Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو مٹی سے، پھر اس نے مقرر فرما دی ایک مدت (تمہاری موت کی) اور ایک اور مدت بھی اس کے یہاں طے شدہ ہے، (تو کیا) پھر بھی تم لوگ شک کرتے ہو1
4 انسان کا خود اپنا وجود دلائل توحید کا ایک عظیم الشان مجموعہ : سو توحید خداوندی کے عظیم الشان دلائل خود انسان کے اپنے وجود کے اندر موجود ہیں۔ سو اسی وحدہٗ لاشریک نے تم سب کو اس مٹی سے پیدا فرمایا کہ تم سب آدم کی نسل ہو۔ اور آدم کی تخلیق اس نے اسی مٹی سے فرمائی۔ نیز اس طرح کہ تمہارا مادئہ تولید خون سے بنتا ہے جو کہ تیار اور حاصل ہوتا ہے ان مختلف غذاؤں سے جو کہ سب کی سب بالواسطہ یا بلا واسطہ زمین سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ پھر اس وحدہ لا شریک کی اس بےمثال قدرت کا یہ مظہر دیکھو کہ کہاں پاؤں تلے روندی جانے والی یہ بےحس و بےجان مٹی اور کہاں اس سے وجود میں آنے والا اور بےپناہ صلاحیتوں کا مالک یہ انسان ؟ پھر بھی اس خالق ومالک کی قدرت میں شک یا اس کی بخشش و عطا کا انکار یا اس میں دوسروں کو اس کا ہمسر و شریک ماننا ؟ اس سے بڑھ کر ظلم اور ناانصافی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ ـ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ پاک کی توحید اور اس کی وحدانیت ویکتائی اور اس کی عظمت شان اور جلالت قدر اور اس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کے دلائل خود انسان کے اپنے وجود کے اندر موجود ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } ۔ یعنی " خود تمہاری جانوں کے اندر عظیم الشان دلائل قدرت و حکمت موجود ہیں تو کیا تم لوگ آنکھیں نہیں کھولتے ؟ "۔ سو انسان اگر خود اپنی ذات میں غور و فکر سے کام لے تو اس کو اپنا وجود قدرت کی رحمتوں، عنایتوں اور دلائل وبراہین کا ایک عظیم الشان مجموعہ نظر آئے لیکن برا ہو غفلت اور لاپرواہی کا کہ انسان غور و فکر سے کام لیتا ہی نہیں ۔ الا ما شاء اللہ ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 5 دو عظیم الشان اور طے شدہ مدتوں کا ذکر : سو اس ارشاد ربانی میں دو ایسی مدتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں طے شدہ ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے ایک مدت مقرر فرمادی اور ایک اور مدت اس کے یہاں طے شدہ ہے۔ یعنی تمہارے دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے کی اور بعث بعد الموت کی مدت۔ اور اس مدت کو اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ سو پہلی " اجل " سے مراد موت ہے اور دوسری سے مراد قیامت۔ (صفوہ وغیرہ) ۔ سو پہلی مدت کا تعلق فرد کی موت سے ہے اور دوسری کا اس پوری کائنات کی موت اور اس کے فنا وزوال سے ہے۔ سو جس طرح پہلی موت یعنی فرد کی موت کے وقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اسی طرح اس پورے عالم کی موت اور اس کے فنا وزوال کو بھی اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اور جس طرح اس پہلی مدت نے اپنے وقت پر بہرحال آکر رہنا ہے کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا، اسی طرح اس دوسری مدت کو بھی کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اور جس طرح اس پہلی مدت کے بعد کوئی اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا اسی طرح اس دوسری مدت کے بعد بھی کسی کی واپسی کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آنے والے اس وقت کے لئے تیاری کرے قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ نیز جب اس نے تم سب لوگوں کو پہلی مرتبہ پیدا کرلیا ہے تو وہ تم کو دوبارہ آخر کیوں نہ پیدا کرے گا ؟ جبکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ پیدا کرنے کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ آسان ہے ۔ اَللّٰہُمَّ فَزِدْنَا اِیْمَانًا وَّ یَقِیْنًا وَّخُشُوْعًا وَّخُضُوْعًا - 6 دلائل کا تقاضا صدق ایمان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا پھر بھی تم لوگ شک کرتے ہو ؟ یعنی یہ جاننے کے باوجود یعنی ایسا کرنا بہت تعجب کی بات ہے۔ { ثُمَّ } استِبْعاد کے لئے ہے اور { تَمْتُرُوْنَ } " مِرْیہ " سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے جس کے معنیٰ شک کرنے کے آتے ہیں اور " مراء " سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے جس کے معنیٰ جھگڑا کرنے کے آتے ہیں۔ معنیٰ دونوں صورتوں میں واضح ہے۔ (صفوہ، مدارک، قرطبی وغیرہ) ۔ سو ان دلائل قدرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان شک و ریب کی دلدل سے نکل کر اور بحث و مباحثہ سے بچ کر صدق دل سے ایمان لائے اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہوجائے ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق ۔ سو جس خدا نے تم لوگوں کو مٹی سے پیدا فرمایا اور نیست سے ہست کیا آخر وہ تم کو دوبارہ کیوں نہ پیدا کرسکے گا ؟۔ سو وہ تم کو دوبارہ پیدا کرسکتا ہے اور ضرور پیدا کرے گا تاکہ تم کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور علی وجہ التمام والکمال پورے ہوں۔ اور اس کے لئے اس نے ایک وقت مقرر فرما رکھا ہے جس کا علم اسی وحدہٗ لاشریک کے پاس ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس کا تقاضا ہے صدق ایمان اور صالح اعمال ۔ وباللہ التوفیق -
Top