Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 31
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن مِّنَ : سے الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں (گنہگاروں) وَكَفٰى : اور کافی ہے بِرَبِّكَ : تمہارا رب هَادِيًا : ہدایت کرنیوالا وَّنَصِيْرًا : اور مددگار
اور اسی طرح ہم نے مجرموں میں ہر نبی کے دشمن بنائے اور تیرا رب رہنمائی اور مدد کے لئے کافی ہے
نبی ﷺ کو تسلی یہ نبی ﷺ کو تسلی دی گی ہے کہ یہ اشقیاء تمہاری مخالفت جو کر رہے ہیں یہ ابنیائ کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر دور کے مجرمین نے اسی طرح اپنے اپنے رسولوں کی مخالفت کی ہے۔ لفظ مجرمین اوپر آیت 24 میں گزر چکا ہے۔ یہ لفظ ان گمراہ کرنے والے لیڈروں کے لئے استعمال ہوا ہے جن کا رویہ اس سورة میں زیر بحث ہے۔ فرمایا کہ یہی جرائم پیشہ لوگ ان تمام فسادات کے ذمہ دار ہوتے ہیں جن کی نبی اصلاح کرنا چاہتا ہے اور ان تمام مفاسد سے ان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے اس وجہ سے دونبی کی دعوت کو ٹھنڈے پٹیوں نہیں برداشت کرتے بلکہ اپنے تمام اوچھے ہتھیاروں سے اس کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن تم اطمینان رکھو، تمہارا رب ہر مشکل میں تمہاری رہنمائی اور مدد کے لئے کافی ہے یہ بات چونکہ سنت الٰہی کے مطابق ہوتی ہے، اس لئے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اہل باطل کو بھی ایک حد خاص تک زور آزمائی کی مہلت دی ہے، اس وجہ سے اس کو منسوب اپنی طرف فرمایا ہے۔ اس سنت الٰہی کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آ رہے ہیں۔ انعام کی آیت 113 میں یہ مضمون زیادہ وضاحت سے گزر چکا ہے۔ تفصیل کے طالب اس پر ایک نظر ڈال لیں۔
Top