں : آیت 2: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ۔ من یہ ابتدائے غایت کے لیے ہے۔ یعنی ابتداء خلق اصلکم ای ٰادم منہ تمہارے اصل آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش اسی سے کی۔ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلاً پھر مدت موت کا فیصلہ کیا۔ وَاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ وقت معین سے قیامت مراد ہے۔ نمبر 2۔ پہلے اجل سے مراد پیدائش سے موت تک اور دوسرے اجل سے موت وبعث کے مابین اور وہ برزخ ہے۔ نمبر 3۔ اول نیند ٗ ثانی موت۔ نمبر 4۔ ثانی سے بھی اول ہی مراد ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے و ہواجل مسمی ای معلوم وہ وقت مقرر یعنی معلوم ہے۔ : اجل مسمی مبتداء اور خبر عندہٗ ہے اور مبتداء کو نکرہ ہونے کے باوجود مقدم کردیا۔ کیونکہ خبر ظرف ہے اور ظرف مؤخر ہی ہوتا ہے۔ اور نکرہ کی صفت آجانے سے وہ معرفہ کے قریب ہوگیا۔ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَپھر تم شک میں پڑے ہو۔ تمترون مریۃ سے ہے۔ نمبر 2۔ مراء سے ہے جس کا معنی جھگڑا کرنا۔ ثم استبعاد کے لیے ہے۔ اس بات سے کہ وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ثابت ہوچکا کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو زندہ کرنے والے موت دینے والے اور ان کو اٹھانے والے ہیں۔
Top