Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 31
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن مِّنَ : سے الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں (گنہگاروں) وَكَفٰى : اور کافی ہے بِرَبِّكَ : تمہارا رب هَادِيًا : ہدایت کرنیوالا وَّنَصِيْرًا : اور مددگار
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے کوئی نہ کوئی دشمن بنایا اور تیرا رب ہدایت دینے والا اور مدد کرنے والا کافی ہے۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ : چونکہ اس شکایت میں دل کی جلن اور شدید غم کا اظہار تھا، اس لیے اس آیت میں نبی ﷺ کو اور مسلمانوں کو تسلی دی کہ قرآن کو چھوڑنے والوں کا یہ طرز عمل صرف تمہارے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسے ہی رہا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (112، 123)۔ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا : اس میں آپ ﷺ کو دو بشارتیں دی ہیں، ایک یہ کہ جو لوگ اب اعراض کر رہے ہیں ان میں سے کئی ہدایت قبول کریں گے، یا ان کی پشتوں سے آنے والے ہدایت قبول کریں گے، جیسا کہ پہاڑوں کے فرشتے نے اللہ کے حکم سے آکر رسول اللہ ﷺ کو پیش کش کی کہ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر مکہ کے دو پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : (بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلاَبِھِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا) [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین۔۔ : 3231 ] ”بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے۔“ اور دوسری بشارت نصرت الٰہی کی ہے۔ ”وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا“ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اپنے سارے کام اس کے سپرد کر دو ، کیونکہ ہدایت و نصرت کے لیے کفایت کرنے والا وہی ہے۔ (ابن عاشور)
Top