Dure-Mansoor - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا کیچڑ سے، پھر اجل مقرر فرمائی اور اس کے پاس ایک اجل مقرر ہے، پھر تم شک کرتے ہو۔
(1) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ھوالذی خلقکم من طین یعنی آدم (علیہ السلام) (مٹی سے پیدا ہوئے) لفظ آیت ثم قضیٰ اجلا یعنی موت کی مدت لفظ آیت واجل مسمی عندہ یعنی قیامت کی مدت بھی مقرر ہے جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (2) امام فریابی، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور حاکم نے (اور آپ نے اس کی تصحیح بھی کی ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ثم قضی اجلا یعنی دنیا کی مدت اور دوسرے لفظ پر موت کا مقرر وقت بھی مذکور ہے۔ لفظ آیت واجل مسمی عندہ یعنی آخرت کی مدت بھی مقرر ہے جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (3) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت قضی اجلا سے مراد ہے نیند اللہ تعالیٰ اس میں روح قبض کرلیتے ہیں پھر اس کے جاگنے کے وقت اس کی طرف واپس لوٹا دیتے ہیں۔ لفظ آیت واجل مسمی عندہ یعنی انسان کے موت کے وقت۔ (4) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ھوالذی خلقکم من طین سے مراد ہے کہ یہ پیدائش کی ابتدا کا ذکر ہے۔ جب آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا پھر فرمایا لفظ آیت ثم جعل نسلہ من سللۃ من ماء مھین اور فرمایا لفظ آیت ثم قضی اجلا واجل مسمی عندہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد تیری زندگی کا مقرر وقت موت تک ہے۔ اور تیری موت سے لے کر تیرے (دوبارہ) اٹھنے کے دن تک لفظ آیت ثم انتم تمترون پھر بھی تم اس میں شک کر رہے ہو۔ (5) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ثم قضی اجلا یعنی دنیا کی موت کی مدت لفظ آیت واجل مسمی عندہ یعنی آخرت میں (دوبارہ) اٹھائے جانے کا مقرر وقت۔ (6) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے قتادہ و حسن رحمۃ اللہ علیہا دونوں حضرات سے روایت کیا کہ لفظ آیت ثم قضی اجلا سے مراد ہے دنیا کی مدت کو پورا ہوتا تیرے پیدا ہونے سے لے کر (تیری) موت تک لفظ آیت واجل مسمی عندہ میں قیامت کے دن۔ (7) امام ابو الشیخ نے یونس بن یزید ایلی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ثم قضی اجلا سے مراد ہے۔ جب پیدا فرمایا چھ دنوں میں لفظ آیت واجل مسمی عندہ سے مراد ہے کہ اس کے بعد جو قیامت کے دن تک تخلیق فرمائے گا۔ (8) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ثم انتم تمترون یعنی تم شک کرتے ہو۔ (9) امام ابن ابی حاتم نے خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ثم انتم تمترون یعنی تم دوبارہ اٹھنے میں شک کرتے ہو۔ کتاب اللہ کا مذاق اڑانا بدترین گناہ ہے (10) امام ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت وما تاتیھم من ایۃ من ایت ربھم الا کانوا عنھا معرضین یعنی کتاب اللہ میں سے جو بھی چیز تمہارے پاس آئی تو تم نے اس سے اعراض کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت فقد کذبوا بالحق لما جاء ھم فسوف یاتیھم انبوا ما کانوا بہ یستھزء ون یعنی عنقریب ان کے پاس قیامت کے دن خبریں آئیں گی جو وہ کتاب اللہ عزوجل کے ساتھ مذاق بنایا کرتے تھے۔
Top