Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور جو لوگ تم سے لڑائی لڑ رہے ہیں اللہ کی راہ میں تم بھی ان کے ساتھ لڑو ، ہاں ! کسی طرح کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرنے والے ہوں
جہاد فی سبیل اللہ کا حکم عام : 326: پوری امت مسلمہ اس پر متفق ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد و قتال ممنوع تھا۔ مکہ مکرمہ کی تمام آیات قرآنی میں مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور عفو و درگزر ہی کی تلقین تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے اسی آیت کریمہ میں قتال کفار سے جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس آیت میں حکم یہ ہے کہ مسلمان صرف ان کفار سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ پر قتال کے لئے آئیں یعنی میدان جنگ میں۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ تمام دنیا مسلمانوں کی جولا نگاہ ہے کرہ ارض میں اس وقت صرف اور صرف ایک نبی یعنی محمد ﷺ کی نبوت جاری ہے۔ اب کسی نبی کا آنا ممکن نہیں رہا کیونکہ ختم نبوت کا اعلان ہوچکا ہے ۔ اب اس صفحہ زمین کی ہدایت کے لئے امت مسلمہ ہی کی ذمہ داری ہے اور مسلمانوں ہی کو کرہ ارض کے گوشہ گوشہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کرنا ہے تاکہ : خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے مصداق حقیقی بن جائیں مگر جس وقت حق و صداقت کی دعوت کے لئے وہ نکلیں گے تو دوسری قومیں ضرور ان کی راہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کریں گی کیونکہ ہر ایک قوم میں اپنی زندگی کا عشق اور بقا کی محبت رکھی گئی ہے ۔ تنازع للبقاء کا قانون کائنات ارضی کی ہرچیز میں موجود ہے۔ دنیا میں زندہ رہنے کا بیشک سب کو حق ہے لیکن عقل و فکر کی بات سننا اور پھر عقل و فکر ہی سے اس کا جواب دینا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن اس فطرت سے انسان اکثر گریز کرتا ہے۔ اسلام کی دعوت عام تو عقل وفکر ہی کی دعوت ہے لیکن اس دعوت کے جواب میں دوسری قومیں عقل و فکر سے کام نہیں لیتیں اور بزور بازو اس دعوت کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں تو ملت اسلامیہ پر بھی واجب ہے کہ ان کے اس زور کا جواب پوری طاقت و قوت کے ساتھ دے جس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یہ جہاد۔ جنگ دونوں طرف سے ہوگی بلکہ اسلام ہمیشہ مدافعتی لڑائی ہی لڑتا ہے کبھی پہل نہیں کرتا لیکن اسلام کی یہ تمام تر جنگ صرف کلمہ حق کی بلند اور نفاذ کے لئے اور جھوٹ کو ختم کر کے اس کی جگہ سچ کو نافذ کرنے کے لئے ہوگی۔ نہ تو حمیت قومی اس کا سبب ہوگا اور نہ شہرت و ناموری کی بنا پر اس قدر خونریزی جائز رکھی جائے گی بلکہ جو کچھ ہوگا فتنہ کو مٹانے کے لئے تاکہ دین پورے کا پورا اللہ کے لئے ہوجائے۔ پھر اسلام نے کوئی کام آج تک بےاصولا نہیں بتایا ہر ایک کام کے لئے اصول و ضوابط مقرر کئے۔ مسلمان کہلانے والے بےاصولے ہوجائیں یہ دوسری بات ہے۔ اسلام نے اس نازک موقع پر پہنچ کر بھی جس میں زندگی و موت کا سوال ہے اصولوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا فرمایا کہ صرف ان لوگوں سے یہ جنگ لڑی جائے گی جو تمہارے مقابلہ کے لیے میدان جنگ میں نکلیں گے جس سے مراد اصل یہ ہے کہ عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور مذہبی عبادت میں مصروف لوگ یعنی راہب وپادری ، اپاہج اور معذور بلکہ سب لوگ جو کفار کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے ایسے لوگوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے ہاں یہ اپنے لڑنے والے کفار کی مدد کریں تو یہ گویا ان کے ساتھ شریک سمجھے جائیں گے کیونکہ ارشاد الٰہی خود ان ساری باتوں کی وضاحت کر رہا ہے فرمایا : ” الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ “ یعنی وہ لوگ جو تم سے لڑائی لڑتے ہیں۔ پھر یہ اصول جہاد کا حکم دیتے ہی ساتھ بیان کردیا کچھ مدت بھی اس کا انتظار نہیں کیا اور اب تک یہ اصول اسلام کا جاری وساری ہے خود رسول اللہ ﷺ کی ہدایات جو مجاہدین اسلام کو بوقت جہاد کیں ان میں اس حکم کی واضح تشریحات موجود ہیں چناچہ صحیح بخاری اور مسلم میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ایک حدیث میں ہے : ( نھی رسول اللہ ﷺ عن قتل النساء والصبیان) ” یعنی رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ ‘ ‘ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ بعض لوگ غنیمت کی خاطر جنگ کرتے ہیں۔ بعض کا مطمع نظر شہرت و ناموری ہوتا ہے۔ کسی کا مقصد عزت و وقار ہوتا ہے۔ ان میں سے فی سبیل اللہ کون سی بات ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” فی سبیل اللہ “ اس شخص کی جنگ کو کہا جائے گا جو صرف کلمۃ اللہ کی بلندی یعنی دین الٰہی کی خاطر لڑا۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ ایک شخص ” جہاد فی سبیل اللہ “ میں شریک ہوتا ہے مگر دنیا عزت و کرامات اور جاہ و حشمت کا طالب ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کو ذرہ برابر بھی اجر نہ ملے گا۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ انہوں نے قوم اور وطن کو توحید خالص کے لئے قربان کیا تو پیشوائی عالم کے لئے چن لئے گئے۔ پس یہ تمام واقعات ثابت کرتے ہیں کہ جہاد کی اصل غرض وغایت صرف اعلاء کلمۃ اللہ ہونا چاہئے اور جنگ صرف ان لوگوں سے ہو جن سے مخالفت کا اندیشہ ہے جو اسلام کو تباہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حکومت اسلام کا فرض ہے فوراً قتل کر دے۔ اگر انہیں مہلت دی اور وہ اس درمیان آلات حرب سے مسلح ہوگئے تو کامیابی کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ البتہ ان لوگوں سے تعرض کرنے کی ضرورت نہیں جو فطر ۃً جنگ کرنے سے عاجز ہیں ان میں لڑنے کی استعداد و قابلیت ہی نہیں اور نہ وہ کسی قسم کی تیاری کرسکتے ہیں پھر فرمایا کہ اگر ان سے بھی جنگ شروع کردو گے تو یہ تمہاری زیادتی تصور ہوگی اور ہماری برکتوں کا سلسلہ تمہارے لئے بند ہوجائے گا۔ اسلام کا حکم جہاد آنے سے پہلے بھی قومیں اس صفحہ ہستی میں موجود تھیں اور باہم جنگ و قتال بھی جاری تھا لیکن سب قوموں میں اس بات کا رواج تھا کہ جب جنگ جاری ہوگئی عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں سب کے سب کو تہ تیغ کردیا جاتا بلکہ جانوروں تک مار ڈالا جاتا تھا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اکثر اوقات کھیت ، باغات اور گھروں کا تمام مال و متاع آگ کی نذر کردیا جاتا یہ صرف اور صرف اسلام کی خصوصیت ہے کہ وہ عین انتہائی جوش وغضب کے موقع پر بھی اعتدال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور بار بار تقویٰ و طہارت اور عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے۔ فتح مکہ اور سیدنا عمر فاروق ؓ کا داخلہ بیت المقدس اور علاوہ ازیں بیسیوں امثال و نظائر اس کے موجود ہیں۔
Top