Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اَرِنِيْ : مجھے دکھا كَيْفَ : کیونکر تُحْيِ : تو زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردہ قَالَ : اس نے کہا اَوَلَمْ : کیا نہیں تُؤْمِنْ : یقین کیا قَالَ : اس نے کہا بَلٰي : کیوں نہیں وَلٰكِنْ : بلکہ لِّيَطْمَئِنَّ : تاکہ اطمینان ہوجائے قَلْبِىْ : میرا دل قَالَ : اس نے کہا فَخُذْ : پس پکڑ لے اَرْبَعَةً : چار مِّنَ : سے الطَّيْرِ : پرندے فَصُرْھُنَّ : پھر ان کو ہلا اِلَيْكَ : اپنے ساتھ ثُمَّ : پھر اجْعَلْ : رکھ دے عَلٰي : پر كُلِّ : ہر جَبَلٍ : پہاڑ مِّنْهُنَّ : ان سے (انکے) جُزْءًا : ٹکڑے ثُمَّ : پھر ادْعُهُنَّ : انہیں بلا يَاْتِيْنَكَ : وہ تیرے پاس آئینگے سَعْيًا : دوڑتے ہوئے وَاعْلَمْ : اور جان لے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى (اور یاد کرو ( اس واقعہ کو) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا اے میرے رب مجھے دکھا دے کہ مردوں کو تو زندہ کس طرح کرتا ہے۔ (وجہ سوال) حسن (رح) ، قتادہ (رح) ، عطا (رح) ، خراسانی (رح) اور ابن جریح (رح) نے سوال مذکور کی وجہ یہ بیان کی کہ گدھے کی ایک لاش حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سمندر کے کنارے پر پڑی دیکھی جب سمندر 1 ؂ چڑھتا تھا تو دریائی (مردار خوار) جانور ( سمندر کے پانی کے ساتھ) آکر اس لاش کو کھاتے تھے اور پانی کے اتار کے بعد صحرائی درندے اور پرندے اس کو کھانے لگتے تھے حضرت ابراہیم کو یہ کیفیت دیکھ کر تعجب ہوا اور عرض کیا میرے رب میں یہ تو جانتا ہوں کہ تو اس ( مردار کے مختلف حصوں) کو سمندر و صحراء سے لا کر یکجا ( کرکے زندہ) کردے گا لیکن مجھے دکھادے کہ تو اس کو کس طرح زندہ کرے گا تاکہ آنکھوں سے دیکھنے کے بعد میرے ایمان میں اضافہ ہوجائے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب نمرود نے دو آدمیوں کو بلوا کر ایک کو قتل کر ادیا اور دوسرے کو آزاد کردیا اور بولا : اَنَا اُحْیِی وَ اُمِیْتُ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : اللہ تو مرنے کے بعد زندہ کریگا ( اگر تو بھی کرسکتا ہے تو کر) نمرود نے کہا کیا تو نے خدا کو ایسا کرتے دیکھا ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) ہاں نہ کہہ سکے اور اس وقت اللہ سے مذکورہ بالا سوال کیا تاکہ نمرود کی ایسی بات کے جواب میں ہاں کہہ سکیں۔ سعید بن جبیر ؓ نے بیان کیا کہ جب اللہ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنا لیا تو بحکم خدا فرشتۂ موت نے آکر آپ کو یہ بشارت دی ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا۔ اس بات کی نشانی کیا ہے فرشتہ نے کہا اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور آپ کی درخواست پر مردوں کو زندہ کردے گا اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مذکورہ بالا سوال کیا۔ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ (ا اللہ نے فرمایا : کیا تجھے یقین نہیں ہے کہ مار دینے کے بعد میں دوبارہ اجزاء کو جوڑ کر زندہ کرسکتا ہوں۔ اللہ اگرچہ واقف تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایمان سب سے زیادہ پختہ ہے لیکن صرف اس وجہ سے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب کو دوسرے لوگ سن لیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے مذکورہ بالا سوال کیا۔ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ (ابراہیم ( علیہ السلام) نے کہا مانا کیوں نہیں مگر میرا یہ سوال تو اپنے دل کے ٹھہراؤ کے لیے ہے۔ یعنی مجھے قلبی اطمینان ہوجائے بصیرت اور سکون قلب معاینہ کے بعد بڑھ جائے استدلال ( عقلی) اور وحی ( وجدانی) کے ساتھ مشاہدہ مل جائے تو جی کا ٹھہراؤ ہوجائے۔ یا یہ مطلب ہے کہ میرے دل کو اس بات کا اطمینان ہوجائے کہ تو نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے اور میری دعاء کو تو قبول فرمائے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتٰی (الایۃ) وَ رَحِمَ اللہ لُوْطًا لَقَدْ کَانَ یَأْوِیْ ٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ ۔ وَ لَوْ لَبِثْتُ السِّجْنَ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاجَبْتُ الدَّاعِیَ (متفق علیہ) یعنی ہم ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کے حق دار ہیں جب کہ انہوں نے رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتٰی کہا تھا ( اور اپنے لفظوں سے شک کا اظہار کیا تھا) اور لوط پر اللہ کی رحمت ہو وہ ایک قوی سہارے کی طرف رجوع کرنا چاہتے تھے ( یعنی ظاہری سہارے کے طالب تھے) اور اگر میں قید خانہ میں اتنی طویل مدت تک رہتا جتنی مدت یوسف رہے تو میں ( بادشاہ کی طرف سے) بلانے والے کے قول کو ( بلا شرط) مان لیتا ( اور اس کے ساتھ چلا جاتا) ۔ اس حدیث کی معنوی تشریح مختلف طور پر کی گئی ہے۔ اسماعیل بن یحییٰ مزنی (رح) کہتے تھے کہ اللہ کا مردوں کو زندہ کرنا نہ رسول اللہ کے لیے کوئی شک کی چیز تھا نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اس میں کسی کو شک نہ تھا شک صرف اس بات میں تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ ہماری دعا بھی قبول فرما لے گا یا نہیں لیکن اس تشریح کی تردید خود آیت : او لم تؤمن قال بلیٰ و لٰکن لیطمئن قلبی سے ہو رہی ہے (آیت بتارہی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد احیاء موتیٰ کے متعلق اطمینان قلب حاصل کرنا تھا ) امام ابو سلیمان خطابی نے کہا کہ حدیث میں شک کا اعتراف ہی نہیں ہے رسول اللہ نے نہ اپنے شک کا اعتراف کیا نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے شک کرنے کا بلکہ شک کی نفی موجود ہے مطلب یہ ہے کہ جب مجھے شک نہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کو تو بدرجہ اولیٰ شک نہ ہونا چاہئے (گویا) حضور ﷺ نے تواضع و انکسار نفس کے طور پر اپنے کو چھوٹا اور ابراہیم کو بڑا قرار دیا۔ حدیث : لو لبثت فی السجن۔۔ کا بھی یہی مطلب ہے حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی درخواست شک کی وجہ سے نہیں تھی ( یقین تو ان کو پہلے ہی تھا) بلکہ معائنہ سے علم و یقین میں اضافہ چاہتے تھے استدلال سے اطمینان قلب اور معرفت کا حصول اتنا نہیں ہوتا جتنا آنکھوں سے دیکھنے سے ہوتا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خبر معاینہ کے برابر نہیں ہوتی۔ اللہ نے حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل کے گؤ سالہ پرستی کی اطلاع دیدی مگر آپ نے تورات کی تختیاں نہیں پھینکیں لیکن جب ان کی حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تو تختیاں پھینک دیں کہ وہ ٹوٹ گئیں۔ یہ حدیث امام احمد اور طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کی ہے لیکن جو حدیث طبرانی (رح) نے حضرت انس کی روایت سے اور خطیب نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اچھی اسناد کے ساتھ بیان کی ہے اس میں حضرت موسیٰ کے واقعہ کا ذکر نہیں ہے (صرف لیس الخیر کالمعاینۃ مذکور ہے ) ۔ یہ بھی روایت ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو شک کیا لیکن ہمارے حضور ﷺ نے شک نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں یہ قول اور یہ توجیہ حدیث میں ضعیف ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا شک نہ کرنا تو خود آیت میں مذکور ہے دیکھو ابراہیم (علیہ السلام) نے بلٰی و لٰکن لیطمئن قلبی کہا تھا۔ اس کلام کے بعد حضرت ابراہیم کی طرف شک کی نسبت کس طرح کی جاسکتی ہے اور دفعہ تو ہم کی ضرورت ہی کیا ہے میرے نزدیک تحقیق وہ ہے جو صوفیہ صافیہ نے بیان کی ہے کہ سلوک کے دو مقام ہیں : (1) عروج (2) نزول۔ عروج یہ ہے کہ آدمی تمام بشری اوصاف کا لباس اتار پھینکے۔ اس کے اندر ملکوتی صفات اور قدسی احوال پیدا ہوجائیں۔ رسول اللہ نے جب خود طے کے روزے رکھے اور صحابہ کو طے کے روزے رکھنے کی ممانعت فرمائی صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ بھی تو طے کے روزے رکھتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری ( اس ظاہری بشری) ہیئت کی طرح نہیں ہوں مجھے تو میرا رب کھلاتا پلاتا ہے اس حدیث میں مقام عروج ہی کا بیان ہے۔ اہل اللہ کی اصطلاح میں اس سیر حیٰوۃ کو سیرالی اللہ اور سیر فی اللہ کہتے ہیں نزول کا یہ معنی ہے کہ عروج کے بعد پھر لوٹ کر بشری صفات سے موصوف ہوجائے اس رجوعی سیر کو سیر من اللہ باللہ کہتے ہیں۔ مقام نزول مقام تکمیل ہوتا ہے اس مقام پر پہنچنے والا مخلوق کو خالق کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے۔ ( یعنی صاحب دعوت ہوتا ہے) (1) [ یاد رکھنا چاہئے کہ سلوک میں مقام عروج تک پہنچنے سے صرف اپنی تکمیل ہوتی ہے عارف کا رخ صرف حق تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے معرفت حق اس کو حاصل ہوتی ہے ‘ وہ صفات بشر یہ فنا کر چکتا ہے بشری انانیت کھو دیتا ہے وہ اس صاف آئینہ کی طرح ہوتا ہے جس پر اگر آفتاب کا عکس پڑتا ہے تو پار ہوجاتا ہے اور اسکے ذرہ ذرہ کو روشن کردیتا ہے یہاں تک کہ سوائے آفتاب کی شعاعوں کے آئینہ کی ہستی نظر ہی نہیں آتی۔ وہ نور چیں ضرور ہوتا ہے مگر عکس ریز نہیں ہوتا خود روشن ہوتا ہے لیکن دوسروں کو روشنی نہیں دے سکتا تاریک کمرہ میں اس کا عکس نہیں پہنچتا مقام عروج میں انسان میں محض ملکوتی صفات پیدا ہوجاتی ہیں نہ کھانے پینے کی خواہش نہ دکھ سکھ کا احساس نہ اسکے اندر بشری تقاضے کار فرما لیکن صاحب عروج کی مزید تکمیل کیلئے اسکو پھر لوٹا کر بشری صفات کے ساتھ متصف کیا جاتا ہے خالص ملکوتیت اور نری قدسیت باقی نہیں رہتی خواص بشریت اور لوازم انسانیت پھر بدرجۂ اتم اس میں نمودار ہوجاتے ہیں اب وہ دوسرے انسانوں کی طرح ہوش حواس کی دنیا میں ہوتا ہے علائق بشری سے وابستہ ہوجاتا ہے، لذت و الم پیاس اور بھوک صنفی اور شکمی خواہشات کا احساس اس میں پیدا