Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ
: جب واقع ہوجائے گی
الْوَاقِعَةُ
: واقع ہونے والی (قیامت)
جب واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الواقعہ ہے جو کہ اس کی پہلی آیت میں آمدہ لفظ سے ماخوذ ہے۔ قیامت کے مختلف ناموں میں سے ایک نام واقعہ بھی ہے۔ اس کو التاصۃ الکبریٰ اور القارعہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ سورة مکی زندگی میں سورة طٰہٰ کے بعد نازل ہوئی۔ اس کی چھیانوے آیات اور تین رکوع ہیں۔ یہ سورة 887 الفاظ اور 1903 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة : سورۃ یس ٓ کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی دین کے چار اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی (1) توحید اور اس کے دلائل (2) رسالت (3) وقوع قیامت اور جزائے عمل اور خاص عمل اور خاص طور پر جزائے عمل کے اعتبار سے انسانوں کی تین گروہوں میں تقسیم اور (4) قرآن حکیم کی عظمت وصداقت ۔ یہ چاروں سورة یس ٓ میں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں تاہم اس سورة مبارکہ میں ان کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے یہ چاروں اصول۔ ایسے بنیادی اصول ہیں کہ ان پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کو ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ تو یہ چاروں اصول ، عقائد یا مسائل اس سورة میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل جنت کو ملنے والے بعض انعامات اور مجرموں کو ملنے والی بعض سزائوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔ فضائل سورة : امام ابن کثیر (رح) ، حافظ ابن عساکر (رح) اور ابویعلیٰ (رح) اور بعض دیگر مفسرین ، محدثین اور مورخین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ (المتوفی 33 ھ) مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو خلیفہ وقت حضرت عثمان ؓ ان کی عیادت کے لئے گئے۔ آپ نے پوچھا ماتشت کی آپ کو کسی چیز کی تکلیف ہے تو ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ مجھے میرے گناہوں اور غلطیوں کی زیادہ تکلیف ہے۔ پھر پوچھا ماتشتھی آپ کی خواہش کیا ہے ؟ یعنی آپ کو کیا چیز چاہیے ؟ انہوں نے کہا رحمۃ ربی مجھے میرے پروردگار کی رحمت کی ضرورت ہے۔ حضرت عثمان نے پھر پوچھا الا امرک بطبیب کیا میں آپ کے لئے کسی طبیب کا انتظام نہ کردوں۔ انہوں نے جواب دیا الطبیب امرضنی ، کہ طبیب ہی نے تو مجھے بیماری میں مبتلا کیا ہے مطلب یہ تھا کہ حقیقی طبیب تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور بیماری بھی اسی کے حکم سے لاحق ہوئی ہے ، لہٰذا اور کسی طبیب کو بلائیں گے ؟ حضرت عثمان ؓ نے پھر پوچھا ، کیا میں تمہارے لئے کسی عطیے کا حکم نہ دوں ؟ کہنے لگے لا حاجۃ لی فیہ مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ فرمایا یکون لبناتک من بعدک یہ وظیفہ آپ کے بعد آپ کی بچیوں کے کام آئے گا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا اتخشیٰ علی بناتی تجھے میری بچیوں کی فاقہ کشی کا خطرہ ہے حالانکہ انی امرت بناتی یقران کل لیلۃ سورة الواقعۃ میں نے اپنی بچیوں کو تلقین کررکھی ہے کہ وہ ہر رات سورة الواقعہ پڑھ لیا کریں۔ کیونکہ میں نے حضور ﷺ سے سن رکھا ہے۔ من قراسورۃ الواقعۃ کل لیلۃ لم تصبہ فاقۃ ابدا ، جو شخص ہر رات سورة واقعہ کی تلاوت کرلیا کریگا۔ اس کو کبھی فاقہ نہیں آئے گا۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کامل الایمان انسان تھے۔ ان کو حضور ﷺ کی بات پر یقین تھا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بچیوں کو بھی یہی تربیت دی تھی۔ حضرت انس ؓ ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اور بہت سے تابعین سے بھی منقول ہے کہ اپنی اولادوں کو سورة الواقعہ سکھلائو کیونکہ یہ سورة الغنا ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غنا عطا کرتا ہے اور فاقہ سے بچاتا ہے۔ اگر کسی کی ظاہری حالت کمزور بھی ہو تو سورة واقعہ کو پڑھنے والے کو سکون قلب ضرور حاصل ہوتا ہے اور وہ کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وقوع قیامت کا حال : ارشادہوتا ہے اذا واقعت الواقعۃ جب واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی اس سے مراد قیامت ہے ، یعنی قیامت برپا ہوجائے گی۔ لیس لوقعتھا کاذبۃ اور اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ بھی نہیں۔ یعنی یہ ضرور برپا ہو کر رہے گی۔ اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقوع قیامت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ آج تو بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں مگر جب یہ آجائے گی تو پھر کیسے تکذیب کرسکیں گے ؟ اس وقت کسی کی مجال انکار نہیں ہوگی۔ بعض فرماتے ہیں کہ کاذبہ ہے تو فاعل کا صیغہ ، مگر یہاں پر مصدر کے طور پر استعمال ہوا ہے یعنی قیامت کے وقوع میں کوئی جھوٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ پھر فرمایا خافضۃ رافعۃ یہ قیامت پست کرنے والی بھی ہے اور بلند کرنے والی بھی ہے۔ یہ قیامت مشرکوں ، کافروں ، اللہ کے باغیوں اور ملحدوں کو جہنم کی پستیوں میں اتار دے گی۔ جب کہ ایمان ، تقویٰ ، اور نیکی والوں کو بلنددرجات تک پہنچائے گی۔ گویا قیامت بعض کو پست کرنے والی اور بعض کو بلند کرنے والی چیز ہے۔ اور یہ کب واقع ہوگی ؟ اذا رجت الارض رجا جب کہ زمین کو اچھی طرح ہلا دیا جائے گا اس پر زلزلہ طاری ہوجائے گا ۔ جس سے ہر چیز درہم برہم ہوجائے گی۔ وبست الجبال بسا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ، ٹوٹ پھوٹ جائیں گے فکانت ھباء منبثاً اور اڑتے ہوئے گردوغبار کی طرح ہوجائیں گے سورة القارعہ میں فرمایا وتکون………المنفوش (آیت 5) اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھیریں گے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جو شخص قیامت اپنی نگاہوں سے دیکھنا چاہتا ہے ، اسے چاہیے کہ وہ سورة النبا ، سورة التکویر اور سورة الواقعہ پڑھ لیا کرے ، قیامت کا سارا نقشہ سامنے آجائے گا۔ قیامت کا ایک نام تامۃ الکبریٰ یعنی سب سے بڑا ہنگامہ بھی ہے۔ زمین پر زلزلہ آجائے گا۔ سورة الزلزال میں ہے اذا…………زلزالھا (آیت 1) اور آسمانی سیارے آپس میں ٹکرا کر درہم برہم ہوجائیں گے ، ماہرین فلکیات بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ دم دار ستاروں سے علیحدہ ہونے والے بعض ٹکڑے پوری زمین سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ خطرہ ہے کہ اگر کسی وقت کوئی ٹکڑا زمین سے ٹکرا گیا تو اس زمین کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ بہرحال اللہ نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے۔ کہ قیامت کا ہنگامہ واقع ہونے والا ہے جب یہ زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ پھر نئی زمین اور نیا آسمان قائم ہوگا ، حساب کتاب کی منزل آئے گی اور جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ لوگوں کے تین گروہ : فرمایا جب قیامت واقع ہوگی وکنتم ازوجاثلثۃ تو اے انسانو ! تم تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے ۔ ان میں سے دو گروہ کامیاب ہوں گے اور تیسرا گروہ ناکام ہوگا۔ آگے گروہوں کی تفصیل بھی آرہی ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ قیامت والے دن تمام اہل ایمان کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔ جن میں سے اسی صفیں صرف اس امت کی چالیس صفیں باقی تمام امتوں کی ہوں گی۔ اہل جنت آگے پھر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک گروہ سابقون کا ہوگا جو نیکی میں بہت آگے بڑھنے والے ہیں اور دوسرا گروہ اصحاب یمین کا ہوگا۔ جو سابقین سے ایک درجہ کم ہوں گے۔ مگر اہل جنت میں سے ہوں گے۔ تیسرا گروہ اصحاب شمال کا ہوگا جو ناکام ہو کر جہنم میں جائیں گے۔ دائیں اور بائیں ہاتھ والے : ارشاد ہوتا ہے فاصحب المیمنۃ ، پس دائیں ہاتھ والے ما اصحب الیمنۃ کیا ہی اچھے ہیں دائیں ہاتھ والے۔ اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے کہ یہ کامیاب لوگ ہوں گے بعض فرماتے ہیں کہ دائیں ہاتھ والے وہ لوگ ہیں جن کو عہد الست کے وقت آدم (علیہ السلام) کی دائیں طرف سے نکالا گیا تھا۔ یہ مومن ہوں گے اور بائیں ہاتھ والے وہ لوگ ہوں گے جن کو آدم (علیہ السلام) کی بائیں جانب سے نکالا گیا ، یہ کافر اور مشرک لوگ ہوں گے۔ معراج والی حدیث میں بھی آتا ہے کہ جب حضور ﷺ کی ملاقات حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی تو آپ نے ان کے دائیں اور بائیں بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ جب آدم (علیہ السلام) اپنی دائیں طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو روپڑتے۔ دریافت کرنے پر بتلایا گیا کہ دائیں طرف والے لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کے مومن لوگ ہیں جب کہ بائیں طرف والے کافر ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) ان لوگوں کی جہنم رسیدگی پر غمگین ہیں اور دائیں طرف کے اہل جنت کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اہل جنت کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اور اہل دوزخ کو بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ اہل جنت کو دائیں طرف روانہ کیا جائے گا۔ جب کہ اہل دوزخ کو بائیں جانب بھیجا جائے گا۔ اسی لئے فرمایا واصحب المشئمۃ ما اصحب المشئمۃ ، اور بائیں طرف والے ، کیا ہی برے ہیں بائیں طرف والے کیونکر وہ تو جہنم کے گڑھے میں اترنے والے ہیں۔ سابقین کا گروہ : آگے تیسرے گروہ کا ذکر فرمایا گیا ہے والسبقون السبقون اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں ، ان کی سعادت کا کیا پوچھنا ؟ فرمایا اولئک المقربون یہ تو مقرب لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہے۔ ان لوگوں کے انجام کے متعلق فرمایا فی جنت النعیم یہ تو نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں بہت زیادہ نیکیاں کرتے تھے ان کا مرتبہ اصحاب یمین سے بڑھ کر ہوگا ، اسی لئے فرمایا کہ یہ مقربین الٰہی لوگ ہیں ۔ پہلے زمانوں میں ان کی تعداد زیادہ ہوگی ۔ جیسے فرمایا ثلۃ من الاولین پہلوں میں ان کا گروہ کثیر ہے وقلیل من الاخرین اور پچھلوں میں ان کی تعداد تھوڑی ہوگی۔ پہلے اور پچھلے لوگوں سے متعلق مفسرین کرام کی مختلف آراء ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ پہلوں سے مراد پہلی امتیں ہیں۔ یعنی سابقہ امتوں کے نیکی میں سبقت کرنے والے لوگ زیادہ ہوں گے جب کہ اس آخری امت میں ان کی تعداد کم ہوگی۔ دوسری طرف اس آخرت کو تمام سابقہ امم پر فضیلت بھی بخشی گئی ہے فرماتے ہیں کہ آخری امت کی افضلیت میں تو کوئی شبہ نہیں مگر ان میں سابقین کی تعداد پہلی امتوں کی نسبت کم ہی ہوگی۔ اصل بات یہ ہے کہ سابقین میں اولین لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) ہیں۔ پھر صدیقین اور شہداء ہیں۔ چونکہ سارے انبیاء اور رسل بھی اس گروہ میں شامل ہیں لہٰذا ان کی تعداد کا بڑھ جانا کچھ عجیب نہیں جب کہ آخری امت کا تو ایک ہی آخری نبی اور رسول ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) نے اپنے مکاتیب میں یہی لکھا ہے کہ سابقین میں چونکہ نبی اور رسول بھی داخل ہیں ، لہٰذا پہلی امتوں کے سابقین کا پلہ بھاری ہوگا۔ بعض فرماتے ہیں کہ سابقین سے سابقہ امتوں کے لوگ مراد نہیں بلکہ اسی امت کے اولین اور آخرین لوگ مراد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ کے پہلے دور کے لوگوں میں سابقین کی تعدادزیادہ ہے اور پچھلے دور کے لوگوں میں نسبتاً کم۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ، بہترین زمانہ میرا ہے ، پھر مجھ سے ملنے والے لوگوں کا اور پھر ان سے ملنے والے لوگوں کا۔ چناچہ حضور ﷺ کی صحبت کی وجہ سے جو مرتبہ صحابہ کرام ؓ کو حاصل ہے ، وہ دوسروں کو حاصل نہیں۔ اسی طرح تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ بعد کے ادوار سے بہتر ہے لہٰذا ان میں سابقین کی تعداد زیادہ ہوگی۔ البتہ بعد کے ادوار میں اصحاب یمین تو بہت ہوں گے ۔ مگر سابقین کم ہی ہوں گے ، اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے۔ امام ابن کثیر (رح) نے بھی فرمایا ہے کہ کہ اس سے یہ مراد ہے کہ نبی کے دور کی پہلی جماعتوں میں سابقین کی تعداد زیادہ ہوگی اور بعد میں آنے والے لوگوں میں سابقین کم ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ نبی کے قریب ہونے کی برکت سے مقربین بکثرت ہوتے ہیں ، پھر بعد میں کمزوری آجاتی ہے اور پہلے والی بات نہیں رہتی۔ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ سابقین کے گروہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ لوگ آگے پیچھے نہیں ہونگے بلکہ سیدھے ایک ہی قطار میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ ایسے لوگ پہلوں میں تو بہت ہوں گے ، مگر پچھلوں میں ان کی تعداد کم ہوگی۔ مقرب اور ابرار : بعض بزرگان دین فرماتے ہیں کہ مقربین الٰہی کی نگاہ نقطہ آغاز پر ہوتی ہے ۔ یعنی ان کی نظر اپنی تخلیق کے دن پر ہوتی ہے جب فرشتہ پوچھتا ہے کہ پروردگار ! یہ شخص نیک بخت ہوگا یا بد بخت ؟ جب اس کو بتا دیا جاتا ہے تو وہ اسے اپنے رجسٹر میں درج کرلیتا ہے تو مقرب کو ہمیشہ اسی بات کی فکر رہتی ہے کہ پتہ نہیں اس دن میرے حق میں خوش بختی کا فیصلہ ہوا تھا یا بدبختی کا۔ فرماتے ہیں کہ اس کے برخلاف ابرار کی نگاہ ہمیشہ نقطہ انتہا پر ہوتی ہے۔ جب فرشتہ انسان کی روح قبض کرنے کے لئے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے کہ پروردگار ! میں نے اس شخص کی روح کو ایمان کے ساتھ نکالنا ہے یا کفر کے ساتھ۔ اس وقت فرشتے کو انسان کی قیمت کا حال بتلادیا جاتا ہے تو ابرار لوگ ہمیشہ اس طرف دیکھتے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارے حق میں اللہ کا کیا فیصلہ ہوگا ؟ تو مقرب اور ابرار میں یہ فرق ہے ۔ بہرحال یہ دونوں گروہ خدا خوفی ، نیکی اور ایمان کی وجہ سے کامیاب ہونے والے ہیں۔
Top