Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 31
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن مِّنَ : سے الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں (گنہگاروں) وَكَفٰى : اور کافی ہے بِرَبِّكَ : تمہارا رب هَادِيًا : ہدایت کرنیوالا وَّنَصِيْرًا : اور مددگار
اسی طرح ہم نے جرائم پیشہ لوگوں میں سے ہر نبی کے دشمن بنائے اور آپ کا رب کافی ہے آپ کے لیے منزل مقصود تک پہنچانے والا اور مدد فرمانے والا
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ط وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّ نَصِیْرًا۔ (الفرقان : 31) (اسی طرح ہم نے جرائم پیشہ لوگوں میں سے ہر نبی کے دشمن بنائے اور آپ کا رب کافی ہے آپ کے لیے منزل مقصود تک پہنچانے والا اور مدد فرمانے والا۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی آنحضرت ﷺ کو کفار کے رویئے سے شکایت پر تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قریش اور دیگر اہل مکہ کا آپ ﷺ کے ساتھ سلوک کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ ہم نے جس نبی اور رسول کو بھی اہل دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے ان کی قوم میں سے بگڑے ہوئے اور سربرآوردہ لوگوں نے (جنھیں یہاں مجرمین کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ) اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے انتہائی ہمدردی اور خیرخواہی سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی اور خون کے گھونٹ پی پی کر انھیں راہ راست دکھانا چاہا، مگر ان لوگوں نے ان کی ہمدردی اور خیرخواہی کی قدر کرنے کی بجائے ہمیشہ ان کو اذیتیں پہنچائیں اور ان کا مذاق اڑایا۔ تو یہ لوگ اگر آپ کے ساتھ ایسا کررہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ اس راہ کی لازمی سنتیں ہیں اور یہ اس سفر کے لازمی تقاضے ہیں جن سے بہرحال عہدہ برآ ہونا پڑتا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ یہ سب کچھ ہماری مشیت اور حکمت کے مطابق ہورہا ہے۔ ہم نے یہی چاہا ہے کہ حق و باطل میں یہ کشمکش برپا رہنی چاہیے تاکہ اہل حق اس بھٹی سے کندن بن کر نکلیں اور اہل باطل کو یہ شکایت نہ رہے کہ ہمیں کسی نے سمجھانے بجھانے کی کوشش نہیں کی۔ اہل حق کے اجروثواب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے اور اہل باطل اپنے برے رویئے سے اپنی فائل موٹی کرتے رہیں۔ چناچہ سنت اللہ کے مطابق ہر دور میں حق کے مقابلے میں یہی کچھ ہوتا رہا اور آئندہ بھی یہی کچھ ہوگا۔ زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے یہ درس صلح دیتے ہیں وہ ان سے جنگ کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم نے آپ ﷺ کو مخالفین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کی مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ کی داعیانہ کاوشیں صبر اور استقامت کے ساتھ مسلسل جاری رہنی چاہئیں۔ لیکن جہاں اسباب کی دنیا ٹوٹتی دکھائی دے گی اور ایسا معلوم ہوگا کہ قافلہ حق کسی بند گلی میں رک کر رہ گیا ہے تو آپ کا رب آپ کو منزل کا راستہ دکھائے گا۔ ان کی تدبیروں کے مقابلے میں آپ کو کامیاب تدبیریں سجھائے گا۔ ان کی سازشوں کے توڑ کے لیے محفوظ راستوں کی خبر دے گا، ان کی افرادی قوت کے مقابلے میں آپ کے دلوں کو مضبوطی سے باندھ دے گا ان کی تنظیم کو انتشار کا شکار بنا کر آپ کی صفوں میں استحکام پیدا کرے گا۔ اس کی تائید و نصرت قدم قدم پر آپ کے ہمرکاب ہوگی، ان کے وسائل کی فراوانی آپ کے وسائل کی قلت کے سامنے بےوزن ثابت ہوگی۔ غرضیکہ مدد و رہنمائی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے اللہ تعالیٰ آپ کو بہرہ ور نہیں فرمائے گا۔ بس آپ کا کام داعیانہ مساعی اور صبر و استقامت کے تقاضوں کو بروئے کار لانا ہے۔ البتہ ان کو سپھل کرنا اور مثمر بنانا یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اس وعدے کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ مخالفین کی مخالفت اور معاندت اہل حق کو شکست دے سکتی ہے۔
Top