ہوجاتا ہے اب وہ دوسرے انسانوں سے علیحدہ نہیں ہوتا سب کے ساتھ مخلوط ہوتا ہے جب دوسرے آدمیوں سے اس کو مناسبت تامہ ہوجاتی ہے تو مقام عروج میں جو کچھ دیکھ کر آتا ہے اس مقام نزول میں اتر کر دوسروں کو بھی بتاتا ہے جس چشمہ سے خود سیراب ہوچکا ہوتا ہے دوسروں کو بھی اسی پانی سے سیراب کرتا ہے اب وہ ایسا آئینہ ہوجاتا ہے جس کا ایک رخ روشن ہوتا ہے اور دوسرے رخ پر بشریت کا مصالحہ لگا ہوتا ہے روشن رخ سے وہ آفتاب الوہیت و وحدت کی شعاعیں کھینچتا ہے اور تاریک رخ کی وجہ سے اس نور بےکیف اور ہدایت الٰہی کی روشنی کو اپنے اندر روک کر تاریک دلوں پر عکس ریزی اور نور پاشی کرتا ہے پس اس مقام پر اسکو دوسرے انسانوں سے جتنی زیادہ مناسبت ہوتی ہے اتنا ہی اسکی تبلیغ و ہدایت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مرتبہ عروج پر کامل طور پر فائز تو سب ہی انبیاء او اہل عرفان ہوتے ہیں گو درجات کا فرق ہوتا ہے اور کمال عروج سب کو حاصل ہوتا ہے لیکن مقام نزول کے اعتبار سے تمام انبیاء ایک جیسے نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ ہر پیغمبر کی تبلیغ سے بھی ایک جیسا فائدہ نہیں ہوا کسی سے فیض یاب کم لوگ ہوتے ہیں کسی سے زیادہ۔] نزول کی حکمت یہ ہے کہ فیض بخشنے والے اور فیض قبول کرنے والے میں باہم مناسبت ہونی ضروری ہے تاکہ فیض یابی میں سہولت ہو جیسے رنگ ریزی اور رنگ پذیری بغیر باہمی تناسب کے نہیں ہوتی ( اسی طرح فیض بخشی اور فیض یابی کے درمیان خواص وصفات اور احوال میں قدرے مشابہت لازم ہے بالکل بیگانگی مانع استفاضہ ہے) اسی لیے انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ نے انسانوں کو نبی بناکر بھیجا۔ عوام براہ راست انبیاء کی وساطت کے بغیر بارگاہ الٰہی سے فیض یاب نہیں ہوسکتے ( اللہ نور محض ہے اور عام انسان کثافت خالص۔ ظلمت کا نور سے جوڑ نہیں ہوسکتا) یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے لیے فرشتوں کو بھی پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا۔ ( کیونکہ فرشتے بشری آلائشوں سے قطعاً پاک اور مجسم نور ہیں ان سے ظلمانی الطبع انسانوں کو کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ترجمہ) اگر زمین پر ملائکہ چلتے پھرتے ہوتے تو ہم ان کی ہدایت کے لیے آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر اتارتے۔ دوسری جگہ فرمایا : (ترجمہ) اگر ہم پیغامبر کو فرشتہ بناتے تو اس فرشتہ کو مرد بناتے اور انسانی جامہ پہناتے جس شخص کی حالت نزول جتنی کامل ہوگی اتنی ہی اس کی تبلیغ کامل اور دعوت آفاق گیر ہوگی دیکھو اگر کوئی شکاری کسی بلند ترین مقام سے شکار کے تیر مارے تو اکثر نشانہ خطا جاتا ہے ( اسی طرح صاحب عروج جب تک مقام نزول پر اتر کر تبلیغ نہیں کرے گا دعوت ناکام رہے گی) حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہٗ نے فرمایا : حضرت نوح کی دعوت فراق کے ساتھ تھی اس لیے لوگوں نے رد کردی اور رسول اللہ کی دعوت مقارنت کے ساتھ تھی اس لیے لوگوں نے مان لی۔ شیخ کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی استعداد و صلاحیت انتہائی پست ہوتی ہے اور حضرت نوح مقام عروج پر تھے۔ آپ کے اور عوام کے درمیان زیادہ قرب نہ تھا فریقین کے احوال میں باہم مناسبت نہ تھی اس لیے دعوت ناکام رہی اور رسول اللہ (تکمیل عروج کے بعد) انتہائے نزول پر اتر آئے تھے ( اور عوام سے آپ کے احوال قریب اور متناسب ہوگئے تھے) اس لیے آپ کی دعوت پر لوگوں نے لبیک کہی عارف کامل پر جب نزول کے آثار نمایاں ہوتے ہیں تو اس وقت وہ بالکل عوام کی طرح اسباب ( ظاہری) کے دامن سے وابستہ نظر آتے ہیں اسی مقام پر اتر کر رسول اللہ نے جنگ کے موقع پر تہ بر تہ زرہ پہنی تھی ( اور جسم مبارک کی حفاظت کے لیے لوہے کی زرہ استعمال کی تھی) اور مدینہ کے گرداگرد دشمن کی روک کے لیے خندق کھدوائی تھی۔ اسی مقام پر عارف کامل اپنے یقین کی زیادتی اور قلبی سکون حاصل کرنے کے لیے استدلال قطعی کا خواہاں ہوتا ہے پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اسی مقام کی تشریح ہے اور حضرت لوط ( علیہ السلام) نے لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اٰوْ اَوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ اسی مقام میں کہا تھا۔ حدیث مذکور میں رسول اللہ نے زیادتی یقین کی طلب کو (لفظی اور) ظاہری مشابہت کی وجہ سے شک فرمایا اور نحن احق بالشک من ابراہیم فرما کر اپنے مقام نزول کی تعبیر کی۔ مراد یہ ہے کہ ہمارا مقام نزول تو ابراہیم (علیہ السلام) کے مقام نزول سے زیادہ کامل ہے اس لیے زیادت یقین کی طلب ہم کو ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ ہونی چاہئے حقیقت میں بھی رسول اللہ کا مقام نزول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے درجہ نزول سے بڑھا ہوا تھا اسی لیے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آپ کو بھیجا گیا اسی طرح آپ کا مرتبۂ عروج بھی ہر عروج سے بلند تھا۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰگویا آپ کمال کے دونوں جہات (عروج و نزول) کو محیط تھے۔ رہا حضرت لوط ( علیہ السلام) کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مذکور تو اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت لوط مقام نزول میں تھے اس تشریح پر حضرت لوط ( علیہ السلام) کی مدح ہوگی۔ باقی حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے تذکرہ والی حدیث سے تو ثابت ہو ہی رہا ہے کہ رسول اللہ کا مرتبۂ نزول حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے درجہ نزول سے زیادہ کامل تھا اگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا نزول حضور ﷺ کے مرتبہ نزول کے برابر ہوتا تو ( پہلی ہی مرتبہ) بلانے والے کی دعوت کو قبول کرلیتے۔ وا اللہ اعلم۔ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ : اللہ نے فرمایا : ( جب تو اطمینان قلب کے لیے اپنی نظر سے مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دیکھنا چاہتا ہے) تو چار پرندے پکڑ لے۔ الطیر مصدر بمعنی اسم فاعل ہے یا طائر کی جمع ہے۔ صَحْبٌ صَاحِبٌ کی جمع ہے۔ مجاہد عطاء بن رباح اور ابن جریح نے بیان کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چار پرندے لے لیے۔ مور۔ مرغ۔ کبوتر اور کوّا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے ایک قول میں بجائے کبوتر کے گدھ آیا ہے۔ عطاء خراسانی کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ سبز بطخ، کالا کوّ ا، سفید کبوتر اور سرخ مرغ لے لے۔ میں کہتا ہوں چار پرندے لینے کا حکم شاید اس وجہ سے دیا کہ انسان اور دوسرے تمام حیوان چار اخلاط سے بنے ہیں اور چار اخلاط چار عناصر سے پیدا ہوتے ہیں۔ سرخ مرغ خون کی تعبیر ہے اور سفید کبوتر بلغم کی اور سیاہ کو اسوداء کو بتارہا ہے اور سبز بطخ صفراء کو۔ ان جانوروں کو مرے پیچھے زندہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ انسانی اجزاء بھی مرنے کے بعد زندہ کئے جاسکتے ہیں۔ بیضاوی (رح) نے لکھا ہے اس میں اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ مذکورہ جانوروں کے خصوصی اوصاف کو فنا کئے بغیر نفس کو حیات ابدی حاصل نہیں ہوسکتی ظاہری سجاوٹ اور خواہشات کی محبت طاؤس کی خصوصیت ہے، رعب داب اور حملہ کرنے میں مرغ مشہور ہے دناء تِ نفس اور طول آرزو کوّے کی صفت ہے، بلندی کی طلب اور ہوا کی طرف اٹھنا کبوتر کا خاصہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مقام نزول و دعوت میں تھے اس لیے آپ کو اللہ نے ہدایت کا طریقہ سکھایا کہ مرید کو فنا اور بقا دونوں کی تعلیم دیں چناچہ آپ نے جانوروں کو پکڑ کر پارہ پارہ کیا گویا یہ سلوک و فنا کی طرف اشارہ ہے پھر آپ نے ان کو بحکم خدا پکارا اس سے اشارہ جذب الی اللہ اور بقاء کی طرف ہے۔ ( ہماری یہ تفصیل تفسیر قرآن سے غیر متعلق ہے یہ صرف اہل بصیرت کی بصیرت اندوزیاں ہیں۔ ) وا اللہ اعلم۔ فَصُرْھُنَّ : ابو جعفر اور حمزہ کی قراءت فَصِرْھُنَّ ہے یعنی ان کو پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ کردے۔ یہ لفظ صار یَصِیْرُ صَیْرًا سے ماخوذ ہے اور قراء کے نزدیک صَرٰی یَصری صریًا کا مقلوب ہے۔ باقی قاریوں نے فصُرْھُنَّ پڑھا ہے یعنی ان کو ہلا لے ملا لے۔ اس وقت ( اس لفظ کا مادہ صَوْرٌہو گا اور یہ) صُرْتُ اَصُوْرُ سے ماخوذ ہوگا عطا نے کہا صُرْھُنَّ کا معنی ہے ان کو جمع کرلے۔ صَارَ یَصُوْرُ کا معنی جمع کرنے کا ہے۔ اِلَيْكَ ( اپنی طرف) بر قراءت جمہور اس کا تعلق فَصُرْھُنَّ سے ہے اور بر قراءت حمزہ ایک لفظ محذوف سے تعلق ہے یعنی مُنْضَمَّا اِلَیْکَ . ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا (پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دے۔ عاصم نے بروایت ابوبکر جُزُءً ا قرآن میں ہر جگہ پڑھا ہے اور ابو جعفر نے جُزًا اور جمہور نے جُزْءً ا . ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ پرندوں کو ذبح کرکے ان کے پر نوچ کر سب پر اور خون اور گوشت مخلوط کرلیں پھر اس مخلوط کے حصے کرکے پہاڑوں پر رکھ دیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے سات حصے کرکے سات پہاڑوں پر رکھ دیئے اور سب کے سر اپنے پاس روکے رکھے۔ ابن جریح اور سدی کی بھی یہی روایت ہے لیکن ابن جریر نے بوساطت ابن اسحاق نیز قتادہ ؓ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہر پرندہ کے چار حصے کرکے ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دیا ( یعنی چار پہاڑوں پر چار حصے رکھ دیئے) ۔ ثُمَّ ادْعُهُنَّ (پھر ان کو پکارو) یعنی یوں کہو کہ بحکم خدا آجاؤ۔ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا (وہ جلد جلد اڑتے ہوئے یا تیز تیز پیدل دوڑے ہوئے آجائیں گے۔ ) حسب الحکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو پکارا فوراً ہر پرندہ کے خون کا ہر قطرہ دوسرے قطرہ سے ہر پر دوسرے پر سے اور ہر ہڈی اور ٹکڑا دوسری ہڈی اور ٹکڑے سے ملنے لگا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی نظر کے سامنے ہر جسم بغیر سر کے پورا بن گیا پھر جسم اپنے اپنے سروں کی طرف آئے اور سروں سے جڑ کر بحکم خدا زندہ پرندے بن گئے۔ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ (اور جان رکھ کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے) یعنی کوئی چیز اس کو اس کے ارادہ سے روک نہیں سکتی۔ حَكِيْمٌ (پوری حکمت والا ہے) اس کا ہر فعل اور ترک مبنی پر حکمت ہے سابق میں ( حضرت عزیر یا ارمیا ( علیہ السلام) کے قصہ کے خاتمہ پر) فرمایا تھا : اِعْلَمْ اِنَّ اللہ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْر اور اس جگہ ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کے خاتمہ پر) فرمایا : اِعْلَمْ اَنَّ اللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ ( عزیر ارمیا کا قول : اَنّٰی یُحْیِی ھَذِہٖ اللہ بَعْدَ مَوْتِھَا صرف اظہار تعجب کے لیے تھا اور حیرت اس امر پر تھی کہ مرے پیچھے زندہ کرنا معمول دنیوی کے خلاف ہے (1) [ وہ ضابطہ تخلیق جو اس دنیا میں جاری ہے آدمی اس کو ضابطہ فطرت سمجھتا ہے کیونکہ اس کے خلاف آدمی کو کوئی مثال نہیں ملتی لیکن آدمی کے مسلمہ ضابطۂ فطرت کے خلاف اگر کوئی صورت پیش آئے یا خرق فطرت کی اس کو اطلاع دی جائے تو خبر دینے والے کی سچائی پر اعتماد کرنے کی وجہ سے وہ اگرچہ اس کو مان لیتا ہے اور یقین کرلیتا ہے لیکن باوجود یقین کے اس کو تحیر اور تعجب ضرور ہوتا ہے اسی حیرت اور تعجب کی وجہ سے وہ اپنے علمی یقین کو یقین مشاہدہ سے بدلنا چاہتا ہے اور علم الیقین سے ترقی کرکے عین الیقین حاصل کرنے کا خواستگار ہوتا ہے۔ حضرت مؤلف کا مطلب بھی یہی ہے کہ حضرت عزیر یا حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کا سوال انکاری نہ تھا بلکہ تعجب آگیں تھا اور آپ عین الیقین کے خواستگار تھے۔ سورة التکاثر میں علم یقین ‘ عین الیقین اور حق الیقین کو بہت خوبصورت طریقے سے ذکر کیا گیا ہے۔ (حافظ)] اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول : رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحِی الْمَوْتٰی کی بناء ایک نازک ترین حقیقت ( حالت نزول) پر تھی۔ جس سے حکمت الٰہیہ کا تقاضا پورا ہوتا تھا۔ وا اللہ اعلم۔ بیضاوی (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت عزیر کو سو برس مردہ رکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی مرا ددکھائی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مراد بڑی آسانی اور حسن اسلوب کے ساتھ فوراً پوری کردی اس سے ثبوت مل رہا ہے اس امر کا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت عزیر پر فضیلت حاصل تھی نیز حسن ادب کے ساتھ سوال اور عاجزانہ دعا بہت برکت رکھتی ہے ( یعنی حضرت عزیر کے کلام میں صرف اظہار تعجب ہے اور حضرت ابراہیم کے کلام میں عاجزانہ طلب ملتجیانہ دعا اور با ادب سوال ہے اسی دعا کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال آسانی کے ساتھ پورا کردیا گیا اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) کو سو برس مردہ رہنے کے بعد مراد ملی) ۔
Top