بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
جب واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الواقعہ ہے جو کہ اس کی پہلی آیت میں آمدہ لفظ سے ماخوذ ہے۔ قیامت کے مختلف ناموں میں سے ایک نام واقعہ بھی ہے۔ اس کو التاصۃ الکبریٰ اور القارعہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ سورة مکی زندگی میں سورة طٰہٰ کے بعد نازل ہوئی۔ اس کی چھیانوے آیات اور تین رکوع ہیں۔ یہ سورة 887 الفاظ اور 1903 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة : سورۃ یس ٓ کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی دین کے چار اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی (1) توحید اور اس کے دلائل (2) رسالت (3) وقوع قیامت اور جزائے عمل اور خاص عمل اور خاص طور پر جزائے عمل کے اعتبار سے انسانوں کی تین گروہوں میں تقسیم اور (4) قرآن حکیم کی عظمت وصداقت ۔ یہ چاروں سورة یس ٓ میں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں تاہم اس سورة مبارکہ میں ان کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے یہ چاروں اصول۔ ایسے بنیادی اصول ہیں کہ ان پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کو ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ تو یہ چاروں اصول ، عقائد یا مسائل اس سورة میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل جنت کو ملنے والے بعض انعامات اور مجرموں کو ملنے والی بعض سزائوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔ فضائل سورة : امام ابن کثیر (رح) ، حافظ ابن عساکر (رح) اور ابویعلیٰ (رح) اور بعض دیگر مفسرین ، محدثین اور مورخین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ (المتوفی 33 ھ) مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو خلیفہ وقت حضرت عثمان ؓ ان کی عیادت کے لئے گئے۔ آپ نے پوچھا ماتشت کی آپ کو کسی چیز کی تکلیف ہے تو ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ مجھے میرے گناہوں اور غلطیوں کی زیادہ تکلیف ہے۔ پھر پوچھا ماتشتھی آپ کی خواہش کیا ہے ؟ یعنی آپ کو کیا چیز چاہیے ؟ انہوں نے کہا رحمۃ ربی مجھے میرے پروردگار کی رحمت کی ضرورت ہے۔ حضرت عثمان نے پھر پوچھا الا امرک بطبیب کیا میں آپ کے لئے کسی طبیب کا انتظام نہ کردوں۔ انہوں نے جواب دیا الطبیب امرضنی ، کہ طبیب ہی نے تو مجھے بیماری میں مبتلا کیا ہے مطلب یہ تھا کہ حقیقی طبیب تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور بیماری بھی اسی کے حکم سے لاحق ہوئی ہے ، لہٰذا اور کسی طبیب کو بلائیں گے ؟ حضرت عثمان ؓ نے پھر پوچھا ، کیا میں تمہارے لئے کسی عطیے کا حکم نہ دوں ؟ کہنے لگے لا حاجۃ لی فیہ مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ فرمایا یکون لبناتک من بعدک یہ وظیفہ آپ کے بعد آپ کی بچیوں کے کام آئے گا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا اتخشیٰ علی بناتی تجھے میری بچیوں کی فاقہ کشی کا خطرہ ہے حالانکہ انی امرت بناتی یقران کل لیلۃ سورة الواقعۃ میں نے اپنی بچیوں کو تلقین کررکھی ہے کہ وہ ہر رات سورة الواقعہ پڑھ لیا کریں۔ کیونکہ میں نے حضور ﷺ سے سن رکھا ہے۔ من قراسورۃ الواقعۃ کل لیلۃ لم تصبہ فاقۃ ابدا ، جو شخص ہر رات سورة واقعہ کی تلاوت کرلیا کریگا۔ اس کو کبھی فاقہ نہیں آئے گا۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کامل الایمان انسان تھے۔ ان کو حضور ﷺ کی بات پر یقین تھا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بچیوں کو بھی یہی تربیت دی تھی۔ حضرت انس ؓ ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اور بہت سے تابعین سے بھی منقول ہے کہ اپنی اولادوں کو سورة الواقعہ سکھلائو کیونکہ یہ سورة الغنا ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غنا عطا کرتا ہے اور فاقہ سے بچاتا ہے۔ اگر کسی کی ظاہری حالت کمزور بھی ہو تو سورة واقعہ کو پڑھنے والے کو سکون قلب ضرور حاصل ہوتا ہے اور وہ کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وقوع قیامت کا حال : ارشادہوتا ہے اذا واقعت الواقعۃ جب واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی اس سے مراد قیامت ہے ، یعنی قیامت برپا ہوجائے گی۔ لیس لوقعتھا کاذبۃ اور اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ بھی نہیں۔ یعنی یہ ضرور برپا ہو کر رہے گی۔ اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقوع قیامت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ آج تو بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں مگر جب یہ آجائے گی تو پھر کیسے تکذیب کرسکیں گے ؟ اس وقت کسی کی مجال انکار نہیں ہوگی۔ بعض فرماتے ہیں کہ کاذبہ ہے تو فاعل کا صیغہ ، مگر یہاں پر مصدر کے طور پر استعمال ہوا ہے یعنی قیامت کے وقوع میں کوئی جھوٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ پھر فرمایا خافضۃ رافعۃ یہ قیامت پست کرنے والی بھی ہے اور بلند کرنے والی بھی ہے۔ یہ قیامت مشرکوں ، کافروں ، اللہ کے باغیوں اور ملحدوں کو جہنم کی پستیوں میں اتار دے گی۔ جب کہ ایمان ، تقویٰ ، اور نیکی والوں کو بلنددرجات تک پہنچائے گی۔ گویا قیامت بعض کو پست کرنے والی اور بعض کو بلند کرنے والی چیز ہے۔ اور یہ کب واقع ہوگی ؟ اذا رجت الارض رجا جب کہ زمین کو اچھی طرح ہلا دیا جائے گا اس پر زلزلہ طاری ہوجائے گا ۔ جس سے ہر چیز درہم برہم ہوجائے گی۔ وبست الجبال بسا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ، ٹوٹ پھوٹ جائیں گے فکانت ھباء منبثاً اور اڑتے ہوئے گردوغبار کی طرح ہوجائیں گے سورة القارعہ میں فرمایا وتکون………المنفوش (آیت 5) اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھیریں گے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جو شخص قیامت اپنی نگاہوں سے دیکھنا چاہتا ہے ، اسے چاہیے کہ وہ سورة النبا ، سورة التکویر اور سورة الواقعہ پڑھ لیا کرے ، قیامت کا سارا نقشہ سامنے آجائے گا۔ قیامت کا ایک نام تامۃ الکبریٰ یعنی سب سے بڑا ہنگامہ بھی ہے۔ زمین پر زلزلہ آجائے گا۔ سورة الزلزال میں ہے اذا…………زلزالھا (آیت 1) اور آسمانی سیارے آپس میں ٹکرا کر درہم برہم ہوجائیں گے ، ماہرین فلکیات بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ دم دار ستاروں سے علیحدہ ہونے والے بعض ٹکڑے پوری زمین سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ خطرہ ہے کہ اگر کسی وقت کوئی ٹکڑا زمین سے ٹکرا گیا تو اس زمین کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ بہرحال اللہ نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے۔ کہ قیامت کا ہنگامہ واقع ہونے والا ہے جب یہ زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ پھر نئی زمین اور نیا آسمان قائم ہوگا ، حساب کتاب کی منزل آئے گی اور جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ لوگوں کے تین گروہ : فرمایا جب قیامت واقع ہوگی وکنتم ازوجاثلثۃ تو اے انسانو ! تم تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے ۔ ان میں سے دو گروہ کامیاب ہوں گے اور تیسرا گروہ ناکام ہوگا۔ آگے گروہوں کی تفصیل بھی آرہی ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ قیامت والے دن تمام اہل ایمان کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔ جن میں سے اسی صفیں صرف اس امت کی چالیس صفیں باقی تمام امتوں کی ہوں گی۔ اہل جنت آگے پھر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک گروہ سابقون کا ہوگا جو نیکی میں بہت آگے بڑھنے والے ہیں اور دوسرا گروہ اصحاب یمین کا ہوگا۔ جو سابقین سے ایک درجہ کم ہوں گے۔ مگر اہل جنت میں سے ہوں گے۔ تیسرا گروہ اصحاب شمال کا ہوگا جو ناکام ہو کر جہنم میں جائیں گے۔ دائیں اور بائیں ہاتھ والے : ارشاد ہوتا ہے فاصحب المیمنۃ ، پس دائیں ہاتھ والے ما اصحب الیمنۃ کیا ہی اچھے ہیں دائیں ہاتھ والے۔ اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے کہ یہ کامیاب لوگ ہوں گے بعض فرماتے ہیں کہ دائیں ہاتھ والے وہ لوگ ہیں جن کو عہد الست کے وقت آدم (علیہ السلام) کی دائیں طرف سے نکالا گیا تھا۔ یہ مومن ہوں گے اور بائیں ہاتھ والے وہ لوگ ہوں گے جن کو آدم (علیہ السلام) کی بائیں جانب سے نکالا گیا ، یہ کافر اور مشرک لوگ ہوں گے۔ معراج والی حدیث میں بھی آتا ہے کہ جب حضور ﷺ کی ملاقات حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی تو آپ نے ان کے دائیں اور بائیں بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ جب آدم (علیہ السلام) اپنی دائیں طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو روپڑتے۔ دریافت کرنے پر بتلایا گیا کہ دائیں طرف والے لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کے مومن لوگ ہیں جب کہ بائیں طرف والے کافر ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) ان لوگوں کی جہنم رسیدگی پر غمگین ہیں اور دائیں طرف کے اہل جنت کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اہل جنت کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اور اہل دوزخ کو بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ اہل جنت کو دائیں طرف روانہ کیا جائے گا۔ جب کہ اہل دوزخ کو بائیں جانب بھیجا جائے گا۔ اسی لئے فرمایا واصحب المشئمۃ ما اصحب المشئمۃ ، اور بائیں طرف والے ، کیا ہی برے ہیں بائیں طرف والے کیونکر وہ تو جہنم کے گڑھے میں اترنے والے ہیں۔ سابقین کا گروہ : آگے تیسرے گروہ کا ذکر فرمایا گیا ہے والسبقون السبقون اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں ، ان کی سعادت کا کیا پوچھنا ؟ فرمایا اولئک المقربون یہ تو مقرب لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہے۔ ان لوگوں کے انجام کے متعلق فرمایا فی جنت النعیم یہ تو نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں بہت زیادہ نیکیاں کرتے تھے ان کا مرتبہ اصحاب یمین سے بڑھ کر ہوگا ، اسی لئے فرمایا کہ یہ مقربین الٰہی لوگ ہیں ۔ پہلے زمانوں میں ان کی تعداد زیادہ ہوگی ۔ جیسے فرمایا ثلۃ من الاولین پہلوں میں ان کا گروہ کثیر ہے وقلیل من الاخرین اور پچھلوں میں ان کی تعداد تھوڑی ہوگی۔ پہلے اور پچھلے لوگوں سے متعلق مفسرین کرام کی مختلف آراء ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ پہلوں سے مراد پہلی امتیں ہیں۔ یعنی سابقہ امتوں کے نیکی میں سبقت کرنے والے لوگ زیادہ ہوں گے جب کہ اس آخری امت میں ان کی تعداد کم ہوگی۔ دوسری طرف اس آخرت کو تمام سابقہ امم پر فضیلت بھی بخشی گئی ہے فرماتے ہیں کہ آخری امت کی افضلیت میں تو کوئی شبہ نہیں مگر ان میں سابقین کی تعداد پہلی امتوں کی نسبت کم ہی ہوگی۔ اصل بات یہ ہے کہ سابقین میں اولین لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) ہیں۔ پھر صدیقین اور شہداء ہیں۔ چونکہ سارے انبیاء اور رسل بھی اس گروہ میں شامل ہیں لہٰذا ان کی تعداد کا بڑھ جانا کچھ عجیب نہیں جب کہ آخری امت کا تو ایک ہی آخری نبی اور رسول ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) نے اپنے مکاتیب میں یہی لکھا ہے کہ سابقین میں چونکہ نبی اور رسول بھی داخل ہیں ، لہٰذا پہلی امتوں کے سابقین کا پلہ بھاری ہوگا۔ بعض فرماتے ہیں کہ سابقین سے سابقہ امتوں کے لوگ مراد نہیں بلکہ اسی امت کے اولین اور آخرین لوگ مراد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ کے پہلے دور کے لوگوں میں سابقین کی تعدادزیادہ ہے اور پچھلے دور کے لوگوں میں نسبتاً کم۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ، بہترین زمانہ میرا ہے ، پھر مجھ سے ملنے والے لوگوں کا اور پھر ان سے ملنے والے لوگوں کا۔ چناچہ حضور ﷺ کی صحبت کی وجہ سے جو مرتبہ صحابہ کرام ؓ کو حاصل ہے ، وہ دوسروں کو حاصل نہیں۔ اسی طرح تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ بعد کے ادوار سے بہتر ہے لہٰذا ان میں سابقین کی تعداد زیادہ ہوگی۔ البتہ بعد کے ادوار میں اصحاب یمین تو بہت ہوں گے ۔ مگر سابقین کم ہی ہوں گے ، اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے۔ امام ابن کثیر (رح) نے بھی فرمایا ہے کہ کہ اس سے یہ مراد ہے کہ نبی کے دور کی پہلی جماعتوں میں سابقین کی تعداد زیادہ ہوگی اور بعد میں آنے والے لوگوں میں سابقین کم ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ نبی کے قریب ہونے کی برکت سے مقربین بکثرت ہوتے ہیں ، پھر بعد میں کمزوری آجاتی ہے اور پہلے والی بات نہیں رہتی۔ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ سابقین کے گروہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ لوگ آگے پیچھے نہیں ہونگے بلکہ سیدھے ایک ہی قطار میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ ایسے لوگ پہلوں میں تو بہت ہوں گے ، مگر پچھلوں میں ان کی تعداد کم ہوگی۔ مقرب اور ابرار : بعض بزرگان دین فرماتے ہیں کہ مقربین الٰہی کی نگاہ نقطہ آغاز پر ہوتی ہے ۔ یعنی ان کی نظر اپنی تخلیق کے دن پر ہوتی ہے جب فرشتہ پوچھتا ہے کہ پروردگار ! یہ شخص نیک بخت ہوگا یا بد بخت ؟ جب اس کو بتا دیا جاتا ہے تو وہ اسے اپنے رجسٹر میں درج کرلیتا ہے تو مقرب کو ہمیشہ اسی بات کی فکر رہتی ہے کہ پتہ نہیں اس دن میرے حق میں خوش بختی کا فیصلہ ہوا تھا یا بدبختی کا۔ فرماتے ہیں کہ اس کے برخلاف ابرار کی نگاہ ہمیشہ نقطہ انتہا پر ہوتی ہے۔ جب فرشتہ انسان کی روح قبض کرنے کے لئے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے کہ پروردگار ! میں نے اس شخص کی روح کو ایمان کے ساتھ نکالنا ہے یا کفر کے ساتھ۔ اس وقت فرشتے کو انسان کی قیمت کا حال بتلادیا جاتا ہے تو ابرار لوگ ہمیشہ اس طرف دیکھتے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارے حق میں اللہ کا کیا فیصلہ ہوگا ؟ تو مقرب اور ابرار میں یہ فرق ہے ۔ بہرحال یہ دونوں گروہ خدا خوفی ، نیکی اور ایمان کی وجہ سے کامیاب ہونے والے ہیں۔
Top