Tafseer-e-Haqqani - Al-Furqaan : 31
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن مِّنَ : سے الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں (گنہگاروں) وَكَفٰى : اور کافی ہے بِرَبِّكَ : تمہارا رب هَادِيًا : ہدایت کرنیوالا وَّنَصِيْرًا : اور مددگار
اور ہم یونہی مجرموں کو ہر ایک نبی کا دشمن بناتے رہے ہیں۔ اور (لوگوں کی) رہنمائی کرنے کو (انبیاء) مدد کرنے کو آپ کا رب کافی ہے
ترکیب : جملۃ واحدۃ حال من القرآن اے مجتمعاً ۔ کذلک اے انزل کذلک فالکاف فی موضع نصب علی الحال لنثبت اللام تتعلق بالفعل المحذوف۔ لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں ان عام الفاظ میں کسی شخص خاص کی طرف بھی اشارہ ہے اور یہ ہوسکتا ہے پھر اس شخص خاص سے مراد وہ کہتے ہیں عقبہ ابن ابی معیط ہے کہ جب وہ سفر سے آتا تھا تو دعوت دیا کرتا تھا۔ چناچہ ایک بار اس نے آنحضرت ﷺ کو بلایا آپ نے اس کے کفر کی وجہ سے انکار کیا۔ اس نے کلمہ شہادت پڑھ لیا تب آپ تشریف لے گئے۔ اس کی خبر ابی بن خلف کو بھی ہوئی وہ اس کا بڑا دوست تھا اس نے اس کو بڑی ملامت کر کے اسلام سے برگشتہ کرا دیا اور حضرت ﷺ کی گستاخی پر آمادہ کیا (اس قصہ کو معالم التنزیل وجلالین وغیرہ کتابوں میں نقل کیا ہے اور ابن جریر نے بھی ابن عباس ؓ سے ایسا ہی نقل کیا ہے) اس تقدیر پر ظالم سے مراد عقبہ اور فلاں سے مراد ابی بن خلف کافر ہے۔ وقال الرسول الخ جب کفار نے آنحضرت ﷺ کو طرح طرح سے ستایا تو آپ نے بددعا تو نہ کی کیونکہ رحمۃ للعالمین تھے مگر خدا تعالیٰ سے شکایت کی جس کو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نقل کرتا ہے ابو مسلم اصفہانی کہتے ہیں یہاں قال بمعنی یقول ہے یعنی قیامت میں آنحضرت ﷺ ان لوگوں کی یوں شکایت کریں گے جیسا کہ آیا ہے فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید جئنا بک علی ھؤلاء شہیدا مہجورا بمعنی متروک اور ہجر بمعنی ہذیان بھی ہوسکتا ہے کہ اس قرآن کی بابت انہوں نے بےہودہ اور لغو باتیں بنائیں کبھی وہ اس کو سحر کہتے تھے ‘ کبھی ازخود بنایا ہوا ‘ کبھی اگلے لوگوں کی کہانیاں۔ وکذالک جعلنا الخ اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت کو آپ کی شکایت پر تسلی دیتا ہے اور صبر اور برداشت پر آمادہ کرتا ہے کہ یہ کچھ نئی بات نہیں ہمیشہ سے ہر ایک نبی کے کافر سخت دشمن ہوتے آئے ہیں آپ اطمینان رکھیں اللہ آپ کی مدد کرنے کے لیے اور آپ کی قوم کو ہدایت کرنے کو کافی ہے وکفی بربک ھادیا ونصیرا۔ قرآن دفعۃً نازل نہ ہونے کے اسباب : وقال الذین کفروا الخ یہ ان کا قرآن مجید پر ایک اور شبہ تھا کہ یہ تھوڑا تھوڑا وقتاً فوقتاً کیوں نازل ہوتا ہے ایک ہی بار مجتمع ہو کر کیوں نہ نازل ہوا ؟ پس معلوم ہوا کہ محمد ﷺ ازخود سوچ سوچ کر تصنیف کرتے ہیں۔ اس کا جواب دیتا ہے کذالک لنثبت بہ فؤادک ورتلناہ ترتیلا کہ اس کے اس طرح نازل کرنے میں چند حکمتیں ہیں جن کی طرف اجمالاً اس جملہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ (1) آنحضرت ﷺ اور اکثر صحابہ لکھے پڑھے نہ تھے اگر یک بارگی اتنی بڑی کتاب نازل ہوتی تو حفظ نہ رہتی اس لکھے پر اعتماد رہتا۔ سو اگلی کتابوں کی طرح سے اس میں بھی تحریف و تبدیل ہوتی یا کسی حادثہ میں معدوم ہوجاتی پھر جب تھوڑا تھوڑا نازل ہوا تو دلوں میں جمتا گیا لوح حافظہ پر ثابت ہوتا گیا۔ لنثبت بہ فؤادک کے یہی معنی ہیں۔ اس لیے اس میں ایک نقطہ کا بھی فرق نہ آیا۔ (2) یہ کہ تمام احکام جو یکبارگی نازل ہوتے قوم کو ان پر ثابت و قایم رہنا شاق ہوجاتا۔ (3) وقتاً فوقتاً نئے نئے حوادث پیش آتے تھے اور جاہل قوم کی تربیت وتعلیم میں ایسی باتیں پیش آیا بھی کرتی ہیں پس ہر حادثہ میں جبرئیل کا کلام الٰہی لے کر آنا آپ کے لیے تقویت قلبی کا باعث تھا۔ (4) یکبارگی قرآن نازل ہوتا تو کفار مقابلہ میں کہہ سکتے تھے کہ اتنی بڑی کتاب ہم کیونکر لاسکتے ہیں لیکن جب تھوڑا تھوڑا نازل ہوا اور کسی ٹکڑے کا بھی جواب نہ بن سکا تو حضرت کا دل قوی ہوگیا ان کا عذر جاتا رہا۔ (5) حالت الہامی ایک عجیب حالت ہے تھوڑے نازل ہونے میں اخیر عمر تک حضرت ﷺ کو حاصل رہی جو قلبی تقویت کا باعث ہوا۔ ولا یاتونک بمثل سب اعتراضات کے جواب کے بعد خاتمہ کے طور پر فرماتا ہے کہ آپ کے پاس وہ جو کوئی مثل لاتے ہیں یعنی اعتراض کرتے ہیں تو ہم اس کے جواب میں آپ کو حق بات کھلی ہوئی بتلا دیتے ہیں الذین یحشرون فرماتا ہے ایسے لوگ اوند ہے منہ ہنکا کر جہنم میں ڈالے جائیں گے یہ لوگ بڑے شریر و گمراہ ہیں یہ ان کے اوندھے اعتراضات کا نتیجہ ہے جس کی سزا جہنم میں اوندھا گرنا ہے۔
Top