بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
جب واقع ہوجانے والی واقع ہوجائے گی۔ (یعنی قیامت)
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 38 وقعت ہونے والی۔ خافضۃ نیچا کرنے والی۔ رافعۃ اونچا کرنے وال ی۔ رجت ہلا دی گئی۔ بست ریزہ ریزہ کردی گئی۔ توڑ دی گئی۔ ھبآء گرد و غبار۔ منبت پھیلا دیا گیا۔ ازواج جوڑے، قسمیں اصحاب المیمنۃ داہنے ہاتھ والے (جنتی) اصحاب المشئمۃ بائیں ہاتھ والے (دوزخی) السبقون آگے بڑھنے والے ثلۃ جماعت، گروہ۔ موضونۃ جڑائو۔ اکواب (کوب) پیالے۔ اباریق (ابریق) صراحیاں۔ کاس گلاس۔ معین صاف چشمہ کی شراب۔ لایصدعون نہ ان کے سر میں بھاری پن ہوگا۔ لاینزقون نہ وہ بہکیں گے۔ یتخیرون وہ پسند کرتے ہیں۔ سدر بیری۔ مخضود (خضد) کاٹنے کاٹ دیئے گے۔ طلع منضود کیلے اوپر تلے (تہہ در تہہ) ظل سایہ۔ ممدود پھیلائے گئے (پھیلے ہوئے) ماء مسکوب بہتا صاف پانی۔ لامقطوعۃ نہ توڑاگ یا۔ لاممنوعۃ نہ روکا گیا۔ انشانھن ہم نے ان (عورتوں کو) اچھی طرح پیدا کیا۔ ابکار کنواری۔ عرب پسندیدہ۔ اتراب ہم عمر۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 38 نبی کریم ﷺ جب کفار مکہ کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس میں قیامت آنے اور آخرت میں دوبارہ اٹھائے جانے کی باتیں ارشاد فرماتے تو وہ حیرت سے کہتے کہ ہماری عقل تسلیم نہیں کرتی کہ کائنات کا اتنا زبردست چلتا ہوا نظام زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے، پہاڑ اور دریا سب کے سب ایک دم ختم کردیئے جائیں گے اور جب ہماری اور ہمارے باپ دادا کی ہڈیاں بھی چورہ چورہ ہو کر بکھر جائیں گی تو ان میں زندگی کے آثار کیسے پیدا ہوجائیں گے۔ ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں آتا یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب قیامت کا زبردست حاثدہ اور واقعہ اچانک آجائے گا تو وہ آنکھوں سے نظر آنے والی ایسی سچائی ہوگی جس کا کوئی شخص انکار نہ کرسکے گا۔ یہ قیامت اس قدر اچانک اور بھیانک ہوگی جو ہر چیز کو الٹ پلٹ رکھ دے گی۔ زمین زلزلوں کے جھٹکوں سے ہلا ماری جائے گی۔ یہ بلند وبالا اور مضبوط پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرے غبار کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اس دن تمام لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو کر بار گاہ الٰہی میں پہنچیں گے۔ جن کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ اصحاب الیمین ہوں گے اور جن کے نامہ اعمال بائیں اتھ میں دیئے جائیں گے وہ اصحاب الشمال کہلائیں گے جو نہایت بری حالت میں ہوں گے۔ ان ہی میں تیسرا گروہ ہوگا جس کی شان ہی نرلای ہوگی یہ ان لوگوں کا گروہ ہوگا جو تقویٰ ، پرہیز گاری، نیکی، حق پرستی اور بھلائی کے ہر کام میں مصلحتوں سے بالاتر ہو کر سب سے حق و صداقت کی کوئی بات پیش کی جاتی تھی تو وہ فوراً ہی اس کو قبول کرلیتے تھے۔ جب ان سے حق مانگا جاتا تھا تو وہ حق فوراً ہی ادا کردیا کرتے تھے۔ جو دوسروں کے لئے فیصلے کرتے وہی فیصلے اپنے بارے میں بھی کیا کرتے تھے۔ (مسند احمد) اللہ نے ان کو السبقون السابقون (آگے رہنے والے آگے ہی رہنے والے ہیں) کہا ہے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو عرش الٰہی کے سائے میں اللہ کے بہت قریب ہوں گے۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جو راحت بھری جنتوں کی نعمتوں سے پوری طرح لطف اندوز ہوں گے۔ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے جڑائو تخت پر آمنے سامنے تکیہ لگائے شاہانہ انداز سے بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ ان کی خدمت کیلئے ہمیشہ جوان رہنے والے نوجوان لڑکے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے جو صاف ستھری اور پاکیزہ شراب سے لبریز یالے، کو زے اور جام بھر بھر کر ان کو پلا رہے ہوں گے۔ ان کے سامنے ان کے پسندیدہ پھل، حسبخ واہش پرندوں کا مزیدار گوشت ہوگا۔ ان کی دل بستگی کے لئے خبوصورت رنگت اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی جو ایسی حسین و خوبصورت اور صاف ستھری ہوں گی جیسے سیپ میں حفاظت سے رکھے ہوئے موتی۔ وہ لوگ ان جنتوں میں سوائے سلام سلام کی آوازوں کے کوئی فضول، بےہودہ اور گناہ کا کلام نہ سنیں گے۔ یہ اللہ کے وہ مقرب بندے ہوں گے جن میں سے ایک بڑا گروہ پہلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے لوگ بعد والے ہوں گے۔ یہ پہلے اور بعد والے گروہ کون سے ہوں گے ؟ ان سے عملاء مفسرین نے بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٭حضرت آدم سے لے کر نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری تک جتنی بھی امتیں گذری ہیں وہ اولین ہیں اور نبی کریم ﷺ کے بعد قیامت تک آنے والے نیک بندے آخرین ہیں۔ ٭ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اولین اور آخرین سے مراد نبی کریم ﷺ کی امت کے اولین و آخرین ہیں جن میں سے مقربین و سابقین کی تعداد زیادہ ہوگی اور بعد میں آنے روالے آخرین ہیں جن کی تعداد کم ہوگی۔ بہرحال اللہ کے نزدیک مقربین وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ آگے بڑھ کر اللہ کے نبیوں کے ہر حکم پر سبقت کی یعنی آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ دوسرا گروہ اصحاب الیمین کا ہوگا یعنی وہ خوش نصیب صاحبان ایمان جن کے داہنے ہاتھ میں ان کے نامہ اعمال دیئے جائیں گے۔ ان کو بھی جنت کی راحتیں عطا کی جائیں گی لیکن سبقت کرنے والے گروہ سے ذرا کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ داہنے ہاتھ والے بھی کیا خوب ہوں گے۔ ان خوش نصیبوں کو ان جنتوں میں بےکانٹوں الے بیر دیئے جائیں گے یعنی دنیا کے کھٹے میٹھے بیروں کی طرح نہیں بلکہ وہ بیر اتنے لذیذ، خوشبو دار اور میٹھے ہوں گے جن کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ بہترین کیلے ہوں گے جو تہہ در تہہ ہوں گ۔ صاف شفاف بہتے چشموں کا پانی اور بڑی تعداد میں طرح طرح کے لذیذ ترین پھل اور میوے ہوں گے۔ یہ موسمی پھل نہ ہوں گے کہ موسم کے جاتے ہی پھل ختم ہوجاتے ہیں بلکہ سدا بہار پھل ہوں گے جن کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہ ہوگی۔ ان اہل جنت کے لئے اونچے اونچے بچھونے ہوں گ۔ اور ایسی پاکیزہ کنواری اور حسین ہم عمر محبوب حوریں ہوں گی جو خاص طور پر ان ہی کے لئے بنائی گئی ہوں گی۔ یہ اور اسی قسم کی ہزاروں نعمتیں ان اصحاب الیمین جنتیوں کے لئے مخصوص ہوں گی۔ ہر نیکی میں سبقت لے جانے والے اور جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جائیں گے ان دونوں گروہوں کا ذکر فرمانے کے بعد اس کے بعد کی آیات میں ان لوگوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے جو اصحاب الشمال (بائیں ہاتھ والے) ہیں۔
Top