بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے
1۔ 12۔ مشرکین مکہ قیامت کے منکر تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے چند سورتوں میں قیامت کا حال بیان فرما کر ان کے انکار کو توڑا ہے حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ اب تو یہ لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں لیکن جب قیامت قائم ہوجائے گی اور دوسرے صور کی آواز سن کر یہ لوگ قبروں سے ٹڈیوں کی طرح نکل کھڑے ہوں گے اور ان کے قبروں سے نکلتے ہی ایک آگ ان پر تعینات ہوجائے گی جو ان کو محشر کے میدان تک گھیر کرلے جائے گی۔ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں اس آگ کا ذکر ہے اگرچہ اس حدیث کے معنی میں دو قول ہیں ایک تو یہ ہے کہ یہ آگ علامات قیامت میں سے ہے جو قیامت سے پہلے عدن سے نکلے گی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قیامت کے دن قبروں سے اٹھنے کے وقت یہ آگ بد لوگوں کے ساتھ ہوگی۔ یہ دونوں قول اوپر بیان کئے جا چکے ہیں لیکن ابوہریرہ ؓ کی اس حدیث میں یوم القیامۃ کا لفظ موجود ہے جس سے دوسرے قول کی پوری تائید ہوتی ہے غرض اس آگ سے ان لوگوں کو میدان محشر میں اور دوزخ میں طرح طرح کی تکلیفیں پیش آئیں گی۔ اسی وقت ان کو اس انکار کی حقیقت کھل جائے گی کہ اس وقت یہ اپنی کسی تکلیف کو ٹال نہ سکیں گے قیامت کے حال میں اوتارتی چڑھاتی جو فرمایا۔ حضرت عبد 1 ؎ اللہ بن عباس کے قول کے موافق اسکا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ جو بڑھ چڑھ کر گزران کرتے اور اپنی اس دنیا کی خوشحالی کے سبب سے عقبیٰ سے بالکل غافل تھے قیامت کے دن وہ ذلیل و خوار ہوجائیں گے اور دنیا کی جس خوشحالی نے ان کو عقبیٰ سے غافل کردیا تھا اس دن کے عذاب کے آگے وہ دنیا کی چند روزہ خوشحالی ان کو یاد بھی نہ رہے گی۔ اسی طرح جو ایماندار لوگ دنیا میں گری ہوئی حالت سے اپنی گزر کرتے تھے وہ اس دن نہایت چڑھی بڑھی حالت سے ہوجائیں گے اور دنیا کی وہ اپنی گری ہوئی حالت سے اپنی گزر کرتے تھے وہ اس دن نہایت چڑھی بڑھی حالت سے ہوجائیں گے اور دنیا کی وہ اپنی گری ہوئی حالت ان کو یاد بھی نہ رہے گی۔ صحیح 3 ؎ مسلم کی اسی مضمون کی انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے زمین کا ہلنا اور پھٹنا اور پہاڑوں کا غبار کی طرح اڑنا اگرچہ یہ پہلے صور کے وقت ہوگا لیکن یہ قیامت کے شروع ہوجانے کی باتیں ہیں اس لئے دوسرے صور کے بعد کی باتوں کے ساتھ ان کا بھی ذکر فرمایا۔ اب قیامت کے دن سب لوگوں کی تین قسمیں جو ہوں گی ان کا ذکر فرمایا۔ داہنے ہاتھ والوں کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ 1 ؎ بن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے روحیں نکالنے کے وقت حضرت آدم ( علیہ السلام) کی سیدھی طرف تھے اور بائیں ہاتھ والے وہ لوگ ہیں جو حضرت آدم ( علیہ السلام) کی بائیں جانب تھے۔ یہ مسلم بن یسار کی حضرت عمر ؓ والی حدیث کا مضمون ہے جس کے موافق حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے داہنے اور بائیں ہاتھ والوں کی تفسیر کی ہے۔ یہ حدیث موطا ترمذی 2 ؎ اور ابو داؤود میں ہے اگرچہ بعض علما نے اس حدیث کی سند پر یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلم بن یسار نے حضرت عمر ؓ کو نہ دیکھا نہ ان دونوں کی کبھی ملاقات ہوئی پھر یہ روایت کیونکر صحیح ہوسکتی ہے لیکن موطا مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کی سندیں ایسی نہیں ان میں یہ اعتراض نہیں ہے اس لئے یہ حدیث معتبر ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے جو تفسیر کی ہے۔ وہ صحیح ہے اس حدیث کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان کی پشت سے ان روحوں کو نکالا جو قیامت تک دنیا میں آنے والی تھیں۔ اور داہنی جانب کی روحوں کو جنتی لوگوں کی روحیں اور بائیں جانب کی روحوں کو دوزخی لوگوں کی روحیں فرمایا۔ صحیح 3 ؎ مسلم کی ابوذر ؓ کی اس حدیث سے بھی اس حدیث کی تائید ہوتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے معراج کے وقت حضرت آدم (علیہ السلام) کے داہنے ہاتھ کی طرف اہل جنت کی اور بائیں ہاتھ کی طرف اہل دوزخ کی روحیں دیکھیں۔ بعض مفسروں نے داہنے ہاتھ والوں کی تفسیر میں لکھا ہے کہ نیک عمل لوگ اور بعضوں نے لکھا ہے کہ وہ لوگ جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے مگر حضرت عبد اللہ بن عباس کی تفسیر ان سب باتوں کو شامل اور سب پر صادق آتی ہے کیونکہ جو لوگ پیدا ہونے کے پہلے جنتی قرار پا چکے ہیں وہ ضرور دنیا میں عمل بھی نیک کریں گے اور قیامت کے دن ان کا اعمال نامہ بھی داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ داہنے ہاتھ والوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول کیا یا امتوں میں سے وہ لوگ جو نیک عملوں میں پیش قدمی کرتے رہے ان کو آگے والے اور مقرب فرمایا۔ مقرب وہ جن کے درجے جنت میں بڑے بڑے ہوں گے۔ (1 ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد ہذا ص 74۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب فی الکفار ص 374 ج 2۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 282 ج 4 و تفسیر الدر المنثور ص 154 ج 6۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الاعراف ص 155 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ ﷺ الخ ص 92 ج 1۔ )
Top