بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
جبکہ واقع ہوجانے والی واقع ہوجائے (قیامت)
ترکیب : اذا والعامل فیھا اذکر اومادل علیہ لیس لوقعتہا کاذبہ ای اذاوقعت لم تکذب۔ اوھی ظرف لخافضۃ رافعۃ اذالثانیۃ تکریر للاولیٰ اوبدل منھا کاذبہ مصدر کالعافیۃ والعاقبۃ ھی اسم لیس۔ خافضۃ رافعۃ قرأ الجمہور بالرفع علی انھما خبر مبتداء محذوف و قریٔ بالنصب علی الحال من الضمیر فی کاذبۃ فی وقعت۔ فاصحاب المیمنہ مبتداء ما اصحاب المیمنۃ الجملۃ خبرولما کان الثانی عین الاول لم یحتج الی ضمیر الی المبتداء والسابقون مبتداء السابقون خبرہ قیل الثانی لغت للاول اوتکریر وتوکید اولئک الخ الجملۃ خبر۔ فی جنات النعیم خبرثان اوحال من الضمیر فی المقربون اوظرف قرأ الجمہور جنات بالجمع و قریٔ بالافراد واضافۃ الجنات الی النعیم من اضافۃ المکان الی مافیہ کدارالضیافۃ۔ تفسیر : یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے ابن عباس و ابن الزبیر ؓ و حسن و عکرمہ و جابر و عطا کا یہی قول ہے۔ قتادہ کہتے ہیں صرف یہ آیۃ وتجعلون رزقکم الآیہ مدینے میں نازل ہوئی۔ کلبی کہتے ہیں اس میں سے چار آیات افبہذا الحدیث الخ سفر مکہ میں نازل ہوئیں، باقی مدینے میں۔ پہلا قول قوی ہے۔ بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں اور حارث بن اسامہ اور ابویعلی اور ابن مرودیہ (رح) نے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی ہر ہر شب سورة واقعہ پڑھے گا اس کو کبھی فاقہ کشی کی نوبت نہ آئے گی۔ ابن عساکر (رح) نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے سورة واقعہ غنی کی سورة ہے اس کو پڑھو اور اپنی اولاد کو سکھائو۔ یہ اور اس قسم کی احادیث جو بیشتر فضائل میں مذکور ہیں محققین کے نزدیک صحت و قوت کے درجہ کو نہیں پہنچیں مگر ان کے مطالب میں ذرا بھی شک نہیں۔ کس لیے کہ ہر کلام و ہر کام کا دنیا میں بھی ایک اثر خاص ہے۔ کلام کے اس اثر کے سوا جو اصل مقصود ہے یعنی سامع یا مخاطب کے دل پر بیٹھ جانا ایک اور بھی اثر خصوصاً کلام اللہ کا بارہا تجربے میں آیا ہے۔ آج کل کے لوگ جو سائنس (علوم) کی ترقی کا دم بھرتے ہیں ان باتوں کے منکر ہیں مگر ابھی ان کے سائنس نے کامل ترقی نہیں کی جب کرے گا بہت سی باتوں کو جن کا وہ اب انکار کرتے ہیں اقرار کریں گے اور کرتے جا رہے ہیں۔ سورة الرحمن کے اخیر میں فرمایا تھا تبارک اسم ربک ذوالجلال والاکرام۔ اب اس سورة میں اس کے کامل جلال و اکرام کے ظاہر ہونے کا وقت بیان کرتا ہے کہ وہ کس دن ظاہر ہوگا ؟ فرماتا ہے اذاواقعت الواقعۃ الخ کہ جب ہونے والی گھڑی جو کسی طرح ٹلنے ہی کی نہیں آئے گی یا یوں کہو جنت کی نعمتیں اور وہاں کے اسباب عیش و آرام کا ذکر ہونے سے نفوس سامعین مشتاق ہو کر پوچھتے تھے کہ یہ کب ہوگا ؟ فرما دیا کہ جب قیامت آئے گی یعنی دوسرے جہان میں۔ اس جہان میں نہیں جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ جہان عیش و کامرانی کی جگہ نہیں۔ یہ جہان کوشش ‘ عمل اور تکالیف کی جگہ ہے جو بہت ہی تھوڑا زمانہ ہے۔ اس سورة میں زیادہ تر تیسرے مسئلہ قیامت کا ذکر ہے۔ واقعۃ قیامت کا نام ہے اس لیے کہ یہ ضرور واقع ہونے والی ہے۔ اسی طرح اس کا نام ازفۃ وغیرہا ہے لیس لوقعتہا کاذبۃ کہ اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔ یہ کلمہ واقعۃ کی تاکید ہے۔ زجاج کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور یہی حسن و قتادہ کا قول ہے اور یہ بھی کہ اس دن اس کو کوئی جھٹلانے والا نہیں ہوگا۔ پھر اس کی تصریح اور اس کے خواص بیان فرماتا ہے۔ خافضۃ کہ وہ گھڑی پست کرنے والی ہے بہت سے دنیا کے سربلندوں کو جو خدا تعالیٰ سے غافل اور اس کے منکر اور اس کے احکام کی پابندی نہیں کرتے، نیچا دکھائے گی۔ رافعۃ بلند کرنے والی بھی ہے۔ بہت سے لوگوں کو جو نیک ہیں اس روز سربلندی نصیب ہوگی گو وہ دنیا میں پست اور ذلیل تھے یہ کب ہوگا ؟ اذا رجت الارض رجا کہ جس دن زمین ہلے گی۔ رجۃ اضطراب و حرکت۔ و بست الجبال بسا اور پہاڑ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے، بس ٹکڑے ٹکڑے ہونا، ٹوٹنا۔ فکانت ہبائُ مُنْبَثًّا پھر وہ غبار اڑتا ہوا ہوجائیں گے۔ ہباء کے معنی غبار اور منبثا کے معنی منتشر ‘ اڑنے والا۔ حال کی فلاسفی کے بموجب بھی ایسا ہونا کچھ بعید از قیاس نہیں۔ حال کے منجموں نے دم دار ستاروں کی بابت تحقیق کر کے ان کے اجسام کا اندازہ ہزارہا حصے زمین سے بڑا ثابت کر کے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی حرکت ایسی تیز ہے کہ ایک دو منٹ میں ہزاروں کوس کا رستہ 1 ؎ طے کرتے ہیں اور ایک بار قریب تھا کہ یہ ستارہ زمین سے ٹکرا جائے مگر خیر گزری ورنہ زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی۔ پس اس روز اگر ایسا صدمہ آنے سے یہ ہوجائے تو کیا بعید ہے اس لیے خدائے قہار سے ہر وقت ڈرنا چاہیے کہ ایسے اجرام عظیمہ ٹکرا کر ہر ایک کو چورا چورا کردیں۔ ہر گھڑی یہ احتمال اور یہ دغذغہ لگا ہوا ہے۔ مگر یہ باتیں ظاہر بینوں کی ہیں جو عالم اجسام اور ان کے اسباب پر نظر رکھتے ہیں اور اس قادر مطلق کی بےانتہا قدرت اور طاقت کے آگے سب کچھ ممکن ہے۔ وکنتم ازواجاثلٰثۃ۔ اس روز دنیا فنا ہونے کے بعد جب دوسرا عالم یپدا ہوگا اور لوگ باردگر زندہ ہوں گے تو اے بنی آدم ! تمہاری تین قسم یعنی تین گروہ ہوجائیں گے۔ پھر آگے تین گروہوں اور ان کے حالات و درجات کا بیان کرتا ہے۔ فقال فاصحاب المیمنۃ ما اصحاب المیمنۃ ایک وہ جو تخت رب العالمین کے دائیں طرف کھڑے ہوں گے یا یہ معنی کہ ان کو نامہ اعمال دائیں طرف سے دیے جائیں گے یعنی دائیں والے یا یمن و برکت والے۔ یمن سے مشتق ہے یا یہ معنی کہ بلند مرتبے والے۔ عرب میں جو دائیں طرف سے چیز آتی تھی اس کو بہتر سمجھتے تھے اور بائیں طرف سے جو چیز آتی تھی اس کو نحوست پر محمول کرتے تھے اس لیے عمدہ اور بہتر یمین والی اور بری چیز شمال والی بطور استعارہ کے مراد ہونے لگی یعنی یمین والے کیا ہی عمدہ ہیں۔ واصحاب المشئمۃ ما اصحاب المشئمۃ اور بائیں 2 ؎ والے یا برے مرتبے والے شوم منحوس کیا ہی برے ہیں۔ یہ دوسرا فریق تھا۔ والسابقون الخ یہ تیسرا فریق ہے یعنی سب سے پہلے ایمان و نیکی اختیار کرنے والے یا سعادت و حسنات میں سبقت کرنے والے یا اگلے لوگ حضرات انبیاء (علیہم السلام) یا تخت رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونے والے وہی درجات میں سبقت کرنے والے ہیں وہی مقرب ہیں جو جنات النعیم میں رہیں گے۔ اب کلام اس میں ہے کہ ان تینوں گروہ میں کون کون داخل ہیں ؟ صحیح تر یہ ہے کہ اصحاب الیمین مومنین و صالحین ہیں خواہ امت محمدیہ کے ہوں علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام یا پہلی امتوں کے اور اصحاب الشمال کافرو منافق و گنہگار۔ 1 ؎ ایسی تیزحرکت کا کیا ٹھکانا ہے پھر اتنے بڑے جسم کا جو زمین سے بہت ہی بڑا ہو زمین کے کرہ سے ٹکرانا اگر قیامت برپا ہونا نہیں تو اور کیا ہے۔ 12 منہ 2 ؎ بائیں طرف کھڑے ہونے والے یا بائیں طرف سے نامہ اعمال پانے والے۔ 12 منہ
Top