Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ : اور اس روز سے ڈرتے رہو جس میں تم کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا اس سے مراد ہے قیامت کا دن یا مرنے کا دن۔ یعنی اللہ کی طرف جانے کی تیاری کرو۔ ابو عمرو اور یعقوب کی قراءت ترجعون بفتح تاء ہے اور باقی قراءت ُ رْجَعُوْنَ پڑھتے ہیں تم لوٹو گے یا لوٹائے جاؤ گے۔ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ : پھر ہر شخص کو اس کے اچھے برے کرتوت کا بدلہ دیا جائے گا۔ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : ثواب گھٹا کر یا (جرم سے زیادہ) عذاب بڑھا کر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ( سورة بقرہ کی یہ آخری آیت ہے جو رسول اللہ پر نازل ہوئی۔ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے آپ ﷺ سے کہا سورة بقرہ کی دو سو اسی آیات کے کنارہ پر رکھو۔ (کذا قال بغوی) ثعلبی نے بحوالۂ سدی صغیر بروایت کلبی از ابو صالح حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ اکیس روز زندہ رہے۔ فریانی ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا یہی قول بیان کیا ہے کہ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ اس کے بعد آپ ﷺ (صرف) سات رات زندہ رہے اور وفات مبارک پیر کے دن 3 ربیع الاوّل کو زوال کے بعد 11 ھ میں ہوگئی۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ کا قول بھی یہی بیان کیا ہے۔ وا اللہ اعلم۔ اللہ نے آیت تہدید پر وحی کو ختم کردیا۔
Top