Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا
[وَاتَّقُوْا : اور تم لوگ بچو ] [یَوْمًا : ایک ایسے دن سے ] [تُرْجَعُوْنَ : تم لوگ لوٹائے جائو گے ] [فِیْہِ : جس میں ] [اِلَی اللّٰہِ : اللہ کی طرف ] [ثُمَّ تُوَفّٰی : پھر پورا پورا دیا جائے گا ] [کُلُّ نَفْسٍ : ہر ایک جان کو ] [مَّا : وہ جو ] [کَسَبَتْ : اس نے کمایا ] [وَ : اس حال میں کہ ] [ہُمْ : ان پر ] [لاَ یُظْلَمُوْنَ : ظلم نہیں کیا جائے گا (یعنی حق تلفی نہیں ہوگی) ترکیب : ” وَاتَّقُوْا “ کا فاعل اس میں ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے ‘ جبکہ ” یَوْمًا “ اس کا مفعول ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ آگے اس کی خصوصیت ہے۔ ” تُوَفّٰی “ باب تفعیل میں مضارع مجہول کا واحد مؤنث کا صیغہ ہے۔ ” کُلُّ نَفْسٍ “ اس کا نائب فاعل ہے اس لیے ” کُلُّ “ مرفوع ہے۔ نوٹ (1) : سود کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جیسے سورة الانفال کی آیت 60 میں دشمن کے خلاف قوت جمع کرنے کے لیے گھوڑے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ‘ لیکن زمانے کی ترقی کے ساتھ اب ہم گھوڑوں کے بجائے ٹینک رکھتے ہیں لہٰذا اس سے مذکورہ آیت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ‘ اسی طرح سود سے متعلق مذکورہ بالا آیات میں بھی اس زمانے کے سود کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ لہٰذا اب زمانے کی ترقی کے ساتھ بینک کے تجارتی سود پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ تو جس طرح امت کے فوجی استحکام کے لیے ٹینک کا استعمال ضروری ہے اسی طرح امت کے معاشی استحکام کے لیے بینک کے تجارتی سود کا استعمال ضروری ہے۔ اس دلیل میں جو منطقی کجی ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ از خود عیاں ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ سورة الانفال کی مذکورہ آیت میں دشمن کے خلاف قوت جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب جس زمانے میں اس قوت کی جو بھی شکل ہوگی اسی شکل میں اسے جمع کرنے سے اس آیت کے حکم پر عمل ہوگا۔ جبکہ سود سے متعلق مذکورہ آیات میں ہمیں سود کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب جس زمانے میں سود کی جو بھی شکل ہوگی اس کی ہر شکل کو چھوڑ کر ہی ان آیات کے حکم پر عمل ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں غرباء کو ان کی ضروریات کے لیے سود پر قرض دینے کا رواج تھا جس کی وجہ سے غریب لوگ قرضوں اور سود در سود کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے تھے ‘ جو کہ صریحاً ظلم تھا۔ ہمیں اس سود کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے ‘ جبکہ آج کل بینک کا تجارتی سود وہ سود نہیں ہے ‘ کیونکہ ان قرضوں سے تاجر اور صنعت کار منافع کماتے ہیں اور اس میں سے سود دیتے ہیں ‘ اس لیے مذکورہ حکم کا اطلاق تجارتی قرضوں پر نہیں ہوتا۔ یہ بات اس وقت کے عرب معاشرے سے ناواقفیت کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے اور تسلیم کرتی ہے کہ اس وقت پورے عرب معاشرے میں قبائلی نظام رائج تھا اور ان کی معاش کا انحصار زراعت سے زیادہ تجارت پر تھا۔ قبائلی نظام کی ایک بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ کسی قبیلے کا کوئی فرد اگر کسی مشکل میں گرفتار ہوجاتا ہے تو پورا قبیلہ اسے مشکل سے نکالنے کے لیے اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے سود پر قرضہ دے کر اس کا نام AID (مدد) نہیں رکھتا۔ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس لیے یہ کہنا خلافِ واقعہ ہے کہ اس زمانے میں غیر تجارتی قرضوں اور سود کا رواج تھا۔ اگر کبھی کوئی غریب کسی یہودی کے چنگل میں پھنس بھی جاتا تھا تو وہ استثناء شمار ہوگا ‘ اسے رواج کہنا غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس زمانے میں بھی تجارتی قرضوں اور سود کا ہی رواج تھا جسے حرام قرار دیا گیا۔ تجارتی قرضوں پر بھی سود کی ممانعت کی جو بنیادی وجہ ہے اس کو سمجھ کر ذہن نشین کرلیں۔ ایک تاجر کسی سرمایہ دار سے سود پر تجارتی قرض لیتا ہے۔ اگر تجارت میں نفع ہوتا ہے تو سرمایہ دار کے حصے میں منافع کی کریم یعنی مکھن آتا ہے اور تاجر کے حصے میں مکھن نکلا ہوا منافع آتا ہے ‘ حالانکہ سرمایہ دار آرام سے گھر بیٹھا رہا اور تاجر نے دن رات ایک کیا۔ اگر تجارت میں نقصان ہوتا ہے تو سارا نقصان تاجر کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ” مَرے پر سَو دُرّے “ کے مصداق سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں ایک فریق کے مفادات کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ‘ جو کہ سرمایہ دار ہے ‘ جبکہ دوسرے فریق یعنی تاجر کو کلیتاً حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ صریحاً ناانصافی اور ظلم ہے ‘ اس لیے اللہ نے سود کو حرام کیا ہے۔ ایک تاجر کسی سرمایہ دار سے نفع و نقصان میں شراکت پر تجارتی قرض لیتا ہے۔ اب اگر تجارت میں نفع ہوتا ہے تو دونوں مل کر اسے کھاتے ہیں اور اگر نقصان ہوتا ہے تو دونوں مل کر اس کا بوجھ اٹھاتے ہیں ‘ اس طرح دونوں کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ یہ طریقۂ کار انصاف اور عدل پر مبنی ہے ‘ اس لیے اللہ نے ” بیع “ کو حلال کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت پر قرض دیا گیا تو تاجر غلط نقصان دکھائے گا اور بینک نقصان میں رہینگے ‘ اس لیے اس مسئلہ کا قابل عمل حل یہی ہے کہ قرضہ مقررہ شرح یعنی سود پر دیا جائے۔ لیکن پاکستان میں جس طرح تھوک کے حساب سے قرضے معاف (write off) کیے گئے ہیں اور کیے جا رہے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سود پر قرضہ دینا بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ ہے۔ شرحِ سود مقرر ہونے کی وجہ سے بینک زیادہ چھان بین نہیں کرتا کہ جس تجارت یا صنعت کے لیے قرض لیا جا رہا ہے اس کے نفع بخش ہونے کے کیا امکانات ہیں۔ محض کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لیے ایک feasibility report فائل میں لگا لی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر بینک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا دیا ہوا تجارتی قرضہ تاجر نے کہاں خرچ کیا ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر قرضوں کے نادہندگان کی فہرست دن بدن طویل ہوتی جا رہی ہے۔ یہی سرمایہ اگر نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر دیا جائے تو منصوبوں کی چھان بین کرنے کے لیے بینک کو اپنا ایک نظام وضع کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ قرضوں کو خرچ کرنے کی نگرانی کرنا بھی بینک کے لیے ضروری ہوجائے گا۔ اس طرح نادہندگان کی تعداد بہت کم ہوگی اور جو بھی قرضے معاف کیے جائیں گے وہ جعلی نہیں ہوں گے۔ ایک یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں لفظ ” رِبٰو “ ایک مخصوص اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس سے مراد وہ اضافہ تھا جو تجارتی قرضوں پر مقررہ شرح سے حاصل کیا جاتا ‘ جبکہ تجارتی لین دین سے حاصل ہونے والے نفع کے لیے ” بیع “ کی اصطلاح مخصوص تھی۔ البتہ نفع و نقصان میں شراکت والے معاہدے بھی شامل تھے ‘ جیسے نبی کریم ﷺ حضرت بی بی خدیجہ ؓ کا سامانِ تجارت لے کر بیرونِ ملک جاتے تھے۔ اس حقیقت کا ایک واضح ثبوت عربوں کا یہ قول ہے جو قرآن کریم میں منقول ہے کہ : { قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا 7} (البقرۃ :275) ” یہ کہتے ہیں : بیع بھی تو ربا کی مانند ہے “ ۔ لیکن مشابہت کے باوجود وہ لوگ ان کے فرق سے بھی واقف تھے ‘ جبھی تو ان کے لیے الگ الگ اصطلاح استعمال کرتے تھے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب نہیں دیا ‘ بلکہ صرف اپنا فیصلہ سنایا کہ :” اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے “۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اس مسئلہ کو کس طرح سمجھا اور دیکھا ہے۔ ابن عربی (رح) نے ” احکام القرآن “ میں فرمایا کہ :” ربا کے معنی اصل لغت میں زیادتی کے ہیں اور آیت میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جس کے مقابلے میں کوئی مال نہ ہو (یعنی کوئی شے نہ ہو) ‘ بلکہ محض ادھار اور اس کی میعاد ہو “۔ امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ :” ربا کی دو قسمیں ہیں : ایک معاملاتِ بیع و شراء کے اندر ‘ دوسرے ادھار کا ربا۔ اور جاہلیت عرب میں (ربا کے نام سے) دوسری قسم ہی رائج اور معروف تھی کہ وہ اپنا مال (یعنی پیسہ) کسی کو معین میعاد کے لیے دیتے تھے اور مخصوص مدت پر اس کا نفع لیتے تھے۔ اگر میعادِ معین پر ادائیگی نہ کرسکا تو میعاد بڑھا دی جاتی تھی بشرطیکہ وہ سود کی رقم بڑھا دے۔ یہی جاہلیت کا ربا تھا جس کو قرآن نے حرام کیا “۔ (منقول از معارف القرآن ‘ ج 1‘ ص 664) ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر پیسہ ادھار دے کر نفع لیا جائے تو یہ ربا ہے جس کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے ‘ جبکہ اگر کوئی چیز بیچ کر نفع لیا جائے تو یہ بیع و شراء ہے جسے قرآن نے حلال قرار دیا ہے۔ سود کے متعلق آیات کے نزول کے وقت صحابہ کرام ؓ کو ” بیع “ اور ” ربا “ میں تمیز کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ انہوں نے ربا کا کاروبار ترک کردیا ‘ جبکہ بیع کا کاروبار بدستور جاری رہا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کو اس سے نہیں روکا۔ مفتی محمد شفیع (رح) نے لکھا ہے کہ : ” البتہ نبی کریم ﷺ نے ربا کے مفہوم میں بیع و شراء کی چند صورتوں کو بھی داخل فرمایا جن کو عرب ربا نہ سمجھتے تھے۔ مثلاً چھ چیزوں کی بیع و شراء میں یہ حکم دیا کہ اگر ان کا تبادلہ کیا جائے تو برابر سرابر ہونا چاہیے اور نقد دست بدست ہونا چاہیے۔ اس میں کمی بیشی کی گئی یا ادھار کیا گیا تو یہ بھی ربا ہے۔ یہ چھ چیزیں سونا ‘ چاندی ‘ گندم ‘ جو ‘ کھجور اور انگور ہیں “۔ (معارف القرآن ‘ ج 1‘ ص 665) مفتی محمد شفیع (رح) نے مزید لکھا ہے کہ : ” اس میں یہ بات قابل غور تھی کہ ان چھ چیزوں کی خصوصیت ہے یا ان کے علاوہ اور بھی چیزیں ان کے حکم میں ہیں ؟ اور اگر ہیں تو ان کا ضابطہ کیا ہے ؟ یہی اشکال حضرت فاروق اعظم ؓ کو پیش آیا جس کی بنا پر فرمایا کہ آیت ربا قرآن کی آخری آیتوں میں ہے ‘ اس کی پوری تفصیلات بیان فرمانے سے پہلے رسول کریم ﷺ کی وفات ہوگئی ‘ اس لیے اب احتیاط لازم ہے ‘ ربا کو تو چھوڑنا ہی ہے ‘ جس صورت میں ربا کا شبہ بھی ہو اس کو بھی چھوڑ دینا چاہیے “۔ (معارف القرآن ‘ ج 1‘ ص 665)
Top