Al-Qurtubi - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
آیت نمبر 190 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقاتلوا یہ پہلی آیت ہے جو قتال کے حکم میں نازل ہوئی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ہجرت سے پہلے ان ارشادات کی وجہ سے قتال ممنوع تھا۔ اذقع بالتی ھی احسن (المومنوں :96) (دور کرو اس چیز سے جو بہت بہتر ہے) فاعف عنھم واصفع (المائدہ :13) (معاف فرماتے رہئے اور دوگزر فرمایئے) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واھجرًا ھم ھجرًا جمیلا۔ (مزمل) (اور ان سے الگ ہوجایئے بڑی خوبصورتی سے) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لست علیھم بمصیطر۔ (الغاشیہ) (آپ ان کو جبر سے منوانے والے تو نہیں ہیں) اس قسم کے دوسرے ارشادات جو مکہ میں نازل ہوئے۔ جب آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو آپ کو قتال کا حکم دیا گیا یہ ارشاد نازل ہوا : وقاتلو فی سبیل اللہ الذی یقاتلونکم (البقرہ : 190) یہ حضرت ربیع بن انس وغیرہ کا قول ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے مروی ہے کہ پہلی آیت قتال کے بارے میں یہ نازل ہوئی اذن للذی یقٰتلون بانھم ظلموا (الحج :39) پہلا قول زیادہ ہے۔ اذن والی آیت وام مثال کئ بارے نازل ہوئی مشرکین میں سے جو قتال کرے اور جو نہ کرے ہر ایک سے جنگ کرنے کا اذن ہوا۔ نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف عمرہ کے لئے نکلے تھے جب مکہ کے قریب حدیبیہ میں اترے۔۔۔ حدیبہ ایک کنویں کا نام ہے، اس کنویں کے نام کی وجہ سے اس جگہ کو بھی حدیبیہ کہا جاتا ہے۔۔۔ مشرکوں نے آپ کو بیت اللہ کی طرف سے روکا۔ آپ ایک مہینہ حدیبیہ میں ٹھہرے رہے پھر مشرکوں نے آپ سے صلح کی کہ آپ اس سال واپس لوٹ جائیں جس طرح آئے ہیں آئندہ سال ان کے لئے تین دن مکہ خالی کردیا جائے کردیا جائے گا اور اس شرط پر صلح کی کہ دس سال ان کے درمیان قتال نہ ہوگا۔ آپ ﷺ مدینہ طیبہ واپس آگئے۔ جب اگلا سال آیا تو آپ نے عمرہ القصناء کی تیاری کی۔ مسلمانوں کو کفار کے دھوکا کا خوف ہوا۔ مسلمانوں نے حرم میں اور حرمت والے مہینہ میں لڑنا ناپسند کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی تمہارے لئے قتال حلال ہے اگر کفار تم سے قتال کریں۔ یہ آیت حج کے ذکر اور گھروں کے پیچھے سے آنے کے گزشتہ ذکر کے ساتھ متصل ہے۔ نبی کریم ﷺ اس سے جنگ کرتے تھے جو آپ سے جنگ کرتا تھا اور اس سے جنگ نہیں کرتے تھے جو آپ سے جنگ نہیں کرتا تھا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی : فاقتلوا المشرکین (توبہ :5) پس یہ آیت منسوخ ہوگئی۔ یہ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے۔ ابن زید اور ربیع نے کہا اس کو قاتلوا المشرکین کآفۃً (توبہ :36) نے منسوخ کیا تمام کفار سے جنگ کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت ابن عباس، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور مجاہد نے کہا : یہ آیت محکم ہے یعنی تم ان سے جہاد کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور عورتوں اور بچوں اور راہبوں کے قتل میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : یہ سنت اور نظر میں اصح قول ہے۔ سنت میں ابن عربی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی جنگ میں عورت کو مقتولہ دیکھا تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ اس حدیث کو ائمہ نے روایت کیا ہے۔ رہی نظر تو فاعل کا صیغہ عام طور پر دو شخصوں سے پایا جاتا ہے جیسے مقاتلہ، مشاتمۃ، مخاصمہ، جھگڑنا، گالی دینا، لڑنا وغیرہ۔ قتال عورتوں، بچوں اور انکے مشابہہ لوگوں میں نہیں ہوتا جیسے راہب، اپاہج، بوڑھے اور مزدور لوگ۔ پس یہ لوگ قتل نہیں کئے جائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت یزید بن ابی سفیان کو یہی وصیت کی تھی جب اسے شام کیطرف بھیجا تھا مگر یہ کہ یہ لوگ اذیت دینے والے ہوں تو انکو قتل کیا جائیگا۔ اسکو مالک وغیرہ نے نقل کیا ہے اور علماء کی اس میں چھ صورتیں ہیں۔ (1) عورتیں اگر قتال کریں تو انہیں قتل کیا جائے گا۔ سحنون نے کہا : جنگ کی حالت میں اور جنگ کے بعد ایسی عورتوں کو قتل کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رشاد عام ہے : وقاتلو فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں) واقتلو ھم حیث ثقفتموھم (ان کو قتل کرو جہاں تم انہیں پاؤ) اور عورت کے لئے جنگ میں آثار عظیمہ ہوتے ہیں مثلاً اموال سے امداد، جنگ پر ابھارنا کبھی عورتیں اپنے باکل کھولے ہوئے، ندبہ کرتے ہوئے، ابھارتے ہوئے اور فرار پر عار دلاتے ہوئے نکلتی ہیں۔ اس صورت میں ان کا قتل کرنا مباح ہے مگر جب وہ قیدی ہوجائیں تو انہیں لونڈیاں بنانا زیادہ نفع بخش ہے کیونکہ وہ جلدی اسلام قبول کرلیتی ہیں اور اپنے ادیان سے رجوع کرلیتی ہیں اور ان کا اپنے اوطان کی طرف بھاگ جانا مشکل ہوتا ہے، بخلاف مردوں کے۔ (2) بچوں کو قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ بچوں کے قتل سے نہی ثابت ہے کیونکہ ان پر تکلیف نہیں یعنی وہ مکلف نہیں ہیں۔ اگر بچہ جنگ میں شریک ہو تو اسے قتل کیا جائے گا۔ (3) راہبوں کو نہ قتل کیا جائے گا نہ انہیں غلام بنایا جائے گا بلکہ ان کے اموال وغیرہ بھی چھوڑ دیئے جائیں گے جن سے وہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہے جب وہ اہل کفر سے جدا رہیں کیونکہ حضرت ابوبکر نے حضرت یزید کو کہا تھا : اور تم ایسی قوم پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نفسوں کے لئے روک رکھا ہے۔ انہیں چھوڑ دو اور جو دو کہتے ہیں کہ انہوں ننے اللہ کے لئے اپنے نفسوں کو روک رکھا ہے۔ اسے بھی چھوڑ دو ۔۔۔ اگر وہ کفار کے ساتھ کنائس میں ہوں تو پھر قتل کئے جائیں گے۔ اگر عورت راہبہ بن چکی ہو تو اشہب نے کہا : اسے نہیں ڈرایا جائے گا۔ سحنون نے کہا : راہبہ ہونا اس کا حکم کو نہیں بدلے گا۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا کہ میرے نزدیک صحیح اشہب کی روایت ہے کیونکہ وہ اس قول کے تحت داخل ہے انہیں چھوڑدو اور جنہوں نے اپنے نفسوں کو اللہ کے لئے روکا ہوا ہے۔ (4) اپاہج : سحنون نے کہا : ان کو قتل کیا جائے گا۔ ابن حبیب نے کہا : انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ صحیح یہ ہے کہ ان کے احوال کا اعتبار کہا جائے گا، اگر وہ اذیت دینے والے ہوں تو انہیں قتل کیا جائے گا ورنہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور اس کے راستہ میں بیٹھنے والے ہیں وہ ایسے لوگوں میں سے ہوجائیں گے جن کے حال پر وحشت نہیں ہے۔ (5) الشیوخ َمالک نے محمد کی کتاب میں فرمایا : شیوخ (بوڑھوں) کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس پر جمہور کا نظریہ ہے اگر کوئی بوڑھا شخص ہو جو قتال کی طاقت نہ رکھتا ہو نہ اس کی رائے سے نفع اٹھا یا جاتا ہو اور وہ دفاع کرنے والا ہو تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہی قول امام مالک اور امام ابوحنیفہ کا ہے ،۔ امام شافعی کے دو قول ہیں : (1) جمہور کے قول کی مثل ہے اور دوسرایہ ہے کہ راہب کو قتل کیا جائے گا، صحیح قول ہے کیونکہ سیدنا ابوبکر نے حضرت یزید کو یہی کہا تھا اور اس قول کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس پر اجماع ہے۔ نیز یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو جنگ نہیں کرتے اور نہ دشمن کی مدد کرتے ہیں۔ پس اس کا قتل کرنا جائز نہیں جیسے عورت ہے مگر ایسا بوڑھا جس کے نقصان کا خوف ہو وہ جنگ کرتا ہو یا رائے دیتا ہے یا مال دیتا ہے پھر یہ جب قیدی ہوجائے گا تو امام کو اس میں اختیار ہوگا۔ قتل کرے، احسان کرے یا فدیہ لے یا غلام بنالے یا جزیہ کی ادائیگی پر ذمہ کا عقد کرے۔ (2) عسفاء : مزدور لوگ اور کسان لوگ ہیں۔ مالک نے محمد کی کتاب میں فرمایا : انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی نے فرمایا : کسانوں، مزدوروں اور بوڑھے لوگوں کو قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا جزیہ ادا کریں۔ پہلا قول اصح ہے کیونکہ رباح بن ربیع کی حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : خالد بن ولید سے مل جاؤ اور کسی بچے اور مزدور کو قتل نہ کرنا۔ حضرت عمر نے فرمایا : بچوں اور ان کسانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو جو تمہارے لئے جنگ کھڑی نہیں کرتے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کسان کو قتل نہیں کرتے تھے۔ یہ ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اشہب نے مالک سے روایت کیا ہے کہ وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم سے مراد اہل مدینہ ہیں جنہیں ان سے قتال کا حکم دیا گیا تھا جو ان سے قتال کریں۔ صحیح یہ ہے کہ یہ تمام مسلمانوں کو خطاب ہے ہر ایک کو حکم دیا کہ وہ ان سے جہاد کریں جو ان سے جنگ کرے۔ جب کوئی اور صورت ممکن نہ ہو۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کیسے سورة برأت میں بیان فرمایا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار (توبہ :123) ۔ پہلا مقصود اہل مکہ تھے۔ پس ان سے آغاز متعین ہوگیا جب اللہ تعالیٰ نے مکہ کو فتح فرمایا تو پھر ان سے متصل لوگوں سے جنگ تھی جو اذیت دیتے تھے حتیٰ کہ دعوت عام ہوجائے اور کلمۃ اللہ تمام آفاق میں پہنچ جائے اور کفار میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ یہ حکم قیامت تک جاری رہے گا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خبر رکھی گئی ہے، اجر اور مال غنیمت۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی غایت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہے۔ یہ پہلی حدیث کے موافق ہے کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ، مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تعتدوا اس کی تاویل میں وہی کہا گیا ہے جو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ یہ محکم آیت ہے اور رہے مرتد لوگ تو ان کے لئے قتل ہے یا توبہ ہے۔ اسی طرح گمراہ لوگوں کے لئے تلوار یا توبہ ہے۔ اور جس نے باطل اعتقاد کو چھپایا پھر ظاہر ہوگیا تو وہ زندیق کی طرح قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ طلب نہیں کی جائے گی۔ رہے ائمہ عدل پر خوارج سے جنگ کرنا واجب ہے حتیٰ کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔ ایک قوم نے کہا : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے بغیر قتال میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ جیسے حمیت، شہرت کا حصول وغیرہ بلکہ اللہ کے راستہ میں ان سے جہاد کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور مقصود دین کی سر بلندی ہو اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کا اظہار ہو۔ بعض نے فرمایا : ولا تعتدوا یعنی جو تم سے نہیں لڑتا اس سے نہ لڑو، اس صورت میں تمام کفار سے جنگ کرنے کے حکم کے ساتھ یہ آیت منسوخ ہوگی۔ واللہ اعلم۔
Top