Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 29
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اس دن سے ڈرو جبکہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا
آیت نمبر : 281۔ کہا گیا ہے : بیشک یہ آیت حضور نبی کریم ﷺ کے وصال سے نوراتیں قبل نازل ہوئی پھر اس کے بعد کوئی شے نازل نہ ہوئی، ابن جریج نے یہی کہا ہے، ابن جبیر اور مقاتل نے کہا ہے : سات راتیں پہلے نازل ہوئی اور تین راتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ آیت آپ ﷺ کے وصال سے تین ساعتیں قبل نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے پاس حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) آئے اور کہا اسے دوسواسی نمبر آیت کے بعد رکھ دو ۔ “ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ حضرت ابی بن کعب، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت قتادہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ آخر میں جو آیت نازل ہوئی وہ یہ ہے ؛ (آیت) ” لقد جآء کم رسول من انفسکم “ الی آخر الآیۃ۔ اور پہلا قول زیادہ معروف، بہت زیادہ اصح اور زیادہ مشہور ہے، اور اسے ابو صالح نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا ہے : قرآن کریم میں سے جو آخر میں نازل ہوا وہ یہ آیت ہے : (آیت) ” واتقوا یوم ترجعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ماکسبت وھم لا یظلمون (281) اور حضرت جبریل امین (علیہ السلام) نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا : اے محمد ! ﷺ اسے سورة البقرہ میں دو سو اسی آیت کے آخر میں رکھو “۔ اسے ابوبکر انباری نے ” کتاب الرد “ میں ذکر کیا ہے، اور یہی حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ یہ آیت آخر میں نازل ہوئی، اور حضور نبی مکرم ﷺ اس کے بعد اکیس دن تک باحیات رہے، اس کا بیان سورة اذا جآء نصر اللہ والفتح “۔ کے آخر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور یہ آیت تمام لوگوں کے لئے نصیحت ہے اور ایسا حکم ہے جو ہر انسان کے ساتھ خاص ہے اور یوما مفعول ہونے کی بنا پر منصوب ہے نہ کہ ظرف ہونے کی بناء پر (آیت) ” ترجعون فیہ الی اللہ “ یہ اس کی صفت ہے۔ ابوعمرو نے اسے تا کے فتحہ اور جیم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اسی کی مثل یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ان الینا ایابھم “۔ (الغاشیہ) (بےشک انہیں (آخر) ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے) اور حضرت ابی ؓ کی قرات پر قیاس کرتے ہوئے یوما تصیرون فیہ الی اللہ (یعنی وہ دن جس میں تم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے) اور باقیوں نے اسے تا کے ضمہ اور جیم کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ مثلا، (آیت) ” ردوا الی اللہ “۔ (انعام : 62) ترجمہ ؛ پھر لوٹائیں جائیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف۔ (آیت) ” ولئن رددت لی ربی “۔ ترجمہ : اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا۔ اور یہ حضرت عبداللہ ؓ کی قرات کے اعتبار سے ہے۔ یوما تردون فیہ الی اللہ (یعنی وہ دن جس میں تم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ اور حسن نے یرجعون “ یا کے ساھ پڑھا ہے یہ اس معنی کی بنا پر ہے کہ تمام لوگ لوٹائیں جائیں گے۔ ابن جنی نے کہا ہے : گویا اللہ تعالیٰ نے مومنین کے ساتھ اس بنا پر نرمی اور مہربانی فرمائی کے وہ ان کی طرف رجعت کے ذکر کے ساتھ متوجہ ہوا، کیونکہ یہ ان میں سے ہے جس کے ساتھ دل پھٹنے لگتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : (آیت) ” واتقوا یوما “۔ پھر رجعت کے ذکر میں ان کے ساتھ نرمی فرماتے ہوئے غیب کی طرف رجوع فرمایا اور جمہور علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ دن جس سے ڈرایا گیا ہے یہ قیامت قائم ہونے، حساب و کتاب اور پوری پوری جزا ملنے کا دن ہے، ایک قوم نے کہا ہے : اس سے مراد موت کا دن ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : آیت کے الفاظ کے حکم کے مطابق پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” الی اللہ “ میں مضاف محذوف ہے، اس کی تقدیر عبارت ہے الی حکم اللہ وفصل قضائہ (یعنی تم لوٹائے جاؤ گے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی تقدیر کے فیصلے کی طرف) وھم یعنی جمع ضمیر کل کے معنی پر محمول ہے نہ کہ لفظ پر، مگر حسن کی قرات میں یرجون ہے تو اس کے مطابق وھم میں ضمیر یرجعون میں جمع ضمیر کی طرف لوٹ رہی ہے، اور اس آیت میں اس پر نص ہے کہ ثواب اور عقاب کس اعمال کے متعلق ہیں اور یہ جبریہ کا رد ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top