Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت ٹھہرائی اور مدت مقررہ اسی کے علم میں ہے پھر تعجب ہے کہ تم کج بحثیاں کرتے ہو
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلاً ط وَاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ ۔ (وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت ٹھہرائی اور مدت مقررہ اسی کے علم میں ہے پھر تعجب ہے کہ تم کج بحثیاں کرتے ہو) (الانعام : 2) انسان کی حقیقت اس آیت کریمہ میں مختلف حقائق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ سب سے پہلی حقیقت یہ کہ اللہ جو ساری کائنات کا خالق ہے ‘ وہی اے انسانو ! تمہارا بھی خالق ہے۔ لیکن ذرا اس کے کمال تخلیق کو ملاحظہ کرو کہ اس نے تمہیں مٹی سے بنایا۔ جیسے باقی ارضی مخلوقات کا آغاز مٹی سے ہی ہوا ‘ لیکن انسان کو بطور خاص اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا فرما کر جن صلاحیتوں اور جن کمالات سے نوازا ہے ‘ اگر کبھی تمہیں اس کا ادراک ہوتا تو تم کبھی اپنے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے۔ ذرا اپنی حالت پر غور کرو کہ تم شاید تمام مخلوقات کی نسبت زیادہ کمزور اور بےبس پیدا کیے گئے ہو۔ پیدائش کے فوراً بعد نہ تم کسی کو پہچان سکتے ہو ‘ نہ تم اپنی غذا حاصل کرسکتے ہو۔ تم سراسر اپنے والدین کے رحم و کرم پر ہو۔ لیکن جب تم پروان چڑھ جاتے ہو اور جوان ہونے کے بعد علمی اور عملی زندگی میں مصروف ہوجاتے ہو اور پھر تمہاری صلاحیتوں کو بروئے کار آنے کا موقع ملتا ہے۔ تو ایسی ایسی حیرت انگیز ایجادات ‘ تمہاری ذہنی قابلیت کے نتیجے میں وجود میں آتی ہیں کہ دیکھنے والا حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ تم نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کی ہے ‘ تم نے تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیا ہے ‘ تم نے کمپیوٹر کی صورت میں انسانی دماغ کا متبادل تیار کردیا ہے ‘ تم نے زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ایجادات سے انسانی زندگی کو مالامال کیا ہے ‘ لیکن اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں ‘ یہ کمال اس خالق کا ہے ‘ جس نے تمہارے اندر یہ صلاحیتیں پیدا فرمائی ہیں۔ اب بجائے اس کے کہ تم اس کی شکرگزاری کرتے ہوئے ‘ اس کی معرفت پیدا کرو اور پھر اس کی خوشنودی کے حصول کو زندگی کا مقصد بنا لو ‘ تم ہو کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو دوسری بات اس کے ساتھ ہی جس کی طرف متوجہ کیا گیا ‘ وہ یہ ہے کہ انسان کی خودسری کا عالم یہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے اکڑ جاتا ہے اور اس کے احکام کو توڑتا ہے جبکہ اس کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔ اگر انسان میں ذرا بھی خودشناسی کا جوہر ہوتا تو اس کی اپنی بےحقیقتی اس کی نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے تھی کہ مٹی سے پید اہونے والی مخلوق کو کیا یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنے اندر غرور اور نخوت پیدا کرے۔ اسے تو اپنی حقیقت کو محسوس کر کے سراپا انکسار ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی خدا رسیدہ درویش بےخیالی میں جا رہا تھا کہ سامنے سے آنے والے ایک متکبر آدمی سے ٹکرائو ہوگیا۔ اس متکبر آدمی نے غصے میں لال پیلا ہو کر کہا کہ تمہیں کچھ معلوم ہے ‘ میں کون ہوں ‘ تم اندھے ہو ‘ تمہیں معلوم نہیں کس سے ٹکرا رہے ہو ؟ اس درویش نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ جی ہاں ! میں جانتا ہوں ‘ آپ کون ہیں اس نے کہا کہ تم کیا جانتے ہو ؟ درویش نے کہا : جی میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کی تخلیق ایک گندے پانی سے ہوئی ‘ پھر جب تک آپ ماں کے پیٹ میں رہے ‘ گندہ خون آپ کی غذا رہا ‘ پھر جب آپ دنیا میں تشریف لے آئے تو اس وقت سے لے کر آج تک آپ کا حال یہ ہے کہ آپ رسیلے پھلوں کو کھاتے ہیں ‘ خوشبودار نعمتوں سے شادکام ہوتے ہیں اور نجانے کیسی کیسی نعمتیں آپ کی بھوک کی نذر ہوتی ہیں۔ لیکن پیٹ میں کچھ وقت گزرنے کے بعد یہی رنگا رنگ نعمتیں سڑ کر تعفن دینے لگتی ہیں اور وہ دن دور نہیں ‘ جب آپ کی موت آپ کی زندگی کا خاتمہ کر دے گی تو گھر والے آپ کو ایک بےکار چیز سمجھ کر قبر میں چھوڑ آئیں گے اور پھر قبر میں آپ کے جسم کو حشرات الارض کھائیں گے ‘ یہ ہے آپ کی زندگی کی حقیقت اور میں یہی جانتا ہوں۔ اگر آپ اس کے سوا کچھ اور ہیں تو وہ آپ فرما دیجئے۔ تیسری بات جو اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمائی گئی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ تم خوب جانتے ہو کہ تمہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور یہ بھی تمہارا دعویٰ ہے کہ تم قبروں میں جانے کے بعد مٹی ہوجاؤ گے۔ لیکن اس سے جو تم نتیجہ نکالتے ہو ‘ اس سے زیادہ بےوقوفی کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ تم مٹی سے پیدا تو ہوئے ہو ‘ لیکن قبر میں جب دوبارہ مٹی ہوجاؤ گے تو تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کیا جاسکتا ؟ ذرا سوچو کہ اس سے زیادہ نادانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اگر تمہیں پہلے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے تو آخر اب دوبارہ مٹی سے پیدا ہونے میں کیا رکاوٹ ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا : وَاِنْ تَعَجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْْ ئَاِذَا کُنَّا تُرَابًا ئَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ (الرعد : 5) (اور اگر تم تعجب کرنا چاہو تو نہایت ہی عجب ہے ‘ ان کی یہ بات کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ نئی خلقت میں آئیں گے ؟ ) ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے چوتھی بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ‘ وہ یہ ہے ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلاً ط ” پھر ایک مدت مقرر کردی گئی “ یعنی انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ جب تک چاہے ‘ اس دنیا میں رہے بلکہ اس کی ایک مدت مقرر ہے ‘ جو اسے اس دارالعمل میں عمل کرنے اور آخرت کی تیاری کے لیے دی گئی ہے۔ اصلاً جو اس کی منزل ہے ‘ وہ آخرت ہے۔ یہاں تو ایک مختصر قیام ہے اور وہ بھی آخرت کی تیاری میں صرف ہوگا ‘ جو مستقل زندگی ہے۔ توجہ یہ دلائی جا رہی ہے کہ باقی حقائق کی طرح موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان اس بات کو جانتے ہوئے بھی اپنی موت سے کبھی نہیں ڈرتا اور کبھی بھول کر بھی اسے یہ خیال نہیں آتا کہ میں تو یہاں ایک خاص پیریڈ کے لیے بھیجا گیا ہوں ‘ جیسے ہی یہ گزرے گا ‘ مجھے واپس بلا لیا جائے گا۔ پھر اس گزرے ہوئے پیریڈ کا وہاں جا کر حساب بھی دینا ہے ‘ آخر میں نے اس کی کیا تیاری کی ہے ؟ مزید اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اے مشرکینِ عرب ! تمہیں قیامت آنے کا یقین پیدا نہیں ہوتا بلکہ تم اسے خلاف عقل یا عقل سے مستبعد سمجھتے ہو ‘ لیکن تمہیں یہ سامنے کی بات کیوں دکھائی نہیں دیتی کہ روز تمہارے سامنے جنازے اٹھتے ہیں ‘ قبریں بنتی ہیں ‘ ایک موت کا ہمہ گیر قانون ہے ‘ جس نے پوری انسانی آبادی کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اور ہر فرد اپنی اپنی باری پر مرنے پر مجبور ہے ‘ کسی کو بھی اس سے مجال انکار نہیں۔ لیکن اس سے جو نتیجہ قبول کرنا چاہیے ‘ وہ نجانے تمہیں قبول کرنے میں کیوں عذر ہے کہ جب اس دنیا میں ایک ایک کر کے انسان مر رہا ہے تو آخر سب کا ایک ہی دن مرجانا ‘ تمہارے لیے قابل قبول کیوں نہیں ؟ اور یہ سب کا ایک دن مرنا ‘ وہی ہے ‘ جس کو اجل مسمیٰ کیا گیا اور اس کا علم کسی کو نہیں دیا گیا۔ اس کا آنا یقینی ہے ‘ لیکن متعین وقت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ وہ اجل مسمی اللہ کے پاس ہے اور وہی تمہاری حقیقی منزل ہے۔ یہاں تمہیں اسی کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ وہاں تمہیں اسی کی عدالت سے واسطہ پڑے گا ‘ وہ اس دن تم سے پوچھے گا کہ جن کو تم نے شریک بنا رکھا تھا ‘ بتلائو وہ کہاں ہیں ؟ انھیں بلائو تاکہ وہ تمہاری مدد کریں۔ قرآن میں اجل مسمیٰ کا مفہوم اجلِ مسمیٰ کا لفظ مختلف معنی میں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ ایک تو اسی معنی میں جس کا ابھی ذکر ہوا۔ یعنی قیامت کے معنی میں۔ دوسرا اسکا معنی وہ مقررہ پیمانہ ہے ‘ جو کسی قوم کے اخلاقی زوال کی اس آخری حد کی خبر دیتا ہے ‘ جب قانون الٰہی حرکت میں آ کر اس کو تباہ کردیتا ہے۔ یہ پیمانہ افراد کی مدت حیات کیطرح نہیں ہے کہ کوئی نیک ہو یا بد ‘ جو مدت حیات اس کے لیے مقرر ہے ‘ اس کے ختم ہوجانے پر وہ لازمً مرجاتا ہے۔ بلکہ یہ اخلاقی قوانین کے تابع ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنے ایمان و کردار کو محفوظ رکھے گی ‘ خدا اس کو قائم رکھے گا ‘ یہاں تک کہ وہ اجل مسمیٰ آجائے ‘ جو اس پوری کائنات کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔ اس پیمانہ کے اخلاقی ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک قوم کا پیمانہ لبریز ہونے کی آخری حد تک پہنچ رہا ہو اور اس کی اجل مسمیٰ آئی کھڑی ہو ‘ لیکن سوئی کے آخری نکتہ پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ قوم توبہ اور اصلاح کے ذریعہ سے اپنے زندہ رہنے کا حق بحال کرلے۔ گویا یہ قوموں کے عروج وزوال کا پیمانہ ہے اور انسانی تاریخ ہر دور میں اس کی شہادت دیتی ہے۔ ہمارے سامنے روس کے زوال کا سفر اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا اور چند سال پہلے کوئی ہوش مند اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اسی طرح امریکہ اور بعض دوسرے ملکوں کو ان کی طاقت نے بدمست کردیا ہے۔ پوری دنیا میں جس طرح انھوں نے ظلم کی رات تان رکھی ہے ‘ اس کو دیکھتے ہوئے ‘ یہ پیش گوئی کرنا کوئی مشکل نہیں کہ ایسی قومیں دیر تک عروج آشنا نہیں رہتیں۔ دینی جماعتوں کے لیے اجل مسمیٰ جس طرح قوموں کے عروج وزوال اور افراد کی حیات و ممات کے حوالے سے ایک اجل مسمیٰ ہے۔ اسی طرح خیر کی قوتوں اور غلبہ دین کے کام کرنے والوں کے لیے بھی ایک اجل مسمیٰ ہے۔ کیونکہ کوئی کام اچھا ہو یا برا ‘ باقی مخلوقات اور اعمال کے لیے ‘ اللہ نے جو قوانین مقرر کر رکھے ہیں ‘ وہ ان سے باہر نہیں۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ اس نے جس طرح ہر قوم کے لیے ایک اجل مقرر کی ہے۔ اسی طرح اس نے ہر چیز اور ہر کام کے لیے ‘ ایک اجل مقرر کی ہے۔ آپ چولہے پر ابلنے کے لیے پانی کی ہنڈیا چڑھاتے ہیں ‘ اس کو گرم کرنے کے لیے نیچے آگ جلاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ پانی ابلنے میں نہیں آیا تو آپ بےصبرے ہونے لگتے ہیں اور بعض دفعہ آگ بجھا کر اٹھ جاتے ہیں۔ آپ کا یہ عمل قیامت تک بھی ‘ ہنڈیا میں ابال نہیں آنے دے گا کیونکہ ہنڈیا کے ابلنے کے لیے ایک اجل ‘ یعنی وقت مقرر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اس پانی کو وہ مطلوبہ حرارت پہنچ جائے گی ‘ جو اس کے ابلنے کے لیے ضروری ہے تو تب یہ پانی ابلے گا اور جب تک یہ حرارت اسے میسر نہیں آتی ‘ وہ کبھی نہیں ابلے گا۔ چاہے آپ بےدلی سے کتنی ہی دفعہ ناتمام کوششیں کرتے رہیں۔ یہی حال دنیا میں خیر کی قوتوں کے نتیجہ خیز ہونے کا ہے کہ ان کی کامیابی کے لیے جتنی جدوجہد ‘ جتنا اخلاص ‘ جتنی سرفروشی اور جتنی قربانی کی ضرورت ہے ‘ جب تک اس حد تک یہ ضرورت پوری نہیں کی جائے گی ‘ اس وقت تک اس کے نتیجہ خیز ہونے کی اجل نہیں آئے گی۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھ لیجئے کہ حدیبیہ میں ‘ جہاں چودہ سو سے زیادہ مسلمان آنحضرت ﷺ کے ہم رکاب تھے ‘ آپ کو اطلاع دی گئی کہ پانی بالکل ختم ہوگیا ہے۔ نہ پینے کو ہے اور نہ وضو کرنے کو۔ ڈھور ڈنگر پیاس کی وجہ سے بلک رہے ہیں اور سب مسلمان پریشان ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس انصاری صحابی کو بلائو ‘ جو میری ضرورت کے لیے پانی اپنے پاس رکھتا ہے۔ جب ان انصاری صحابی کو بلایا گیا تو معلوم ہوا کہ پانی ان کے پاس بھی ختم ہوچکا ہے۔ تب آپ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا اور اپنا دست مبارک اس میں رکھا اور ان انصاری صحابی کو حکم دیا کہ اپنا مشکیزہ میرے ہاتھ پر الٹ دو ۔ چناچہ مشکیزہ الٹا گیا ‘ اس میں سے چند قطرے پانی کے گرے۔ ان قطروں نے جیسے ہی حضور ﷺ کے ہاتھ کو مس کیا ‘ پانچ فوارے ہاتھ سے پھوٹے ‘ پیالہ پانی سے بھر گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ اپنے اپنے برتن بھر لو۔ چناچہ چودہ سو آدمیوں نے اپنی ضرورت کے مطابق پانی جمع کیا۔ لیکن پیالہ اس وقت تک ابلتا رہا جب تک حضور نے ہاتھ نہیں اٹھا لیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فواروں کا ابلنا یقینا آنحضرت ﷺ کا معجزہ تھا اور اللہ کی طرف سے تائید و نصرت۔ لیکن اس کے لیے یہ کیا ضروری تھا کہ مشکیزہ آپ کے ہاتھوں پر الٹا جاتا ؟ اصل میں بتانا یہ مقصود تھا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کی طرف سے تمہیں تائید و نصرت سے نوازا جائے تو اس کا قانون یہ ہے کہ اپنے پاس موجود صلاحیتوں ‘ توانائیوں اور سرفروشیوں کے آخری قطرے تک کو جب تک تم اللہ کے راستے میں نچوڑ نہیں دو گے ‘ اس وقت تک اللہ کی طرف سے تائید و نصرت نہیں آئے گی ؎ بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
Top