Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو ان لوگوں سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں، اور زیادتی مت کرو، بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
اللہ کی راہ میں قتال کرنے کا حکم اور ظلم و زیادتی سے پرہیز کرنے کی تاکید حضرت سید المرسلین ﷺ ہجرت کے چھٹے سال اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے جب مکہ معظمہ قریب آیا تو مقام حدیبیہ پر مشرکین مکہ نے آپ کو روک دیا۔ اور مکہ معظمہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ بڑی رد وکد کے بعد انہوں نے دس سال کے لیے چند شرطوں پر صلح کرلی ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال عمرہ نہیں کرسکتے آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لائیں۔ اور اس وقت مکہ معظمہ میں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ یہ ہی ذی قعدہ کا مہینہ تھا۔ پھر آپ آئندہ سال ماہ ذی قعدہ ہی میں عمرہ کی قضاء کے لیے تشریف لائے اس زمانے میں چار مہینوں میں قتال اور جنگ کرنا ممنوع تھا۔ ان چار مہینوں میں ذی قعدہ کا مہینہ بھی شامل تھا۔ لباب النقول میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ مذکورہ بالا آیت اس موقع پر نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء کے لیے اپنے صحابہ کے ساتھ 7 ھ میں تشریف لے گئے تھے حضرات صحابہ کو یہ اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے کہ قریش مکہ صلح کی شرطوں کی خلاف ورزی کربیٹھیں اور اس مرتبہ بھی مسجد حرام تک نہ پہنچے دیں اور جنگ پر آمادہ ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہمیں بھی جنگ کا اقدام کرنا پڑے گا اور یہ بھی اس مہینہ میں ہوگا جس میں جنگ کرنا حرام ہے اور ہم جوابی کارروائی نہ کریں تو مغلوب ہوں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور قتال کرنے کی اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ تم سے قتال کرتے ہیں ان سے قتال کرو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ زیادتی مت کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنیوالوں کو پسند نہیں فرماتا۔ شریعت اسلامیہ میں ہر چیز کی حدود ہیں۔ اصول ہیں، آداب ہیں اور اخلاق عالیہ ہیں۔ قتل اور قتال کے بھی کچھ اصول ہیں۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ لاَ تَعْتَدُوْا کے عموم ہیں وہ سب باتیں داخل ہوگئیں جو جنگ کے موقعہ پر ممنوع ہیں مثلاً مثلہ کرنا (کسی مقتول کے ناک کان کاٹ دینا صورت بگاڑ دینا) مال غنیمت میں خیانت کرنا، عورت، بچوں، اور بوڑھوں کو قتل کرنا جو نہ جنگ کرتے ہوں نہ جنگ کے معاملات میں کوئی رائے یا مشورہ دیتے ہوں اور مثلاً راہبوں کو قتل کرنا اور بغیر کسی مصلحت کے درختوں کو جلانا اور حیوانات کو قتل کرنا (تفسیر ابن کثیر ج 1 صفحہ 266) صحیح مسلم ج 2 صفحہ 82 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکریا کسی فوجی دستہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو خاص کر اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی اور جو مسلمان اس کے ساتھ جا رہے ہوں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت فرماتے تھے۔ پھر فرماتے تھے کہ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو جو شخص اللہ کو نہ مانتا ہو اس سے جنگ کرنا مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور غدر نہ کرنا اور کسی کا مثلہ نہ کرنا اور کسی بچہ کو قتل نہ کرنا۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ جہاد کے موقعہ پر ایک عورت مقتولہ پائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا، آپ نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے کی ممانعت فرمائی۔ (صحیح مسلم ج 2 صفحہ 84)
Top