Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 30
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۠
وَلَا تَهِنُوْا : اور ہمت نہ ہارو فِي : میں ابْتِغَآءِ : پیچھا کرنے الْقَوْمِ : قوم (کفار) اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ : تمہیں دکھ پہنچتا ہے فَاِنَّھُمْ : تو بیشک انہیں يَاْ لَمُوْنَ : دکھ پہنچتا ہے كَمَا تَاْ لَمُوْنَ : جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے وَتَرْجُوْنَ : اور تم امید رکھتے ہو مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا لَا : جو نہیں يَرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا
قیامت کے دن نبی ﷺ کا اپنے رب سے شکوہ رسول سے مراد نبی ﷺ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو قرآن کو جھٹلانے والے خود اپنی بدبختی پر اپنے سرپیٹیں گے۔ دوسری طرف نبی ﷺ بھی اپنے رب سے شکوہ کریں گے کہ اے رب ! میں نیتیری کتاب، پوری دلسوزی کے ساتھ، اپنی اس قوم کے سامنے پیش کی لیکن ان لوگوں نے اس کی کوئی قدر نہیں کی بلکہ نہایت ناقدری کے ساتھ اس کو ٹھکرا دیا۔ حضور کا یہ شکوہ ان اشقیار کے تابوت میں آخری کیل ہوگا جس کے بعد ان کے لئے زبان کھولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی۔ یہ بات سورة مائدہ میں تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے کہ قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی قوموں کے معاملہ میں گواہی دیں گے۔
Top