بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
یاد رکھو جبکہ واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ۔ لَیْسَ لِوَقْعَتِھَا کَاذِبَـۃٌ۔ (الواقعۃ : 1، 2) (یاد رکھو جبکہ واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی۔ تو اس کے واقع ہونے کو کوئی جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ ) قیامت کا آنا یقینی ہے سورة قٓ سے لے کر گزشتہ سورة تک مسلسل ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وقوع قیامت کے بارے میں کیے جارہے تھے۔ اور اس قیامت کے واقع ہونے پر ہر طرح کے دلائل بھی پیش کیے گئے جن میں دلائلِ آفاق بھی اور دلائلِ انفس بھی۔ اخلاقی دلائل بھی ہیں اور عقلی دلائل بھی۔ اب بجائے وقوع پر دلیل دینے کے براہ راست یہ بات فرمائی گئی ہے کہ تم اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے قیامت کے وقوع کو تسلیم کرو یا نہ کرو اور تمہارے شبہات و سوالات کا جو جواب دیا گیا ہے ان پر اطمینان محسوس کرو یا نہ کرو، لیکن تمہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیامت کا آنا یقینی ہے۔ وہ اخلاقی ضرورت بھی ہے اور عقل کا تقاضا بھی۔ اور کائنات کے وجوہ کی توجیہ بھی۔ اور انسان کو مکلف مخلوق بنانے اور بیشمار نعمتوں سے نوازنے کا جواز بھی۔ اس لیے اس کا آنا ایسا حتمی اور یقینی ہے کہ جس سے انکار کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسی لیے قیامت کے لیے واقعہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ دوسری آیت میں اس کے واقعہ ہونے کے بارے میں کَاذِبَۃٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اگر اس کو اسم فاعل کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس قیامت کا آنا ایسا یقینی ہے کہ جب وہ قیامت آجائے گی تو اس کا جھٹلانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی کوشش کرے کہ اس کو روک دیا جائے اور اس حادثے کو وقوع پذیر نہ ہونے دیا جائے تو ایسا کرنا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ کَاذِبَـۃٌ کو عاقبۃ اور عافیۃ کی طرح مصدر سمجھا جائے۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے واقع ہونے میں کسی شک و شبہ اور جھوٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ محض ایک ڈراوا ہے اور اس لیے دیا جارہا ہے تاکہ لوگ راہ راست پر آجائیں تو یہ اس کی بھول ہے۔ یہ ایک امرواقعہ ہے جس سے بہرحال ہر شخص کو دوچار ہونا ہے۔
Top