Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (لڑو اللہ کی راہ میں) الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ ( ان سے جو تم سے لڑائی کریں) ان سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن سے لڑائی کا اندیشہ ہو۔ وَلَا تَعْتَدُوْا ( اور زیادتی نہ کرو) یعنی عورتوں اور بچوں اور بہت بوڑھوں اور راہبوں اور صلح کرنے والوں کو قتل نہ کرو۔ بریدہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب کہیں لشکر بھیجتے تھے ( بطور وصیت) فرماتے کہ اللہ کے نام پر اور اللہ کی راہ میں غزوہ کرو جو اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان سے قتال کرو اور قتال میں حد سے مت تجاوز کرو اور بد عہدی نہ کرو اور عورت اور بچہ اور بوڑھے کو قتل نہ کرو۔ اس حدیث کو بغوی (رح) نے روایت کیا ہے اور مسلم نے ایک حدیث طویل اسی مضمون کی نقل کی ہے اس میں اس قدر مضمون اور ہے کہ مثلہ نہ کرو اور بچہ کو قتل نہ کرو اور عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ نے بچوں اور عورتوں کے قتل سے نہی فرمائی ہے اور انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے (لشکر بھیجنے کے وقت) فرمایا کہ اللہ کے نام پر اور رسول اللہ کی ملت پر جاؤ بہت بوڑھے کو اور بچے کو اور عورت کو قتل نہ کرنا اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور غنائم کو جمع کرلینا اور اپنے سب حالات کو درست رکھنا اور احسان کرنا بیشک نیکی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتے ہیں۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے اس تفسیر کے موافق یہ ایت محکم ہوگی منسوخ نہ ہوگی۔ ابن عباس اور مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ابتداء اسلام میں حق تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو مشرکین کے قتل کرنے سے روک دیا تھا پھر جب حضور مدینہ کو ہجرت فرماگئے تو اس آیت میں حکم دیدیا جو تم سے قتال کرے اس سے تم بھی قتال کرو۔ ربیع فرماتے ہیں کہ جہاد کے بارے میں یہ آیت اوّل نازل ہوئی پھر اس کے بعد یہ حکم ہوگیا۔ اقتلوا المشرکین کافۃ یعنی تمام مشرکین کو قتل کرو خواہ ان میں سے کوئی تم سے قتال کریں یا نہ کریں اس تقدیر پر ولا تعتدوا کے معنی یہ ہوں گے کہ تم ابتداء قتال کی مت کرو اس تفسیر پر یہ آیت منسوخ ہوگی۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ( بیشک اللہ نہیں دوست رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو) یعنی اللہ حد سے بڑھنے والوں کے ساتھ ارادہ خیر کا نہیں کرتا۔
Top