Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 31
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن مِّنَ : سے الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں (گنہگاروں) وَكَفٰى : اور کافی ہے بِرَبِّكَ : تمہارا رب هَادِيًا : ہدایت کرنیوالا وَّنَصِيْرًا : اور مددگار
اور اہم اسی طرح ہر نبی کے دشمن مجرم لوگوں میں سے بناتے رہتے ہیں،33۔ اور آپ کا پروردگار ہی کافی ہادی اور مددگار ہے،34۔
33۔ (اپنی تکوینی کے ماتحت) مطلب یہ ہے کہ ناحق شناس لوگ تو ہر زمانہ میں اپنے وقت کے پیغمبر کے دشمن رہے ہیں سو آپ کے بھی کفر پسند معاصرین آپ سے عداوت ٹھانے ہوئے ہیں آپ اس پر اتنا غم نہ کیجئے۔ عارفین کہتے ہیں چونکہ ہر ولی نبی ہی کے قدم پر ہوتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ولی کا بھی ایک عدو ہوتا ہے۔ 34۔ (چنانچہ جن کے لیے ہدایت منظور ہے انہیں ہدایت ہوتی رہے گی، اور مجرموں، سرکشوں سے مقابلہ کی جب ضرورت ہوگی، آپ کی مدد بھی ہوتی رہے گی) ” یعنی غم کے دو سبب ہوسکتے ہیں۔ ایک ان کا گمراہ رہنا، اور دوسرا ان کا درپے ایذا ہونا، سو اللہ تعالیٰ ہدایت کے لیے بھی کافی ہے اور اگر حکمت مقتضی ہوگی تو ہدایت کی توفیق دے دے گا۔ جب ہدایت نہیں ہوتی تو اسی میں حکمت ہے۔ اور ایذا کے دفع کرنے کے لیے بھی اللہ کافی ہے۔ اگر چندے دفع نہ کرے تو اسی میں حکمت ہوگی۔ غرض نہ اس سے غم کیجئے نہ اس سے “۔ (تھانوی (رح )
Top