Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ کی راہ میں جنگ اور احترام کعبہ تشریح : اس حکم سے مسلمانوں کو پہلی دفعہ کفار سے لڑنے کی اجازت ملی۔ اس سے پہلے تیرہ برس مکہ میں مسلمانوں کو صبر و سکون کی ہی تلقین کی گئی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک صرف تبلیغ و تلقین کا سلسلہ ہی جاری تھا۔ اب چونکہ مدینہ میں چھوٹی سی شہری ریاست بن گئی تھی تو اپنی حفاظت، دین کی حفاظت اور اسلام کے فروغ کے لئے پہلی دفعہ حکم ہوا کہ جو تم سے لڑیں تم ان سے لڑو اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور پھر فلاح و بہبود اور اسلام کی تبلیغ کے لئے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مگر جنگ میں بھی حدودبندی کا سلسلہ جاری رہا اور مسلمان کو کبھی ظلم و زیادتی کی اجازت ہرگز نہیں دی گئی۔ کیونکہ مسلمان لڑتا ہے تو اللہ کے لئے، مرتا ہے تو اللہ کے لئے، جیتا ہے تو اللہ کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جنگ میں پہل نہ کرو، مدافعت میں لڑو، صرف ان کو قتل کرو جو تمہارے خلاف جنگ میں شریک ہوں جو جنگ میں شریک نہ ہوں ان کو قتل نہ کرو۔ مثلاً راہب، پادری، کفار کے ملازمین، بیمار، عورتیں معذور اور بچے اور پھر حکم ہے زیادتی نہ کرو حد سے نہ گزرو یعنی کھیتوں کو برباد کرنا، پھل دار درخت ضائع کرنا، مویشیوں کو مار دینا یا اور کوئی ایسا وحشیانہ عمل کرنا جس کو انسانیت کے خلاف سمجھا جائے وغیرہ۔ مقصد صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو، ہر مسلمان کو ہر وقت ہر فعل میں خیال رکھنا چاہیئے کہ ہمارا دین، ہمارا خدا، ہمارا رسول کبھی بھی ظلم و زیادتی کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ ہمارا مذہب امن و سلامتی کی ہی تلقین کرتا ہے۔ اس لئے جنگ کے بدلے جنگ کی اجازت دی گئی ہے، حد سے بڑھنا اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ البتہ اللہ کا حکم ہے کہ ایسے کافر جو تم سے شرارت کرنے سے باز نہ آئیں اور ظلم و زیادتی کریں تو ان کو جہاں بھی تم پاؤ قتل کر دو اور پھر جس طرح انہوں نے تمہیں تکلیفیں دے دے کر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا تم بھی اپنا آبائی وطن اور روحانی مرکز ان سے واپس لے لو اور ان کو وہاں سے نکال دو اور پھر حکم ہے فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اگر کچھ لوگ قتل کرنے پڑیں تو ضرور قتل کر دو ۔ کیونکہ فتنہ قتل سے بڑا اور خطرناک فعل ہے۔ یعنی معاشرے کو فساد، برائی، بدامنی اور شرک سے بچانے کے لئے قتل کی اجازت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گلے سڑے حصہ کو آپریشن کرکے جسم سے علیحدہ کردیا جاتا ہے اسی طرح معاشرے کو پاک صاف رکھنے کے لئے غلط کار لوگوں کو ختم کردینا ضروری ہے اور یہ انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے۔ جیسا کہ جنگ میں پہل کرنے، بےجا قتل و غارت اور فتنہ فساد سے ہمیشہ مسلمان کو منع کیا گیا ہے۔ اس جگہ بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ مسجد حرام میں لڑائی فساد بالکل منع ہے۔ جیسا کہ پچھلے اسباق میں تفصیلاً بیان ہوچکا ہے۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ اجازت دے رہا ہے کہ اگر کوئی مسجد حرام میں تم سے لڑے، قتل و غارت گری کرے تو تم جواب میں بیشک اس کو قتل کرو۔ کیونکہ کفار سے مقابلہ کرنا نہ صرف ضروری ہی ہے بلکہ ان کی سزا بھی یہی ہے پھر فرمایا گیا کہ پھر جب وہ توبہ کرلیں۔ بدعملی، فتنہ و فساد اور گمراہی سے باز آجائیں تو پھر تم بھی ان پر ہرگز تلوار نہ اٹھاؤ۔ بلکہ ان کے ساتھ پیار و محبت شفقت اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ خود نہایت مہربان اور معاف کرنے والا ہے۔ ” غفور رحیم “ اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ہیں اور ان کی یہ فضیلت ہے کہ الغفور۔ (بہت بخشنے والا) کا ورد کرنے والا درد بخار اور مایوسی سے نجات پاتا ہے اور بخشش حاصل کرلیتا ہے۔ الرحیم (بڑا مہربان) ہر نماز کے بعد سو دفعہ پڑھنے سے دنیاوی آفتوں سے محفوظ اور مخلوق مہربان ہوجاتی ہے۔ (بحوالہ شرح اسماء الحسنیٰ تاج کمپنی لمیٹڈ ) مقصد یہ ہے کہ ہمارا رب جس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔ بےحد مہربان ہے اسی طرح ہمیں بھی ظلم کو روکنے کے لئے قتل کرنا جائز ہے جب کوئی راہ راست پر آجائے تو اس کو فوراً معاف کر دو کہ مسلمان کی یہی شان ہے۔
Top